ترجمہ کیسے کیا جائے
بہترین ترجمہ کرنے کےلیے مترجم کو دونوں زبانوں پر مکمل عبور ہونا لازم ہے
ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس کے ذریعے سے کسی قوم کی تاریخ، رسم و رواج، اس کی ثقافت، اندازِ بیان، اس قوم کی زبان میں ادا کیے گئے محاورات و ضرب الامثال اور تشبیہات و استعارات کے بارے میں علم ہوتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اگر ترجمہ کا فن نہیں ہوتا تو دنیا گونگوں کی بستی ہوتی۔
کسی قوم کی زبان کو جاننے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم سے تجارتی، سفارتی اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سابقہ الہامی مذاہب کے بارے میں ہمیں اب تک جتنی بھی معلومات ملی ہیں، وہ سب ترجمے کی صورت میں ہی ملی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ترجمہ کیسے کیا جائے؟ وہ کون سے اصول ہیں جو ایک 'مترجم' کےلیے اہم ہیں؟
ترجمہ کی تعریف:
ترجمہ کی تعریف اہلِ علم نے ایک سے زائد کی ہیں۔ لیکن ان تمام تعریفوں کا لبِ لبا ب یہ ہے کہ 'ایک کلام کا مطلوب و مقصود اپنی زبان میں وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کو ترجمہ کہتے ہیں۔'
ترجمہ کی اقسام:
ترجمے کی اقسام اہلِ علم نے مختلف بیان کی ہیں، جن میں 'لفظی'، 'ادبی'، 'تفسیری' اور 'صحافتی یا آزاد' ترجمے شامل ہیں۔
لفظی ترجمہ: کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان میں لفظ بہ لفظ منتقل کرنے کو 'لفظی ترجمہ' کہتے ہیں۔ اس ترجمہ سے اگرچہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مصنف کا مدعا پورا ہوجاتا ہے، لیکن وہ اِسپِرِٹ (spirit)باقی نہیں رہتی جو مصنف چاہتا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں 'لفظی ترجمے' پر ہی انحصار کیا جاتا تھا۔
ادبی ترجمہ: ادبی ترجمہ اصل میں وہ ترجمہ ہوتا ہے جس میں محاورات، تشبیہات و تمثیلات وغیرہ کا اس طرح استعمال کیا جائے کہ ادبی رنگ غالب آجائے۔
تفسیری ترجمہ: اس میں کسی تصنیف، اقتباس یا پیراگرا ف کا ترجمہ وضاحت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک قاری ترجمہ کو وضاحت کے ساتھ پڑھ رہا ہوتا ہے۔ مترجم ترجمہ کرتے وقت یہ خیال رکھتا ہے کہ اصل کی وضاحت ہوجائے لیکن اصل میں تبدیلی نہ کی جائے۔
صحافتی یا آزاد ترجمہ: اہلِ علم اسے 'کھلا ترجمہ' بھی کہتے ہیں۔ یہ ترجمہ سب سے آسان اور سب سے زیادہ نظر بھی آئے گا۔ اس میں لفظی پابندی نہیں ہوتی۔ اس میں اصل میں 'مفہوم ' کی صورت میں (نفسِ مضمون نہ ٹوٹتے ہوئے) ترجمانی ہورہی ہوتی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ مترجم کسی اقتباس کو سمجھ کر اس کا سیدھا سیدھا مفہوم ادا کردیتا ہے۔ بازاروں میں زیادہ تر تراجم 'صحافتی ترجمے' کی قسم میں آتے ہیں۔
ترجمہ کے مقاصد: ترجمے کے کئی مقاصد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
• ترجمہ کے ذریعے کسی قوم کے بارے میں بنیادی معلومات ملتی ہے۔
• ترجمہ کے ذریعے کسی قوم کی تہذیب و ثقات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔
• ترجمہ کے ذریعے کسی قوم کے 'ادبی لٹریچر' کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
ترجمے میں اصطلاحات کا استعمال: ترجمہ کرتے وقت ایک 'مترجم' سب سے زیادہ چیلنج اس وقت محسوس کرتا ہے جب اس کے سامنے کوئی اصطلاح آجاتی ہے۔ اس کےلیے اگر اپنی زبان میں اس 'اصطلاح' کا ترجمہ 'اصطلاح' کی صورت میں ہی موجود ہو تو آسانی مل جاتی ہے۔ مثال کے طور اصطلاح 'صلوٰۃ' جس کا ترجمہ فارسی زبان میں 'نماز' کی صورت میں ہوگیا ہے، دونوں کا مفہوم ایک جیسا ہے، یعنی مخصوص طریقہ عبادت۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس اصطلاح کا ترجمہ اپنی زبان میں ممکن نہیں ہوتا تو اس صورت میں مترجم یا تو اس لفظ کو اپنی زبان میں لکھ لیتا ہے اور قوسین میں اس کی وضاحت کردیتا ہے یا پھر صرف اس اصطلاح کی وضاحت کردیتا ہے۔
شرائطِ ترجمہ:
• مترجم کو ترجمہ کرتے وقت سب سے پہلے دل چسپی اور لگن ہو۔
• ترجمے کے فن کو اپنانے کے لیے مسلسل مشق کرتا ہو۔
• مترجم کو اس زبان پر مکمل عبور حاصل ہو۔ ساتھ ہی اس زبان کی تاریخ، اس میں استعمال ہونے والی اصطلاحات، تشبیہات و استعارات وغیرہ کے بارے میں جانتا ہو۔
• اپنی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہو، یعنی کہ زبان میں جو تراکیب استعمال ہوتی ہیں، انھیں ان کی مخصوص جگہ پر استعمال کی قدرت رکھتا ہو۔
• ترجمہ کرتے وقت دونوں زبانوں (یعنی اصل اور اپنی زبان) کی 'ابتدائی' لغات کا موجود ہونا ضروری ہے، تاکہ لفظ کی اصل حقیقت یعنی اس کے 'مادے root word' تک پہنچا جاسکے۔ جیسے انگریزی سے اردو ترجمہ کیا جارہا ہے تو 'آکسفورڈ oxford' اور 'فرہنگِ آصفیہ' اور 'قومی انگریزی اردو لغت (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد نے پہلی بار 1992 میں شائع کیا تھا)' کا موجود ہونا ضروری ہو۔
• جس موضوع کا ترجمہ کر رہا ہو اس موضوع سے متعلق بھی معلومات حاصل ہوں، ورنہ اس موضوع کا صرف ترجمہ کرنے سے حق ادا نہیں ہوگا۔
• ترجمہ کرنے سے قبل دیا گیا موضوع ایک بار اچھی طرح پڑھ لیا جائے تاکہ یہ سمجھ میں آجائے کہ مصنف کہنا کیا چاہ رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ کسی زبان کا مدعا و مقصود، اپنی زبان میں بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ماہرِ لسانیات جب ترجمہ کرتے ہیں تو وہ اصل میں ترجمانی کرتے ہیں۔ اصل کو بیان کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن اس فن پر جو طاق رکھتا ہے وہ شوق انہماک سے اپنی ذمے داری نہ صرف پوری کرتا ہے بلکہ ایک قاری کےلیے آسانیاں بھی فراہم کرتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کسی قوم کی زبان کو جاننے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم سے تجارتی، سفارتی اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سابقہ الہامی مذاہب کے بارے میں ہمیں اب تک جتنی بھی معلومات ملی ہیں، وہ سب ترجمے کی صورت میں ہی ملی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ترجمہ کیسے کیا جائے؟ وہ کون سے اصول ہیں جو ایک 'مترجم' کےلیے اہم ہیں؟
ترجمہ کی تعریف:
ترجمہ کی تعریف اہلِ علم نے ایک سے زائد کی ہیں۔ لیکن ان تمام تعریفوں کا لبِ لبا ب یہ ہے کہ 'ایک کلام کا مطلوب و مقصود اپنی زبان میں وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کو ترجمہ کہتے ہیں۔'
ترجمہ کی اقسام:
ترجمے کی اقسام اہلِ علم نے مختلف بیان کی ہیں، جن میں 'لفظی'، 'ادبی'، 'تفسیری' اور 'صحافتی یا آزاد' ترجمے شامل ہیں۔
لفظی ترجمہ: کلام کو ایک زبان سے دوسری زبان میں لفظ بہ لفظ منتقل کرنے کو 'لفظی ترجمہ' کہتے ہیں۔ اس ترجمہ سے اگرچہ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مصنف کا مدعا پورا ہوجاتا ہے، لیکن وہ اِسپِرِٹ (spirit)باقی نہیں رہتی جو مصنف چاہتا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں 'لفظی ترجمے' پر ہی انحصار کیا جاتا تھا۔
ادبی ترجمہ: ادبی ترجمہ اصل میں وہ ترجمہ ہوتا ہے جس میں محاورات، تشبیہات و تمثیلات وغیرہ کا اس طرح استعمال کیا جائے کہ ادبی رنگ غالب آجائے۔
تفسیری ترجمہ: اس میں کسی تصنیف، اقتباس یا پیراگرا ف کا ترجمہ وضاحت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک قاری ترجمہ کو وضاحت کے ساتھ پڑھ رہا ہوتا ہے۔ مترجم ترجمہ کرتے وقت یہ خیال رکھتا ہے کہ اصل کی وضاحت ہوجائے لیکن اصل میں تبدیلی نہ کی جائے۔
صحافتی یا آزاد ترجمہ: اہلِ علم اسے 'کھلا ترجمہ' بھی کہتے ہیں۔ یہ ترجمہ سب سے آسان اور سب سے زیادہ نظر بھی آئے گا۔ اس میں لفظی پابندی نہیں ہوتی۔ اس میں اصل میں 'مفہوم ' کی صورت میں (نفسِ مضمون نہ ٹوٹتے ہوئے) ترجمانی ہورہی ہوتی ہے۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ مترجم کسی اقتباس کو سمجھ کر اس کا سیدھا سیدھا مفہوم ادا کردیتا ہے۔ بازاروں میں زیادہ تر تراجم 'صحافتی ترجمے' کی قسم میں آتے ہیں۔
ترجمہ کے مقاصد: ترجمے کے کئی مقاصد ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
• ترجمہ کے ذریعے کسی قوم کے بارے میں بنیادی معلومات ملتی ہے۔
• ترجمہ کے ذریعے کسی قوم کی تہذیب و ثقات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔
• ترجمہ کے ذریعے کسی قوم کے 'ادبی لٹریچر' کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
ترجمے میں اصطلاحات کا استعمال: ترجمہ کرتے وقت ایک 'مترجم' سب سے زیادہ چیلنج اس وقت محسوس کرتا ہے جب اس کے سامنے کوئی اصطلاح آجاتی ہے۔ اس کےلیے اگر اپنی زبان میں اس 'اصطلاح' کا ترجمہ 'اصطلاح' کی صورت میں ہی موجود ہو تو آسانی مل جاتی ہے۔ مثال کے طور اصطلاح 'صلوٰۃ' جس کا ترجمہ فارسی زبان میں 'نماز' کی صورت میں ہوگیا ہے، دونوں کا مفہوم ایک جیسا ہے، یعنی مخصوص طریقہ عبادت۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس اصطلاح کا ترجمہ اپنی زبان میں ممکن نہیں ہوتا تو اس صورت میں مترجم یا تو اس لفظ کو اپنی زبان میں لکھ لیتا ہے اور قوسین میں اس کی وضاحت کردیتا ہے یا پھر صرف اس اصطلاح کی وضاحت کردیتا ہے۔
شرائطِ ترجمہ:
• مترجم کو ترجمہ کرتے وقت سب سے پہلے دل چسپی اور لگن ہو۔
• ترجمے کے فن کو اپنانے کے لیے مسلسل مشق کرتا ہو۔
• مترجم کو اس زبان پر مکمل عبور حاصل ہو۔ ساتھ ہی اس زبان کی تاریخ، اس میں استعمال ہونے والی اصطلاحات، تشبیہات و استعارات وغیرہ کے بارے میں جانتا ہو۔
• اپنی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہو، یعنی کہ زبان میں جو تراکیب استعمال ہوتی ہیں، انھیں ان کی مخصوص جگہ پر استعمال کی قدرت رکھتا ہو۔
• ترجمہ کرتے وقت دونوں زبانوں (یعنی اصل اور اپنی زبان) کی 'ابتدائی' لغات کا موجود ہونا ضروری ہے، تاکہ لفظ کی اصل حقیقت یعنی اس کے 'مادے root word' تک پہنچا جاسکے۔ جیسے انگریزی سے اردو ترجمہ کیا جارہا ہے تو 'آکسفورڈ oxford' اور 'فرہنگِ آصفیہ' اور 'قومی انگریزی اردو لغت (مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد نے پہلی بار 1992 میں شائع کیا تھا)' کا موجود ہونا ضروری ہو۔
• جس موضوع کا ترجمہ کر رہا ہو اس موضوع سے متعلق بھی معلومات حاصل ہوں، ورنہ اس موضوع کا صرف ترجمہ کرنے سے حق ادا نہیں ہوگا۔
• ترجمہ کرنے سے قبل دیا گیا موضوع ایک بار اچھی طرح پڑھ لیا جائے تاکہ یہ سمجھ میں آجائے کہ مصنف کہنا کیا چاہ رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ کسی زبان کا مدعا و مقصود، اپنی زبان میں بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ماہرِ لسانیات جب ترجمہ کرتے ہیں تو وہ اصل میں ترجمانی کرتے ہیں۔ اصل کو بیان کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے، لیکن اس فن پر جو طاق رکھتا ہے وہ شوق انہماک سے اپنی ذمے داری نہ صرف پوری کرتا ہے بلکہ ایک قاری کےلیے آسانیاں بھی فراہم کرتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔