کے الیکٹرک نجکاری سپریم کورٹ کی معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کی ہدایت
جماعت اسلامی کے سیاسی ہم آہنگی کے کردار کو سراہتے ہیں ، لیکن موجودہ کیس میں ہم نہیں جانا چاہتے، چیف جسٹس کے ریمارکس
سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک نجکاری کیس کی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواستیں نمٹا دیں۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184(3) کے کیسز میں ماضی میں بہت ساری چیزیں ہوئی۔ پاکستان اسٹیل مل کا کیس بھی آرٹیکل 184(3) کے تحت سنا گیا۔ عدالت کے الیکٹرک کی نجکاری کے خلاف یہ مقدمہ کیوں ٹیک اپ کرے؟ ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جماعت اسلامی ہمارے لیے قابل احترام ہے۔ جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں موجود ہے، وہاں نجکاری کا ایشو اٹھائے۔ آرٹیکل 184(3) کے تحت دی گئی یہ درخواست حکومت کی معاشی پالیسی کے خلاف ہے۔
جماعت اسلامی کے وکیل رشید اے رضوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ فیل ہوجائے تو پھر عدلیہ کا آپشن باقی رہ جاتا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ ناکام ہوگئی ایسا نہ کہیں۔ پارلیمنٹ کا احترام کریں۔ یہ معاملہ کورٹ میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں اٹھائیں۔ ایسے اقدامات ہی سے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عدالت نجکاری کو کیسے منسوخ کرے؟۔ ٹیرف کا تعین کرنا نیپرا کا کام ہے۔ ہم کیسے کے ای ایس سی کی نجکاری کو منسوخ کردیں؟۔
وکیل رشید اے رضوی نے عدالت کو بتایا کہ نجکاری کے معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا ، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایسے معاملات نیپرا کو جائیں گے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کے ای ایس سی کی نجکاری کے معاہدے کو 184(3) میں نہیں سن سکتے ۔ ان مقدمات کو متعلقہ فورمز پر جانا چاہیے ۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں 2 ججز نے قانونی نکات کو اٹھایا ہے۔ کتنی انویسٹمنٹ آئی، کیا نتائج نکلے، ہم اس کو نہیں دیکھیں گے ۔ یہ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں ۔ چیزوں کو منسوخ کرنا آسان جب کہ اکٹھا کرنا اور بنانا مشکل ہوتا ہے ۔ عوامی مسائل حل نہ ہونے ہی کی وجہ سے نجکاری کا عمل کیا گیا ۔ اس مرحلے پر تفصیل میں جانا مشکل ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے اکنامک ایشوز سے دور رہنے کا لکھ دیا تو دوسرے فورمز بھی یہ کہیں گے ۔ بہتر ہے اس درخواست کو واپس لے کر متعقلہ فورم پر جائیں ۔ جماعت اسلامی کے سیاسی ہم آہنگی کے کردار کو سراہتے ہیں ، لیکن موجودہ کیس میں ہم نہیں جانا چاہتے۔
بعد ازاں عدالتی آبزرویشنز کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل رشید اے رضوی سمیت تمام درخواست گزاران نے درخواستیں واپس لے لیں ، جس پر عدالت نے کیس نمٹا دیا۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 184(3) کے کیسز میں ماضی میں بہت ساری چیزیں ہوئی۔ پاکستان اسٹیل مل کا کیس بھی آرٹیکل 184(3) کے تحت سنا گیا۔ عدالت کے الیکٹرک کی نجکاری کے خلاف یہ مقدمہ کیوں ٹیک اپ کرے؟ ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جماعت اسلامی ہمارے لیے قابل احترام ہے۔ جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں موجود ہے، وہاں نجکاری کا ایشو اٹھائے۔ آرٹیکل 184(3) کے تحت دی گئی یہ درخواست حکومت کی معاشی پالیسی کے خلاف ہے۔
جماعت اسلامی کے وکیل رشید اے رضوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ فیل ہوجائے تو پھر عدلیہ کا آپشن باقی رہ جاتا ہے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ ناکام ہوگئی ایسا نہ کہیں۔ پارلیمنٹ کا احترام کریں۔ یہ معاملہ کورٹ میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں اٹھائیں۔ ایسے اقدامات ہی سے پارلیمنٹ مضبوط ہوگی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ عدالت نجکاری کو کیسے منسوخ کرے؟۔ ٹیرف کا تعین کرنا نیپرا کا کام ہے۔ ہم کیسے کے ای ایس سی کی نجکاری کو منسوخ کردیں؟۔
وکیل رشید اے رضوی نے عدالت کو بتایا کہ نجکاری کے معاہدے پر عمل نہیں کیا گیا ، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایسے معاملات نیپرا کو جائیں گے ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کے ای ایس سی کی نجکاری کے معاہدے کو 184(3) میں نہیں سن سکتے ۔ ان مقدمات کو متعلقہ فورمز پر جانا چاہیے ۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس میں 2 ججز نے قانونی نکات کو اٹھایا ہے۔ کتنی انویسٹمنٹ آئی، کیا نتائج نکلے، ہم اس کو نہیں دیکھیں گے ۔ یہ تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں ۔ چیزوں کو منسوخ کرنا آسان جب کہ اکٹھا کرنا اور بنانا مشکل ہوتا ہے ۔ عوامی مسائل حل نہ ہونے ہی کی وجہ سے نجکاری کا عمل کیا گیا ۔ اس مرحلے پر تفصیل میں جانا مشکل ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے اکنامک ایشوز سے دور رہنے کا لکھ دیا تو دوسرے فورمز بھی یہ کہیں گے ۔ بہتر ہے اس درخواست کو واپس لے کر متعقلہ فورم پر جائیں ۔ جماعت اسلامی کے سیاسی ہم آہنگی کے کردار کو سراہتے ہیں ، لیکن موجودہ کیس میں ہم نہیں جانا چاہتے۔
بعد ازاں عدالتی آبزرویشنز کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل رشید اے رضوی سمیت تمام درخواست گزاران نے درخواستیں واپس لے لیں ، جس پر عدالت نے کیس نمٹا دیا۔