مکالمہ

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جیالی حکومت ان دنوں بہت سے خیالی پلاؤ پکا رہی ہے...


[email protected]

گفتگو جاری رہنی چاہیے مقام گفتگو کوئی بھی ہو۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ مدمقابل کون ہے۔ دوست یا دشمن؟ مرتبے سے لے کر عمر تک۔ کچھ خاص نہیں، خاص ہے تو مکالمہ۔ ابھی پچھلے دنوں مجھ سمیت قریب قریب ہر شخص نیمقتدر ادارے کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کو سنا، پڑھا اس پر غور کیا۔ میڈیا پر روزمرہ جاری سیاسی نشست و برخاست میں مذکورہ بیان کا ہر دکھائی اور نہ دکھائی دینے والے پہلو سے جائزہ لیا گیا۔ کئی ایک جانب سے دو ایک حکومتی وزرا پر کڑی تنقید بھی کی گئی۔ مستقبل قریب میں جمہوریت کے خلاف کسی ایکشن کا اندیشہ بھی ظاہر ہوا۔ لیکن میرے نقطہ نظر سے یہ مکالمہ ہے اور جمہوریت کا حسن، بلکہ درپن ہے جس میں وہ بنتی سنورتی ہے۔

لہٰذا بات چیت کے دوران بعض اوقات لہجہ تلخ و ترش بھی ہوجاتا ہے۔ اور فطری سی حقیقت ہے کہ اگر کسی سے گلہ، شکوہ کیا جا رہا ہو تو الفاظ کے چناؤ میں احتیاط مانع نہیں رہتی اور پیار کے اظہار میں چینی پھانکنے کی حاجت نہیں۔ کیونکہ لفظ ہی شیرے میں ڈوب کر ادا ہوتے ہیں۔ لیکن جیسے کہ میں قبل از عرض کرچکا ہوں گفتگو کا جاری رہنا ہی زندگی کی دلالت ہے۔ جیون کا انو راگ ہے۔ اس میں ہمارے اکابرین حکومت، اپوزیشن، سیاسی آرا کو پیش کرنے کے ماہرین یا دیگر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو ملک اور جمہوریت کا مستقبل تاریک قرار نہیں دینا چاہیے۔

بلکہ اگر کسی فریق سے دوران گفتگو کچھ ایسے الفاظ ادا ہوگئے جو متعلقہ شخص یا ادارے کی سماعت پر گراں بار ہوئے تو وہ انھیں واپس لے سکتا ہے یا لے لینے چاہئیں۔ کوئی مضائقہ نہیں کہ مکالمہ جاری رہے اور جمہوریت ناقدین کی بھیڑ سے اپنا راستہ بناتے ہوئے بتدریج سنجیدگی کا راستہ اپنا لے۔ اور یہ ہمارے ملک میں محض الیکشن کی شکل و صورت میں دکھائی نہ دے بلکہ ہمارے رویوں سے بھی اس کا اظہار ممکن ہوسکے۔

بہرحال فریقین کے لیے صبر و برداشت اور تحمل کا راستہ اپنانا، ملکی ترقی کے سفر کے لیے ایک شاندار، مضبوط اور کئی رویہ موٹروے جیسا ثابت ہوسکتا ہے جس پر ابھی تازہ تازہ ملک نے قدم بھی رکھا ہے جب کہ ایک ذرا سی بے احتیاطی ملک میں پہلے سے بدترین صورتحال کا شکار 20 کروڑ لوگوں کو توڑ کر رکھ دے گی۔ ان کی ہر امید، بھروسہ، اعتبار ختم ہوکر رہ جائے گا۔ اور ان کے درمیان موجودہ رشتے جو اس وقت بھی ضعف کا شکار ہیں ختم ہوجائیں گے پھر بدترین عصبیت کا دور دورہ ہوگا۔

اور ملک دشمن مٹھی بھر عناصر جو اس وقت آپ سے اقتدار سنبھالنے کی درخواست کر رہے ہیں بعد میں آپ کو اپنے من مانے مطالبوں کے لییکہنا شروع کر دیں۔ لہٰذا بھائی''دا غلطی گنجائش نشتہ''۔ ویسے بھی ہم من حیث القوم ان ایک دو وزرا کی غیر ضروری تنقید کو غلط قرار دیتے ہوئے سخت الفاظ میں ان کی سرزنش کرتے ہیں بلکہ مذمت کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو بھی کسی مہم جوئی سے باز رہنے کے لیے انتباہ کرتے ہیں کیونکہ ہم جمہوریت پسند ہیں اور اپنے ملک میں صرف اور صرف جمہوری نظام حکومت چاہتے ہیں۔ خواہ اس کا ابتدائیہ کیسا ہی ہو۔

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جیالی حکومت ان دنوں بہت سے خیالی پلاؤ پکا رہی ہے۔ لیکن دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ اگر کراچی میں امن قائم ہو تو اس کا Credit مرکزی حکومت کو جاتا ہے۔ کیونکہ موجودہ آپریشن کی بنیاد ان کی رکھی ہوئی ہے اور امن وامان کی خراب صورتحال سے ان کی صوبائی حکومت مزید بدنام ہوتی ہے۔ کیونکہ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے۔ ادھر MQM کے لیے بھی ''نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن'' والا معاملہ تھا۔

بالآخر سندھ حکومت میں شامل ہوتے ہی بنی۔ بہت سے مسائل روزمرہ کے اخراجات سمیت منہ کھولے کھڑے ہیں۔ گویا زمانے سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ سندھ قیامت سے 40 سال پہلے قیامت جیسے حالات کا شکار ہوجائے گا۔ اس پر کچھ کچھ یقین سا آنے لگا ہے۔ لیکن بہرحال جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ گفتگو کو لے کر ہو رہا ہے۔ اور کسی طور غیر جمہوری نہیں۔ طالبان سے مذاکرات پر مکالمہ ہو یا انڈیا سے تجارت پر۔ بہت خوشی ہوتی ہے کہ آج بفضل تعالیٰ ہم ایک دوسرے کی بات سننے پر آمادہ ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کا سابق صدر پرویز مشرف کے لیے حالیہ نقطہ نظر۔ معاف کیجیے گا، حالیہ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا۔ محترم شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس سننے کے بعد مجھے کچھ دیر کے لیے حیرت ہوئی۔ کیونکہ PTI کے چیئرمین سمیت ان کے دیگر رہنماؤں نے ماضی قریب میں سابق صدر کے لیے اپنے موجودہ موقف کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اور اب بالکل صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اس تبدیل شدہ سوچ کے پس منظر میں کوئی موجود ہے۔ کوئی طاقت، لہٰذا میری حیرت رفو ہوگئی۔ اس لیے بھی کہ PTI کے کم و بیش رہنما اپنے بیانات اس انداز میں دیتے رہے ہیں کہ کوئی حادثہ یا واقعہ ہوجائے تو وہ کہتے ہیں کہ ''ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا''۔ یا کوئی اچھا کام ہوجائے تو ان کا بیان آتا ہے کہ اس کی بنیاد کس نے رکھی تھی؟ ہمارے چیئرمین نے۔ اگر کسی نے پوچھ لیا کب رکھی تھی؟ تو جواب ملتا ہے جب وہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔

لیکن میں بحیثیت ایک شہری مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ سے ادنیٰ قیادت تک کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ جب آپ نے سابق صدر پرویز مشرف کا معاملہ عدالت کے سپرد کردیا ہے۔ جس پر آپ اپنے مکمل اعتماد کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں بلکہ آپ کے رہنما اور پارٹی کے سربراہ تو اس معاملے کو اﷲ کے سپرد کرچکے ہیں تب آپ کے وزرا، سفرا، پارٹی عہدیداران ہر میڈیا فورم پر، ہر جلسے میں، یا اپنی ذاتی مجالس میں پرویز مشرف پر کڑی سے کڑی تنقید کیوں کرتے ہیں۔ اور ایسے ایسے شاہکار جملے ادا کرتے ہیں جو کسی بھی طرح سے ان کے عہدے یا شخصیت کے شایان شان نہیں ہوتے مثلاً ''او مشرف اب مرد کا بچہ بن''۔

خواجہ سعد رفیق صاحب! یہ جملہ تو ازخود انصاف کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ آپ ریلوے کے وفاقی وزیر ہیں۔ سارا ملک آپ کو ٹی وی پر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ میرے بھائی! یہ حکومت ہے۔ اکھاڑے کی پہلوانی کرنی ہے تو بھولو برادران سے رابطہ فرمائیے۔

بہرحال میں اپنی اس تحریری نشست کو کچھ امیدوں کے ساتھ برخاست کرتا ہوں۔ امیدیں وہی پرانی ہیں لیکن بوسیدہ ہرگز نہیں۔ بلکہ زندگی آج ان کا مطالبہ پہلے سے کہیں زیادہ کر رہی ہے۔ جیسے کہ ڈالر کی قدر میں خاطر خواہ کمی کے بعد مہنگائی میں بھی کمی ہوجانی چاہیے۔ طالبان، حکومت مذاکرات کامیاب ہوجائیں۔ کراچی، کوئٹہ میں امن و شانتی کے بھولے بسرے دن کسی شام کو گھر لوٹ آئیں۔ ملک میں انرجی کے بحران کا خاتمہ بالخیر ہوجائے اور ۔۔۔۔اﷲ پاک خواجہ سعد رفیق و خواجہ آصف کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں