سپنوں کے سوداگر

دنیا میں تو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے جنسی کاروبار کو اپنی ملک کی صنعت کا درجہ دے رکھا ہے ۔۔۔


عمر قاضی April 27, 2014
[email protected]

لیون ٹراٹسکی کوئی شاعر اور ادیب نہیں تھا مگر وہ ایسا انقلابی ضرور تھا جس کو معلوم ہو کہ علم اور ادب معاشرتی زندگی اور انسانی ارتقا کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ اس لیے اپنی ایک کتاب میں اس نے لکھا ہے کہ ''جب کوئی معاشرہ فکری اور ذہنی طور پر اتنا کمزور اور کنگال ہوجاتا ہے کہ اس میں بڑے خواب دیکھنے کی طاقت بھی نہیں رہتی تب ایسے سماجوں کے ساحلوں پر سپنوں کے سوداگر اترتے ہیں۔

وہ ادیب اور شاعر آجاتے ہیں وہاں جہاں لوگ بہتر زندگی کے تصور سے بھی محروم ہوتے ہیں اور اس محرومی سے بھرے ہوئے ماحول میں وہ جب خوبصورت خوابوں اور سندر سپنوں کے جلوے دکھاتے ہیں تب لوگ بے قابو ہوکر کہنے لگتے ہیں کہ ایسا معاشرہ کہاں ہے؟ کیا ایسا معاشرہ ممکن ہے؟ کیا ہم ایسے معاشرے میں جینے کا حق حاصل کر سکتے ہیں؟ ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں تو پھر وہ انقلابی رہنما وجود میں آتے ہیں جو لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا معاشرہ ممکن ہے اور ہم آپ کی مدد سے ایسے معاشرے کو تعمیر کر سکتے ہیں۔

اس طرح تاریخ کا وہ انقلابی سفر شروع ہوجاتا ہے جو سب کو حیران کردیتا ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے لکھا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انقلابی رہنما عوام کی طاقت سے تاریخ کا رخ تبدیل کردیتے ہیں لیکن کچھ تبدیلی کی ابتدا ہوتی ہے ان ادیبوں اور شاعروں اور آرٹسٹوں یعنی موسیقاروں، مصوروں اور سنگتراشوں کے حوالے سے جو انسان کو خوبصورت خواب دیکھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورت خواب ہر آنکھ کا بنیادی حق ہوتا ہے، مگر ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں خوبصورت خوابوں کی پیداواری قوت شاعر اور ادیب نہیں بلکہ وہ شوبز والا شعبہ بن گیا ہے جو ادیبوں اور شاعروں سے بھی اپنی فرمائش پر کہانیاں اور نظیمں لکھواتا ہے۔ اب تو یہ شعبہ ایک بہت بڑی انڈسٹری بن گیا ہے۔ اس انڈسٹری نے ہمارے معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان کے کچھ پہلو منفی اور مثبت بھی ہے۔ منفی پہلو صرف بھارت کی سنسر بورڈ والی سخاوت کے حوالے سے نہیں دیکھے جانے چاہئیں۔ منفیت صرف کپڑوں کی کمی کا نام نہیں۔ اگر کسی اداکارہ کا مختصر لباس اس کے جسم کی نمائش کا سبب بنتا ہے تو یہ منظر منفیت کے زمرے میں داخل کرنا سب سے بڑی زیادتی ہوگی۔

کیونکہ ہم نے ان شہپاروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے جو تاریخ کے کسی دور میں پہاڑوں کے پتھروں پر تراشے گئے تھے۔ وہ بے لباس مجسمے انسانی آرٹ کا خوبصورت اظہار ہے۔ ہم نے اس اظہار کو اپنے انداز سے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اس لیے منفیت صرف پردے ہٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ کبھی کبھار پردہ ہٹنے سے مثبت حقائق نظر آتے ہیں۔ اس موڑ پر میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ آخر مردوں کے فیشن زیادہ کپڑوں والے اور عورتوں کے فیشن کم کپڑوں والے کیوں ہوتے ہیں؟ حالانکہ یہ نکتہ قابل غور ہے۔

مگر میں صرف اس مثبت اور اس منفی انداز کے حوالے سے اپنے خیالات کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہوں جو ہمارے ملک پر راج کرنے والی بھارتی فلم انڈسٹری ہم پر بارش کی طرح برسا رہی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ بھارت میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں نریندر مودی راج کرے گا یا بھارت کے لوگ ایک بار پھر اس سونیا گاندھی کو حکومت کرنے کا حق دیں گے جس نے کہا تھا کہ پاکستان بھارت کی کلچرل کالونی بن چکا ہے۔ میں اس بحث میں بھی حصہ لینا نہیں چاہتا کہ جس کلچر کو سونیا گاندھی کی کانگریس سیاست اپنا سب سے موثر اور مضبوط ہتھیار سمجھ رہی ہے اس ہتھیار سے بھارت کی تاریخی ثقافت ہر بار خودکشی کر رہی ہے۔ جس طرح علامہ اقبال نے لکھا ہے کہ:

تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی

شاخ نازک پہ بنے گا جو آشیانہ، ناپائیدار ہوگا

اس حوالے سے اب اس کا فیصلہ بھارت کے ادیبوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کو کرنا ہے کہ کنگنا رناوت اور عالیہ بھٹ کی پتلی کمر اور ترچھی نظر پر بنیاد رکھنے والا بھارت کا ثقافتی آشیانہ کس قدر مضبوط اور پائیدار ہے۔

دنیا میں تو ایسے ممالک ہیں جنہوں نے جنسی کاروبار کو اپنی ملک کی صنعت کا درجہ دے رکھا ہے۔ بھارت جس طرح انسانی نفسیات کے نازک پہلوئوں کو چھیڑتے ہوئے پوری دنیا میں اپنی فلم انڈسٹری کی مارکیٹ بنا رہا ہے، اس پر کم از کم ہمیں اپنا خیال پیش کرنے کا حق تو حاصل ہے۔ یہ بات بھارت کو بخوبی معلوم ہے کہ وہ کیا پانے کے لیے کیا کھو رہا ہے؟ بھارت ابھی تک اس گاندھی سے دستبردار نہیں ہوا جو کہا کرتا تھا کہ ''انسان کی سب سے بڑی حاصلات ایک سادہ زندگی ہے'' اور بھارت تو اس نہرو کے افکار کو بھی بھول چکا ہے جس نے اپنی کتاب ''تلاش ہند'' میں لکھا تھا کہ''ہم ایک ملک کے لیے نہیں بلکہ آدرش کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں'' مگر اب وہ سادگی اور وہ سچے آدرش والی بھارت کی تاریخی بے تابی کہاں گئی؟ ہمیں تو ایل ای ڈی اسکرین پر نظر آتی ہیں وہ تھرکتے ہوئے جسموں والی بھارتی ''مہیلائیں'' جو سپنوں کی سوداگر بن کر ہمیں وہ کچھ دے رہی ہیں جو جسم کے لیے تو لذت کا باعث بن سکتا ہے مگر روح کی پیاس کو نہیں مٹا سکتا۔

روح کو اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے ایسے سپنوں کے ساتھ ہمکنار کرے جس میں بے سکونی کا ایک سمندر موجزن ہو۔ کبھی بھارت کی سرزمین پر وہ ادب اور وہ آرٹ پیدا ہوا کرتا تھا جو انسان کی روحانی ترقی اور اس کی احساساتی بلندی اور اس کی جذباتی گہرائی کے سفر میں اس کا ساتھ دے سکے، مگر وہ دن ہوا ہوئے جب پسینہ گلاب تھا۔ اب بھارت کی میڈیا وہ عطر بیچ رہی ہے جس سے اس غریب بھارتی عوام کے پسینے کی بو آتی ہے جو انتہائی تذلیل والی زندگی جینے کے لیے مجبور ہیں۔ سڑکوں پر بیٹھے ہوئے وہ خاندان اور گٹروں میں سوئے ہوئے وہ بچے بھی تو اس بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جو بھارت صرف فلم انڈسٹری کے معرفت اپنا وہ رخ پیش کر رہی ہے جو اس کی اصل حقیقت نہیں۔

اس لیے مجھے بھارتی فلم انڈسٹری کے حوالے سے جلوہ گر ہونے والی اداکارائوں کے مختصر کپڑوں پر کوئی اعتراض نہیں، میں تو چاہتا ہوں کہ وہ مزید مختصر ہوں کہ حقیقت اور عیاں ہوجائے۔ لیکن مجھے صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ وہ اپنے مجموعی انداز سے جو پیغام دینا چاہتی ہے اس پہ ایک سطحی زندگی کا ایسا پیغام پنہاں ہے جو ہماری ذہنی نشوونما کے لیے زہر قاتل جیسا اثر رکھتا ہے۔ ہم نے جس ادب اور جس شاعری سے محرومی حاصل کی اور جس محرومی کے نتیجے میں ہمیں شوبز کا میڈیا ملا، اس میڈیا میں جب ہم اپنی زندگی کا حقیقی عکس نہیں دیکھتے تو بہت مایوس ہوجاتے ہیں۔ بھارت کی فلم انڈسٹری پھل پھول رہی ہے مگر اس کا پھلنا اور پھولنا اس غبارے جیسا ہے جو پھٹ جائے گا۔

اسی بھارتی فلم انڈسٹری نے ایسی فلمیں بھی دیں، جن میں اچھائی اور حسن کی پاکیزگی کا بہترین عکس موجود تھا۔ اس بھارتی فلم انڈسٹری نے ہمیں ایسے گیت بھی دیے جنہیں ہمیں بھارت کے ساتھ دشمنی کے باوجود محبت کے ساتھ گنگناتے تھے۔ اس بھارتی فلم انڈسٹری نے ایسے اداکار بھی فراہم کیے جن کی ذاتی زندگی کے تلخیاں ہمیں اداس کردیتی تھیں۔ دلیپ کمار جیسا ورسٹائل اداکار اور مدھو بالا جیسی خوبصورت اداکارہ دینے والا بھارت اس وقت اپنی فنی حیثیت سے جس طرح نیچے گر چکا ہے، اس کا وہ زوال ہمیں بھارت کے مجموعی زوال کی ایک جھلک فراہم کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان سپنوں کے بغیر سکون سے نہیں سو سکتا۔ پرسکون نیند کے لیے خواب ضروری ہے۔ مگر ہمیں میڈیا کے معرفت جو خواب مل رہے ہیں وہ خواب ایسے نہیں کہ انھیں خوبصورت کہا جائے اور ان خوابوں کے حوالے سے سوچا جائے اور انھیں اس طرح چاہا جائے جس طرح ایک مرد اپنے خوابوں کی شہزادی کو دین اور دل کی دنیا لٹا کر بھی چاہتا ہے۔ ایسی محبت ہمارے دل میں بھی بے قرار ہے مگر ہم اس کو ''سپنوں کے نقلی سوداگروں'' پر لٹانا نہیں چاہتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں