پاکستان اور صدر اردوان
ترکیہ کے دوست ملکوں خاص طور پر پاکستانی قیادت صدر طیب اردوان کے دوبارہ انتخاب کے لیے پرجوش تھی
صدر رجب طیب اردوان نے ایک بار پھر صدر منتخب ہو کر تاریخ رقم کر دی۔ ان کے دوبارہ انتخاب کے بعد دو جملے سننے کو ملے۔
خود ترک مدبر نے اپنے دوبارہ انتخاب کو ایک ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا جب کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ انتخاب خطے میں خوش حالی، استحکام اور امن عالم کے فروغ کا ذریعہ بنے گا۔ مگر کیسے؟اس سوال کا جواب ذرا تفصیل طلب ہے۔
صدر اردوان نے اپنے انتخاب کو جب ٹرننگ پوائنٹ قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی ایک تاریخی حوالہ بھی دیا۔ انھوں نے کہا کہ کوئی پونے چھ صدی قبل ان ہی دنوں عثمانیوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تھا پھر اس کے بعد تاریخ کا دھارا بدل گیا۔ اب ہم ایسا کر دکھائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ صدر اردوان کے انتخاب میں ایسا کیا راز پوشیدہ ہے کہ وہ کسی اتنی بڑی تبدیلی کی توقع کر رہے ہیں؟ اپنے عہد میں رونما ہونے والے اس واقعے کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں تھوڑا ماضی کی سیر کرنی پڑے گی۔
جدید ترکیہ اور اس کاموجودہ حدود اربعہ معاہدہ لوزان کا مرہون منت ہے۔ 1923 میں ایک صدی کے لیے ہونے والا یہ وہی معاہدہ ہے جو اسی برس ختم ہوا جس کے لیے عمومی طور پر یہ کہا جانے لگا کہ اس معاہدے کی مدت کی تکمیل کے بعد اب خلافت عثمانیہ کا احیا ہو جائے گا اور ترکیہ کی وہی طاقت بحال ہو جائے گی جو اس معاہدے سے قبل تھی۔
عظمت رفتہ کی بحالی کے خواہش مند ایسے خواب دیکھا کرتے ہیں اور اس میں حرج کی کوئی بات بھی نہیں لیکن یہ معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔معاہدہ لوزان کی بنیادی اہمیت یہ تھی کہ اس کے ذریعے ترکیہ کا اتحاد برقرار رہا۔
امریکا اس معاہدے کا سخت مخالف تھا کیوں کہ وہ ترکیہ کی تقسیم چاہتا تھا۔ یہ امریکی مخالفت ہی تھی جس کی وجہ سے یونان کے جزائر جو فی الاصل عثمانی سلطنت کی ملکیت تھے، ترکیہ سے چھین کر یونان کے حوالے کر دیے گئے۔ معاہدے کی رو سے فیصلہ یہ ہوا تھا کہ یونان کو نہ فوج رکھنے کی اجازت ہو گی اور نہ اسلحہ لیکن امریکی آشیرواد سے یہ سب ہوا۔
اس وجہ سے یورپ کے قلب میں کشمیر جیسا ایک تنازعہ پیدا کر دیا گیا۔ اس برس معاہدے کی مدت کی تکمیل اور حالیہ انتخابی نتائج کے بعد صورت حال میں جوہری تبدیلی رونما ہونے کا امکان ہے۔ امریکی دباؤ اور دیگر عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے یونان کے متنازع علاقوں میں اب صورت حال جوں کے توں نہیں رہی کیوں کہ ترکیہ اپنے کھوئے ہوئے علاقوں میں اپنے اقتدار کی بحالی کے لیے پر عزم ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ صدر اردوان اس ضمن میں ایک واضح حکمت عملی اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، اپنے اقتدار کی نئی مدت کے دوران میں وہ اسے عملی جامہ پہنائیں گے۔
اس ضمن میں جس قدر پیش رفت بھی ہو گی، یہ ترکیہ کی بین الاقوامی اہمیت اور قوت میں اضافے کا باعث بنے گی۔ یہ پیش رفت اب دیوار پر کندہ دکھائی دیتی ہے۔ صدر اردوان اگر یہ کہتے ہیں کہ اب ہم اس صدی کو ترکیہ کی صدی بنائیں گے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
بین الاقوامی سیاست اور گروہ بندی میں ترکیہ مغرب کا اتحادی ہے۔ وہ نیٹو کا رکن ہے اور امریکا کا حلیف لیکن طیب اردوان اپنے ملک کے مفاد میں ان معاہدوں کو برقرار رکھتے ہوئے بھی باقی ماندہ دنیا سے لاتعلق نہیں رہنا چاہتے۔ حالیہ دنوں میں انھوں نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے ان کے انداز فکر اور حکمت عملی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب انھوں روس کے ساتھ میزائل ڈیفنس سسٹم کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے نے ان کے مغربی اتحادیوں کو بے چین کیا ہے لیکن ترکیہ کے عزم اور فیصلے اس سے متاثر نہیں ہوئے۔
انھوں نے روس اور یوکرین کے درمیان مفاہمت کے لیے بھی مؤثر کردار ادا کیا جب کہ متاثرہ علاقوں کے لیے گندم کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا۔ ان کا یہ فیصلہ خطے کی صورت حال پر غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوا۔
صدر اردوان کا مغرب کے ساتھ تعلق برقرار رکھنے کے باوجود مشرق کی طرف یہ سلسلہ جنبانی وقتی بحرانوں پر فوری ردعمل نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر شنگھائی تعاون تنظیم کی سرگرمیوں میں ترکیہ کی دل چسپی ہے۔ چند برس ہوتے ہیں، ایران کی طرح ترکیہ کو بھی تنظیم کے ڈائیلاگ رکن کا درجہ مل چکا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں ترکیہ کی دلچسپی معمولی نہیں یہ مستقبل کی عالمی سیاست کا وہ چہرہ ہے جو عالمی منظر نامہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے تزویراتی استحکام کے علاوہ تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لیے کام کر رہی ہے۔
وسط ایشیا میں اپنے نسلی اور لسانی روابط کے باعث ترکیہ کی اس تنظیم میں شمولیت یوں بھی فطری ہے لیکن صدر اردوان جیسے مدبر کی قیادت میں ترکیہ کی شرکت زیادہ با معنی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم خطے کے ممالک میں ایسے حالات کی تشکیل اور فروغ میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے نتیجے میں رکن ممالک میں خوش حالی فروغ پاسکے اور اس مقصد کے لیے مناسب ماحول پیدا ہوسکے۔ یہ ہدف رکن ملکوں میں ترقی کا وژن رکھنے والی متحرک قیادت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور خطے میں اس مقصد کو عمران خان کی حکومت نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ یہی سبب ہے کہ اب پاکستان میں اسی نواز شریف کی قیادت کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جسے دیس نکالا دے دیا گیا تھا۔ ترکیہ میں بھی اسی قسم کا خطرہ محسوس کیا جاتا تھا۔
تاریخ کے اس نازک مرحلے پر اگر ترکیہ کے انتخابی نتائج مختلف ہو جاتے تو وہاں بھی پاکستان جیسی صورت حال پیدا ہو جانے کا بھرپور خدشہ تھا۔ اسی سبب سے ترکیہ کے دوست ملکوں خاص طور پر پاکستانی قیادت صدر طیب اردوان کے دوبارہ انتخاب کے لیے پرجوش تھی۔
صدر اردوان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان اس پس منظر میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
وہ جب کہتے ہیں کہ صدر اردوان کا دوبارہ انتخاب خطے میں ترقی و استحکام اور امن عالم کے فروغ کا ذریعہ بنے گا تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ترقی، استحکام اور خوش حالی کے ضمن میں ایک جیسے تصورات رکھنے والی پاکستان اور ترکیہ کی قیادت ابھرتے ہوئے مشرق میں ایسا قائدانہ کردار ادا کرے گی جو نہ صرف ان دونوں معاشروں کے خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ بنے گی بلکہ اس خطے کو نئی زندگی بھی دے سکے گی۔ اس پس منظر میں پاکستان اور ترکیہ کاداخلی سیاسی منظر نامہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
ترکیہ کے انتخابی نتائج نے 2018 کے پاکستان کی طرح ترقی اور استحکام کی راہ روک کر داخلی انتشار کو ہوا دینے والی قیادت کا راستہ بند کر دیا ہے۔ 2018 کے پاکستان میں ایک عالمی سازش کے تحت یہی حادثہ ہوا لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔ پاکستان کے آیندہ انتخابات ترکیہ کی طرح اسے بھی ترقی اور خوش حالی کے راستے پر گامزن کریں گے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے ایسے سیاسی عناصر کے اثرات محدود کر دیے جائیں جو نہ ترقی اور خوش حالی کا کوئی تصور رکھتے ہیں اور نہ ملک کا سیاسی اور تزویراتی استحکام ان کا مطمح نظر ہے۔
اپنے تضادات، تصادم اور بے بصیرت سیاست کی وجہ تیزی سے زوال کی طرف بڑھتے ہوئے عمران خان کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ سبب یہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کاوشوں کے نتیجے میں قدیم شاہراہ ریشم پر بسنے والی اقوام جس عظیم مستقبل کا خواب دیکھ رہی ہیں، اس کی تعبیر بالغ نظر اور متحرک قیادت کے ذریعے ہی ممکن ہے جنگ و جدل کا مزاج رکھنے والے کم نظر نام نہاد سیاست دانوں کے ذریعے نہیں۔