حکومت کا ایکسپورٹ ریمی ٹینس اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی کا اعتراف

جی ڈی پی 0.29 فیصد رہی، پانچ فیصد نمو کا ہدف حاصل نہ ہوسکا، مہنگائی میں 29 فیصد اضافہ ہوا، اسحاق ڈار

(فوٹو : فائل)

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے ایکسپورٹ، ریمی ٹینس، براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی، شرح نمو کا ہدف حاصل نہ ہونے اور کہ قرضوں اور مہنگائی میں اضافے کا اعتراف کیا ہے۔

اسلام آباد میں پُرہجوم میڈیا کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کیا، ان کے ساتھ وفاقی وزیر احسن اقبال اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔

انہوں ںے کہا کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تھری ایز اسٹریٹیجی متعارف کروائی تھی اور ابھی بھی پانچ ایز اسٹریٹیجی پر پلان بنایا ہے، حکومت نے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بھرپور کردار ادا کیا پے، سروے میں سماجی و اقتصادی ترقی ، زراعت، توانائی، آئی ٹی، صنعت سمیت تمام شعبے شامل ہیں، جب حکومت نے ذمہ داری سنبھالی تو مشکل صورتحال تھی اگر مزید کچھ عرصہ ذمہ داری نہ سنبھالتے تو خدا نخواستہ صورتحال کچھ اور ہوتی۔

انہوں ںے کہا کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہورہی تھیں، فنانسنگ کی ضروریات بڑھتی جارہی تھیں، اللہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھا ہے، معیشت کی گراوٹ کا عمل رک چکا ہے اور اب ترقی کیلئے کام ہورہا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں پہلے سال کی جی ڈی پی 1.6 اور پھر اگلے سال منفی ہوگئی، منفی ہونے سے بنیاد بہت نیچے چلی گئی تھی جس کی وجہ سے جی ڈی پی چھ فیصد ظاہر کی، 2013ء میں جب حکومت سنبھالی تو ملک میں دہشت گردی، بجلی کی لوڈشیڈنگ تھی اور حالت خراب تھی، تھری ایز کے بعد اب فائیو ایز پالیسی پر آئندہ کا روڈ میپ بنایا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ رواں مالی سال انتہائی چیلنجنگ سال تھا، میکرو اکنامک استحکام کی بحالی کے انڈیکیٹرز اقتصادی سروے میں شامل ہیں، میکرو اکنامک استحکام کو بحال کرنا حکومت کا مقصد ہے، 2017ء میں پاکستان دنیا کی 20 ویں معیشت تھا جو اب چالیسویں نمبر پر ہے، جہاں 2017ء میں ملک پہنچ چکا تھا وہیں دوبارہ لے جانا چاہتے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت انکلوسیو گروتھ کے راستے پر چلنا چاہتی ہے، ٹیکس وصولیوں کا زیادہ حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں جارہا ہے، مس مینجمنٹ اور پالیسی ریٹ بڑھانے کی وجہ سے قرضے میں اضافہ ہوا ہے، اس سے کہیں زیادہ نقصان عالمی سطح پر آئی ایم ایف کے ساتھ کیے سارے وعدے توڑ دیئے اس سے عالمی سطح پر پاکستان کے اعتماد کو بہت دھچکا لگا۔

یہ بھی پڑھیں : ملکی قرض 592 کھرب، پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں 11.2 فیصد کمی، اقتصادی سروے

 

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ عالمی تجارت کی گروتھ میں پانچ گنا کمی ہوئی، سیلاب کی وجہ سے بھی بہت تباہ کاری ہوئی، سیلاب سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، پانچ سال کا مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت کیلئے مشکل ترین اصلاحات کرنا آسان ہوتا ہے مگر موجودہ حکومت نے ایک سال میں یہ مشکل ترین اصلاحات کیں۔

انہوں ںے کہا کہ اس پروگرام کی بحالی ضروری تھی کہ پاکستان کی ساکھ بحال ہو،یہ ایک تکلیف دہ عمل ہے مگر ملک کو مشکل صورتحال سے نکالنے کیلئے کرنا پڑتا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے پاکستان کی خاطر بہت بڑی سیاسی قربانی دی ہے، پہلی چوائس یہ تھی کہ ڈیفالٹ کرتے اور سری لنکا بنتے اور دوسری چوائس یہ تھی کہ پیٹ کاٹتے مگر عالمی وعدے پورے کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام ادائیگیاں بروقت کیں اور اب حالات بہتر ہورہے ہیں، ایل سیز کے مسائل بھی حل ہوگئے ہیں، مانیٹری پالیسی کو مہنگائی کم کرنے کیلئے سخت کیا، جہاں آج ہم کھڑے ہیں اس کی ایک بنیادی وجہ اعتماد کا فقدان ہے۔


وزیر خزانہ ںے کہا کہ حقیقی موثر ایکسچینج (ڈالر ریٹ) بلوم برگ کے مطابق 244 روپے ہونا چاہیے مگر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر بڑھایا گیا، جب میں آیا چارج سنبھالا تو ڈالر نیچے آنا شروع ہوا، میں نے اس وقت بھی کہا تھا ڈالر اپنی حقیقی ویلیو پر آئے گا مگر میں واشنگٹن گیا پیچھے سے نہیں معلوم کون سے خفیہ ہاتھ متحرک ہوئے کہ ڈالر مہنگا ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ فرٹیلازر اور گندم کے علاوہ غیر ملکی زرمبادلہ بھاری مقدار میں اسمگل ہوا ہے، ہمارے پڑوسی ملک میں رجیم تبدیل ہوئی ان کی ضرورت بھی یہی سے پوری ہوتی ہے، حکومت کی پہلی ترجیع ہے بروقت ادائیگیاں کریں، کچھ لوگ بیرون ملک بیٹھ کر ڈسکس کرتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کیوں نہیں ہوا؟ پاکستان سری لنکا کیوں نہیں بنا یہ باہر بیٹھ کر باتیں ہوتی ہیں یہ بدقسمتی ہے، ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے سخت مالیاتی پالیسی جاری رہے گی۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ بارٹر ٹریڈ کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ اچھا فیصلہ ہے اس میں مزید توسیع کی جائے، یمن سوڈان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ بھی بارٹر ٹریڈ کی تجویز زیر غور ہے۔

جی ڈی ڈی پی 0.29 فیصد رہی، مہنگائی میں 29 فیصد اضافہ ہوا، وزیر خزانہ

انہوں ںے کہا کہ جی ڈی پی 0.29 فیصد رہی ہے، مہنگائی 29.2 فیصد رہی، رواں مالی سال جولائی تا نومبر مہنگائی کی اوسط شرح اٹھارہ فیصد رہی اس میں شہری و دینی علاقوں میں کور انفلیشن کو مدنظر رکھ کر اوسط شرح نکالی جائے۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایف بی آر کی ریونیو کلیکشن گروتھ 16.1 فیصد رہی، ایف بی آر نے رواں مالی سال میں 6210 ارب روپے جمع کیے اور اب ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دینے کی کوشش کررہے ہیں، مارچ تک سات لاکھ لوگ نئے ٹیکس دہندگان لانا تھے مگر نو لاکھ سے زیادہ ٹیکس دہندگان نیٹ میں شامل کیے گئے۔

وزیر خزانہ کا ایکسپورٹ، ریمی ٹینس اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی کا اعتراف

ان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 76 فیصد بہتری آئی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر 3.3 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا ہے، جولائی تا مئی میں درآمدات 72.3 ارب ڈالر سے کم ہو کر52.2 ارب ڈالر ہوگئی ہیں، برآمدات میں 13.1 فیصد کمی ہوئی اور رواں مالی سال میں برآمدات پچیس ارب ڈالر رہیں، ترسیلات زر میں کمی ہوئی، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بہت مشکل فیصلے کیے، ان مشکل فیصلوں کیلئے جرات کا مظاہرہ کیا، تاریخ میاں شہباز شریف کو یاد رکھے گی کہ انہوں نے سیاست پر ریاست بچانے کو ترجیح دی۔

انہوں ںے کہا کہ ہم نے اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف ساڑھے تین فیصد مقرر کیا گیا ہے، اس کیلئے زراعت پر فوکس کررہے ہیں ، صنعت کو جتنی سپورٹ دی جاسکتی ہے دیں گے، آئی ٹی کو سہولتیں دیں گے اور ریونیو موبلائزئشن پر فوکس کریں گے،2025ء تک گرین انرجی پر جانے کا ہدف ہے، اس سے انرجی کی دس سے پندرہ فیصد بچت ہوگی۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اس سال ترقیاتی بجٹ کو گیارہ سو ارب سے بھی زیادہ کیا، ترقیاتی بجٹ میں ملکی تاریخ میں پہلی بار سو فیصد اضافہ کیا، ہمیں اس سال تین غیر مثالی حادثات کا سامنا کرنا پڑا، اول یہ کہ بڑے پیمانے پر درآمدات کی گئیں، دوم آخری سہ ماہی میں وزارت خزانہ نے کوئی فنڈ جاری نہیں کیا اور سوم یہ کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔

احسن اقبال نے کہا کہ ملکی تاریخ میں اتنا بڑا تجارتی خسارہ کسی حکومت کو نہیں ملا اس لئے اس اقتصادی سروے کا اعداد و شمار اور اہداف سے کوئی تعلق نہیں ہے، پچھلی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کو نشانہ بنایا اور ہم نے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں 131 فیصد اضافہ کیا۔
Load Next Story