سازش کوئی معمولی نہیں تھی
نظریہ پاکستان پر ضرب لگائی گئیں اور آخری نشانہ یعنی حساس مقامات پر خود کش حملہ بھی کردیا گیا
9 مئی 2023 کو ہونے والے واقعات کوئی معمولی نوعیت کے نہیں تھے، جنھیں ہم عام سے جمہوری احتجاج سمجھ کر نظر انداز کر دیں۔ یہ ایک بہت ہی گہری اور گھناؤنی سازش تھی جس کی کڑیاں ملک دشمن غیر ملکی ایجنسیوں سے ملی ہوئی معلوم ہوتی ہیں ۔
پہلے پہل تو ہم بھی اس جھوٹے پروپیگنڈہ میں آگئے تھے کہ یہ ایک عام سا جمہوری احتجاج تھا جو اپنے لیڈر کی اچانک گرفتاری کے بعد اس کے چاہنے والوں کی طرف سے کیا گیا، مگر جیسے جیسے معاملات کی کڑیاں کھلتی گئیں اور احتجاج کے پس پردہ محرکات سے پردہ اٹھتا گیا تو پتا چلا کہ یہ ایک بہت ہی خطرناک کھیل کھیلا گیا تھا جو اگرکامیاب ہوجاتا تو آج ملک میں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہوتی۔ ہمارا ایٹمی اثاثہ غیر محفوظ تصور کیا جانے لگتا اور عالمی طاقتیں اسے بہانہ بنا کر ہم پر حملہ آور ہو جاتیں۔
دیکھا جائے تو یہ 1970 سے بھی بڑی خطرناک سازش تھی ۔ مالی بد عنوانی کے ایک مقدمہ میں سابق وزیراعظم کو نیب نے گرفتار کیا جو تحقیقات کے لیے اکثر بلائے جانے پر ہمیشہ انکار کرتے رہے تھے۔ انھیں اندیشہ تھا کہ 190 ملین پونڈزکا کیس اتنا بڑا ہے کہ وہ اس میں سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔ ان کے پاس راہ فرار اختیار کر کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔
وہ جانتے تھے کہ اگر نیب کے بلانے پر وہ وہاں پہنچ گئے تو ان کی گرفتاری لازمی ہے۔ میاں نواز شریف نے قانون کے آگے سرینڈر کر کے جو غلطیاں کی تھیں وہ اسے دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے پاس یہی ایک بہترین آپشن تھا کہ وہ نیب یا عدلیہ کے بلانے پر وہاں جانے سے کتراتے رہے۔ اس طرح ان کے خلاف اگر کوئی تادیبی کارروائی ہوتی ہے اور انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو اس طرح عوام کی ہمدردیاں مفت میں سمیٹی جاسکیں گی۔
اپنے خلاف کارروائیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال کر وہ ایک تیر سے دو شکار کر رہے تھے۔ ممنوعہ فنڈز ریزنگ کا معاملہ بھی سازش سے جڑا ہوا ہے۔
یہ سازش دس بیس سالوں سے چل رہی تھی۔ اس میں کامیابی کے امکانات 2011 سے شروع ہونے لگے، ملک کی معیشت کی تباہی بھی اس کا ایک ٹارگٹ تھا۔ علاقہ میں چائنہ کا اثر و رسوخ روکنے کے لیے ممکنہ آپشن اور تجاویز پر غور کیا گیا۔ 2014 کا دھرنا بھی اسی مقصد سے ارینج کیا گیا۔ نو سالوں کی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر اپنے اصل ہدف یعنی حساس ادارے پر براہ راست حملے کردیے گئے۔
ان حملوں کے لیے کارکنوں کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی اور یہ طے کرلیاگیا کہ جس روز حکومت خان کو گرفتار کرے کارکن عسکری تنصیبات پر حملوں کے لیے نکل پڑیں۔ ''خان ہماری ریڈ لائن '' جیسے نعرے بھی اسی سازش کا ایک حصہ تھے۔
عوام کو جھوٹے پروپیگنڈہ کے تحت بے وقوف بنایا گیا اور ملک دشمن طاقتوں کو خوش کیا گیا۔ ریاستی حساس ادارے کے خلاف ایک طے شدہ ایجنڈے پر عمل کیا گیا اور صرف دو گھنٹوں میں سارے ملک میں آگ لگا دی گئی۔
ہمارے یہاں اس سے پہلے بھی کئی سیاستدان اور سابق وزراء اعظم گرفتار ہوتے رہے ہیں لیکن ایسا ردعمل کسی کی طرف سے بھی نہیں کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ایک آمر کے دور حکومت میں قتل کر دیا جاتا ہے لیکن کسی نے حساس اداروں پر جاکر حملے کرنے کا سوچا تک نہیں۔ سوچا جائے خان نے ایسا سب کچھ کیوں کروایا۔ وہ آج بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زہر اگلنے سے باز نہیں آرہا۔ وہ ایک خود کش حملہ آور بن کر دفاعی اہمیت کے اس قومی ادارے پر مسلسل حملہ آور ہو رہا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ وہ جن کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں وہ اسے بچا لیں گے۔ شاید وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں، اگر ایسا ہوتا تو ان کے ساتھی آج انھیں چھوڑ کر علیحدہ ہرگز نہیں ہوتے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ بنا کسی تشدد اور تنبیہ کے یہ سارے پارٹی سے نکل کر کسی اور گھونسلے میں جائے پناہ لے رہے ہیں۔ انھیں ذرا سے بھی شائبہ ہوتا کہ خان دوبارہ بر سراقتدار آجائے گا، تو کیا وہ اسے چھوڑ کر اس طرح جاسکتے تھے۔
جو اسے اپنی ریڈ لائن کہا کرتے تھے وہ اس طرح لاتعلق ہوجائیں گے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ آنکھیں حیران و پریشان ہیں کہ دو ہفتوں میں یہ کایا کیسے پلٹ گئی۔ دو تہائی اکثریت سے کامیابی کے سارے دعوے کہاں رہ گئے ۔ کوئی تو وجہ ہے جو یہ سارے پارٹی کو خیر باد کہہ کراس سے اپنی وابستگی ختم کرتے جا رہے ہیں۔
جس زمان پارک میں ایک مہینہ قبل میلے کا سماں ہوا کرتا تھا آج اتنی ویرانی کیوں ہے۔ رفتہ رفتہ سازش کی کڑیاں جب اور بھی عیاں ہونگی تو اس کے ووٹروں کو بھی اصلیت کا پتا چل جائے گا۔ وہ اپنی معصومیت اور لاعلمی کی وجہ سے شخصیت پرستی کا شکار ہوگئے تھے۔ ریاست مدینہ ، امر بالمعروف ، جہاد اور آزادی کے نعرے اس قدر دلفریب تھے کہ معصوم لوگ یقینا دھوکا کھا گئے ۔ اسلامی ٹچ کو بھی اس مقصد سے استعمال کیا گیا۔ جس طرح امریکن سائفرکو ایشو بناکر چھ سات مہینوں تک کھیلا گیا۔ ملک کی جڑیں کھوکھلی کی گئیں۔
نظریہ پاکستان پر ضرب لگائی گئیں اور آخری نشانہ یعنی حساس مقامات پر خود کش حملہ بھی کردیا گیا۔ دشمنوں کو پتا تھا کہ یہی ایک ادارہ ایسا ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ اس مملکت خداداد پاکستان کو تباہ وبرباد نہیں کرسکتے ہیں۔
اس لیے اسے آخری ہدف بنایاگیا۔ ذرا سوچیے کہ 9 مئی کی یہ سازش خدانخواستہ اگر کامیاب ہوجاتی تو آج ہم کہاں کھڑے ہوتے، ہمارا حال تو شام اور صومالیہ سے بھی برا ہوجاتا۔ ہم ایک دوسرے کو مار کر مکمل طور پر خانہ جنگی کا شکار ہوچکے ہوتے۔ جو اسلحہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہونا تھا وہ اپنوں کو مارنے کے لیے استعمال ہورہا ہوتا۔ شکر الحمد للہ یہ سازش بروقت ناکام ہوگئی اور سازشی یک و تنہا رہ گئے۔
پہلے پہل تو ہم بھی اس جھوٹے پروپیگنڈہ میں آگئے تھے کہ یہ ایک عام سا جمہوری احتجاج تھا جو اپنے لیڈر کی اچانک گرفتاری کے بعد اس کے چاہنے والوں کی طرف سے کیا گیا، مگر جیسے جیسے معاملات کی کڑیاں کھلتی گئیں اور احتجاج کے پس پردہ محرکات سے پردہ اٹھتا گیا تو پتا چلا کہ یہ ایک بہت ہی خطرناک کھیل کھیلا گیا تھا جو اگرکامیاب ہوجاتا تو آج ملک میں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہوتی۔ ہمارا ایٹمی اثاثہ غیر محفوظ تصور کیا جانے لگتا اور عالمی طاقتیں اسے بہانہ بنا کر ہم پر حملہ آور ہو جاتیں۔
دیکھا جائے تو یہ 1970 سے بھی بڑی خطرناک سازش تھی ۔ مالی بد عنوانی کے ایک مقدمہ میں سابق وزیراعظم کو نیب نے گرفتار کیا جو تحقیقات کے لیے اکثر بلائے جانے پر ہمیشہ انکار کرتے رہے تھے۔ انھیں اندیشہ تھا کہ 190 ملین پونڈزکا کیس اتنا بڑا ہے کہ وہ اس میں سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔ ان کے پاس راہ فرار اختیار کر کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔
وہ جانتے تھے کہ اگر نیب کے بلانے پر وہ وہاں پہنچ گئے تو ان کی گرفتاری لازمی ہے۔ میاں نواز شریف نے قانون کے آگے سرینڈر کر کے جو غلطیاں کی تھیں وہ اسے دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کے پاس یہی ایک بہترین آپشن تھا کہ وہ نیب یا عدلیہ کے بلانے پر وہاں جانے سے کتراتے رہے۔ اس طرح ان کے خلاف اگر کوئی تادیبی کارروائی ہوتی ہے اور انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو اس طرح عوام کی ہمدردیاں مفت میں سمیٹی جاسکیں گی۔
اپنے خلاف کارروائیوں کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال کر وہ ایک تیر سے دو شکار کر رہے تھے۔ ممنوعہ فنڈز ریزنگ کا معاملہ بھی سازش سے جڑا ہوا ہے۔
یہ سازش دس بیس سالوں سے چل رہی تھی۔ اس میں کامیابی کے امکانات 2011 سے شروع ہونے لگے، ملک کی معیشت کی تباہی بھی اس کا ایک ٹارگٹ تھا۔ علاقہ میں چائنہ کا اثر و رسوخ روکنے کے لیے ممکنہ آپشن اور تجاویز پر غور کیا گیا۔ 2014 کا دھرنا بھی اسی مقصد سے ارینج کیا گیا۔ نو سالوں کی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر اپنے اصل ہدف یعنی حساس ادارے پر براہ راست حملے کردیے گئے۔
ان حملوں کے لیے کارکنوں کو باقاعدہ تربیت بھی دی گئی اور یہ طے کرلیاگیا کہ جس روز حکومت خان کو گرفتار کرے کارکن عسکری تنصیبات پر حملوں کے لیے نکل پڑیں۔ ''خان ہماری ریڈ لائن '' جیسے نعرے بھی اسی سازش کا ایک حصہ تھے۔
عوام کو جھوٹے پروپیگنڈہ کے تحت بے وقوف بنایا گیا اور ملک دشمن طاقتوں کو خوش کیا گیا۔ ریاستی حساس ادارے کے خلاف ایک طے شدہ ایجنڈے پر عمل کیا گیا اور صرف دو گھنٹوں میں سارے ملک میں آگ لگا دی گئی۔
ہمارے یہاں اس سے پہلے بھی کئی سیاستدان اور سابق وزراء اعظم گرفتار ہوتے رہے ہیں لیکن ایسا ردعمل کسی کی طرف سے بھی نہیں کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ایک آمر کے دور حکومت میں قتل کر دیا جاتا ہے لیکن کسی نے حساس اداروں پر جاکر حملے کرنے کا سوچا تک نہیں۔ سوچا جائے خان نے ایسا سب کچھ کیوں کروایا۔ وہ آج بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زہر اگلنے سے باز نہیں آرہا۔ وہ ایک خود کش حملہ آور بن کر دفاعی اہمیت کے اس قومی ادارے پر مسلسل حملہ آور ہو رہا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ وہ جن کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں وہ اسے بچا لیں گے۔ شاید وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں، اگر ایسا ہوتا تو ان کے ساتھی آج انھیں چھوڑ کر علیحدہ ہرگز نہیں ہوتے۔ کوئی تو وجہ ہے کہ بنا کسی تشدد اور تنبیہ کے یہ سارے پارٹی سے نکل کر کسی اور گھونسلے میں جائے پناہ لے رہے ہیں۔ انھیں ذرا سے بھی شائبہ ہوتا کہ خان دوبارہ بر سراقتدار آجائے گا، تو کیا وہ اسے چھوڑ کر اس طرح جاسکتے تھے۔
جو اسے اپنی ریڈ لائن کہا کرتے تھے وہ اس طرح لاتعلق ہوجائیں گے کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ آنکھیں حیران و پریشان ہیں کہ دو ہفتوں میں یہ کایا کیسے پلٹ گئی۔ دو تہائی اکثریت سے کامیابی کے سارے دعوے کہاں رہ گئے ۔ کوئی تو وجہ ہے جو یہ سارے پارٹی کو خیر باد کہہ کراس سے اپنی وابستگی ختم کرتے جا رہے ہیں۔
جس زمان پارک میں ایک مہینہ قبل میلے کا سماں ہوا کرتا تھا آج اتنی ویرانی کیوں ہے۔ رفتہ رفتہ سازش کی کڑیاں جب اور بھی عیاں ہونگی تو اس کے ووٹروں کو بھی اصلیت کا پتا چل جائے گا۔ وہ اپنی معصومیت اور لاعلمی کی وجہ سے شخصیت پرستی کا شکار ہوگئے تھے۔ ریاست مدینہ ، امر بالمعروف ، جہاد اور آزادی کے نعرے اس قدر دلفریب تھے کہ معصوم لوگ یقینا دھوکا کھا گئے ۔ اسلامی ٹچ کو بھی اس مقصد سے استعمال کیا گیا۔ جس طرح امریکن سائفرکو ایشو بناکر چھ سات مہینوں تک کھیلا گیا۔ ملک کی جڑیں کھوکھلی کی گئیں۔
نظریہ پاکستان پر ضرب لگائی گئیں اور آخری نشانہ یعنی حساس مقامات پر خود کش حملہ بھی کردیا گیا۔ دشمنوں کو پتا تھا کہ یہی ایک ادارہ ایسا ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ اس مملکت خداداد پاکستان کو تباہ وبرباد نہیں کرسکتے ہیں۔
اس لیے اسے آخری ہدف بنایاگیا۔ ذرا سوچیے کہ 9 مئی کی یہ سازش خدانخواستہ اگر کامیاب ہوجاتی تو آج ہم کہاں کھڑے ہوتے، ہمارا حال تو شام اور صومالیہ سے بھی برا ہوجاتا۔ ہم ایک دوسرے کو مار کر مکمل طور پر خانہ جنگی کا شکار ہوچکے ہوتے۔ جو اسلحہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہونا تھا وہ اپنوں کو مارنے کے لیے استعمال ہورہا ہوتا۔ شکر الحمد للہ یہ سازش بروقت ناکام ہوگئی اور سازشی یک و تنہا رہ گئے۔