گنڈا سنگھ بارڈر چند گزارشات
پرچم اتارنے کی تقریب میں عوام کی بھرپور شرکت پاک فوج اور عوام کے درمیان لازوال رشتے کا منہ بولتا ثبوت ہے
''لکی ایرانی سرکس یا پھر گنڈا سنگھ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب؟'' روانگی کے عین وقت میزبان کا یہ سوال بے معنی سا لگا۔
''گنڈا سنگھ بارڈر'' میں نے اپنے ساتھی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ''لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ لکی ایرانی سرکس دیکھ لیں کیونکہ آج بارڈر پر بے پناہ رش ہوگا اور ڈنڈے بھی پڑ سکتے ہیں۔'' ہمارے میزبان نے مشورہ دیا۔
''بھائی جب ہم قانون نہیں توڑیں گے تو ہمیں ڈنڈے کیوں پڑیں گے؟'' میں نے پریقین لہجے میں جواب دیا۔ اور یوں کچھ دیر بعد ہم قصور سے 15/20 کلومیٹر دور گنڈا سنگھ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے کےلیے رواں دواں تھے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ یہ گزشتہ ماہ عید کا دن تھا جب ہم چند دوست قصور میں گندگی کے ڈھیر سے اٹے اور بنیادی سہولیات سے عاری رشید گارڈن میں واقع اپنے مشترکہ دوست کی رہائش گاہ پر مدعو تھے۔ جہاں بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب میں جانے کا پروگرام بن گیا۔
ہمارے علاوہ بھی لوگ چھوٹے چھوٹے قافلوں میں بارڈر کی جانب رواں دواں تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر دو برس قبل شارجہ میں ہونے والی نیو ایئر نائٹ کی تقریب یاد آگئی، جس میں شمولیت کےلیے جب گھر نکلا تو عوام کا جم غفیر وینیو کی جانب رواں دواں تھا۔
پریڈ گرؤانڈ پہنچنے تک ہمیں تین سے چار جگہ تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ہر جگہ لمبی قطاریں تھیں۔ ہمارے میزبان نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر چیک پوسٹ پر موجود اہلکار سے یہ کہہ کر قطار بائی پاس کرنے کی اجازت حاصل کی کہ یہ بیرون ملک سے آئے ہوئے ہمارے مہمان ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں کی خصوصی شفقت کی بدولت ہم بغیر کسی انتظار کے تقریب سے تقریباً 45 /50 منٹ قبل پویلین میں پہنچ گئے۔ مگر ہاؤس فل ہوچکا تھا، تھوڑی تگ و دو کے بعد ہمیں کھڑے ہونے کی جگہ مل ہی گئی۔
منتظمین کی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرتی یہ ایک شاندار تقریب تھی۔ پنجاب رینجرز کے کڑیل جوانوں کا جذبہ قابل دید تھا۔ پاکستان زندباد، پاک فوج پائندہ باد کے نعروں سے گونجتی فضا خون گرما رہی تھی۔ شام چھ بجے تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
پرچم اتارنے کی تقریب ہر روز منعقد ہوتی ہے مگر عوام کی بھرپور انداز میں شرکت پاک فوج اور عوام کے درمیان لازوال رشتے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گنڈا سنگھ اور واہگہ بارڈر پر ہر روز ہونے والی تقریبات میں عوام کی بھرپور شمولیت ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو پاک فوج اور عوام کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر بغیر کسی ہلڑ بازی کے عوام منتشر ہوگئے۔ اس پلٹ فارم کے توسط سے حکام بالا کی خدمت میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
1۔ گنڈا سنگھ بارڈر پر واقع پویلین کو توسیع دی جائے۔ جس قدر بڑی تعداد میں لوگ اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں اس لحاظ سے یہ پویلین بہت چھوٹا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ ہم تقریب شروع ہونے چالیس پینتالیس منٹ قبل ہی پہنچ گئے تھے، مگر پھر بھی ہمیں بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی، بمشکل کھڑے ہوسکے اور پھر تقریبا دو گھنٹے دھرتی کی محبت میں کھڑے ہوکر گزارے۔ یہ ہمارا حال تھا تو ان لوگوں پر کیا بیتی ہوگی جنہیں ہم لمبی قطاروں میں چھوڑ آئے تھے۔
2۔ گنڈا سنگھ بارڈر پر تقریب میں شرکت کےلیے آنے والوں کے طہارت کی سہولیات ناکافی ہیں۔ مرد و خواتین کےلیے سہولیات سے عاری ایک ہی طہارت خانہ ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ براہِ کرم مرد و خواتین کےلیے سہولیات سے مزین الگ، الگ طہارت خانے تعمیر کیے جائیں اور اس میں کموڈ کی سہولت بھی ہو۔
3۔نماز کےلیے ایک چھوٹی سی مسجد، جو شاید تقسیم ہند کے وقت تعمیر کی گئی تھی بمعہ پانی کی سہولت موجود ہے، مگرجس قدر بڑی تعداد میں عوام تقریب میں شامل ہوتے ہیں، اس لحاظ سے یہ مسجد ناکافی ہے۔ اس لیے بڑی اور سہولیات سے مزین مسجد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ (تقریب چھ بجے تک ختم ہوئی جس کے بعد عوام کی اکثریت نے طہارت خانوں اور مسجد کا رخ کیا)
اور آخر میں ایک مشورہ: پویلین کی توسیع، مرد و خواتین کےلیے الگ، الگ طہارت خانوں کی تعمیر اور مسجد کی تعمیر کےلیے اگر فنڈز کی کمی کا سامنا ہو تو سروس چارجز کی مد میں تقریب میں شمولیت کرنے والوں سے 10 سے 20 روپے تک وصول کرلیے جائیں تو غالب گمان ہے کہ مسئلہ باآسانی حل ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''گنڈا سنگھ بارڈر'' میں نے اپنے ساتھی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ''لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ لکی ایرانی سرکس دیکھ لیں کیونکہ آج بارڈر پر بے پناہ رش ہوگا اور ڈنڈے بھی پڑ سکتے ہیں۔'' ہمارے میزبان نے مشورہ دیا۔
''بھائی جب ہم قانون نہیں توڑیں گے تو ہمیں ڈنڈے کیوں پڑیں گے؟'' میں نے پریقین لہجے میں جواب دیا۔ اور یوں کچھ دیر بعد ہم قصور سے 15/20 کلومیٹر دور گنڈا سنگھ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب دیکھنے کےلیے رواں دواں تھے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ یہ گزشتہ ماہ عید کا دن تھا جب ہم چند دوست قصور میں گندگی کے ڈھیر سے اٹے اور بنیادی سہولیات سے عاری رشید گارڈن میں واقع اپنے مشترکہ دوست کی رہائش گاہ پر مدعو تھے۔ جہاں بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب میں جانے کا پروگرام بن گیا۔
ہمارے علاوہ بھی لوگ چھوٹے چھوٹے قافلوں میں بارڈر کی جانب رواں دواں تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر دو برس قبل شارجہ میں ہونے والی نیو ایئر نائٹ کی تقریب یاد آگئی، جس میں شمولیت کےلیے جب گھر نکلا تو عوام کا جم غفیر وینیو کی جانب رواں دواں تھا۔
پریڈ گرؤانڈ پہنچنے تک ہمیں تین سے چار جگہ تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ ہر جگہ لمبی قطاریں تھیں۔ ہمارے میزبان نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر چیک پوسٹ پر موجود اہلکار سے یہ کہہ کر قطار بائی پاس کرنے کی اجازت حاصل کی کہ یہ بیرون ملک سے آئے ہوئے ہمارے مہمان ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں کی خصوصی شفقت کی بدولت ہم بغیر کسی انتظار کے تقریب سے تقریباً 45 /50 منٹ قبل پویلین میں پہنچ گئے۔ مگر ہاؤس فل ہوچکا تھا، تھوڑی تگ و دو کے بعد ہمیں کھڑے ہونے کی جگہ مل ہی گئی۔
منتظمین کی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرتی یہ ایک شاندار تقریب تھی۔ پنجاب رینجرز کے کڑیل جوانوں کا جذبہ قابل دید تھا۔ پاکستان زندباد، پاک فوج پائندہ باد کے نعروں سے گونجتی فضا خون گرما رہی تھی۔ شام چھ بجے تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
پرچم اتارنے کی تقریب ہر روز منعقد ہوتی ہے مگر عوام کی بھرپور انداز میں شرکت پاک فوج اور عوام کے درمیان لازوال رشتے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ گنڈا سنگھ اور واہگہ بارڈر پر ہر روز ہونے والی تقریبات میں عوام کی بھرپور شمولیت ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو پاک فوج اور عوام کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر بغیر کسی ہلڑ بازی کے عوام منتشر ہوگئے۔ اس پلٹ فارم کے توسط سے حکام بالا کی خدمت میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں:
1۔ گنڈا سنگھ بارڈر پر واقع پویلین کو توسیع دی جائے۔ جس قدر بڑی تعداد میں لوگ اس تقریب میں شرکت کرتے ہیں اس لحاظ سے یہ پویلین بہت چھوٹا ہے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ ہم تقریب شروع ہونے چالیس پینتالیس منٹ قبل ہی پہنچ گئے تھے، مگر پھر بھی ہمیں بیٹھنے کی جگہ نہ مل سکی، بمشکل کھڑے ہوسکے اور پھر تقریبا دو گھنٹے دھرتی کی محبت میں کھڑے ہوکر گزارے۔ یہ ہمارا حال تھا تو ان لوگوں پر کیا بیتی ہوگی جنہیں ہم لمبی قطاروں میں چھوڑ آئے تھے۔
2۔ گنڈا سنگھ بارڈر پر تقریب میں شرکت کےلیے آنے والوں کے طہارت کی سہولیات ناکافی ہیں۔ مرد و خواتین کےلیے سہولیات سے عاری ایک ہی طہارت خانہ ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ براہِ کرم مرد و خواتین کےلیے سہولیات سے مزین الگ، الگ طہارت خانے تعمیر کیے جائیں اور اس میں کموڈ کی سہولت بھی ہو۔
3۔نماز کےلیے ایک چھوٹی سی مسجد، جو شاید تقسیم ہند کے وقت تعمیر کی گئی تھی بمعہ پانی کی سہولت موجود ہے، مگرجس قدر بڑی تعداد میں عوام تقریب میں شامل ہوتے ہیں، اس لحاظ سے یہ مسجد ناکافی ہے۔ اس لیے بڑی اور سہولیات سے مزین مسجد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ (تقریب چھ بجے تک ختم ہوئی جس کے بعد عوام کی اکثریت نے طہارت خانوں اور مسجد کا رخ کیا)
اور آخر میں ایک مشورہ: پویلین کی توسیع، مرد و خواتین کےلیے الگ، الگ طہارت خانوں کی تعمیر اور مسجد کی تعمیر کےلیے اگر فنڈز کی کمی کا سامنا ہو تو سروس چارجز کی مد میں تقریب میں شمولیت کرنے والوں سے 10 سے 20 روپے تک وصول کرلیے جائیں تو غالب گمان ہے کہ مسئلہ باآسانی حل ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔