حماس الفتح مفاہمت
محمود عباس کا یہ اقدام خوش آیند ہے کہ انھوں نے صیہونی حکومت اور اس کے اشاروں پر ناچنے والے امریکی ۔۔۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ فلسطین، مغربی کنارے والی محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ اور غزہ کی پٹی پر حکمران حماس کی قیادت نے اتحاد ملی اور قومی مفاہمت پر مبنی سیاست اور حکومت کے قیام پر اتفاق کرلیا ہے۔ 2007 میں بھی اسی نوعیت کی مفاہمت پر اتفاق ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے معاہدے کے نگراں سعودی بادشاہ اور اہم فریق محمود عباس امریکی و صیہونی دبائو کے آگے ڈھیر ہوگئے، معاہدہ مکہ فلسطینیوں کے لیے خوش خبری نہ بن سکا۔ اب پھر صیہونی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے متنبہ کیا ہے کہ صدر محمود عباس اسرائیل سے امن یا حماس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں۔
پہلے بھی امریکا نے فلسطینی انتظامیہ کو دی جانے والی امداد (یعنی قرضہ) کے لیے یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ حماس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رکھیں گے کیونکہ صیہونیت کا غلام امریکا حماس کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ یہی وہ بنیادی سبب تھا کہ معاہدہ مکہ پر عمل نہیں کیا جاسکا۔ لیکن اب غزہ میں یہ طے پایا ہے کہ اگلے پانچ ہفتوں میں فلسطینیوں کی متحدہ حکومت قائم کی جائے گی اور فلسطینی پارلیمنٹ سے حکومت کے اعتماد کا ووٹ لینے کے 6 ماہ بعد الیکشن منعقد کیے جائیں گے۔ ہم ماضی میں اس بات کا اشارہ کرچکے ہیں کہ حماس حکومت کی میعاد بھی ختم ہوچکی ہے لہٰذا فلسطینیوں کے تازہ ترین مینڈیٹ کے لیے نئے الیکشن کا انعقاد ناگزیر ہے۔ اسی طرح ہم نے فلسطینی بھائیوں کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ان کا اتحاد، قومی مفاہمت اور اقتدار میں سب کی شراکت کے بغیر فلسطینی آزادی حاصل نہیں کر پائیں گے۔
غزہ میں حماس حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ سے فلسطینی انتظامیہ کی حکمران جماعت الفتح کے رہنما عزام احمد نے 22 اپریل 2014 کو ملاقات کی تھی۔ پھر حماس قیادت اور الفتح کے نمایندہ وفد کے مذاکرات ہوئے اور 23 اپریل کی شام اس نئے معاہدے کی خبر دنیا بھر میں جاری ہوئی۔ اس ملاقات اور مذاکرات کی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد ال عزام کی معاونت کے لیے دیگر 2 رہنما ساتھ تھے جب کہ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ حماس کے سیاسی شعبے کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مرزوق اور ایک اور رہنما ساتھ تھے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں اسی وقت یہ خبر جاری ہوئی تھی، نئی حکومت ٹیکنوکریٹ پر مشتمل ہوگی اور محمود عباس بدستور بابائے حکومت رہیں گے۔
یہ ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ احمد جبریل کی پاپولر فرنٹ اور رمضان عبداﷲ شلاح کی جہاد اسلامی کو بھی اس معاہدے کا حصہ بنایا جائے تاکہ فلسطینیوں کی وسیع البنیاد قومی مفاہمت اور قومی حکومت قائم کی جاسکے۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل ال عربی نے تازہ ترین بیان میں اقوام متحدہ پر تنقید کی ہے کہ اس کے اسرائیل کے لیے دہرے معیار ہیں۔ کویت نیوز ایجنسی کی خبر کے مطابق عرب پارلیمنٹ کے اسپیکر احمد ال جروان نے کہا ہے کہ عرب لیگ مسئلہ فلسطین کے ایک عادلانہ حل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ ان خوشنما بیانات کی حد تک تو عرب لیگ پر اعتماد کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا عمل بھی اقوام متحدہ سے کم برا نہیں۔ پہلے عرب لیگ کے یہ بڑے بتائیں کہ فلسطین کو عرب لیگ نے اب تک کتنی مالی و دفاعی امداد دی ہے۔ جس امداد کا اعلان کیا گیا اس میں سے کتنی رقم ادا کی گئی؟ فلسطینی مسلح مقاومتی تحریکوں اور ان کے رہنمائوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور ان پر پابندیاں عائد کی گئیں، انھوں نے امریکا، یورپی ممالک اور صیہونی حکومت پر کیوں دبائو نہ ڈالا، کیوں ان کا اقتصادی بائیکاٹ نہیں کیا؟ لبنان کے وزیر خارجہ نے تو ان کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ کویت میں عرب سربراہی کانفرنس میں فلسطینی مہاجرین کی فلسطین واپسی جیسے اہم ترین ایشو کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔ یہ بھی دہرے معیار کی علامت ہے۔
29 اپریل کو وہ ڈیڈ لائن بھی ختم ہوجائے گی جس کا اعلان امریکی صدر بارک اوباما نے کیا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ امن عمل کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔ محمود عباس کا وہ حسن ظن بھی غلط ہوگیا کہ مارچ کے آخری ہفتے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا چوتھا مرحلہ مکمل ہوجائے گا لیکن صیہونی حکومت نے منع کردیا۔ اب امریکی صدر اوباما کا جھوٹ بھی ثابت ہوجائے گا۔ امن عمل کی کامیابی کی ڈیڈ لائن ختم ہورہی ہے لیکن صیہونی حکومت علی الاعلان فلسطینیوں کے سارے حقوق بدستور پامال کررہی ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈیڈ لائن کے بعد کون سا نیا لولی پاپ امریکا اور اس کے اتحادی فلسطینی انتظامیہ کو پیش کریں گے۔
محمود عباس کا یہ اقدام خوش آیند ہے کہ انھوں نے صیہونی حکومت اور اس کے اشاروں پر ناچنے والے امریکی و یورپی حکمرانوں کے منع کرنے کے باوجود اقوام متحدہ کے 15 ذیلی اداروں کی رکنیت کے لیے درخواست بھی جمع کروادی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ اعلان تشویشناک ہے کہ وہ فلسطینی انتظامیہ تحلیل کرکے مغربی کنارے کا کنٹرول اسرائیل کے حوالے کردیں گے۔ ان کا ایک اور اچھا بیان یہ تھا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ محمود عباس اپنے علاقے کا کنٹرول فلسطینیوں کو دیں تاکہ جنگی جرائم کے مقدمات اگر وہ نہیں دائر کرسکتے تو فلسطینیوں کے دیگر نمایندگان یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ویسے بھی مغربی کنارے کا پورا حصہ ان کے کنٹرول میں نہیں۔
اب جو صورت حال ہے، اس میں صرف اپریل میں پیش آنے والے واقعات سے مزید یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ محمود عباس کے زیر انتظام اس مغربی کنارے میں بھی صیہونی اسرائیلی فوج، پولیس اور دیگر ایجنسیاں فلسطینیوں کو پکڑتی ہیں اور مارتی ہیں۔ نہ صرف وہ بلکہ غیر قانونی نسل پرست یہودی بستی میں آباد انتہاپسند صیہونی بھی فلسطینیوں کو مارتے ہیں، ان کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، درخت تک جلادیتے ہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کی آفیشل ویب سائٹ پر جو خبریں موجود ہیں، اس کے مطابق بیت اللحم، جبل جوہر، بیت اووا، رمانہ، یعبود، جنین، الخلیل، ام الخیر سمیت کئی علاقے مغربی کنارے کا حصہ ہیں لیکن وہاں صیہونی افواج اور پولیس دندناتی پھرتی ہیں۔ انٹرنیشنل لاء کے تحت بیت المقدس سمیت پورا یروشلم بین الاقوامی کنٹرول میں ایک فلسطینی علاقہ ہے۔ وہاں بھی نسل پرست یہودی یعنی صیہونی حکومت کا کنٹرول ہے۔ ام الخیر میں فلسطینی چرواہوں کو ان کے گائوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
طویل تعطل کے بعد جولائی 2013 میں براہ راست فلسطینی صیہونی مذاکرات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، 23 اپریل کی فلسطینی قومی مفاہمت نے اس کی ناکامی پر مہر ثبت کردی۔ اب اس کی رسمی موت کا اعلان 29 اپریل کو کردیا جائے گا۔ یہ مفاہمت نہ بھی ہوتی تب بھی صدر اوباما کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن یعنی 29 اپریل تک فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین کسی معاہدے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ جان کیری کی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان جینیفر عرف جین ساکی نے فلسطینیوں کی قومی مفاہمت پر جو ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے ایک اور مرتبہ یہ ثابت ہوگیا کہ امریکی حکومتی عہدیداروں کے ایسے بیانات تل ابیب میں تیار کیے جاتے ہیں۔
وہ فرماتی ہیں کہ یہ مفاہمت ان کے لیے مایوس کن عمل ہے۔خدا کرے کہ جس صلح و مفاہمت کا عہد و پیمان حماس اور الفتح کے قائدین کے مابین ہوا ہے، یہ فلسطینیوں کے حق میں ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فلسطینیوں کو عرب کے حکمرانوں کے بجائے خود پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ مغربی کنارے (ویسٹ بینک ) کا وہ علاقہ جہاں صیہونیوں کا کنٹرول تاحال ہے، اسے اپنے کنٹرول میں لے کر خود کو اقتصادی موت سے بچانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مالی وسائل ان کو حاصل ہوگئے تو انھیں امریکا سمیت کسی کے قرضوں اور خیرات کی ضرورت نہیں رہے گی۔ فلسطینی قیادت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پہلے بھی امریکا نے فلسطینی انتظامیہ کو دی جانے والی امداد (یعنی قرضہ) کے لیے یہ شرط عائد کی تھی کہ وہ حماس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رکھیں گے کیونکہ صیہونیت کا غلام امریکا حماس کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ یہی وہ بنیادی سبب تھا کہ معاہدہ مکہ پر عمل نہیں کیا جاسکا۔ لیکن اب غزہ میں یہ طے پایا ہے کہ اگلے پانچ ہفتوں میں فلسطینیوں کی متحدہ حکومت قائم کی جائے گی اور فلسطینی پارلیمنٹ سے حکومت کے اعتماد کا ووٹ لینے کے 6 ماہ بعد الیکشن منعقد کیے جائیں گے۔ ہم ماضی میں اس بات کا اشارہ کرچکے ہیں کہ حماس حکومت کی میعاد بھی ختم ہوچکی ہے لہٰذا فلسطینیوں کے تازہ ترین مینڈیٹ کے لیے نئے الیکشن کا انعقاد ناگزیر ہے۔ اسی طرح ہم نے فلسطینی بھائیوں کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ان کا اتحاد، قومی مفاہمت اور اقتدار میں سب کی شراکت کے بغیر فلسطینی آزادی حاصل نہیں کر پائیں گے۔
غزہ میں حماس حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ہنیہ سے فلسطینی انتظامیہ کی حکمران جماعت الفتح کے رہنما عزام احمد نے 22 اپریل 2014 کو ملاقات کی تھی۔ پھر حماس قیادت اور الفتح کے نمایندہ وفد کے مذاکرات ہوئے اور 23 اپریل کی شام اس نئے معاہدے کی خبر دنیا بھر میں جاری ہوئی۔ اس ملاقات اور مذاکرات کی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ احمد ال عزام کی معاونت کے لیے دیگر 2 رہنما ساتھ تھے جب کہ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ حماس کے سیاسی شعبے کے نائب سربراہ موسیٰ ابو مرزوق اور ایک اور رہنما ساتھ تھے۔ جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں اسی وقت یہ خبر جاری ہوئی تھی، نئی حکومت ٹیکنوکریٹ پر مشتمل ہوگی اور محمود عباس بدستور بابائے حکومت رہیں گے۔
یہ ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ احمد جبریل کی پاپولر فرنٹ اور رمضان عبداﷲ شلاح کی جہاد اسلامی کو بھی اس معاہدے کا حصہ بنایا جائے تاکہ فلسطینیوں کی وسیع البنیاد قومی مفاہمت اور قومی حکومت قائم کی جاسکے۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل ال عربی نے تازہ ترین بیان میں اقوام متحدہ پر تنقید کی ہے کہ اس کے اسرائیل کے لیے دہرے معیار ہیں۔ کویت نیوز ایجنسی کی خبر کے مطابق عرب پارلیمنٹ کے اسپیکر احمد ال جروان نے کہا ہے کہ عرب لیگ مسئلہ فلسطین کے ایک عادلانہ حل کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ ان خوشنما بیانات کی حد تک تو عرب لیگ پر اعتماد کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا عمل بھی اقوام متحدہ سے کم برا نہیں۔ پہلے عرب لیگ کے یہ بڑے بتائیں کہ فلسطین کو عرب لیگ نے اب تک کتنی مالی و دفاعی امداد دی ہے۔ جس امداد کا اعلان کیا گیا اس میں سے کتنی رقم ادا کی گئی؟ فلسطینی مسلح مقاومتی تحریکوں اور ان کے رہنمائوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور ان پر پابندیاں عائد کی گئیں، انھوں نے امریکا، یورپی ممالک اور صیہونی حکومت پر کیوں دبائو نہ ڈالا، کیوں ان کا اقتصادی بائیکاٹ نہیں کیا؟ لبنان کے وزیر خارجہ نے تو ان کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ کویت میں عرب سربراہی کانفرنس میں فلسطینی مہاجرین کی فلسطین واپسی جیسے اہم ترین ایشو کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔ یہ بھی دہرے معیار کی علامت ہے۔
29 اپریل کو وہ ڈیڈ لائن بھی ختم ہوجائے گی جس کا اعلان امریکی صدر بارک اوباما نے کیا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ امن عمل کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔ محمود عباس کا وہ حسن ظن بھی غلط ہوگیا کہ مارچ کے آخری ہفتے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا چوتھا مرحلہ مکمل ہوجائے گا لیکن صیہونی حکومت نے منع کردیا۔ اب امریکی صدر اوباما کا جھوٹ بھی ثابت ہوجائے گا۔ امن عمل کی کامیابی کی ڈیڈ لائن ختم ہورہی ہے لیکن صیہونی حکومت علی الاعلان فلسطینیوں کے سارے حقوق بدستور پامال کررہی ہے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈیڈ لائن کے بعد کون سا نیا لولی پاپ امریکا اور اس کے اتحادی فلسطینی انتظامیہ کو پیش کریں گے۔
محمود عباس کا یہ اقدام خوش آیند ہے کہ انھوں نے صیہونی حکومت اور اس کے اشاروں پر ناچنے والے امریکی و یورپی حکمرانوں کے منع کرنے کے باوجود اقوام متحدہ کے 15 ذیلی اداروں کی رکنیت کے لیے درخواست بھی جمع کروادی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ اعلان تشویشناک ہے کہ وہ فلسطینی انتظامیہ تحلیل کرکے مغربی کنارے کا کنٹرول اسرائیل کے حوالے کردیں گے۔ ان کا ایک اور اچھا بیان یہ تھا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں میں قید کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ محمود عباس اپنے علاقے کا کنٹرول فلسطینیوں کو دیں تاکہ جنگی جرائم کے مقدمات اگر وہ نہیں دائر کرسکتے تو فلسطینیوں کے دیگر نمایندگان یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لیں۔ ویسے بھی مغربی کنارے کا پورا حصہ ان کے کنٹرول میں نہیں۔
اب جو صورت حال ہے، اس میں صرف اپریل میں پیش آنے والے واقعات سے مزید یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ محمود عباس کے زیر انتظام اس مغربی کنارے میں بھی صیہونی اسرائیلی فوج، پولیس اور دیگر ایجنسیاں فلسطینیوں کو پکڑتی ہیں اور مارتی ہیں۔ نہ صرف وہ بلکہ غیر قانونی نسل پرست یہودی بستی میں آباد انتہاپسند صیہونی بھی فلسطینیوں کو مارتے ہیں، ان کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، درخت تک جلادیتے ہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کی آفیشل ویب سائٹ پر جو خبریں موجود ہیں، اس کے مطابق بیت اللحم، جبل جوہر، بیت اووا، رمانہ، یعبود، جنین، الخلیل، ام الخیر سمیت کئی علاقے مغربی کنارے کا حصہ ہیں لیکن وہاں صیہونی افواج اور پولیس دندناتی پھرتی ہیں۔ انٹرنیشنل لاء کے تحت بیت المقدس سمیت پورا یروشلم بین الاقوامی کنٹرول میں ایک فلسطینی علاقہ ہے۔ وہاں بھی نسل پرست یہودی یعنی صیہونی حکومت کا کنٹرول ہے۔ ام الخیر میں فلسطینی چرواہوں کو ان کے گائوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
طویل تعطل کے بعد جولائی 2013 میں براہ راست فلسطینی صیہونی مذاکرات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، 23 اپریل کی فلسطینی قومی مفاہمت نے اس کی ناکامی پر مہر ثبت کردی۔ اب اس کی رسمی موت کا اعلان 29 اپریل کو کردیا جائے گا۔ یہ مفاہمت نہ بھی ہوتی تب بھی صدر اوباما کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن یعنی 29 اپریل تک فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین کسی معاہدے کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ جان کیری کی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان جینیفر عرف جین ساکی نے فلسطینیوں کی قومی مفاہمت پر جو ردعمل ظاہر کیا ہے اس سے ایک اور مرتبہ یہ ثابت ہوگیا کہ امریکی حکومتی عہدیداروں کے ایسے بیانات تل ابیب میں تیار کیے جاتے ہیں۔
وہ فرماتی ہیں کہ یہ مفاہمت ان کے لیے مایوس کن عمل ہے۔خدا کرے کہ جس صلح و مفاہمت کا عہد و پیمان حماس اور الفتح کے قائدین کے مابین ہوا ہے، یہ فلسطینیوں کے حق میں ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فلسطینیوں کو عرب کے حکمرانوں کے بجائے خود پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ مغربی کنارے (ویسٹ بینک ) کا وہ علاقہ جہاں صیہونیوں کا کنٹرول تاحال ہے، اسے اپنے کنٹرول میں لے کر خود کو اقتصادی موت سے بچانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مالی وسائل ان کو حاصل ہوگئے تو انھیں امریکا سمیت کسی کے قرضوں اور خیرات کی ضرورت نہیں رہے گی۔ فلسطینی قیادت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔