منڈل کا پاکستان
اس وقت منڈل کے ذہن میں پہلی بار یہ سوال آیا کہ "اسلام کے نام پر اس کے ملک پاکستان کا کیا حشر ہو رہا ہے"یہ فکر...
ہمارے پاس کیسے کیسے نایاب لوگ تھے، کھرے اور سچے، اپنی ذات اور اپنے خاندان سے بالاتر ہو کر سوچنے اور کام کرنیوالے! پاکستان کی اوائل عمری کی قیادت کو پرکھیے تو اکثریت ملکی کسوٹی پر سونا نظر آئیگی اور اب کیا ہے، جتنا کم ذکر کریں اتنا بہتر ہو گا۔ کیا قائد اعظم اور ان کے رفقاء کار اس وقت کے امیر ترین لوگ تھے۔ ہرگز نہیں۔ وہ اچھی مالی حیثیت کے لوگ تھے مگر کیا وہ ٹاٹا، برلا اور دیگر صنعتی خاندانوں کا مالی مقابلہ کر سکتے تھے، قطعاً نہیں۔ پھر کیا جادو تھا کہ مسلمانوں کی بھر پور اکثریت ان کے کہنے پر ہر کام کرنے کو تیار تھی۔ آخر کیوں؟ تمام غیر متعصب تاریخ دان متفق ہیں کہ قائد انگلی کے اشارے سے اپنی قوم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے تھے۔
سچائی، اصول پسندی، غیر جانبداری اور کردار اس شخص کو ایک ایسا مقام عطا کرتے ہیں کہ شائد اب افسانوی سی بات لگتی ہے۔ ہم نے اس شخص کو مولوی دکھانے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کے مشرقی لباس کو ایک مستند دینی رویہ بنا ڈالا۔ کچھ لوگوں نے انھیں انتہائی جدت پسند اور سیکولر دکھانے کا بِیڑا اٹھا لیا مگر کسی نے بھی ان کے افکار کو ریاست کے بنیادی اصولوں میں شامل نہیں کیا۔ آج کے دور کے حکمرانوں کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ ناکام اور اوسط درجے سے بھی نیچے کی قیادت کی بدولت ہم لوگ جھوٹ اور نفی (Denial) کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ہمیں بچپن سے قرارداد پاکستان کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ تقاریر اور مختلف تقریبات میں اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک قومی چھٹی بھی کی جاتی ہے، ٹی وی پر خون کو گرمانے والے قومی ترانے بھی سنائے جاتے ہیں، ہمارے کچھ سیاسی رہنما جو ادنیٰ درجے کے اداکار ہیں، اپنے اوپر جذب اور رقت طاری کر کے ایسی خوبصورت تقاریر کرتے ہیں کہ لوگ تالیاں بجاتے بجاتے تھک جاتے ہیں۔ وہ قائد اعظم کا ادھورا مشن پورا کرنے کی جذباتی باتیں کرتے ہیں۔ دن گزر جاتا ہے مگر ہر چیز جوں کی توں رہتی ہے، کچھ بھی نہیں بدلتا! بلکہ بگاڑ اور ابتر ہو جاتا ہے۔ مجرمانہ حرکت یہ ہے کہ قرارداد پاکستان کو بھی پورا نہیں بتایا جاتابلکہ اس کے بتائے ہوئے حصوں میں بھی کچھ حقائق چھپا لیے جاتے ہیں۔
اس قرارداد کے دوسرے حصے کو غور سے پڑھیے۔ میں اس کا صرف نفس مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں۔"اقلیتوں کے مذہب، کلچر، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق ان کے مشورہ سے دستور پاکستان میں شامل کیے جائینگے اور اس کے لیے مکمل، کارآمد اور لازمی اقدامات کیے جائینگے"۔ ہمارے سیاسی اکابرین نے آزادی حاصل کرنے کے بالکل برابر اور اتنا ہی اہم جزو اقلیتوں کی ہر طریقہ سے حفاظت اور ان کے حقوق کی پاسداری کا نکتہ قرارداد پاکستان میں شامل کیا تھا مگر ہمارے واحد اور اکیلے لیڈر یعنی قائداعظم کے بعد اس کی اہمیت کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا بلکہ آج ہم، اس کا ذکر کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
جوگیندرا ناتھ منڈل قائد اعظم کے قریبی سیاسی رفیقوں میں سے تھا۔ وہ ہندوئوں کی سب سے نچلی ذات یعنی اچھوت برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے پوری زندگی ہندوستان اور بالخصوص بنگال کے پسے ہوئے طبقوں کی ترقی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ قائد کی مسلم لیگ میں انتہائی اہم حیثیت کا حامل تھا۔ اسے جناح پر مکمل اعتماد تھا۔ اس کی وابستگی1947 سے پہلے کی تھی۔ اسے ہندوئوں کی ایک مخصوص لابی بہت نفرت کا نشانہ بناتی تھی۔ کئی جگہ اسے مسلم لیگ میں شمولیت کی وجہ سے"غدار" تک کہا گیا۔ اس کو ہر طریقے سے ذہنی تکلیف بھی پہنچائی جاتی تھی۔ مگر وہ پاکستان بننے کا شدید حامی تھا۔ کیوں! صرف اس لیے کہ اسے نظر آتا تھا کہ اس نئے ملک میں اس کے ہم مذہب پسے ہوئے لوگ اور دیگر اقلیتیں معاشی اور سماجی انصاف حاصل کرنے میں کامیاب ہونگی۔
1943میں یہ جوگندرا ناتھ منڈل ہی تھا جسکے اکیس اچھوت ممبروں کی بدولت خواجہ ناظم الدین اور مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو سکی۔ اس کی شرائط بالکل سادہ سی تھیں۔ اس کے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع اور مسلم لیگ کے سیاسی نظام میں معقول حصہ، اس کی دانست میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے نچلے طبقات کی بنگال کی حد تک معاشی صورتحال بالکل ایک جیسی ہے۔ ان میں خوفناک غربت کا عنصر مشترک تھا۔ دونوں مذاہب کے لوگ معاشی، تعلیمی اور سیاسی استحصال کا شکار تھے۔1946میں "Direct Action Day" منایا گیا۔ قائد اعظم کا ساتھ دینے کی وجہ سے اسے قتل کی لاتعداد دھمکیاں دی گئیں۔ اونچی ذات کے ہندو اسکو حقیقت میں مارنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے اپنے لوگ یعنی اچھوت برادری اس کے ساتھ جم کر کھڑے ہو گئے اور شائد اس واحد وجہ سے اس کی زندگی بچ گئی۔
سہر وردی کی صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد صرف اور صرف اس کی کوشش اور اس کی مسلم لیگ سے وفاداری کی بدولت قائم رہا۔ اس نے چار ہندو اور چار اینگلو انڈین ممبر سہروردی کے ساتھ شامل کر دیے۔ مسلم لیگ کی صوبائی حکومت شدید مخالفت کے باوجود بھی بچ گئی۔11 اگست 1947کو قائد کی جانب سے دی گئی مفصل تقریر اور بیان کو وہ نئے ملک کی فکری بنیاد سمجھتا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس نئے اور عظیم ملک میں اس کے ہم مذہب لوگوں کو قائد اعظم کی جانب سے دیے گئے قول اور وعدہ کے مطابق مکمل معاشی، سماجی اور مذہبی انصاف ملے گا۔ قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی کابینہ میں اپنے اس معتمد کو وزیر قانون کا انتہائی اہم عہدہ دیا مگر قائد کی وفات کے بعد جوگندرا ناتھ اور اس کے ساتھیوں کے لیے ہر چیز تبدیل ہو گئی۔
اس کے اصرار کے باوجود ایسٹ بنگال میں نورالامین کی صوبائی حکومت میں کوئی بھی اچھوت وزیر نہ لیا گیا بلکہ اس نے ایک عجیب چیز محسوس کی۔ اسے ایسے لگا کہ اس کے اپنے طبقے میں کچھ لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کی نچلے طبقے کے ہندوئوں میں شہرت بے مثال تھی مگر یہ سازش تو اس کے ساتھ کانگریس تک نے نہیں کی تھی۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد منڈل کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ باکل لاوارث ہو چکا ہے۔ قائد کے وعدے وفا کرنے کے لیے کسی وزیر اعظم یا سیاسی رہنما کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ اس نے بیشمار ایسے واقعات صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کے سامنے رکھے جس میں پسے ہوئے ہندو طبقوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔
اس میں قتل، تشدد، گھروں کا جلانا، مال و اسباب کی لوٹ مار اور ہر طرح کے سنگین جرائم شامل تھے۔ وہ کابینہ کا وزیر ہونے کے باوجود بے بس تھا۔ وہ ہر اس جگہ جاتا تھا جہاں ظلم اور زیادتی کے واقعات رونما ہوتے تھے۔ جیسے ڈگرکل، گورناڈی، حبیب گڑھ، راج شاہی اور کُھلنا۔ وہ ہر جگہ اپنے طبقے کے لوگوں کو تسلی دیتا تھا اور انھیں یقین دلاتا تھا کہ پاکستان میں انکو ہر طرح کا تحفظ ملے گا۔ وہ ہر بلوے کے بعد معاملات کو بہتر کرنے کی غیر جانبدار کوشش کرتا تھا مگر وہ آہستہ آہستہ بے بس ہو رہا تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ شائد وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ناانصافی کے کچھ واقعات جب صوبائی اسمبلی میں اٹھانے کی کوشش کی گئی تو یہ تمام قراردادیں رد کر دی گئیں اور کسی پر بھی بحث نہ ہو پائی۔
اس کے بعد 1950 میں پاکستان کے اس مشرقی حصے میں فسادات شروع ہو گئے جو ایک فکر انگیز اور رقت آمیز داستان ہے۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا جب اس نے اپنے طبقہ کے لیے معاشی اور عدالتی انصاف کا ذکر کیا تو اسے ایک ایسا نعرہ سننا پڑا جسکو اس نے قائد کے سامنے کبھی بلند ہوتے نہیں سنا تھا، اور وہ تھا" غیر مسلموں کے خلاف جہاد"۔ ان فسادات میں جو پاکستان بننے کے تین سال بعد ہوئے تھے، دس ہزار لوگ مارے گئے۔ شائد آج کوئی بھی ان کا ذکر کرنا پسند نہیں کریگا کیونکہ اب وہ تمام حصے بنگلہ دیش میں ہیں۔
اس وقت منڈل کے ذہن میں پہلی بار یہ سوال آیا کہ "اسلام کے نام پر اس کے ملک پاکستان کا کیا حشر ہو رہا ہے"یہ فکر انگیز جملہ اس نے اپنے استعفیٰ میں بھی تحریر کیا ہے مگر اب بھی وہ ہر جگہ تقاریر کرتا تھا کہ کسی ہندو کو پاکستان چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر اے۔ ایم مالک نے جو وزیر برائے اقلیت امور تھے، ایک بہت سنجیدہ تقریر کی۔ یہ تقریر ڈھاکہ کے ریڈیو اسٹیشن سے براہِ راست نشر کی گئی۔ ڈاکٹر مالک نے غیرمسلم پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ وہ اس ملک میں محفوظ ہیں۔ اس نے''میثاق مدینہ ـ'' کی اعلیٰ روایات کی مثال دی مگر جوگیندرا ناتھ حیران رہ گیا جب مشرقی پاکستان کے مسلم لیگ کے صوبائی صدر، مولانا اکرم خان نے بیان دیا کہ ''بہتر تھا اگر ڈاکٹر اے۔ ایم مالک اپنی تقریر میں''میثاق مدینہ''کا ذکر نہ کرتے۔
اس کے بعد منڈل کو اس کے خیالات کی بدولت مکمل علیحدہ کرنے کی سیاسی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ منڈل نے مغربی پاکستان میں بھی ہندوئوں کے ساتھ اچھا سلوک ہوتا نہیں دیکھا۔1950میں اس نے لکھا کہ غریب ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ وہ ہندو جو پاکستان چھوڑ کر نہیں گئے اور وہ پاکستانی شہری ہیں، ان کی ذاتی جائیداد پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اس نے ان مسلمان سیاسی قیدیوں کے لیے بھی آواز اٹھائی جو اس وقت کے N.W.F.P صوبہ میں اپنے خیالات کی وجہ سے ریاستی جبر کا شکار تھے۔
8 اکتوبر1950 کو جوگیندرا ناتھ منڈل نے پاکستان کی کابینہ کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نے چھتیس نکات پر مبنی استعفیٰ وزیر اعظم کو بھجوایا تھا۔ جس میں اس نے اقلیتوں کے ساتھ ایک ایک ناانصافی کا بھر پور ذکر کیا۔ اس وقت تک منڈل ذہنی طور پر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ اس کا استعفیٰ ایک ایسا شاہکار دستاویز ہے جسے ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔ قائد اعظم کا یہ رفیق دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑ کر انڈیا واپس چلا گیا۔ آج پاکستان میں مسلمان مسلمانوں کے تشدد سے محفوظ نہیں ہیں! اقلیتوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کرنا تو صرف خواب ہے! پتہ نہیں ہم لوگ کونسے پاکستان میں سانس لے رہے ہیں! مگر یہ اَمر تو ثابت ہے کہ یہ ملک قائد اعظم کے سیاسی سپاہی جوگیندرا ناتھ منڈل کا پاکستان یقینا نہیں ہے! آخر کس اندھیرے میں کھو گیا، منڈل کا پاکستان!
سچائی، اصول پسندی، غیر جانبداری اور کردار اس شخص کو ایک ایسا مقام عطا کرتے ہیں کہ شائد اب افسانوی سی بات لگتی ہے۔ ہم نے اس شخص کو مولوی دکھانے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کے مشرقی لباس کو ایک مستند دینی رویہ بنا ڈالا۔ کچھ لوگوں نے انھیں انتہائی جدت پسند اور سیکولر دکھانے کا بِیڑا اٹھا لیا مگر کسی نے بھی ان کے افکار کو ریاست کے بنیادی اصولوں میں شامل نہیں کیا۔ آج کے دور کے حکمرانوں کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ ناکام اور اوسط درجے سے بھی نیچے کی قیادت کی بدولت ہم لوگ جھوٹ اور نفی (Denial) کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ہمیں بچپن سے قرارداد پاکستان کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ تقاریر اور مختلف تقریبات میں اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک قومی چھٹی بھی کی جاتی ہے، ٹی وی پر خون کو گرمانے والے قومی ترانے بھی سنائے جاتے ہیں، ہمارے کچھ سیاسی رہنما جو ادنیٰ درجے کے اداکار ہیں، اپنے اوپر جذب اور رقت طاری کر کے ایسی خوبصورت تقاریر کرتے ہیں کہ لوگ تالیاں بجاتے بجاتے تھک جاتے ہیں۔ وہ قائد اعظم کا ادھورا مشن پورا کرنے کی جذباتی باتیں کرتے ہیں۔ دن گزر جاتا ہے مگر ہر چیز جوں کی توں رہتی ہے، کچھ بھی نہیں بدلتا! بلکہ بگاڑ اور ابتر ہو جاتا ہے۔ مجرمانہ حرکت یہ ہے کہ قرارداد پاکستان کو بھی پورا نہیں بتایا جاتابلکہ اس کے بتائے ہوئے حصوں میں بھی کچھ حقائق چھپا لیے جاتے ہیں۔
اس قرارداد کے دوسرے حصے کو غور سے پڑھیے۔ میں اس کا صرف نفس مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں۔"اقلیتوں کے مذہب، کلچر، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق ان کے مشورہ سے دستور پاکستان میں شامل کیے جائینگے اور اس کے لیے مکمل، کارآمد اور لازمی اقدامات کیے جائینگے"۔ ہمارے سیاسی اکابرین نے آزادی حاصل کرنے کے بالکل برابر اور اتنا ہی اہم جزو اقلیتوں کی ہر طریقہ سے حفاظت اور ان کے حقوق کی پاسداری کا نکتہ قرارداد پاکستان میں شامل کیا تھا مگر ہمارے واحد اور اکیلے لیڈر یعنی قائداعظم کے بعد اس کی اہمیت کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا بلکہ آج ہم، اس کا ذکر کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
جوگیندرا ناتھ منڈل قائد اعظم کے قریبی سیاسی رفیقوں میں سے تھا۔ وہ ہندوئوں کی سب سے نچلی ذات یعنی اچھوت برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے پوری زندگی ہندوستان اور بالخصوص بنگال کے پسے ہوئے طبقوں کی ترقی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ قائد کی مسلم لیگ میں انتہائی اہم حیثیت کا حامل تھا۔ اسے جناح پر مکمل اعتماد تھا۔ اس کی وابستگی1947 سے پہلے کی تھی۔ اسے ہندوئوں کی ایک مخصوص لابی بہت نفرت کا نشانہ بناتی تھی۔ کئی جگہ اسے مسلم لیگ میں شمولیت کی وجہ سے"غدار" تک کہا گیا۔ اس کو ہر طریقے سے ذہنی تکلیف بھی پہنچائی جاتی تھی۔ مگر وہ پاکستان بننے کا شدید حامی تھا۔ کیوں! صرف اس لیے کہ اسے نظر آتا تھا کہ اس نئے ملک میں اس کے ہم مذہب پسے ہوئے لوگ اور دیگر اقلیتیں معاشی اور سماجی انصاف حاصل کرنے میں کامیاب ہونگی۔
1943میں یہ جوگندرا ناتھ منڈل ہی تھا جسکے اکیس اچھوت ممبروں کی بدولت خواجہ ناظم الدین اور مسلم لیگ کی حکومت قائم ہو سکی۔ اس کی شرائط بالکل سادہ سی تھیں۔ اس کے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع اور مسلم لیگ کے سیاسی نظام میں معقول حصہ، اس کی دانست میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے نچلے طبقات کی بنگال کی حد تک معاشی صورتحال بالکل ایک جیسی ہے۔ ان میں خوفناک غربت کا عنصر مشترک تھا۔ دونوں مذاہب کے لوگ معاشی، تعلیمی اور سیاسی استحصال کا شکار تھے۔1946میں "Direct Action Day" منایا گیا۔ قائد اعظم کا ساتھ دینے کی وجہ سے اسے قتل کی لاتعداد دھمکیاں دی گئیں۔ اونچی ذات کے ہندو اسکو حقیقت میں مارنا چاہتے تھے۔ لیکن اس کے اپنے لوگ یعنی اچھوت برادری اس کے ساتھ جم کر کھڑے ہو گئے اور شائد اس واحد وجہ سے اس کی زندگی بچ گئی۔
سہر وردی کی صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد صرف اور صرف اس کی کوشش اور اس کی مسلم لیگ سے وفاداری کی بدولت قائم رہا۔ اس نے چار ہندو اور چار اینگلو انڈین ممبر سہروردی کے ساتھ شامل کر دیے۔ مسلم لیگ کی صوبائی حکومت شدید مخالفت کے باوجود بھی بچ گئی۔11 اگست 1947کو قائد کی جانب سے دی گئی مفصل تقریر اور بیان کو وہ نئے ملک کی فکری بنیاد سمجھتا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اس نئے اور عظیم ملک میں اس کے ہم مذہب لوگوں کو قائد اعظم کی جانب سے دیے گئے قول اور وعدہ کے مطابق مکمل معاشی، سماجی اور مذہبی انصاف ملے گا۔ قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی کابینہ میں اپنے اس معتمد کو وزیر قانون کا انتہائی اہم عہدہ دیا مگر قائد کی وفات کے بعد جوگندرا ناتھ اور اس کے ساتھیوں کے لیے ہر چیز تبدیل ہو گئی۔
اس کے اصرار کے باوجود ایسٹ بنگال میں نورالامین کی صوبائی حکومت میں کوئی بھی اچھوت وزیر نہ لیا گیا بلکہ اس نے ایک عجیب چیز محسوس کی۔ اسے ایسے لگا کہ اس کے اپنے طبقے میں کچھ لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کی نچلے طبقے کے ہندوئوں میں شہرت بے مثال تھی مگر یہ سازش تو اس کے ساتھ کانگریس تک نے نہیں کی تھی۔ قائد اعظم کی رحلت کے بعد منڈل کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ باکل لاوارث ہو چکا ہے۔ قائد کے وعدے وفا کرنے کے لیے کسی وزیر اعظم یا سیاسی رہنما کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ اس نے بیشمار ایسے واقعات صوبائی اور وفاقی انتظامیہ کے سامنے رکھے جس میں پسے ہوئے ہندو طبقوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔
اس میں قتل، تشدد، گھروں کا جلانا، مال و اسباب کی لوٹ مار اور ہر طرح کے سنگین جرائم شامل تھے۔ وہ کابینہ کا وزیر ہونے کے باوجود بے بس تھا۔ وہ ہر اس جگہ جاتا تھا جہاں ظلم اور زیادتی کے واقعات رونما ہوتے تھے۔ جیسے ڈگرکل، گورناڈی، حبیب گڑھ، راج شاہی اور کُھلنا۔ وہ ہر جگہ اپنے طبقے کے لوگوں کو تسلی دیتا تھا اور انھیں یقین دلاتا تھا کہ پاکستان میں انکو ہر طرح کا تحفظ ملے گا۔ وہ ہر بلوے کے بعد معاملات کو بہتر کرنے کی غیر جانبدار کوشش کرتا تھا مگر وہ آہستہ آہستہ بے بس ہو رہا تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ شائد وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ناانصافی کے کچھ واقعات جب صوبائی اسمبلی میں اٹھانے کی کوشش کی گئی تو یہ تمام قراردادیں رد کر دی گئیں اور کسی پر بھی بحث نہ ہو پائی۔
اس کے بعد 1950 میں پاکستان کے اس مشرقی حصے میں فسادات شروع ہو گئے جو ایک فکر انگیز اور رقت آمیز داستان ہے۔ وہ حیرت زدہ رہ گیا جب اس نے اپنے طبقہ کے لیے معاشی اور عدالتی انصاف کا ذکر کیا تو اسے ایک ایسا نعرہ سننا پڑا جسکو اس نے قائد کے سامنے کبھی بلند ہوتے نہیں سنا تھا، اور وہ تھا" غیر مسلموں کے خلاف جہاد"۔ ان فسادات میں جو پاکستان بننے کے تین سال بعد ہوئے تھے، دس ہزار لوگ مارے گئے۔ شائد آج کوئی بھی ان کا ذکر کرنا پسند نہیں کریگا کیونکہ اب وہ تمام حصے بنگلہ دیش میں ہیں۔
اس وقت منڈل کے ذہن میں پہلی بار یہ سوال آیا کہ "اسلام کے نام پر اس کے ملک پاکستان کا کیا حشر ہو رہا ہے"یہ فکر انگیز جملہ اس نے اپنے استعفیٰ میں بھی تحریر کیا ہے مگر اب بھی وہ ہر جگہ تقاریر کرتا تھا کہ کسی ہندو کو پاکستان چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر اے۔ ایم مالک نے جو وزیر برائے اقلیت امور تھے، ایک بہت سنجیدہ تقریر کی۔ یہ تقریر ڈھاکہ کے ریڈیو اسٹیشن سے براہِ راست نشر کی گئی۔ ڈاکٹر مالک نے غیرمسلم پاکستانیوں کو یقین دلایا کہ وہ اس ملک میں محفوظ ہیں۔ اس نے''میثاق مدینہ ـ'' کی اعلیٰ روایات کی مثال دی مگر جوگیندرا ناتھ حیران رہ گیا جب مشرقی پاکستان کے مسلم لیگ کے صوبائی صدر، مولانا اکرم خان نے بیان دیا کہ ''بہتر تھا اگر ڈاکٹر اے۔ ایم مالک اپنی تقریر میں''میثاق مدینہ''کا ذکر نہ کرتے۔
اس کے بعد منڈل کو اس کے خیالات کی بدولت مکمل علیحدہ کرنے کی سیاسی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ منڈل نے مغربی پاکستان میں بھی ہندوئوں کے ساتھ اچھا سلوک ہوتا نہیں دیکھا۔1950میں اس نے لکھا کہ غریب ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ وہ ہندو جو پاکستان چھوڑ کر نہیں گئے اور وہ پاکستانی شہری ہیں، ان کی ذاتی جائیداد پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اس نے ان مسلمان سیاسی قیدیوں کے لیے بھی آواز اٹھائی جو اس وقت کے N.W.F.P صوبہ میں اپنے خیالات کی وجہ سے ریاستی جبر کا شکار تھے۔
8 اکتوبر1950 کو جوگیندرا ناتھ منڈل نے پاکستان کی کابینہ کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس نے چھتیس نکات پر مبنی استعفیٰ وزیر اعظم کو بھجوایا تھا۔ جس میں اس نے اقلیتوں کے ساتھ ایک ایک ناانصافی کا بھر پور ذکر کیا۔ اس وقت تک منڈل ذہنی طور پر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ اس کا استعفیٰ ایک ایسا شاہکار دستاویز ہے جسے ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔ قائد اعظم کا یہ رفیق دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑ کر انڈیا واپس چلا گیا۔ آج پاکستان میں مسلمان مسلمانوں کے تشدد سے محفوظ نہیں ہیں! اقلیتوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کرنا تو صرف خواب ہے! پتہ نہیں ہم لوگ کونسے پاکستان میں سانس لے رہے ہیں! مگر یہ اَمر تو ثابت ہے کہ یہ ملک قائد اعظم کے سیاسی سپاہی جوگیندرا ناتھ منڈل کا پاکستان یقینا نہیں ہے! آخر کس اندھیرے میں کھو گیا، منڈل کا پاکستان!