کچھ پل قاتلوں کے ساتھ…

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔۔۔

جیل کے ان گنت کرداروں میں میرے لیے ایک کردار قابل موضوع بنا، جسے عرف عام میں ''قاتل'' کہا جاتا ہے۔ انسانی جان کو بہ رضائے الٰہی بہ صورت روح قبض کرلینا۔ اﷲ تعالیٰ کے متعین کردہ قوانین کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ لیکن کسی انسان کو یہ حق کسی طرح بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی خودساختہ عدالت کے نتیجے میں کسی کی قیمتی جان کو تلف کرکے جواز پیدا کرلے۔

مختلف جرائم کے حوالے سے قیدیوں کی اسٹڈی کے دوران سب سے اہم قاتل قیدیوں کی نفسیات کو جاننا اور سمجھنا، میرے لیے بڑا دشوار کن مرحلہ تھا۔ یقینی طور پر کسی انسانی جان کے قاتل کے ساتھ گفتگو کرتے وقت اس کی سردمہری، درشتی اور سفاکیت ہی مجھے جھرجھری لینے پر مجبور کردیتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ کسی قاتل کی طبیعت، اس کے عمل سے قطعی طور پر جداگانہ ہوتی تھی اور عمل کے برخلاف اس کی نرم خوئی و ملنساری قابل حیران تھی۔

ایک قیدی نے اپنی بیوی کو ناجائز چال چلن کی بنیاد پر پنکھے سے لٹکا کر قتل کرڈالا، میں نے قیدی کے نحیف و نزار جسم کو دیکھتے ہوئے تو پہلے یہی اعتراض کیا کہ یار! تم اتنے کمزور جسم کے مالک ہو، بھلا تم نے کس طرح اپنی بیوی کا گلا دبایا ہوگا اور پھر اس کے مردہ جان کے جسم کو چھت پر لگے پنکھے سے لٹکا دیا ہوگا۔ اس کی سرد مسکراہٹ نے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ جب جذبات مغلوب ہوجاتے ہیں تو پھر طاقت کا طوفان جسم میں امڈ آتا ہے۔

اس قیدی نے بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو سمجھایا تھا کہ وہ اسے دھوکا نہ دے، لیکن اس نے اس کے اعتماد کو مجروح کیا اور بالآخر اس نے یہ بڑا فیصلہ کیا۔ اس قیدی نے یہ حیران کن بات بھی بتائی کہ اس نے بیوی کو قتل کرنے کے بعد شاہ فیصل کالونی میں ٹرین کے سامنے آکر خودکشی کی کوشش کی۔ شدید زخمی بھی ہوا لیکن موت نہیں آئی۔ میں نے محتاط لہجے میں دریافت کیا کہ کیا اسے اپنے عمل پر شرمندگی ہے؟ تو اس نے سختی سے سر ہلاکر کہا کہ نہیں۔ اگر اس کی دوسری بیوی بھی ایسا کرے گی تو وہ بھی اسی سلوک کی حقدار ہوگی۔ اتنے میں اذان کی آواز سنائی دی اور وہ سلام کرتا ہوا مسجد کی جانب بڑھ گیا۔

ایک قیدی نے دو سال سے زاید عرصہ جیل میں گزار دیا ہے اور ابھی تک اس کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے۔ خاموش طبع اور ایک کونے میں چپ چاپ رہنے والا یہ قیدی نسلاً برما قومیت سے تعلق رکھتا ہے۔ خشوع و خضوع کے ساتھ پنج وقتہ نماز، تہجد اور پابند صوم ہے۔ ہفتے میں مسلسل روزے رکھنا اس کے مشاغل میں شامل ہے۔ اس کو بتایا گیا تھا کہ قتل کے قصاص کے طور پر کچھ مہینے کے روزے واجب ہوجاتے ہیں تو اس نے پابندی کے ساتھ متواتر روزے رکھے۔ بیمار بھی پڑگیا، لیکن روزے پابندی سے رکھے۔

اس کے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ قتل جیسے سفاک الزام میں قید ہے۔ اس کی معصومیت دیکھ کر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا، لیکن جب اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس نے غیرت کے نام پر پہلے اس شخص کو قتل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بچ گیا۔ جب جیل سے رہا ہوا تو پھر کوشش کی اور اس بار کامیاب ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہ شخص اس کی بہن کو پریشان اور تنگ کیا کرتا تھا۔ میری شنوائی نہیں ہوئی تو پھر یہ انتہائی اقدام اٹھایا، اسے اس پر کوئی پشیمانی نہیں ہے۔


ایک قیدی جو نسلاً بنگالی تھا۔ اس پر دو افراد کے قتل کا الزام تھا۔ عموماً چہرے دھوکا دے جاتے ہیں۔ اس قیدی کو دیکھ کر بھی ایسا نہیں لگتا تھا کہ اس نے دہرا قتل کیا ہوگا۔ جب اس سے پوچھا کہ کیا واقعی تم نے یہ عمل کیا تو اس نے بچوں جیسی مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں جواب دیا۔ وجہ پوچھی تو بتایا کہ اس کی مخالف پارٹی کے لوگ تھے۔ رکشے اسٹینڈ پر جھگڑا ہوا، میرے بڑوں نے حکم دیا کہ انھیں مار دو اور میں نے انھیں ماردیا۔ میں حیران ہوا کہ بلا سوچے سمجھے؟ تو اس نے کہا کہ بس حکم تھا، سو مار دیا۔میں جھرجھری لے کر اٹھ گیا۔ میرے لیے یہ حیرانگی کی بات تھی کہ کیا کوئی صرف اس بات پر کسی انسان کی جان لے سکتا ہے کہ اسے اس کے ''بڑوں'' نے حکم دیا تھا۔ بلاسوچے سمجھے، قصور جانے، کسی انسان کی جان لے کر مطمئن زندگی گزارنا، میرے لیے اندوہناک تھا۔ میں پہلے یہ سب کچھ پڑھتا رہتا تھا، لیکن عملی طور پر یہ کردار میرے لیے ہولناک تھا۔

میری نظریں اب ایسے قیدیوں کی جانب تھیں، جو قتل کے الزام میں جھوٹ پر مبنی دعوے پر پابند سلاسل تھے۔ سرجانی ٹاؤن سے تعلق رکھنے والا ایک قیدی اب میرے سامنے تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اس مقدمے میں بے گناہ ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ گلشن اقبال میں قتل ہونے والے واقعے میں ایک بااثر سیاسی کارکن ملوث تھا۔ اس نے میڈیا کے سامنے اقرار بھی کیا اور ایک چینل کے پروگرام میں اپنا جرم بھی قبول کیا۔ اس قیدی نے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ اس کلپ کو دکھایا تو اس میں ایک شخص مکمل تفصیل کے ساتھ پورے واقعے کو دہرا رہا تھا۔

میں نے پوچھا کہ یہ کون سی جیل میں قید ہے تو اس نے بتایا کہ اس نے مدعیوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر اسے شناخت کیا تو وہ ان کی نسل مٹا دے گا۔ جس کے بعد مدعی نے عدالت میں اسے شناخت کرنے سے انکار کردیا۔ وہ قاتل رہا ہوگیا اور پولیس نے نئے چالان میں مجھے نامزد کردیا۔ اب لاکھ میں چلاتا ہوں، لیکن ایک سال سے قید ہوں، میری کوئی شنوائی نہیں ہے۔ میں نے وہ ویڈیو کلپ بھی عدالت میں جمع کروایا، لیکن میری کوئی دادرسی نہیں ہے۔

جیل میں مختلف نظریات، اور سیاسی اختلافات رکھنے والے ایسے قیدیوں سے تفصیلاً گفتگو ہوئی جس میں انھوں نے غصے یا علاقوں میں قبضے کی جنگ میں قیمتی جانوں کو نقصان پہنچایا۔ آج ان میں بیشتر اپنے عمل سے شرمندہ بھی نظر آتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ جب کہ بیشتر ایسے قیدی بھی ہیں کہ انھیں اپنے عمل سے کوئی پریشانی نہیں۔ مختصراً احوال یہ ہے کہ میں نے بڑی تعداد میں ایسے قاتل قیدی دیکھے جو پیسوں اور اثر و رسوخ پر باآسانی رہا ہوجاتے تھے اور ایسے قیدی بھی دیکھے جو خود کو بے گناہ قرار دیتے تھے۔

چونکہ عدالتی نظام انتہائی سست روی پر قائم ہے اس لیے اس کرپٹ نظام میں گناہ گار اور بے گناہ کا فیصلہ ہونا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے، اسی طرح انصاف کے حصول کے لیے متاثرہ خاندان کو آگ کے شعلوں پر چل کر جانا ہوتا ہے اور اپنے پیاروں سے مستقل دوری کے بعد، انھیں خود اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ شاذ و نادر ہی کسی مظلوم کو انصاف میسر آتا ہے، یا پھر میڈیا کسی واقعے کو اتنا اچھالتا ہے کہ عدالتیں مجبور ہوکر فیصلے دیتی ہیں۔ میرٹ پر چلنے والے مقدمات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن قاتل قیدیوں سے ملنے کے بعد ایک تاثر ضرور قائم ہوا کہ قاتلوں کو سزا کا خوف نہیں ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سزائے موت کا قانون موجود ہے، بیشتر ممالک میں سعودی عرب، ایران، مصر، عراق میں سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد برسوں سے نہیں کیا جا رہا۔ سیکڑوں کی تعداد میں سزا پانے والے مجرم جیلوں میں سانسیں لے کر قانون کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ سزائے موت کا قانون فطرت اور قانون الٰہیہ ہے کہ ''جان کے بدلے جان'' میں ہی معاشرے کی ہمواری کی بنیاد ہے۔

سزائے موت کے قانون پر عملدرآمد کو بیرونی مغربی ممالک کے دباؤ اور اندرونی سیاسی مذہبی دباؤ پر موخر رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاتلوں کو موت کے بدلے موت کا ڈر نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ جیلوں میں رہ کر خود کو محفوظ ہی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ کسی کی جان لینے کے بعد، اسے اپنی جان دینے کا خوف ہوتا ہے۔ قصاص کا قانون معاشرے کے احیا کے لیے ہے۔ سزائے موت پر عملدرآمد کرانا ریاست کی اخلاقی و اسلامی ذمے داری ہے۔
Load Next Story