میڈیا کا بحران اور ممکنہ نتائج
میڈیا میں آج کے عالمی کارپوریٹ ماڈل میں سب سے زیادہ ’’ ذمے دارانہ میڈیا ‘‘ پر مباحث یا علمی و فکری مکالمہ نظر آتا ہے
بقول معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض:
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھوسکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے
پاکستان کے میڈیا میں جہاں نئی جہتیں آرہی ہیں وہیں وہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر نئی طرز کی مشکلوں کا شکار بھی ہے۔اگرچہ پاکستانی میڈیا کی ایک تاریخ ہے جہاں اس نے خبر کے بارے میں سچائی کو بنیاد بنایا وہیں اس کی سیاسی ، جمہوری ، آئینی اور قانونی جدوجہد سمیت عام آدمی کے حقوق کی جنگ بھی شامل ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہم نے میڈیا کے محاذ پر اپنی ایک شفافیت پر مبنی ساکھ بھی قائم کی ہوئی تھی۔ لیکن اب میڈیا میں جو مسائل ہیں اس کی بنیاد پر بہت سے نئے سوالات بھی جنم لے رہے ہیں اور میڈیا کی نظریاتی اساس کے مقابلے میں اب کمرشل ازم کو زیادہ بالادستی حاصل ہوگئی ہے ۔
ڈاکٹرتوصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز بنیادی طو رپر میڈیا کے استاد ہیں اور کئی دہائیوں سے صحافتی تعلیم سے وابستہ ہیں۔ دونوں استاد عملاً نہ صرف تدریس کے پیشہ سے واستہ ہیں بلکہ ملک میں انسانی حقوق، جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی اور محروم طبقات کی جنگ میں بھی فعالیت کے ساتھ مصروف نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان کئی دہائیوں سے کالم نگاری بھی کرتے ہیں اور ان ہی صفحات پر ہم ان کے کالم بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں ۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے خود کو محض استاد یا پڑھانے تک محدود نہیں رکھا بلکہ میڈیا کے محاذ پر عالمی ، علاقائی اور داخلی سطح پر اٹھنے والی تحریکوں ، نئے مباحث سمیت نئی جہتوں پر مکالمہ کو فروغ دیا اور مباحث کے نئے دروازوں کو کھولا ہے۔
پچھلے دنوں حالیہ میڈیا کے بحران کے تناظر میں مجھے ان کی کتاب '' پاکستان میں میڈیا کا بحران '' کو پڑھنے کا موقع ملا۔کمال کی کتاب ہے اور اس میں حالیہ پاکستانی میڈیا کے جو مسائل ہیں یا جو امکانات ہیں ان کو سمجھنے میں نہ صرف کافی مدد ملتی ہے بلکہ نئے امکانات اور نئی جہتوں کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔
پہلے باب میں میڈیا کا بحران ، باب دوئم پاکستان میں میڈیا سے متعلق حقایق و اہم واقعات ، باب سوئم میڈیا کے لیے قوانین اور ریاستی سطح پر موجود ادارے ، چہارم صحافیوں کی رائے و تجزیے شامل ہیں۔ کتاب بنیادی طور پر جہاں مختلف قوانین کا جائزہ لیتی ہے وہیں وہ جو بھی موجود قوانین ہیں ان کی موجودگی میں جو عملدرآمد کا نظام ہے ان کے تلخ حقایق سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔
بقول ڈاکٹر توصیف احمد خان کے '' پاکستان کی 74برسوں پر مشتمل تاریخ و زرایع ابلاغ کو ریاستی بیانیہ کی ترویج کرنے پر مجبور کرنے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، جمہوریت کی پاسداری اور مظلوم طبقات کے حقوق کے دفاع کے بیانیہ کی اشاعت کو روکنے کی تاریخ ہے ۔مگر گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ذرایع ابلاغ پر نظر آنے والی پابندیوں اور ذرایع ابلاغ کو معاشی طور پر عملا مفلوج کرنے کی ریاستی پابندیوں نے میڈیا کے اداروں کے لیے ایک ایسا بحران پیدا کردیا ہے۔
اسی طرح بقول ڈاکٹر عرفان عزیز کے اہم سوال یہ تھا کہ کیسے میڈیا کی صنعت کمزور ہوتی جارہی ہے اور جو لوگ میڈیا سے عملی طو رپر وابستہ ہیں ان کے لیے حالات معاشی طو رپر بھی اور آزادی اظہار کے تناظر میں بھی سازگار نہیں اور نہ ہی اب اس صنعت میں نئے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔
سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ''صحافیوں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ جن میں حکومتی موقف کی حمایت اور طاقت ور حلقوں کے مفاد تحفظ میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کو مختلف ترغیبات یا آسانیاں دستیاب ہیں تو دوسری جانب غیر جانبدارانہ اور معروضی حقایق پر مبنی صحافت کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے برداشت اور کام کرنے کی گنجائش میں مسلسل کمی آرہی ہے ۔''
معروف صحافی ضیا الدین کے بقول ''وہ لوگ جو عملی بنیادوں پر میڈیا کو ریاست کے مکمل کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں اور اس پر مکمل قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں وہ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ میڈیا بنیادی طور پر ایک سروس انڈسٹری ہے جس کا کام سچائی کی تلاش ہے ۔''
معروف صحافی مظہر عباس کے بقول '' اس وقت میڈیا ان دونوں طرح کے بحرانوں سے گزررہا ہے۔ صحافی کمزور اور تقسیم نظر آتے ہیں اور لڑانے والے پہلے سے زیادہ متحد اور مضبوط ہوچکے ہیں۔
ہر چند سال بعد ایک نیا قانون متعارف کرواکر میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔''اسی طرح معروف صحافی اشعر رحمان کے بقول ''آج پاکستان میں صحافت اپنے اندر کے جنوں سے نبردآزما ہے ، جب کہ ساتھ ساتھ آزادی اظہار کی لڑائی بھی زوروں پر ہے ، صحافیوں کی درینہ ٹریڈ یونین کا ماضی کا دبدبہ بھی اب باقی نہیں رہا۔ ان کے بقو ل ماضی کا جائزہ لیے بغیر مستقبل کی حکمت عملی خطرناک نتائج مرتب کرسکتی ہے ۔''
میڈیا میں آج کے عالمی کارپوریٹ ماڈل میں سب سے زیادہ '' ذمے دارانہ میڈیا '' پر مباحث یا علمی و فکری مکالمہ نظر آتا ہے ۔لیکن ہمارے رسمی یا غیر رسمی میڈیا یا میڈیا کی تعلیم سے جڑے اداروں میں یہ مکالمہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے ۔جو نئی نئی بحثیں میڈیا کی جہتوں کے تناظر میں سامنے آرہی ہیں ان سے بھی ہم خود کو لاعلم رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز کی یہ کتاب قابل قدر ہے اور میڈیا سے جڑے ہر طالب علم اور تعلیمی اداروں کو اس سے ضرور استفادہ حاصل کرنا چاہیے تاکہ میڈیا کے بحران سے جڑی بحثوں کو نئے امکانات میں تبدیل کیا جاسکے ۔کیونکہ فکری آزادی ہی قوموں میں سچائی کی تلاش کی کنجی ہوتی ہے اوراس کے بغیر جمہوری معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ۔
کچھ لوگ تمہیں سمجھائیں گے
وہ تم کو خوف دلائیں گے
جو ہے وہ بھی کھوسکتا ہے
اس راہ میں رہزن ہیں اتنے
کچھ اور یہاں ہو سکتا ہے
پاکستان کے میڈیا میں جہاں نئی جہتیں آرہی ہیں وہیں وہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر نئی طرز کی مشکلوں کا شکار بھی ہے۔اگرچہ پاکستانی میڈیا کی ایک تاریخ ہے جہاں اس نے خبر کے بارے میں سچائی کو بنیاد بنایا وہیں اس کی سیاسی ، جمہوری ، آئینی اور قانونی جدوجہد سمیت عام آدمی کے حقوق کی جنگ بھی شامل ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہم نے میڈیا کے محاذ پر اپنی ایک شفافیت پر مبنی ساکھ بھی قائم کی ہوئی تھی۔ لیکن اب میڈیا میں جو مسائل ہیں اس کی بنیاد پر بہت سے نئے سوالات بھی جنم لے رہے ہیں اور میڈیا کی نظریاتی اساس کے مقابلے میں اب کمرشل ازم کو زیادہ بالادستی حاصل ہوگئی ہے ۔
ڈاکٹرتوصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز بنیادی طو رپر میڈیا کے استاد ہیں اور کئی دہائیوں سے صحافتی تعلیم سے وابستہ ہیں۔ دونوں استاد عملاً نہ صرف تدریس کے پیشہ سے واستہ ہیں بلکہ ملک میں انسانی حقوق، جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی اور محروم طبقات کی جنگ میں بھی فعالیت کے ساتھ مصروف نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان کئی دہائیوں سے کالم نگاری بھی کرتے ہیں اور ان ہی صفحات پر ہم ان کے کالم بھی باقاعدگی سے پڑھتے ہیں ۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے خود کو محض استاد یا پڑھانے تک محدود نہیں رکھا بلکہ میڈیا کے محاذ پر عالمی ، علاقائی اور داخلی سطح پر اٹھنے والی تحریکوں ، نئے مباحث سمیت نئی جہتوں پر مکالمہ کو فروغ دیا اور مباحث کے نئے دروازوں کو کھولا ہے۔
پچھلے دنوں حالیہ میڈیا کے بحران کے تناظر میں مجھے ان کی کتاب '' پاکستان میں میڈیا کا بحران '' کو پڑھنے کا موقع ملا۔کمال کی کتاب ہے اور اس میں حالیہ پاکستانی میڈیا کے جو مسائل ہیں یا جو امکانات ہیں ان کو سمجھنے میں نہ صرف کافی مدد ملتی ہے بلکہ نئے امکانات اور نئی جہتوں کو بھی سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔
پہلے باب میں میڈیا کا بحران ، باب دوئم پاکستان میں میڈیا سے متعلق حقایق و اہم واقعات ، باب سوئم میڈیا کے لیے قوانین اور ریاستی سطح پر موجود ادارے ، چہارم صحافیوں کی رائے و تجزیے شامل ہیں۔ کتاب بنیادی طور پر جہاں مختلف قوانین کا جائزہ لیتی ہے وہیں وہ جو بھی موجود قوانین ہیں ان کی موجودگی میں جو عملدرآمد کا نظام ہے ان کے تلخ حقایق سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔
بقول ڈاکٹر توصیف احمد خان کے '' پاکستان کی 74برسوں پر مشتمل تاریخ و زرایع ابلاغ کو ریاستی بیانیہ کی ترویج کرنے پر مجبور کرنے اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، جمہوریت کی پاسداری اور مظلوم طبقات کے حقوق کے دفاع کے بیانیہ کی اشاعت کو روکنے کی تاریخ ہے ۔مگر گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ذرایع ابلاغ پر نظر آنے والی پابندیوں اور ذرایع ابلاغ کو معاشی طور پر عملا مفلوج کرنے کی ریاستی پابندیوں نے میڈیا کے اداروں کے لیے ایک ایسا بحران پیدا کردیا ہے۔
اسی طرح بقول ڈاکٹر عرفان عزیز کے اہم سوال یہ تھا کہ کیسے میڈیا کی صنعت کمزور ہوتی جارہی ہے اور جو لوگ میڈیا سے عملی طو رپر وابستہ ہیں ان کے لیے حالات معاشی طو رپر بھی اور آزادی اظہار کے تناظر میں بھی سازگار نہیں اور نہ ہی اب اس صنعت میں نئے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔
سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ''صحافیوں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ جن میں حکومتی موقف کی حمایت اور طاقت ور حلقوں کے مفاد تحفظ میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کو مختلف ترغیبات یا آسانیاں دستیاب ہیں تو دوسری جانب غیر جانبدارانہ اور معروضی حقایق پر مبنی صحافت کرنے والے افراد اور اداروں کے لیے برداشت اور کام کرنے کی گنجائش میں مسلسل کمی آرہی ہے ۔''
معروف صحافی ضیا الدین کے بقول ''وہ لوگ جو عملی بنیادوں پر میڈیا کو ریاست کے مکمل کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں اور اس پر مکمل قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں وہ اس حقیقت کو نظر انداز کررہے ہیں کہ میڈیا بنیادی طور پر ایک سروس انڈسٹری ہے جس کا کام سچائی کی تلاش ہے ۔''
معروف صحافی مظہر عباس کے بقول '' اس وقت میڈیا ان دونوں طرح کے بحرانوں سے گزررہا ہے۔ صحافی کمزور اور تقسیم نظر آتے ہیں اور لڑانے والے پہلے سے زیادہ متحد اور مضبوط ہوچکے ہیں۔
ہر چند سال بعد ایک نیا قانون متعارف کرواکر میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔''اسی طرح معروف صحافی اشعر رحمان کے بقول ''آج پاکستان میں صحافت اپنے اندر کے جنوں سے نبردآزما ہے ، جب کہ ساتھ ساتھ آزادی اظہار کی لڑائی بھی زوروں پر ہے ، صحافیوں کی درینہ ٹریڈ یونین کا ماضی کا دبدبہ بھی اب باقی نہیں رہا۔ ان کے بقو ل ماضی کا جائزہ لیے بغیر مستقبل کی حکمت عملی خطرناک نتائج مرتب کرسکتی ہے ۔''
میڈیا میں آج کے عالمی کارپوریٹ ماڈل میں سب سے زیادہ '' ذمے دارانہ میڈیا '' پر مباحث یا علمی و فکری مکالمہ نظر آتا ہے ۔لیکن ہمارے رسمی یا غیر رسمی میڈیا یا میڈیا کی تعلیم سے جڑے اداروں میں یہ مکالمہ کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے ۔جو نئی نئی بحثیں میڈیا کی جہتوں کے تناظر میں سامنے آرہی ہیں ان سے بھی ہم خود کو لاعلم رکھتے ہیں ۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر عرفان عزیز کی یہ کتاب قابل قدر ہے اور میڈیا سے جڑے ہر طالب علم اور تعلیمی اداروں کو اس سے ضرور استفادہ حاصل کرنا چاہیے تاکہ میڈیا کے بحران سے جڑی بحثوں کو نئے امکانات میں تبدیل کیا جاسکے ۔کیونکہ فکری آزادی ہی قوموں میں سچائی کی تلاش کی کنجی ہوتی ہے اوراس کے بغیر جمہوری معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ۔