پاک ترکیہ سرمایہ کاری کے روشن امکانات
ترکیہ سے تجارتی اور اقتصادی منصوبوں میں شراکت سے ہماری معاشی مشکلات میں یقیناً کمی آئے گی
وزیراعظم شہباز شریف نے انقرہ میں ترکیہ صدر رجب طیب اردوان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی، قبل ازیں شہباز شریف نے ترکیہ کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری پر حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی، مختلف کمپنیوں کے سربراہوں سے بھی ملے۔
بلاشبہ ترکیہ پاکستان کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور دونوں ممالک میں بہت مضبوط ثقافتی، مذہبی اور تجارتی تعلقات موجود ہیں۔ اس وقت پاکستان اور ترکیہ کے سامنے دو مرکزی چیلنجز ہیں،ایک تجارت اور دوسرا اقتصادی سرمایہ کاری۔ ان گنت ایسی ترک کمپنیاں ہیں، جو پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہیں۔
ترکیہ اور پاکستان متعدد شعبوں میں شریکِ کار ہیں خصوصاً دفاعی حوالے سے، لیکن ان گہرے تعلقات سے ہم مزید فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں، خصوصاً تعلیم، صحت، صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی زراعت کو جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ترکیہ کی زرعی ترقی و صنعت سازی سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور اسی طرح تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں بھی۔ اس خطے میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایک سنگم کی سی ہے جو جنوبی ایشیا، وسطیٰ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے دہانے پر بدلتی دنیا میں نیا کردار حاصل کر رہا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات اور چین کا بڑھتا ہوا عالمی کردار اِن تعلقات کو اور بھی بڑھا رہا ہے، ایسے ہی ترکیہ مشرقِ وسطیٰ کا ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک ہے۔
تعلیم، ٹیکنالوجی اور مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بعد دوسری اہم وار مشینری رکھنے والا، نیٹو کا دوسرا بڑا حصہ دار ہے، لہٰذا ان دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات اب اس بدلتی دنیا میں ایک نیا علاقائی اور عالمی توازن بنانے میں نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
ترکیہ اگلے دو تین برس میں پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دے کرکم ازکم پانچ ارب ڈالر تک کرنا چاہتا ہے،کیونکہ تجارت کا موجودہ حجم دونوں ممالک کی اصل صلاحیت سے بہت کم ہے۔ تجارتی لحاظ سے ترکیہ نے گزشتہ چند دہائیوں میں بہت ترقی کی ہے۔
برآمدات اور درآمدات کے لحاظ سے اس کا تجارتی حجم 400 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان تجارتی لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ یہ نجی کاروباری طبقے کی بھی ذمے داری ہے کہ تجارت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کے پاس اس ضمن میں سیکھنے اور تعاون کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس میں پہلے ہی بہت سی ترک کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں اس لیے تجارت کی نسبت سرمایہ کاری پر مبنی تعاون زیادہ ہے۔
پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری نہ صرف ترکیہ بلکہ پوری دنیا سے پاکستانی کاروباری تعاون کو فروغ دے گی۔ترکیہ کی تاجر برادری پاکستان میں تیار ہونے والی بہترین مصنوعات سے بہت حد تک لاعلم ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کی بڑی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک مل کر بہت سی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کا سیاحتی شعبہ بے شمار مواقع فراہم کرتا ہے لیکن ان مواقعوں کو بھی موثر انداز میں فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ترکیہ کے سیاح اس خطے میں دلچسپی لے سکیں۔
موٹر بائیکس کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہونے کے ناتے پاکستان اس پروڈکٹ کو ترکیہ برآمد کر سکتا ہے جہاں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عوام سفری مقاصد کے لیے تیزی سے گاڑیوں کے بجائے موٹر سائیکلوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔
اس ضمن میں پاکستانی اور ترک کمپنیاں پاکستان میں موٹر سائیکلوں اور ان کے ٹائرزکی تیاری کے لیے مشترکہ منصوبہ شروع کر سکتی ہیں جو نہ صرف ترکیہ بلکہ کئی دوسرے ممالک کو بھی برآمد کیے جا سکتے ہیں۔
ترکیہ موٹر سائیکلوں کے ٹائر نہیں بناتا جو پاکستان کے پڑوسی ممالک سے درآمد کیے جا رہے ہیں۔ ترکیہ نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کے اخراج کی حمایت کرتے ہوئے جی ایس پی پلس اسٹیٹس حاصل کرنے میں پاکستان کی مدد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان وسیع تجارتی امکانات کے باوجود پاکستان کی ترکیہ کو برآمدات جمود اور مشکلات کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی ای) کے خواہشمند ہیں جس پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں دوطرفہ تجارتی حجم 5 ارب ڈالر سے بڑھ سکتا ہے اور دونوں ممالک کی معیشتوں کو مزید مربوط کیا جاسکتا ہے۔
ترکیہ کی آٹو انڈسٹری الیکٹرک گاڑیوں کی طرف عالمی تبدیلی کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کے لیے کوششیں تیز کر رہی ہے۔ دونوں ممالک کو یونیورسٹیوں میں ادارہ جاتی روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کے میدان میں تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے اور تحقیق و ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بھی بے پناہ صلاحیت موجود ہے کیونکہ ہر سال لاکھوں سیاح پاکستان آتے ہیں۔
ترکیہ اقتصادی اور معاشی لحاظ سے ایک مستحکم ملک ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اگلی دہائی میں دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں کام کرنا چاہیے، آج کل ترکیہ کے پانچ بڑے ایشوز لیبیا، آذربائیجان، عراق، شام اور سب سے اہم مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے حوالے سے تنازعہ ہے۔
اس کے علاوہ ترکیہ بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی کے مسائل کا شکار ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی لیے وہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کو وسیع کرنا چاہیے۔ پاکستان ترکیہ سے جدید ٹیکنالوجی خصوصاً زراعت اور تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
آج ترکیہ، دنیا میں ابھرتا ہوا ایک اہم ملک ہے، اس تناظر میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت مزید مستحکم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ انقرہ، جدید ترکیہ کا دارالحکومت ہے اور اس جدید شہر کے وسط میں سب سے بڑی اور اہم شاہراہ بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے نام سے منسوب ہے، ''جناح جاہ دیسی'' اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی شاہراہ پر بھارت کا سفارت خانہ ہے۔
ذرا تصور کریں، ترکیہ میں بھارتی سفارت خانے کی تمام دستاویزات پر جب ''جناح جاہ دیسی'' لکھنا ہوتا ہے تو بھارتیوں کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی۔ پاکستان میں مینارِ پاکستان، فیصل مسجد، داتا گنج بخش مسجد سمیت متعدد عمارات ترکیہ معماروں کا کام ہیں اور اسلام آباد سے لے کر لاڑکانہ تک متعدد شاہراہیں، بانی ترکیہ اتا ترک کے نام سے منسوب ہیں۔
اس بدلتی دنیا میں جو یک محوریت سے مختلف علاقائی، تجارتی اور اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں بدل رہی ہے، ترکیہ اور پاکستان دو اہم ممالک ہیں۔
پاکستان جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور مسلم دنیا کی طاقتور ترین وار مشینری رکھنے والا ملک ہے، اگر ہم اس سارے خطے پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس خطے میں اہم ترین ممالک میں چین، روس، بھارت، پاکستان اور ترکیہ یک محوریت سے ملٹی پولر دنیا میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے جا رہے ہیں۔ اس میں ترکیہ اور پاکستان تقریباً تمام علاقائی اور عالمی معاملات میں ایک صف میں کھڑے ہیں۔
دونوں ممالک کے یہ آئیڈیل تعلقات درحقیقت ایک فطری اتحادی کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، اگر افغانستان کے مسئلے میں ترکیہ اپنے ازبک نسلی تعلقات کے حوالے سے اور نیٹو کا رکن ہونے کے ناتے ایک خاص سیاسی مقام رکھتا ہے تو اسی طرح افغانستان، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہے۔
9/11 کے بعد ترکیہ اور پاکستان، افغانستان کے مسئلے پر ایک دوست اور اتحادی کے طور پر بیشتر معاملات میں ایک موقف پر رہے اور ہم نے دیکھا دونوں دوست ممالک افغانستان میں عالمی طاقتوں کی حکمت عملی کے علاوہ اپنے طور پر بھی مصروفِ کار ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک بڑی عالمی طاقتوں کے علاوہ بھی کئی علاقائی اور عالمی معاملات کو سلجھانے میں کوشاں ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وزیراعظم شہبازشریف انتہائی خلوص نیت سے پاکستان کو اقتصادی ومعاشی بحران سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ دن رات مصروف عمل ہیں۔
ترکیہ سے تجارتی اور اقتصادی منصوبوں میں شراکت سے ہماری معاشی مشکلات میں یقیناً کمی آئے گی، کیونکہ ملک معیشت کو اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
اگر ہمارے پالیسی ساز، ایک دوسرے سے تیز رفتاری سے تعاون بڑھائیں تو پاکستان اس منزل کو چند سالوں میں چھو سکتا ہے، جس کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے، یعنی ایک جدید تعلیم یافتہ، صنعتی اور مضبوط معیشت رکھنے والا ملک۔ ضرورت صرف سنجیدگی اور فیصلہ کرنے کی ہے۔
بلاشبہ ترکیہ پاکستان کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور دونوں ممالک میں بہت مضبوط ثقافتی، مذہبی اور تجارتی تعلقات موجود ہیں۔ اس وقت پاکستان اور ترکیہ کے سامنے دو مرکزی چیلنجز ہیں،ایک تجارت اور دوسرا اقتصادی سرمایہ کاری۔ ان گنت ایسی ترک کمپنیاں ہیں، جو پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہیں۔
ترکیہ اور پاکستان متعدد شعبوں میں شریکِ کار ہیں خصوصاً دفاعی حوالے سے، لیکن ان گہرے تعلقات سے ہم مزید فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں، خصوصاً تعلیم، صحت، صنعت، تجارت اور زراعت کے شعبوں میں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی زراعت کو جدید بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے ترکیہ کی زرعی ترقی و صنعت سازی سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور اسی طرح تعلیم و تحقیق کے شعبوں میں بھی۔ اس خطے میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ایک سنگم کی سی ہے جو جنوبی ایشیا، وسطیٰ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے دہانے پر بدلتی دنیا میں نیا کردار حاصل کر رہا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات اور چین کا بڑھتا ہوا عالمی کردار اِن تعلقات کو اور بھی بڑھا رہا ہے، ایسے ہی ترکیہ مشرقِ وسطیٰ کا ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ملک ہے۔
تعلیم، ٹیکنالوجی اور مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بعد دوسری اہم وار مشینری رکھنے والا، نیٹو کا دوسرا بڑا حصہ دار ہے، لہٰذا ان دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات اب اس بدلتی دنیا میں ایک نیا علاقائی اور عالمی توازن بنانے میں نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔
ترکیہ اگلے دو تین برس میں پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دے کرکم ازکم پانچ ارب ڈالر تک کرنا چاہتا ہے،کیونکہ تجارت کا موجودہ حجم دونوں ممالک کی اصل صلاحیت سے بہت کم ہے۔ تجارتی لحاظ سے ترکیہ نے گزشتہ چند دہائیوں میں بہت ترقی کی ہے۔
برآمدات اور درآمدات کے لحاظ سے اس کا تجارتی حجم 400 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان تجارتی لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ یہ نجی کاروباری طبقے کی بھی ذمے داری ہے کہ تجارت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کے پاس اس ضمن میں سیکھنے اور تعاون کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس میں پہلے ہی بہت سی ترک کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں اس لیے تجارت کی نسبت سرمایہ کاری پر مبنی تعاون زیادہ ہے۔
پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری نہ صرف ترکیہ بلکہ پوری دنیا سے پاکستانی کاروباری تعاون کو فروغ دے گی۔ترکیہ کی تاجر برادری پاکستان میں تیار ہونے والی بہترین مصنوعات سے بہت حد تک لاعلم ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کی بڑی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک مل کر بہت سی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کا سیاحتی شعبہ بے شمار مواقع فراہم کرتا ہے لیکن ان مواقعوں کو بھی موثر انداز میں فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ترکیہ کے سیاح اس خطے میں دلچسپی لے سکیں۔
موٹر بائیکس کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہونے کے ناتے پاکستان اس پروڈکٹ کو ترکیہ برآمد کر سکتا ہے جہاں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عوام سفری مقاصد کے لیے تیزی سے گاڑیوں کے بجائے موٹر سائیکلوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔
اس ضمن میں پاکستانی اور ترک کمپنیاں پاکستان میں موٹر سائیکلوں اور ان کے ٹائرزکی تیاری کے لیے مشترکہ منصوبہ شروع کر سکتی ہیں جو نہ صرف ترکیہ بلکہ کئی دوسرے ممالک کو بھی برآمد کیے جا سکتے ہیں۔
ترکیہ موٹر سائیکلوں کے ٹائر نہیں بناتا جو پاکستان کے پڑوسی ممالک سے درآمد کیے جا رہے ہیں۔ ترکیہ نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کے اخراج کی حمایت کرتے ہوئے جی ایس پی پلس اسٹیٹس حاصل کرنے میں پاکستان کی مدد میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان وسیع تجارتی امکانات کے باوجود پاکستان کی ترکیہ کو برآمدات جمود اور مشکلات کا شکار ہیں۔ دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی ای) کے خواہشمند ہیں جس پر عمل درآمد ہونے کی صورت میں دوطرفہ تجارتی حجم 5 ارب ڈالر سے بڑھ سکتا ہے اور دونوں ممالک کی معیشتوں کو مزید مربوط کیا جاسکتا ہے۔
ترکیہ کی آٹو انڈسٹری الیکٹرک گاڑیوں کی طرف عالمی تبدیلی کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کے لیے کوششیں تیز کر رہی ہے۔ دونوں ممالک کو یونیورسٹیوں میں ادارہ جاتی روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم کے میدان میں تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے اور تحقیق و ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ پاکستان میں سیاحت کے حوالے سے بھی بے پناہ صلاحیت موجود ہے کیونکہ ہر سال لاکھوں سیاح پاکستان آتے ہیں۔
ترکیہ اقتصادی اور معاشی لحاظ سے ایک مستحکم ملک ہے جب کہ دوسری جانب پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، اگلی دہائی میں دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں کام کرنا چاہیے، آج کل ترکیہ کے پانچ بڑے ایشوز لیبیا، آذربائیجان، عراق، شام اور سب سے اہم مشرقی بحیرہ روم میں توانائی کے حوالے سے تنازعہ ہے۔
اس کے علاوہ ترکیہ بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی کے مسائل کا شکار ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کی لیے وہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کو وسیع کرنا چاہیے۔ پاکستان ترکیہ سے جدید ٹیکنالوجی خصوصاً زراعت اور تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
آج ترکیہ، دنیا میں ابھرتا ہوا ایک اہم ملک ہے، اس تناظر میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت مزید مستحکم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ انقرہ، جدید ترکیہ کا دارالحکومت ہے اور اس جدید شہر کے وسط میں سب سے بڑی اور اہم شاہراہ بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے نام سے منسوب ہے، ''جناح جاہ دیسی'' اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی شاہراہ پر بھارت کا سفارت خانہ ہے۔
ذرا تصور کریں، ترکیہ میں بھارتی سفارت خانے کی تمام دستاویزات پر جب ''جناح جاہ دیسی'' لکھنا ہوتا ہے تو بھارتیوں کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی۔ پاکستان میں مینارِ پاکستان، فیصل مسجد، داتا گنج بخش مسجد سمیت متعدد عمارات ترکیہ معماروں کا کام ہیں اور اسلام آباد سے لے کر لاڑکانہ تک متعدد شاہراہیں، بانی ترکیہ اتا ترک کے نام سے منسوب ہیں۔
اس بدلتی دنیا میں جو یک محوریت سے مختلف علاقائی، تجارتی اور اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں بدل رہی ہے، ترکیہ اور پاکستان دو اہم ممالک ہیں۔
پاکستان جغرافیائی طور پر جنوبی ایشیا کا اہم ترین ملک اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور مسلم دنیا کی طاقتور ترین وار مشینری رکھنے والا ملک ہے، اگر ہم اس سارے خطے پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو اس خطے میں اہم ترین ممالک میں چین، روس، بھارت، پاکستان اور ترکیہ یک محوریت سے ملٹی پولر دنیا میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے جا رہے ہیں۔ اس میں ترکیہ اور پاکستان تقریباً تمام علاقائی اور عالمی معاملات میں ایک صف میں کھڑے ہیں۔
دونوں ممالک کے یہ آئیڈیل تعلقات درحقیقت ایک فطری اتحادی کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، اگر افغانستان کے مسئلے میں ترکیہ اپنے ازبک نسلی تعلقات کے حوالے سے اور نیٹو کا رکن ہونے کے ناتے ایک خاص سیاسی مقام رکھتا ہے تو اسی طرح افغانستان، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین ستون ہے۔
9/11 کے بعد ترکیہ اور پاکستان، افغانستان کے مسئلے پر ایک دوست اور اتحادی کے طور پر بیشتر معاملات میں ایک موقف پر رہے اور ہم نے دیکھا دونوں دوست ممالک افغانستان میں عالمی طاقتوں کی حکمت عملی کے علاوہ اپنے طور پر بھی مصروفِ کار ہے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک بڑی عالمی طاقتوں کے علاوہ بھی کئی علاقائی اور عالمی معاملات کو سلجھانے میں کوشاں ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وزیراعظم شہبازشریف انتہائی خلوص نیت سے پاکستان کو اقتصادی ومعاشی بحران سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ دن رات مصروف عمل ہیں۔
ترکیہ سے تجارتی اور اقتصادی منصوبوں میں شراکت سے ہماری معاشی مشکلات میں یقیناً کمی آئے گی، کیونکہ ملک معیشت کو اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
اگر ہمارے پالیسی ساز، ایک دوسرے سے تیز رفتاری سے تعاون بڑھائیں تو پاکستان اس منزل کو چند سالوں میں چھو سکتا ہے، جس کا خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے، یعنی ایک جدید تعلیم یافتہ، صنعتی اور مضبوط معیشت رکھنے والا ملک۔ ضرورت صرف سنجیدگی اور فیصلہ کرنے کی ہے۔