شہنشاہ ظرافت
منور ظریف کی 38ویں برسی پر خصوصی تحریر
BERLIN:
برصغیر پاک وہندکی فلمی تاریخ میں بڑے نامور مزاحیہ اداکار پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف ادوار میں فلم بینوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں لیکن جس فنکار کو لافانی شہرت حاصل ہوئی وہ شہنشاہ ظرافت منور ظریف ہیں جس نے صرف پندرہ برس کے فلمی کیرئیر میں 300 سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔
وہ ہر سال کم وبیش بیس اکیس فلموں میں جلوہ گر ہوتا تھا جو اس کی بے پناہ مقبولیت اور مصروفیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ 1961ء میں پنجابی فلم ''ڈنڈیاں'' سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنیوالے محمد منور کو یہ چیلنج درپیش تھا کہ اسے اپنے بڑے بھائی ظریف کے نام اور ورثے کو آگے بڑھانا تھا۔
اس وقت سینئر مزاحیہ اداکاروں میں اگر نذر، آصف جاہ، اے شاہ اور سلطان کھوسٹ تھے تو جونیئر اداکاروں میں رنگیلا، لہری ، نرالا ، زلفی ، خلیفہ نذیراور دلجیت مرزا جیسے بڑے باصلاحیت فنکار موجود تھے ۔عام طور پر اسے چھوٹے موٹے رول ہی ملتے تھے لیکن 1964ء فلم ''ہتھ جوڑی'' میں ''رنگیلا'' کے ساتھ اس کے مزاحیہ اداکار کے طور پر مرکزی کردار نے بریک تھرو کا کام کیا تھا۔ جگت بازی اور بذلہ سنجی ، حاضر دماغی اور برجستگی (یاٹائمنگ)، پھرتی اور تیز طراری الغرض مزاحیہ اداکاری جملہ اوصاف میں منور ظریف اپنی مثال آپ تھا۔ بے شمار فلموں میں اس کے بے شمار یادگار کردار ہیں۔ فلم ''تاج محل'' 1968 میں انہوں نے ایک مختصر لیکن منفرد رول کیا تھا ، جس میں منور ظریف کا ایک لاجواب جملہ ''لوگوں کے رشتے جوڑ جوڑ کر میرا اپنا جوڑ جوڑ ہلنے لگا ہے۔ اب ان جوڑوں کو کون جوڑے گا'' بہت پسند کیا گیا۔
منور ظریف کے مکالمے بھی خودساختہ ہوتے تھے، لوگ بتاتے ہیں کہ انہیں صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ آپ کا یہ رول ہے، خاص طور پر جب وہ اور رنگیلا ایک ساتھ ہوتے تو انہیں کھلی چھٹی دے دی جاتی اور پھر ہدایتکار کے لئے مشکل ہوجاتا تھا کہ کون سا جملہ رکھے اور کون سا حذف کرے۔
اسی طرح فلم ''تیرے عشق نچایا'' (1969)ء میں ایک سین میں یوسف خان جو ہیرو اعجاز کے باپ کا رول کر رہے ہوتے ہیں ، اسے مشورہ دیتے ہیں :''یار ۔۔۔کوڈو بادشاہ۔۔۔تو بھی اپنے آپ کو عشق کا روگ لگا لے۔۔۔''
منور ظریف۔۔ بدک کر اور ہاتھ جوڑ تے ہوئے برجستہ کہتا ہے:
''نہ چاچانہ۔۔۔ تو مجھے یہ بددعا نہ دے۔۔۔میں تو عشق کی ریڑھی لگاؤں گا اور اس میں پیار کی میٹھی میٹھی ریوڑیاں بیچوں گا۔۔ اور یہی صدا لگاؤں گا۔۔۔دم ہی دم۔۔۔نہ دھوکہ نہ غم۔۔کمائے گی دنیا اور کھائیں گے ہم ۔۔۔!
1972ء تک منورظریف چوٹی کے مزاحیہ اداکار کے طور پر فلموں میں نظر آتا رہا لیکن 1973ء اس کے فلمی کیرئیر کا بڑا یادگار سال ثابت ہوا تھا جب پہلے وہ اردو فلم ''پردے میں رہنے دو'' میں رنگیلا کے ساتھ سائیڈ ہیرو تھا۔ اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد اسی انداز کی ایک اردو فلم ''رنگیلا اور منورظریف'' بنائی گئی جو باکس آفس پر ایک اور کامیاب ترین فلم تھی ۔ رنگیلا کے بعد منورظریف پاکستان کا دوسرا ایسا فنکار تھا جس کے نام پر کوئی فلم بنائی گئی۔ بطور ہیرو اور ٹائٹل رول میں منور ظریف کی پہلی پنجابی فلم ''اج دا مہینوال'' بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی جس میں اس کی ہیروئن عالیہ تھی جو ایک ناکام فلم تھی جبکہ اسی سال ''بنارسی ٹھگ'' نے اُسے بام عروج پر پہنچا دیا۔
اس سال کے اختتام سے پہلے ہی اس کی ہیرو اور ٹائٹل کرداروں میں دو مزید پنجابی فلمیں ''خوشیا'' اور ''جیرا بلیڈ'' ریلیز ہوئیں جن میں سے ''خوشیا'' ایک بھارتی فلم کی کاپی تھی لیکن منور ظریف کی زندگی سے انتہائی مشابہ تھی ۔منور ظریف نے اڑھائی سو پنجابی فلموں میں کام کیا تھا جن میں فلم ''نوکر ووہٹی دا'' 1974ء اس کے فلمی کیرئیر کی سب سے بڑی فلم تھی۔ انڈیا میں 1983ء میں ''نوکر بیوی کا'' کے نام سے فلم بنائی گئی جس میں دھرمیندر نے منور ظریف اور آسیہ کا کردار انیتا راج نے کیا تھا ، مگر دھرمیندر نے منور ظریف کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ان جیسی پرفارمنس نہیں دے پایا ۔
منور ظریف نے 70 کے قریب اردو فلموں میں کام کیا تھا اور کردارنگاری کے لحاظ سے فلم ''زینت '' 1975ء سب سے بڑی اور یادگار فلم تھی ۔ فلم ''جانو کپتی'' 1975ء میں اس نے رقص میں آسیہ سے مقابلہ بھی کیا تھا۔ منور ظریف ہی پاکستان کا واحد اداکار ہے کہ جس نے ایک مرد ہو کر کسی فلم کا نسوانی ٹائیٹل رول بھی کیا تھا۔ گیت پکچرائز کرانے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ موسیقی کی ٹھیک ٹھاک شد بد رکھتا تھا اور ایک بہترین طبلہ نواز بھی تھا۔ اس حوالے سے اُس نے موسیقار ماسٹر عبداللہ کے ساتھ چند گیتوں میں سنگت کی تھی اور چند گیت بھی گائے تھے ۔گو اسے اس میدان میں اپنے بھائی ظریف اور رنگیلا جیسی کامیابی نہیں ملی ۔منور ظریف پر روبینہ بدر ، افشاں ، ناہید اختر اور مہناز کے گیت بھی فلمائے گئے تھے جو اس کے بہت سے کامیاب نسوانی کرداروں کی وجہ سے تھے۔
منور ظریف کی پیدائش 2 فروری 1940ء کو ہوئی اور اس کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ اس کا انتقال 29 اپریل 1976ء کو لاہور میں ہوا، اس طرح وہ صرف 36 سال کی عمر میں اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ منور ظریف کی رنگیلا ، علی اعجاز ، ننھا، خلیفہ نذیر اور مسعود رانا سے دوستی تھی جن میں سے علی اعجاز لنگوٹیا یار تھے جنہیں فلم انڈسٹری میں متعارف بھی منور ظریف نے کرایا تھا۔ آج اُسے ہم سے بچھڑے ہوئے 38 سال ہوگئے ہیں مگر اُس کے چاہنے والے اُسے بھولے نہیں ہیں۔ کامیڈی اداکاری کرنیوالوں کی اکثریت منورظریف کو ہی اپنا آئیڈیل اور استاد مانتے ہیں۔ منور ظریف کا بیٹا فیصل منور ظریف 90ء کے عشرے میں دو فلموں ''پتر منور ظریف دا'' اور ''پتر جیڑے بلیڈ دا'' میں ہیرو آیا تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔
برصغیر پاک وہندکی فلمی تاریخ میں بڑے نامور مزاحیہ اداکار پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف ادوار میں فلم بینوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں لیکن جس فنکار کو لافانی شہرت حاصل ہوئی وہ شہنشاہ ظرافت منور ظریف ہیں جس نے صرف پندرہ برس کے فلمی کیرئیر میں 300 سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔
وہ ہر سال کم وبیش بیس اکیس فلموں میں جلوہ گر ہوتا تھا جو اس کی بے پناہ مقبولیت اور مصروفیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ 1961ء میں پنجابی فلم ''ڈنڈیاں'' سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنیوالے محمد منور کو یہ چیلنج درپیش تھا کہ اسے اپنے بڑے بھائی ظریف کے نام اور ورثے کو آگے بڑھانا تھا۔
اس وقت سینئر مزاحیہ اداکاروں میں اگر نذر، آصف جاہ، اے شاہ اور سلطان کھوسٹ تھے تو جونیئر اداکاروں میں رنگیلا، لہری ، نرالا ، زلفی ، خلیفہ نذیراور دلجیت مرزا جیسے بڑے باصلاحیت فنکار موجود تھے ۔عام طور پر اسے چھوٹے موٹے رول ہی ملتے تھے لیکن 1964ء فلم ''ہتھ جوڑی'' میں ''رنگیلا'' کے ساتھ اس کے مزاحیہ اداکار کے طور پر مرکزی کردار نے بریک تھرو کا کام کیا تھا۔ جگت بازی اور بذلہ سنجی ، حاضر دماغی اور برجستگی (یاٹائمنگ)، پھرتی اور تیز طراری الغرض مزاحیہ اداکاری جملہ اوصاف میں منور ظریف اپنی مثال آپ تھا۔ بے شمار فلموں میں اس کے بے شمار یادگار کردار ہیں۔ فلم ''تاج محل'' 1968 میں انہوں نے ایک مختصر لیکن منفرد رول کیا تھا ، جس میں منور ظریف کا ایک لاجواب جملہ ''لوگوں کے رشتے جوڑ جوڑ کر میرا اپنا جوڑ جوڑ ہلنے لگا ہے۔ اب ان جوڑوں کو کون جوڑے گا'' بہت پسند کیا گیا۔
منور ظریف کے مکالمے بھی خودساختہ ہوتے تھے، لوگ بتاتے ہیں کہ انہیں صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ آپ کا یہ رول ہے، خاص طور پر جب وہ اور رنگیلا ایک ساتھ ہوتے تو انہیں کھلی چھٹی دے دی جاتی اور پھر ہدایتکار کے لئے مشکل ہوجاتا تھا کہ کون سا جملہ رکھے اور کون سا حذف کرے۔
اسی طرح فلم ''تیرے عشق نچایا'' (1969)ء میں ایک سین میں یوسف خان جو ہیرو اعجاز کے باپ کا رول کر رہے ہوتے ہیں ، اسے مشورہ دیتے ہیں :''یار ۔۔۔کوڈو بادشاہ۔۔۔تو بھی اپنے آپ کو عشق کا روگ لگا لے۔۔۔''
منور ظریف۔۔ بدک کر اور ہاتھ جوڑ تے ہوئے برجستہ کہتا ہے:
''نہ چاچانہ۔۔۔ تو مجھے یہ بددعا نہ دے۔۔۔میں تو عشق کی ریڑھی لگاؤں گا اور اس میں پیار کی میٹھی میٹھی ریوڑیاں بیچوں گا۔۔ اور یہی صدا لگاؤں گا۔۔۔دم ہی دم۔۔۔نہ دھوکہ نہ غم۔۔کمائے گی دنیا اور کھائیں گے ہم ۔۔۔!
1972ء تک منورظریف چوٹی کے مزاحیہ اداکار کے طور پر فلموں میں نظر آتا رہا لیکن 1973ء اس کے فلمی کیرئیر کا بڑا یادگار سال ثابت ہوا تھا جب پہلے وہ اردو فلم ''پردے میں رہنے دو'' میں رنگیلا کے ساتھ سائیڈ ہیرو تھا۔ اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد اسی انداز کی ایک اردو فلم ''رنگیلا اور منورظریف'' بنائی گئی جو باکس آفس پر ایک اور کامیاب ترین فلم تھی ۔ رنگیلا کے بعد منورظریف پاکستان کا دوسرا ایسا فنکار تھا جس کے نام پر کوئی فلم بنائی گئی۔ بطور ہیرو اور ٹائٹل رول میں منور ظریف کی پہلی پنجابی فلم ''اج دا مہینوال'' بھی اسی سال ریلیز ہوئی تھی جس میں اس کی ہیروئن عالیہ تھی جو ایک ناکام فلم تھی جبکہ اسی سال ''بنارسی ٹھگ'' نے اُسے بام عروج پر پہنچا دیا۔
اس سال کے اختتام سے پہلے ہی اس کی ہیرو اور ٹائٹل کرداروں میں دو مزید پنجابی فلمیں ''خوشیا'' اور ''جیرا بلیڈ'' ریلیز ہوئیں جن میں سے ''خوشیا'' ایک بھارتی فلم کی کاپی تھی لیکن منور ظریف کی زندگی سے انتہائی مشابہ تھی ۔منور ظریف نے اڑھائی سو پنجابی فلموں میں کام کیا تھا جن میں فلم ''نوکر ووہٹی دا'' 1974ء اس کے فلمی کیرئیر کی سب سے بڑی فلم تھی۔ انڈیا میں 1983ء میں ''نوکر بیوی کا'' کے نام سے فلم بنائی گئی جس میں دھرمیندر نے منور ظریف اور آسیہ کا کردار انیتا راج نے کیا تھا ، مگر دھرمیندر نے منور ظریف کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ان جیسی پرفارمنس نہیں دے پایا ۔
منور ظریف نے 70 کے قریب اردو فلموں میں کام کیا تھا اور کردارنگاری کے لحاظ سے فلم ''زینت '' 1975ء سب سے بڑی اور یادگار فلم تھی ۔ فلم ''جانو کپتی'' 1975ء میں اس نے رقص میں آسیہ سے مقابلہ بھی کیا تھا۔ منور ظریف ہی پاکستان کا واحد اداکار ہے کہ جس نے ایک مرد ہو کر کسی فلم کا نسوانی ٹائیٹل رول بھی کیا تھا۔ گیت پکچرائز کرانے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا وہ موسیقی کی ٹھیک ٹھاک شد بد رکھتا تھا اور ایک بہترین طبلہ نواز بھی تھا۔ اس حوالے سے اُس نے موسیقار ماسٹر عبداللہ کے ساتھ چند گیتوں میں سنگت کی تھی اور چند گیت بھی گائے تھے ۔گو اسے اس میدان میں اپنے بھائی ظریف اور رنگیلا جیسی کامیابی نہیں ملی ۔منور ظریف پر روبینہ بدر ، افشاں ، ناہید اختر اور مہناز کے گیت بھی فلمائے گئے تھے جو اس کے بہت سے کامیاب نسوانی کرداروں کی وجہ سے تھے۔
منور ظریف کی پیدائش 2 فروری 1940ء کو ہوئی اور اس کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔ اس کا انتقال 29 اپریل 1976ء کو لاہور میں ہوا، اس طرح وہ صرف 36 سال کی عمر میں اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ منور ظریف کی رنگیلا ، علی اعجاز ، ننھا، خلیفہ نذیر اور مسعود رانا سے دوستی تھی جن میں سے علی اعجاز لنگوٹیا یار تھے جنہیں فلم انڈسٹری میں متعارف بھی منور ظریف نے کرایا تھا۔ آج اُسے ہم سے بچھڑے ہوئے 38 سال ہوگئے ہیں مگر اُس کے چاہنے والے اُسے بھولے نہیں ہیں۔ کامیڈی اداکاری کرنیوالوں کی اکثریت منورظریف کو ہی اپنا آئیڈیل اور استاد مانتے ہیں۔ منور ظریف کا بیٹا فیصل منور ظریف 90ء کے عشرے میں دو فلموں ''پتر منور ظریف دا'' اور ''پتر جیڑے بلیڈ دا'' میں ہیرو آیا تھا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔