’’جو رشتہ نہ سنبھلے چھوڑ دو۔۔۔‘‘
’سوشل میڈیا‘ پر جذبات کے اظہار کو متوازن رکھنا ضروری ہے
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر خواتین کی ایک بہت بڑی ایسی تعداد موجود ہے، جو یہاں کھانا پکانے سے لے کر باغ بانی، گھریلو ٹوٹکے، بناؤ سنگھار جیسے بے شمار موضوعات پر نہ صرف لکھتی ہیں، بلکہ ان موضوعات پر ان کی ماہرانہ رائے کو پسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے سیاسی اور سماجی مسائل پر مبنی بے لاگ اظہار والی گفتگو بھی بہت مقبول اور فیس بک کی زبان میں 'وائرل' بھی ہو جاتی ہے۔ ان کی پوسٹ پر مرد و زن کی بڑی تعداد نہ صرف انھیں سراہتی ہے، بلکہ ان کے مخصوص بیانیے کی وجہ سے اکثر صحت مند مکالمے کی فضا بھی بنتی دیکھی گئی ہے۔
فیس بک خواتین کے لیے سودمند اس طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنے وہ خیالات جن کا براہ راست اظہار یا اقرار کرنے میں وہ دشواری کا سامنا محسوس کرتی ہیں یا رشتوں سے منسلک تعلق میں خوش گواریت یا نا خوشگواریت پر براہ راست جب وہ بول نہیں پاتیں، تو فیس بک پر ڈھکے چھپے انداز میں لکھ کر اپنا دل ہلکا کر لیتی ہیں۔
گویا یہ من کی بات باہر لانے یا اپنی بھراس نکالنے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آپ اپنے دل کی بات کو کہانی کی شکل میں فرضی ناموں کے ذریعے بھی اس پلیٹ فارم پر پوسٹ کر کے اپنے وسیع حلقہ احباب کے سامنے رکھ کر ذہنی دباؤ سے نکل سکتی ہیں۔
ایسی پوسٹ پر مرد و زن کا جم غفیر اپنے ہمدردانہ رویے یا مخلص رائے زنی سے انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ اور یوں کسی حد تک زہنی بوجھ کم ہو جاتا ہے، لیکن یہ بات بھی اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثریتی خواتین جب رشتوں کے حوالے سے پوسٹ لکھتی ہیں تو ان کا انداز بیاں بڑا ہی کاٹ دار، تلخ، نفرت آمیز ہو جاتا ہے۔
وہ اکثر اپنی پوسٹس میں رشتوں خو ترک کرنے کے حوالے سے انتہائی خیالات کا دھڑلے سے پرچار کرتی پائی جاتی ہیں!
حیرت ہے ایسے لکھنے والوں پر، جو ہر چیز کا حل چھوڑ دینے میں ڈھونڈتے اور بتاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو ان کی تائید میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، لیکن جو ان کی ایسی پوسٹ کی مخالفت میں رائے دیں یا تو اس کا تبصرہ حذف کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ 'بلاک' کر دیا جاتا ہے۔ گویا اپنے موقف کے برخلاف بات سننا یہ گوارا نہیں کرتیں... حالاں کہ ایسے موضوع پر انتہا پسندی دکھانی کہاں کی عقل مندی ہے؟
دیکھا جائے تو، ہماری اس دنیا میں دو طرح کے رشتے ہیں، ایک وہ رشتہ جو اللہ نے بنایا جو حقیقی یا خونی رشتہ کہلاتا ہے۔
اس رشتے کا انتخاب آپ کا اپنا نہیں ہوتا۔ ان میں ماں باپ، ننھیال، ددھیال، بہن بھائی ہی دراصل آپ کی اصل پہچان ہوتے ہیں۔ بھلا ناخن سے 'ماس' کیسے جدا ہو سکتا ہے کہ جتنی مرضی فاصلے حائل ہو جائیں، آپ بھلے خوشی میں پہنچ نہ پائیں لیکن ان کی ذرا سی تکلیف سن کر ہی آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے جھلملانے لگتی ہیں اور دل ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے۔ آپ جس حال میں بھی ہوں، فورا وہاں پہنچتے ہیں۔
دوسرا وہ رشتہ ہے، جس کو بنانے بگاڑنے کا مکمل اختیار آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس میں بیوی اور دوست احباب شامل ہوتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
اس لیے کسی بھی رشتے کا ساتھ نبھانے یا زندگی گزارنے کے لیے شرطیں نہیں باندھی جا سکتیں، اس لیے ہماری 'سوشل میڈیا' پر بیٹھی ہوئی خواتین کو یہ بات سیکھنی پڑے گی کہ انسانوں کے مابین رشتے اللہ کا عطا کردہ ہو یا انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے ہوں۔
ان کو چلانے اور سنبھالنے کے لئے وقت، توجہ اور قربانی دینی پڑتی ہے، کیوں کہ یہ رشتوں میں بنیادی اساس کا کردار ادا کرتے ہیں، جس پر ہر رشتے کا بنیادی ڈھانچا کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر آپ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کام یاب نہیں ہو سکتے۔
اپنے ذہنی سکون کی خاطر 'رشتے چھوڑ دو کا درس' دینے والوں سے کوئی پوچھے کہ بھلا ایک بیوی خاوند کو چھوڑ دے تو کیا سکون سے رہ سکتی ہے؟ کیا بہن، بھائی کو چھوڑ دے یا اولاد ماں باپ کو چھوڑ دیے، تو کیا ذہنی سکون قائم رکھا جا سکتا ہے؟
اگر ٹھنڈے دل سے یہ اپنی ہی بات کا تجزیہ کریں تو شاید ایسی تجاویز پر عمل درآمد کرنا ان کے لیے بھی آسان نہ ہوگا۔۔۔۔
ہماری بدقستی یہ ہے کہ ایسی جارحانہ اور چٹ پٹی مسالے دار باتیں 'اسکرین' پر زیادہ مشہور ہو جاتی ہیں تو یہ چیز انھیں متنازع بات لکھنے میں اکساتی ہے۔
حالاں کہ ایسی خواتین دفتر میں کام کرتی ہوئی کسی بھی خاتون کو یہ مشورہ دیتی ہوئی نظر نہیں آتیں کہ اگر وہاں افسر یا 'باس' سخت، اکھڑ مزاج اور درشت ہے تو استعفا دے ڈالو۔۔۔ لیکن جن رشتوں کے ساتھ ہماری خاندانی اور سماجی بقا جڑی ہوئی ہے، ان سے قطع تعلقی کی تلقین بہت آسانی سے کر دی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
میری نظر میں ایسے لوگ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم، ہمارا گھر اور صرف ہمارے بچے۔۔۔ یقین کریں ایسے گیان بانٹنے والے ''فیس بکی فلسفی' حقیقی زندگی میں تنہا رہ جاتے ہیں۔ ان کے اپنے آپ میں کہیں ایک خلا باقی رہ جاتا ہے، کیوں کہ قطع تعلقی تو انسان کو مزید تنہا کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا ڈپریشن اور ذہنی تناؤ پہلے سے دگنا ہو جاتا ہے۔
آپ چاہے 'فیس بک' پر پوسٹ لکھ کر ان رشتوں کو جتنا مرضی برا قرار دیں، لیکن درحقیقت یہی قریبی رشتے داروں ہی میں سے آپ کے دکھ سکھ میں سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچنے والے ہوتے ہیں۔ آپ کا دکھ بانٹنے ہیں اور آپ کا حوصلہ بنتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اللہ نے یہ رشتے ایسے ہی بنا دیے ہیں کہ آپ اپنے پاؤں کی ایک ٹھوکر سے ان رشتوں کو ریت کی طرح ہوا میں اڑانے کی تلقین کرنے بیٹھ جائیں۔۔۔ اور آپ کی بات اس لیے قابل قبول ہو جائے کہ ایک بڑی تعداد آپ کی 'اتباع کنندگان'یا 'فالورز' میں شمار ہوتی ہے، تو یہ آپ کی بھول ہے۔
اگر آپ کے 'فالوورز' زیادہ ہوگے ہیں اور ان کی وجہ سے آپ کا دماغ ہوا میں اڑنے لگا ہے تو، خدارا، اتنا ضرور سوچیں کہ اخلاقی طور پر پہلے سے ہی دیوالیے معاشرہ میں آپ کیا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ اپنی سوچ کو بدلیں۔
'فیس بک' ایک بہت خوب صورت پلیٹ فارم ہے، جہاں پر آپ کا دیا گیا ذرا سا حوصلہ کسی کی پوری بنتی بگڑتی شخصیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے، آپ کی مثبت سوچ بہت سے پڑھنے والوں کے اندر سے منفی سوچ کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس کے ذریعے سماج میں بڑھتی ہوئی دوریاں، عداوتیں اور خود غرضی کو اگر مکمل ختم نہیں تو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
اس دور پُرفتن میں رشتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے اور ان کے درمیان احساس اور محبت بیدار کرنے کے لیے خدارا اپنے مثبت کردار کو سامنے لائیے۔
اس کے علاوہ ان کے سیاسی اور سماجی مسائل پر مبنی بے لاگ اظہار والی گفتگو بھی بہت مقبول اور فیس بک کی زبان میں 'وائرل' بھی ہو جاتی ہے۔ ان کی پوسٹ پر مرد و زن کی بڑی تعداد نہ صرف انھیں سراہتی ہے، بلکہ ان کے مخصوص بیانیے کی وجہ سے اکثر صحت مند مکالمے کی فضا بھی بنتی دیکھی گئی ہے۔
فیس بک خواتین کے لیے سودمند اس طرح بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنے وہ خیالات جن کا براہ راست اظہار یا اقرار کرنے میں وہ دشواری کا سامنا محسوس کرتی ہیں یا رشتوں سے منسلک تعلق میں خوش گواریت یا نا خوشگواریت پر براہ راست جب وہ بول نہیں پاتیں، تو فیس بک پر ڈھکے چھپے انداز میں لکھ کر اپنا دل ہلکا کر لیتی ہیں۔
گویا یہ من کی بات باہر لانے یا اپنی بھراس نکالنے کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آپ اپنے دل کی بات کو کہانی کی شکل میں فرضی ناموں کے ذریعے بھی اس پلیٹ فارم پر پوسٹ کر کے اپنے وسیع حلقہ احباب کے سامنے رکھ کر ذہنی دباؤ سے نکل سکتی ہیں۔
ایسی پوسٹ پر مرد و زن کا جم غفیر اپنے ہمدردانہ رویے یا مخلص رائے زنی سے انہیں ڈپریشن سے نکلنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ اور یوں کسی حد تک زہنی بوجھ کم ہو جاتا ہے، لیکن یہ بات بھی اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثریتی خواتین جب رشتوں کے حوالے سے پوسٹ لکھتی ہیں تو ان کا انداز بیاں بڑا ہی کاٹ دار، تلخ، نفرت آمیز ہو جاتا ہے۔
وہ اکثر اپنی پوسٹس میں رشتوں خو ترک کرنے کے حوالے سے انتہائی خیالات کا دھڑلے سے پرچار کرتی پائی جاتی ہیں!
حیرت ہے ایسے لکھنے والوں پر، جو ہر چیز کا حل چھوڑ دینے میں ڈھونڈتے اور بتاتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہوتی ہے جو ان کی تائید میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، لیکن جو ان کی ایسی پوسٹ کی مخالفت میں رائے دیں یا تو اس کا تبصرہ حذف کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ 'بلاک' کر دیا جاتا ہے۔ گویا اپنے موقف کے برخلاف بات سننا یہ گوارا نہیں کرتیں... حالاں کہ ایسے موضوع پر انتہا پسندی دکھانی کہاں کی عقل مندی ہے؟
دیکھا جائے تو، ہماری اس دنیا میں دو طرح کے رشتے ہیں، ایک وہ رشتہ جو اللہ نے بنایا جو حقیقی یا خونی رشتہ کہلاتا ہے۔
اس رشتے کا انتخاب آپ کا اپنا نہیں ہوتا۔ ان میں ماں باپ، ننھیال، ددھیال، بہن بھائی ہی دراصل آپ کی اصل پہچان ہوتے ہیں۔ بھلا ناخن سے 'ماس' کیسے جدا ہو سکتا ہے کہ جتنی مرضی فاصلے حائل ہو جائیں، آپ بھلے خوشی میں پہنچ نہ پائیں لیکن ان کی ذرا سی تکلیف سن کر ہی آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے جھلملانے لگتی ہیں اور دل ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے۔ آپ جس حال میں بھی ہوں، فورا وہاں پہنچتے ہیں۔
دوسرا وہ رشتہ ہے، جس کو بنانے بگاڑنے کا مکمل اختیار آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس میں بیوی اور دوست احباب شامل ہوتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔
اس لیے کسی بھی رشتے کا ساتھ نبھانے یا زندگی گزارنے کے لیے شرطیں نہیں باندھی جا سکتیں، اس لیے ہماری 'سوشل میڈیا' پر بیٹھی ہوئی خواتین کو یہ بات سیکھنی پڑے گی کہ انسانوں کے مابین رشتے اللہ کا عطا کردہ ہو یا انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے ہوں۔
ان کو چلانے اور سنبھالنے کے لئے وقت، توجہ اور قربانی دینی پڑتی ہے، کیوں کہ یہ رشتوں میں بنیادی اساس کا کردار ادا کرتے ہیں، جس پر ہر رشتے کا بنیادی ڈھانچا کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر آپ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کام یاب نہیں ہو سکتے۔
اپنے ذہنی سکون کی خاطر 'رشتے چھوڑ دو کا درس' دینے والوں سے کوئی پوچھے کہ بھلا ایک بیوی خاوند کو چھوڑ دے تو کیا سکون سے رہ سکتی ہے؟ کیا بہن، بھائی کو چھوڑ دے یا اولاد ماں باپ کو چھوڑ دیے، تو کیا ذہنی سکون قائم رکھا جا سکتا ہے؟
اگر ٹھنڈے دل سے یہ اپنی ہی بات کا تجزیہ کریں تو شاید ایسی تجاویز پر عمل درآمد کرنا ان کے لیے بھی آسان نہ ہوگا۔۔۔۔
ہماری بدقستی یہ ہے کہ ایسی جارحانہ اور چٹ پٹی مسالے دار باتیں 'اسکرین' پر زیادہ مشہور ہو جاتی ہیں تو یہ چیز انھیں متنازع بات لکھنے میں اکساتی ہے۔
حالاں کہ ایسی خواتین دفتر میں کام کرتی ہوئی کسی بھی خاتون کو یہ مشورہ دیتی ہوئی نظر نہیں آتیں کہ اگر وہاں افسر یا 'باس' سخت، اکھڑ مزاج اور درشت ہے تو استعفا دے ڈالو۔۔۔ لیکن جن رشتوں کے ساتھ ہماری خاندانی اور سماجی بقا جڑی ہوئی ہے، ان سے قطع تعلقی کی تلقین بہت آسانی سے کر دی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
میری نظر میں ایسے لوگ شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم، ہمارا گھر اور صرف ہمارے بچے۔۔۔ یقین کریں ایسے گیان بانٹنے والے ''فیس بکی فلسفی' حقیقی زندگی میں تنہا رہ جاتے ہیں۔ ان کے اپنے آپ میں کہیں ایک خلا باقی رہ جاتا ہے، کیوں کہ قطع تعلقی تو انسان کو مزید تنہا کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا ڈپریشن اور ذہنی تناؤ پہلے سے دگنا ہو جاتا ہے۔
آپ چاہے 'فیس بک' پر پوسٹ لکھ کر ان رشتوں کو جتنا مرضی برا قرار دیں، لیکن درحقیقت یہی قریبی رشتے داروں ہی میں سے آپ کے دکھ سکھ میں سب سے پہلے آپ کے پاس پہنچنے والے ہوتے ہیں۔ آپ کا دکھ بانٹنے ہیں اور آپ کا حوصلہ بنتے ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اللہ نے یہ رشتے ایسے ہی بنا دیے ہیں کہ آپ اپنے پاؤں کی ایک ٹھوکر سے ان رشتوں کو ریت کی طرح ہوا میں اڑانے کی تلقین کرنے بیٹھ جائیں۔۔۔ اور آپ کی بات اس لیے قابل قبول ہو جائے کہ ایک بڑی تعداد آپ کی 'اتباع کنندگان'یا 'فالورز' میں شمار ہوتی ہے، تو یہ آپ کی بھول ہے۔
اگر آپ کے 'فالوورز' زیادہ ہوگے ہیں اور ان کی وجہ سے آپ کا دماغ ہوا میں اڑنے لگا ہے تو، خدارا، اتنا ضرور سوچیں کہ اخلاقی طور پر پہلے سے ہی دیوالیے معاشرہ میں آپ کیا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ اپنی سوچ کو بدلیں۔
'فیس بک' ایک بہت خوب صورت پلیٹ فارم ہے، جہاں پر آپ کا دیا گیا ذرا سا حوصلہ کسی کی پوری بنتی بگڑتی شخصیت پر اثر انداز ہو سکتا ہے، آپ کی مثبت سوچ بہت سے پڑھنے والوں کے اندر سے منفی سوچ کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس کے ذریعے سماج میں بڑھتی ہوئی دوریاں، عداوتیں اور خود غرضی کو اگر مکمل ختم نہیں تو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
اس دور پُرفتن میں رشتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے اور ان کے درمیان احساس اور محبت بیدار کرنے کے لیے خدارا اپنے مثبت کردار کو سامنے لائیے۔