مہنگائی اور یوٹیلیٹی بلوں سے بڑھتے گھریلو جھگڑے

بجلی جتنی کم استعمال کرو، بل پہلے سے زیادہ آ رہے ہیں جس کی وجہ سے والدین نے اپنے بچوں کی پڑھائی تک چھڑا دی ہے

m_saeedarain@hotmail.com

موجودہ اتحادی حکومت نے اپنے سوا سالہ دور حکومت میں ملک میں مہنگائی ہی نہیں بڑھائی بلکہ گھروں میں جھگڑے بھی بڑھا دیے ہیں۔ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ اس امید پر بنایا گیا تھا کہ وہ کچھ بہتری لائیں گے مگر معاملات امید کے مطابق دکھائی نہیں دے رہے۔

انھیں وزارت سنبھالے8 ماہ ہو رہے ہیں جس کے دوران ڈالر ملکی تاریخ میں سب سے مہنگا ہو چکا اور روپے کی قدر اس قدر گر چکی ہے جتنی ہم سے بھی پسماندہ ممالک میں بھی نہیں گری جس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور خودکشیوں کا بھی نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا اور آئی ایم ایف پروگرام جون میں مکمل ہو جائے گا۔ روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق تمام تر دعوؤں کے باوجود ڈالر نیچے نہیں آیا بلکہ مسلسل مہنگا ہو کر نیا ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔

ملک میں 49 فیصد حصص کی قیمتیں گر چکی ہیں، روپے کی ویلیو کم ہونے سے سونے کی قیمت دو لاکھ بتیس ہزار روپے فی تولہ ہوگئی ہے۔ حکومت نے 15 مئی کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کیں مگر مہنگائی نہ رک سکی اور حکومت سخت گرمی میں بھی عوام کو گیس اور بجلی کی فراہمی میں مکمل ناکام ہو چکی مگر حکومتی وزیروں کی بیان بازی مسلسل جاری ہے ، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے گھروں میں جھگڑے بڑھا دیے ہیں۔

غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی اب گیس و بجلی کے بل برداشت نہیں کر پا رہا۔ پانچ سو روپے گیس میٹر کا کرایہ وزیروں کے لیے تو کچھ نہیں مگر لوگوں کے لیے عذاب بن گیا ہے جب کہ گیس میٹر کی قیمت کنکشن لیتے وقت سالوں پہلے ہی وصول کی جاچکی۔

میٹر صارف کی ملکیت ہے مگر گیس میٹر پر حکومت جبری ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ گیس کے ہیٹر و گیزر کب کے بند ہیں مگر گھروں کو گیس فراہم نہیں کی جا رہی۔

موجودہ حکومت میں گیس مل نہیں رہی مگر گیس بل بڑھ کر آ رہے ہیں اور بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھائے جانے کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ بجلی بلوں میں پہلے ہی ٹیکس کم نہیں تھے اب مزید ٹیکس لگانے کے علاوہ، فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر گزرے مہینوں میں استعمال کی گئی بجلی پر بھی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔ عوام دشمنی کا نیا ریکارڈ قائم کیا گیا ہے ،اداروں کا کام صرف اور صرف بجلی کی قیمت بڑھانا رہ گیا ہے۔


عوام دشمنی میں کبھی بجلی کمپنیوں کی قیمت بڑھانے کی درخواست رد نہیں کی جاتی اور ہر درخواست پر ریٹ بڑھا دیے جاتے ہیں اور صارفین کو معمولی مہینوں میں ریلیف بمشکل ملتا ہے کیونکہ ادارے بجلی صارفین کو رعایت دینے پر یقین نہیں رکھتے اور عوام کے بجائے بجلی کمپنیوں کو اہمیت دی جاتی ہے، عوام کی نہیں سنی جاتی۔

24 مئی کو بجلی مزید سوا روپے فی یونٹ مہنگی کی گئی ہے اور صارفین بجلی اگلے ماہ کے بلوں میں 46 ارب روپے مزید ادا کریں گے۔ جون سے ستمبر تک نیپرا کے اس فیصلے کا اطلاق ہوگا۔

کراچی کے صارفین کو بجلی ملک بھر میں سب سے مہنگی فراہم کی جا رہی ہے ۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی آڑ میں جب بھی نیپرا سے رقم بڑھانے کا کہا جاتا ہے نیپرا کبھی انکار نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں عوام سے دکھاؤے کے لیے اعتراضات طلب کیے جاتے ہیں اور عوام کے اعتراضات کے باوجود کے الیکٹرک کی مرضی کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں اور عوام کے اعتراضات مسترد کر دیے جاتے ہیں۔

اسلام آباد کے مقابلے میں کراچی والوں کو کئی گنا زیادہ مہنگی بجلی فراہم کرنے کے علاوہ مختلف طریقوں سے لوٹا جا رہا ہے جس کا ثبوت ایف سی اے کی مد میں وصول کی جانے والی رقم ہے۔

کے الیکٹرک نے اپنے ہینڈ بل میں لکھا ہے کہ پی ایم ریلیف کے تحت مئی جون اور جولائی 2022 کی FCA کی مد میں موخر کردہ رقم مارچ 2023 سے 8ماہانہ اقساط میں وصول کی جائے گی اور FCA تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے ان صارفین سے وصول کیا جائے گا جنھوں نے پرائم منسٹر ریلیف کے تحت FCA سے فائدہ حاصل کیا ہے جب کہ کے الیکٹرک اپنے اعلان کے برعکس بل اپریل 2023 میں FCA رقم ایک صارف کے بل میں شامل کرکے وصول کر چکا ہے جس کے مطابق جون کی رقم دو بار لگا کر ایک بار 137.40 روپے اور دوبارہ 150.06 روپے وصول کی گئی اور یہی رقم مذکورہ تین ماہ کے حساب سے دوبارہ بل مئی میں بھی شامل کر دی گئی ہے اور PHL کے نام پر بل اپریل میں 85.14 روپے اور بل مئی میں PHL کی رقم بڑھا کر 1505.08 روپے لگائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے مارچ کے مہینے سے بجلی کے بلوں میں بجلی پر 3.82 روپے فی یونٹ تک اضافی سرچارج PHL کے طور پر شامل ہوگا۔

کے الیکٹرک نے اپنا یہ ہینڈ بل بل کے ساتھ منسلک کرکے نہیں بھیجا بلکہ جب صارف رقم خرچ اور وقت ضایع کرنے کے بعد کے الیکٹرک آفس میں ٹوکن لینے جاتا ہے تو اسے یہ تھما دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ FCA آٹھ ماہانہ اقساط میں وصول کیا جائے گا۔

پرانے مہینوں میں استعمال ہونے والی بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اور مہنگی بجلی کے بعد جبری طور پر FCA کے علاوہ PHL بھی وصول کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بغیر اے سی پنکھوں پر گزارا کرنے والے صارفین کے بل کئی گنا بڑھ کر ہزاروں روپے کے اضافے کے ساتھ اپریل کے بعد مئی 2023 بل بھیجے گئے ہیں جس پر صارفین نے سر پکڑ لیے ہیں مارچ 2022 میں سابقہ حکومت نے عوام کو جو ریلیف دیا تھا وہ ریلیف نہیں تھا اور تیرہ ماہ کے بعد اپریل 2023 میں وصول کیا جا رہا ہے۔

بجلی کے بل ہر حال میں ادا کرنا لازمی ہیں۔ ہزاروں روپے کے اضافی کرنٹ بل پر قسط کی سہولت بھی نہیں ہوتی۔ بجلی کے بلوں کے باعث گھروں میں جھگڑے معمول بن کر رہ گئے ہیں، بجلی جتنی کم استعمال کرو، بل پہلے سے زیادہ آ رہے ہیں جس کی وجہ سے والدین نے اپنے بچوں کی پڑھائی تک چھڑا دی ہے، دودھ مہنگا ہونے سے گھروں میں چائے بننا بند یا کم ہوگئی ہے لوگ بمشکل ایک دو وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہیں، بجلی کے بھاری بل بھریں تو تعلیم و خوراک متاثر ہوتی ہے۔ سخت گرمی میں بجلی بھی خوراک کی طرح مجبوری بن گئی ہے جس کے بغیر گزارا ناممکن ہو چکا ہے۔
Load Next Story