یوم مئی منانے والوں کی خدمت میں
پاکستان کے مزدور طبقے کو عشروں سے جن مسائل کا سامنا ہے ان میں ٹھیکیداری نظام سرفہرست ہے ...
شکاگو کے شہیدوں کی یاد میں ہر سال یکم مئی کو یوم مئی بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جلسے ہوتے ہیں، جلوس نکالے جاتے ہیں، سیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں شکاگو کے شہیدوں کی قربانیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی قہرمانیوں کا ذکر ہوتا ہے، اس بات کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے کہ شکاگو کی انتظامیہ نے مزدوروں کے انتہائی جائز مسئلے اوقات کار کے تعین کے مطالبے پر نہتے مزدوروں پر گولیاں چلا کر شکاگو کی سڑکوں کو مزدوروں کے خون سے سرخ کر دیا۔
مزدوروں نے مزدوروں کے بہتے ہوئے خون میں کپڑا ڈبو کر وہ سرخ پرچم بنایا جو ساری دنیا میں مزدور طبقے کی پہچان بن گیا۔ یکم مئی کو سارا دن مختلف طریقوں سے شکاگو کے شہیدوں کی یاد میں مصروف دن گزارنے کے بعد یکم مئی منانے والے تھک کر گہری نیند سو جاتے ہیں اور اگلے سال کے یکم مئی تک شکاگو کے شہید ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
میں یہ کالم اس سال یکم مئی سے پہلے لکھ رہا ہوں جس کا مقصد یوم مئی منانے والوں کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا ہے، یکم مئی حقیقت میں دوسرے منائے جانے والے دنوں کی طرح ایک رسمی دن بن کر رہ گیا ہے، اس حوالے سے سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانوں کی تاریخ میں بے شمار لوگوں نے اپنے جائز حق اور سچ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ سقراط اور گلیلیو کو سچ کا انکشاف کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی، کیونکہ سر سے پائوں تک جھوٹ میں لتھڑے ہوئے اس معاشرے کو سقراط اور گلیلیو کا سچ قبول نہ تھا۔ شکاگو کی انتظامیہ کو شکاگو کے مزدوروں کا یہ مطالبہ قبول نہ تھا کہ ان کے لامحدود اوقات کار کو محدود کیا جائے تا کہ انھیں کچھ آرام کرنے، گھر کے کام کرنے کا موقع ملے لیکن شکاگو کی انتظامیہ جو فروغ پاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ تھی مزدوروں کا یہ جائز مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔
شکاگو کے مزدوروں سے 18، 20 گھنٹے کام لیا جاتا تھا، اس ظلم کے خلاف شکاگو کے شہیدوں نے علم بغاوت بلند کیا۔ سقراط، گلیلیو اور شکاگو کے مزدوروں کے انکشافات اور مطالبات میں فرق تھا لیکن ان میں جو بات مشترک تھی وہ ''ظلم'' تھا۔ ظلم کی شکل خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ظلم ظلم ہی رہتا ہے جو قابل مذمت، قابل نفرت ہے۔ ہم جس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لیے یہ کالم یکم مئی سے پہلے پیش کر رہے ہیں وہ مسئلہ یہ ہے کہ حق اور سچ کے لیے جن لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں کیا اس کا صلہ صرف ایک روزہ جلسہ، ریلیاں اور مشعل بردار جلوس ہی ہے؟ دنیا میں شہدا کی یاد خواہ ایک دن منائی جائے یا سارا سال منائی جائے اگر شہدا کے مشن کو آگے نہیں بڑھایا جاتا تو یہ دن محض رسم کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور رسمیں خواہ کتنے دھوم دھڑکوں سے منائی جائیں، خواہ کتنی ہی گریہ و زاری سے منائی جائیں، بے معنی اور بے مقصد ہی ہوتی ہیں۔
1886ء سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ کا دور تھا، سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی چونکہ ظلم و استحصال پر رکھی گئی ہے، لہٰذا جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہو گا وہاں ظلم و استحصال ہو گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 128 سال گزرنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم میں اضافہ ہوا ہے یا کمی ہوئی ہے؟ اس کا مشاہداتی اور تجرباتی جواب یہ ہے کہ ظلم و استحصال میں اضافہ ہوا ہے، مثلاً 1886ء میں مزدوروں سے 18،20 گھنٹے یومیہ کام لیا جاتا تھا۔ آج بھی 18،20 بلکہ اس سے زیادہ گھنٹے کام لیا جا رہا ہے۔ کئی ملوں اور کارخانوں میں ٹھیکیداری مزدوروں کو ملوں کے اندر ہی رہائشیں فراہم کی جاتی ہیں۔
یہ کوئی رہائشی سہولت نہیں ہے بلکہ مالکان کی ضرورت ہے۔ وہ رات دن جس وقت چاہیں مزدوروں کو مشینوں پر کھڑا کر دیں۔ ان مزدوروں کو ان کی اجرت بھی ان کے ہاتھوں میں نہیں دی جاتی بلکہ ٹھیکیدار کے حوالے کی جاتی ہے جو اپنی مرضی سے مزدوروں کے گھروں پر بھجواتا ہے۔ پورا انفارمل سیکٹر صنعتی غلاموں سے بھرا ہوا ہے، جن میں نہ ملازم رکھنے کی کاغذی ذمے داریاں پوری کی جاتی ہیں نہ ملازمتوں سے نکالنے کے لیے کوئی قانونی ذمے داری پوری کی جاتی ہے۔ مزدور قوانین مزدوروں کی طویل اور قربانیوں سے پر جدوجہد کے بعد بنائے گئے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کا دور دور تک پتہ نہیں چلتا۔
پاکستان کے مزدور طبقے کو عشروں سے جن مسائل کا سامنا ہے ان میں ٹھیکیداری نظام سرفہرست ہے۔ مالکان نے مزدوروں کو ان کے قانونی حق دینے سے بچنے کے لیے ٹھیکیداری نظام رائج کیا ہے۔ اس نظام میں مزدور کام تو ملوں، کارخانوں میں کرتے ہیں لیکن مزدور ملوں اور کارخانوں کے مزدور نہیں کہلاتے بلکہ ان کا مالک ٹھیکیدار ہوتا ہے اور وہی ان کے اوقات کار اور اجرتوں وغیرہ کا تعین کرتا ہے۔ ٹھیکیداری مزدوروں کے کوئی قانونی حقوق سرے سے ہوتے ہی نہیں۔ ٹھیکیدار ان سے جس طرح چاہے کام لیتا ہے، جس طرح چاہے سلوک کرتا ہے۔ انفارمل سیکٹر کے کروڑوں مزدور بھی عملاً صنعتی غلاموں کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے کام کے اوقات غیر متعینہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 128 سال پہلے شکاگو مزدوروں نے جب اس ظلم کے خلاف بغاوت کی تھی تو اکیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا کا مزدور کیوں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے؟
ٹھیکیداری سسٹم میں کام کرنے والے مزدوروں کے علاوہ پکے یا مستقل مزدوروں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی ٹریڈ یونین نہیں بنا سکتے۔ اگر مالکان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کارخانے میں ٹریڈ یونین بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ ٹریڈ یونین بنانے کی کوششوں میں ملوث تمام مزدوروں کو ملازمتوں سے باہر نکال پھینکتے ہیں۔
اسی طرح حق ہڑتال کا مسئلہ ہے، اپنے حقوق اور مطالبات کو منظور کرانے کے لیے ہڑتال کرنا مزدوروں کا قانونی حق ہے لیکن اس حق کو جابرانہ لیبر قوانین میں اس طرح جکڑ کر رکھا گیا ہے کہ مزدوروں کے لیے ہڑتال کرنا عملاً ناممکن ہے اور اگر کوئی سرپھری یونین ہڑتال کی جرأت کرتی ہے تو پولیس اور لیبر ڈپارٹمنٹ فوری مالکان کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ وہ اہم مسائل ہیں جن کا مزدوروں کو عشروں سے سامنا ہے لیکن بوجوہ ان مسائل کے حل کے لیے کوئی منظم منصوبہ بندی اور موثر جدوجہد ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس کی ایک بڑی اور اہم وجہ یہی ہے کہ ملک میں نمایندہ ٹریڈ یونینز سرے سے موجود ہی نہیں، اگر کہیں ہیں تو عضو معطل بنی ہوئی ہیں، ہر جگہ پاکٹ یونینوں کی بھرمار ہے۔
اس گھمبیر تناظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ یوم مئی کو محض رسم کے طور پر نہ منایا جائے بلکہ اس دن مزدور تنظیمیں یہ طے کریں کہ ایک سال یعنی آنے والے یوم مئی تک ان کا ایجنڈا کیا ہو گا اور اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار اور حکمت عملی کیا ہو گی؟ مثلاً ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ ایک بنیادی مسئلہ ہے، اس مسئلے سے مزدوروں کے ساتھ ہونے والی کئی نا انصافیاں اور مظالم جڑے ہوئے ہیں، اگر ملک بھرکی مزدور تنظیمیں اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے کا اولین آئٹم بنا کر ایک منظم اور منصوبہ بند طریقے سے جدوجہد کرتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں۔ لیکن اس قومی سطح کی جدوجہد کے لیے مزدوروں کو ذاتی جماعتی اختلافات اور لیڈری کے شوق کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی قیادت کے تحت جدوجہد کرنا ہو گی۔
بدقسمتی سے ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے مزدوروں میں اپنے اپنے ونگز بنا رکھے ہیں اور ان ونگز کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان ونگز کو متحد کر کے مزدوروں کے حقوق کے حصول کے لیے اور مزدوروں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ سیاسی جماعتوں کے ان ونگز کو ختم کرنا اگرچہ کار دارد ہے لیکن اگر مزدور اپنے سیاسی آقائوں سے یہ کہہ دیں کہ وہ ان کی زیر قیادت اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن وہ ان کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے لیے تیار نہیں تو پھر ان ونگز میں مزدور مفاد کا پہلو سامنے آتا ہے۔ یہ چند گزارشات ہم نے یوم مئی سے پہلے مزدوروں اور ان کے قائدین کی خدمت میں اس لیے پیش کی ہیں کہ یوم مئی کو رسمی کے بجائے بامقصد بنایا جائے۔