Yanglingمیں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس

ہمارے ساتھ بھارتی صحافی تو تھے لیکن اس اجلاس کا عملی طور پر بھارت نے بائیکاٹ ہی کیا تھا

msuherwardy@gmail.com

Lianyungangمیں تین دن قیام کے بعد ہم Xianگئے اور پھر وہاں سے ہم Yangling پہنچ گئے۔ یہاں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس تھا۔

پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو تجویز دی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو غربت کے خاتمے اور مستحکم ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔پاکستان کی تجویز پر شنگھائی تعاون تنظیم میں اس پر باقاعدہ ورکنگ گروپ بنا دیا گیا ہے۔

اس ورکنگ گروپ کا یہ اجلاس تھا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے خصوصی سرکاری وفود یہاں موجود تھے، لیکن عجیب بات یہ تھی کہ بھارت نے اس میں اپنا کوئی وفد نہیں بھیجا تھا۔

ہمارے ساتھ بھارتی صحافی تو تھے لیکن اس اجلاس کا عملی طور پر بھارت نے بائیکاٹ ہی کیا تھا۔ اس پر کافی چہ میگوئیاں تھیں، لیکن چینی حکام نے سرکاری طور پر اس پر کوئی بات نہیں کی۔ یہی چینی سفارتکاری کی عمدہ بات ہے کہ وہ تنازعات کو بڑھانے پر یقین نہیں رکھتے اور نرم بات کرتے ہیں۔

بہر حال ایک رائے یہ تھی کہ چونکہ چین نے مقبوضہ کشمیر میں جی ٹونٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اسی لیے چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس میں بھارت نے کوئی سرکاری وفد نہیں بھیجا ہے۔ بہرحال باقی سب ممالک کے وفود موجود تھے۔

اس لیے بھارت کا بائیکاٹ کوئی خاص محسوس بھی نہیں ہو رہا تھا۔پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو غیر معمولی اہمیت دے رہا ہے۔ اسی لیے بیجنگ میں پاکستانی سفارتخانے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے الگ سفارتکار تعینات ہیں۔ جو صرف شنگھائی تعاون تنظیم کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی پاکستان کے وفد کی قیادت کر رہے تھے۔ یہاں پاکستان کی غیر معمولی اہمیت نظر بھی آئی۔ پاکستان اور چین کے درمیان یہاں باقاعدہ دو طرفہ مذاکرات بھی ہوئے۔

اس موقعے پر تمام رکن ممالک کی تجارتی اشیاء کی ایک نمائش بھی لگائی گئی تھی۔ پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے چینی حکام کے ساتھ اس نمائش کا بھی افتتاح کیا۔ باقی ممالک کے لوگ بھی موجود تھے۔

اس نمائش کے افتتاح کے بعد شنگھائی تعاون تنظیم کا باقاعدہ افتتاحی سیشن ہوا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا چین کے شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل کے بعد دوسرا خطاب تھا۔

یہ خطاب ایک رسمی تھا۔ جس میں اس بات کی اہمیت پر زور دیا گیا کہ تمام ممالک کو اپنے اپنے ممالک میں غربت کے خاتمے اور مستحکم ترقی کے لیے ملکر کام کرنا چاہیے۔ اس بات پر بھی زور تھا کہ چین نے گزشتہ دو دہائیوں میں اپنی آبادی کو غربت سے نکال کر ایک مثال قائم کی ہے۔

میرے لیے یہ اہم تھا کہ پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ مذاکرات میں کیا بات ہوئی ہے۔ اس لیے میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی کی تلاش میں تھا۔ بہر حال اگلے دن دوپہر کے کھانے پر میری ان سے ملاقات ہو گئی۔میں نے پوچھا کہ دو طرفہ مذاکرات میں کیا بات ہوئی۔ انھوں نے کہا پاکستان نے نقاط پیش کیے ہیں۔ پاکستان چین کو آموں کی برآمدات بڑھانا چاہتا ہے۔


اس لیے ہم نے چینی حکومت سے کہا ہے کہ ارمچی میں پاکستانی آموں کی ایکسپو لگانے کی اجازت دی جائے تا کہ ہم چین کو آموں کی برآمدات بڑھا سکیں۔

اس سال ہم زیادہ آ م برآمد کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا چین نے کیا جواب دیا تو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ان کا جواب مثبت تھا۔ مجھے امید ہے یہ ایکسپو لگ جائے گی۔ اور پاکستان اس سال بڑی تعداد میں چین کو آم درآمد کرے گا۔

اس کے ساتھ ہم نے چین سے کہا ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ جس طرح چین نے زراعت کو چین میں غربت کے خاتمہ کے لیے بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے۔

اسی طرح پاکستان کی زراعت کو ترقی اور جدید کرنے کے لیے چین تعاون بڑھائے۔ میں نے کہا چین کیا تعاون کر سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سرکاری سطح پر تو کافی تعاون موجود ہے۔ لیکن اب پاکستان کی خواہش ہے کہ پاکستان سے ہر سال کسان یہاں ٹریننگ کے لیے بھیجے جائیں۔

جب کسان کی ٹریننگ ہو جائے گی تو وہ واپس جا کر اپنی زمین کو بہتر کاشت کرے گا۔ اس لیے ہم کسانوں کی ٹریننگ کے خواہاں ہیں۔ میں نے پوچھا چین نے کیا جواب دیا۔ انھوں نے کہا چین کا بہت مثبت جواب تھا۔ میری آج ہی اس سلسلے میں چین کی ایک زرعی یونیورسٹی کے ساتھ میٹنگ رکھو ادی گئی ہے اور میں اس یونیورسٹی میں جا رہا ہوں۔

اجلاس میں چینی کے مختلف علاقوں کے ان ماہرین نے بھی خطاب کیا جنھوں نے زراعت کی مدد سے ان علاقوں میں غربت کا ختم کیا۔ یہاں یہ احساس ہوا کہ بے شک چین نے صنعتی طور پر بھی بہت ترقی کی ہے، لیکن چین کی ترقی میں کلیدی کردار زراعت نے ادا کیا ہے۔ چین کے پاس دنیا کی بیس فیصد آبادی ہے جب کہ رقبہ اس کی نسبت کم ہے۔

لیکن کم رقبہ کے ساتھ بھی چین اپنی بیس فیصد آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے نمایندے نے اس اجلاس میں خصوصی طور پر اس بات کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آج چین بھی اپنے لیے خوراک درآمد کرنا شروع کر دے تو دنیا میں خوراک کا بحران پیدا ہو جائے تاہم چین نے خود کفالت حاصل کر کے دنیا کو محفوظ کیا ہے۔

ایران کے نمایندوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سیاحت کو بڑھانے پر زور دیا۔ ایران کا موقف تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک ایک دوسرے کے لیے ٹورازم کے فروغ کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا ایران ٹورز کے فروغ کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس سے بھی غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ بہر حال مجھے زیادہ ممالک کا زراعت میں تعاون پر زور نظر آیا۔ وسطیٰ ایشیا کے ممالک بھی زراعت کی ترقی کے لیے بات کر رہے تھے۔ اس ورکنگ گروپ میں رکن ممالک کی توجہ قابل دید تھی۔

سب ہی اپنے اپنے ممالک میں غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ ورکنگ گروپ ابھی بن رہا ہے۔ پاکستان نے تجویز پیش کی ہے۔ اس لیے پاکستان کے پاس ہی اس کی سربراہی ہو گی۔ روس کسٹم میں تعاون کے گروپ کی صدارت کر رہا ہے۔ بھارت نے ادویات میں تعاون کا گروپ تجویز کیا ہے۔ جس میں مقامی ادویات شامل ہیں۔
Load Next Story