پاکستان افغانوں کا مزید بوجھ کیوں اُٹھائے
شکر ہے وفاقی سطح پر افغان مہاجرین کے سبب پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا احساس کیا گیا ہے
وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور، ایاز صادق، نے اگلے روز کہا :'' افغان مہاجرین نے پاکستانی وسائل پر گہرا دباؤ ڈال رکھا ہے۔'' شکر ہے وفاقی سطح پر افغان مہاجرین کے سبب پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کا احساس کیا گیا ہے ۔ اور اب خبر آئی ہے کہ سیکڑوں افغان لڑکیاں پاک افغان سرحد عبور کر کے پاکستان آگئی ہیں ۔
خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ افغان خواتین '' مجبوراً'' پاکستان اس لیے آئی ہیں کہ یہاںآزادانہ طور پر تعلیم حاصل کر سکیں ۔اِن افغان لڑکیوں کے جو انٹرویوز سامنے آئے ہیں ، اُن میں بتایا گیا ہے :'' چونکہ افغان طالبان حکمرانوں نے افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین پر تعلیم کے سبھی دروازے سختی سے بند کر دیے ہیں ، اس لیے علم کے حصول کے لیے ہمیں پاکستان کی راہ اختیار کرنا پڑی ہے ۔''
اگر یہ ''افغان اسٹوڈنٹ مہاجر خواتین ''تھوڑی تعداد میں ہوتیں تو خیر تھی ، لیکن سیکڑوں افغان لڑکیوں کا تعلیم کے بہانے پاکستان دَر آنے سے ہم سب پاکستانیوں کا ماتھا ٹھنکا ہے ۔ پچھلے40سال سے افغان مہاجرین پاکستان پر بوجھ اور عذاب بنے ہُوئے ہیں ۔
یہ عذابی اور تخریبی تحفہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا دیا ہُوا ہے۔ اب بھی چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان کے سماج اور معیشت پر بھاری بھر کم بوجھ بنے ہُوئے ہیں۔ یہ واپس اپنے ملک جانے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔ ان لاکھوں افغان مہاجرین سے پاکستان اور پاکستانی عوام مسلسل نقصان اُٹھا رہے ہیں۔
پاکستان نے اسلامی اخوت کے تحت ان لاکھوں افغان مہاجرین کو وقتی طور پر اپنے ہاں پناہ دی تھی لیکن اِن کی دوسری نسل پاکستان میں پیدا ہو کرجوان ہو چکی ہے لیکن یہ واپس جانے سے انکاری ہیں۔ اِن کے پاکستان مخالف مائنڈ سیٹ سے پاکستانی خاصے نالاں ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں ٹیکسلا میں درجنوں افغان مہاجرین نے اکٹھے ہو کر مقامی شہریوں پر بلا وجہ حملہ کر دیا، چنانچہ پولیس کو بلانا پڑا لیکن مقامی طور پر کشیدگی ابھی تک برقرار ہے ۔9مئی کے المناک سانحہ میں بھی مبینہ طور پر کئی افغان شہری اور افغان مہاجرین ملوث پائے گئے ۔ کچھ گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر عمیر خان، عباس اور عصمت اللہ وغیرہ ۔
افغانستان، افغان حکمرانوں اور افغان طالبان کے ہاتھوں پاکستان اور پاکستانیوں کے دل مجروح ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان کی جانب ہمیشہ بادِسموم ہی چلی ہے ۔ افغانستان اور افغان حکمران مسلسل پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے دردِ سر بنے ہیں ۔
پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کررہا ہے لیکن صلے میں پاکستان کوافغانستان اور وہاں کے باشندوں سے نفرت اور عناد کے سوا کیا ملا ہے ؟ ابھی چند دن پہلے فرانس میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مبینہ طور پر ایک افغان نے جو بیہودہ سلوک کیا ہے، اس منظر نے ہمارے دل مجروح کر دیے ہیں۔
صد افسوس کہ اس بدتہذیب اور زبان دراز افغان نوجوان نے ساتھ بیٹھی جنرل(ر) باجوہ کی اہلیہ کا بھی احترام نہ کیا۔ افغان طالبان پر پاکستان نے بوجوہ برسوں انویسٹمنٹ کی لیکن پچھلے 21ماہ سے جب سے افغان طالبان افغانستان کے حاکم بنے ہیں ، پاکستان کو مسلسل ضرر پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں ۔ بھارت نے اب تک پاکستان کے اتنے جوان شہید نہیں کیے ہیں جتنے افغان طالبان کے اِن 21ماہ کے دَور میں، پاک افغان سرحد پر، پاکستانی شہید کر ڈالے گئے ہیں ۔
پہلے بھی ملا عمر کی قیادت میں افغان طالبان حکمران بنے تھے اور پہلے بھی طالبان حکمران پاکستان کے لیے باعثِ آزار بنے رہے ۔ اور اب بھی یہ صورتحال ویسی ہی ہے۔ پہلے بھی افغان طالبان نے خواتین پر تعلیم کے دروازے مقفل کر دیے تھے اور اب بھی اُنہوں نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے علم اور تعلیم ممنوع قرار دے رکھی ہے ۔
اگلے روز اقوامِ ِمتحدہ نے کہا:'' آج کاافغانستان خواتین کے لیے دُنیا کا جابر ترین ملک ہے۔'' افغان خواتین کے لیے تعلیم کے حوالے سے جو سوچ ملا عمر کی تھی، وہی سوچ بد قسمتی سے آج ملا ہیبت اللہ کی ہے ۔ ان کے نزدیک خواتین کا تعلیم حاصل کرنا ''افغان کلچر'' کا حصہ نہیں ۔
افغان طالبان کو اپنا کلچر مبارک۔ وہ طالبات کے بھیس میں مگر اپنی سیکڑوں خواتین کو پاکستان کی جانب مت دھکیلیں۔ یہ نام نہاد اسٹوڈنٹ افغان خواتین پاکستان آ کر واپس نہیں جائیں گی ، جیسا کہ پہلے بھی لاکھوں مہاجر افغان خواتین و حضرات واپس نہیں جا رہے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور بلکہ مسمار شدہ معیشت اپنے ملک کی اپنی بچیوں کے تعلیمی اخراجات پوری کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے اور بچیاں اسکولوں میں داخل ہونے سے قاصر ہیں۔
ایسے میں تعلیم کے حصول کے بھیس میں آنے والی سیکڑوں افغان خواتین کے تعلیمی و معاشی اخراجات پاکستان کیسے برداشت کر پائے گا؟ اور کیوں کرے گا؟پھر ان خواتین کی وجہ سے سماجی و اخلاقی برائیاں پھیل رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان، افغان مہاجرین اور افغان طالبان سے پاکستان اور پاکستانی ''رَج'' چکے ہیں ۔ہر قسم کے لاکھوں بے دستاویز (undocumented) افغان مہاجرین نے پاکستان کا سوشل فیبرک اُدھیڑ کررکھ دیا ہے ۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستانی اپنے ہی وطن میں اجنبی بن رہے ہیں ۔
بس بہت ہو چکی اخوت کے نام پر افغان مہاجرین کی مہمان نوازی ۔اگر آج کے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر افغان طالبان حکام نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں تو یہ افغانوں کا مسئلہ ہے۔
اس پابندی سے ہمارا کیا لینا دینا؟ افغانستان کے وزیر تعلیم ، ندا محمد ندیم،بھی اگر افغان خواتین کی تعلیم کے حق میں لب کشائی نہیں کرتے تو ہم کیوں افغان خواتین کی تعلیم بارے اتاولے ہو رہے ہیں؟ ہاں ہمارا بنیادی سفارتی فریضہ یہ ہے کہ ہم افغان طالبان حکام کو مجبور کریں کہ وہ افغان خواتین پر عائد کی گئی پابندیاں جلد از جلد اُٹھائیں۔ اور اگر وہ پابندیاں نہیں اُٹھاتے تو اُن کی مرضی ۔افغانستان کے شہری وہاں رہ کر اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے کے بجائے فرار ہ کر پاکستان آتے ہیں' پھر جو ملک اور جو لوگ انھیں پناہ دیتے ہیں' روز گار دیتے' یہ اس ملک کے خلاف کام کرتے ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایران بھی افغانستان کا ہمسایہ ہے اور ازبکستان ، تاجکستان اور ترکمانستان بھی ۔آخر یہ افغان خواتین ان ممالک کی جانب تعلیم کے حصول کے لیے ہجرت کیوں نہیں کرتیں؟ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان چاروں ممالک میں افغان مہاجرین کو اپنے پاؤں پسارنے کی آزادی نہیں ملتی ۔ جب کہ پاکستان میں ملی بے محابہ آزادی سے افغان مہاجرین ناجائز مفادات سمیٹ رہے ہیں۔
پاکستان کا تعلیمی ویزہ لے کر اگر افغان خواتین ، بچیاں اور لڑکیاں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں آتی ہیں تو سو بسم اللہ ، لیکن تعلیم کے بھیس میں مہاجر بن کر نہیں ۔خیبر پختونخوا کے میڈیکل کالجوں میں افغان طلبا و طالبات کے لیے 15سیٹوں کا کوٹہ مختص ہے ۔ پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 5ہزار افغان طلبا و طالبات ، قانونی طور پر، داخلہ لے سکتے ہیں ۔ مگرکسی بھی افغان طالب علم یا افغان شہری کو بغیر ویزہ پاکستان میں داخلے کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔
افغان طالبان حکام پاکستان دشمن ٹی ٹی پی کو جس طرح اعانت اور پناہ فراہم کر رہے ہیں، اس کے بعد تو افغانستان سے پاکستان آنے والوں سے اُسی طرح کا سلوک کیا جانا چاہیے جیسا سلوک ترکیہ میں ہر قسم کے افغان مہاجرین سے کیا جارہا ہے ۔
اب تو صدرِ ترکیہ، جناب طیب ایردوان، کے خصوصی حکم سے ترکیہ سرحد پر 764کلومیٹر لمبی اور 17فٹ بلند دیوار کھڑی کی جارہی ہے تاکہ شامی اور افغان مہاجرین کے راستے مسدود کیے جا سکیں ۔ افغان طالبان حکام کے پاکستان مخالف رویوں کے کارن اب کسی بھی افغان مہاجر کو پاکستان میں خوشدلی سے ویلکم نہیں کیا جانا چاہیے ۔
خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ یہ افغان خواتین '' مجبوراً'' پاکستان اس لیے آئی ہیں کہ یہاںآزادانہ طور پر تعلیم حاصل کر سکیں ۔اِن افغان لڑکیوں کے جو انٹرویوز سامنے آئے ہیں ، اُن میں بتایا گیا ہے :'' چونکہ افغان طالبان حکمرانوں نے افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین پر تعلیم کے سبھی دروازے سختی سے بند کر دیے ہیں ، اس لیے علم کے حصول کے لیے ہمیں پاکستان کی راہ اختیار کرنا پڑی ہے ۔''
اگر یہ ''افغان اسٹوڈنٹ مہاجر خواتین ''تھوڑی تعداد میں ہوتیں تو خیر تھی ، لیکن سیکڑوں افغان لڑکیوں کا تعلیم کے بہانے پاکستان دَر آنے سے ہم سب پاکستانیوں کا ماتھا ٹھنکا ہے ۔ پچھلے40سال سے افغان مہاجرین پاکستان پر بوجھ اور عذاب بنے ہُوئے ہیں ۔
یہ عذابی اور تخریبی تحفہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا دیا ہُوا ہے۔ اب بھی چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان کے سماج اور معیشت پر بھاری بھر کم بوجھ بنے ہُوئے ہیں۔ یہ واپس اپنے ملک جانے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔ ان لاکھوں افغان مہاجرین سے پاکستان اور پاکستانی عوام مسلسل نقصان اُٹھا رہے ہیں۔
پاکستان نے اسلامی اخوت کے تحت ان لاکھوں افغان مہاجرین کو وقتی طور پر اپنے ہاں پناہ دی تھی لیکن اِن کی دوسری نسل پاکستان میں پیدا ہو کرجوان ہو چکی ہے لیکن یہ واپس جانے سے انکاری ہیں۔ اِن کے پاکستان مخالف مائنڈ سیٹ سے پاکستانی خاصے نالاں ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں ٹیکسلا میں درجنوں افغان مہاجرین نے اکٹھے ہو کر مقامی شہریوں پر بلا وجہ حملہ کر دیا، چنانچہ پولیس کو بلانا پڑا لیکن مقامی طور پر کشیدگی ابھی تک برقرار ہے ۔9مئی کے المناک سانحہ میں بھی مبینہ طور پر کئی افغان شہری اور افغان مہاجرین ملوث پائے گئے ۔ کچھ گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر عمیر خان، عباس اور عصمت اللہ وغیرہ ۔
افغانستان، افغان حکمرانوں اور افغان طالبان کے ہاتھوں پاکستان اور پاکستانیوں کے دل مجروح ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان کی جانب ہمیشہ بادِسموم ہی چلی ہے ۔ افغانستان اور افغان حکمران مسلسل پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے دردِ سر بنے ہیں ۔
پاکستان لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کررہا ہے لیکن صلے میں پاکستان کوافغانستان اور وہاں کے باشندوں سے نفرت اور عناد کے سوا کیا ملا ہے ؟ ابھی چند دن پہلے فرانس میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مبینہ طور پر ایک افغان نے جو بیہودہ سلوک کیا ہے، اس منظر نے ہمارے دل مجروح کر دیے ہیں۔
صد افسوس کہ اس بدتہذیب اور زبان دراز افغان نوجوان نے ساتھ بیٹھی جنرل(ر) باجوہ کی اہلیہ کا بھی احترام نہ کیا۔ افغان طالبان پر پاکستان نے بوجوہ برسوں انویسٹمنٹ کی لیکن پچھلے 21ماہ سے جب سے افغان طالبان افغانستان کے حاکم بنے ہیں ، پاکستان کو مسلسل ضرر پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں ۔ بھارت نے اب تک پاکستان کے اتنے جوان شہید نہیں کیے ہیں جتنے افغان طالبان کے اِن 21ماہ کے دَور میں، پاک افغان سرحد پر، پاکستانی شہید کر ڈالے گئے ہیں ۔
پہلے بھی ملا عمر کی قیادت میں افغان طالبان حکمران بنے تھے اور پہلے بھی طالبان حکمران پاکستان کے لیے باعثِ آزار بنے رہے ۔ اور اب بھی یہ صورتحال ویسی ہی ہے۔ پہلے بھی افغان طالبان نے خواتین پر تعلیم کے دروازے مقفل کر دیے تھے اور اب بھی اُنہوں نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے علم اور تعلیم ممنوع قرار دے رکھی ہے ۔
اگلے روز اقوامِ ِمتحدہ نے کہا:'' آج کاافغانستان خواتین کے لیے دُنیا کا جابر ترین ملک ہے۔'' افغان خواتین کے لیے تعلیم کے حوالے سے جو سوچ ملا عمر کی تھی، وہی سوچ بد قسمتی سے آج ملا ہیبت اللہ کی ہے ۔ ان کے نزدیک خواتین کا تعلیم حاصل کرنا ''افغان کلچر'' کا حصہ نہیں ۔
افغان طالبان کو اپنا کلچر مبارک۔ وہ طالبات کے بھیس میں مگر اپنی سیکڑوں خواتین کو پاکستان کی جانب مت دھکیلیں۔ یہ نام نہاد اسٹوڈنٹ افغان خواتین پاکستان آ کر واپس نہیں جائیں گی ، جیسا کہ پہلے بھی لاکھوں مہاجر افغان خواتین و حضرات واپس نہیں جا رہے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور بلکہ مسمار شدہ معیشت اپنے ملک کی اپنی بچیوں کے تعلیمی اخراجات پوری کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے اور بچیاں اسکولوں میں داخل ہونے سے قاصر ہیں۔
ایسے میں تعلیم کے حصول کے بھیس میں آنے والی سیکڑوں افغان خواتین کے تعلیمی و معاشی اخراجات پاکستان کیسے برداشت کر پائے گا؟ اور کیوں کرے گا؟پھر ان خواتین کی وجہ سے سماجی و اخلاقی برائیاں پھیل رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان، افغان مہاجرین اور افغان طالبان سے پاکستان اور پاکستانی ''رَج'' چکے ہیں ۔ہر قسم کے لاکھوں بے دستاویز (undocumented) افغان مہاجرین نے پاکستان کا سوشل فیبرک اُدھیڑ کررکھ دیا ہے ۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستانی اپنے ہی وطن میں اجنبی بن رہے ہیں ۔
بس بہت ہو چکی اخوت کے نام پر افغان مہاجرین کی مہمان نوازی ۔اگر آج کے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر افغان طالبان حکام نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں تو یہ افغانوں کا مسئلہ ہے۔
اس پابندی سے ہمارا کیا لینا دینا؟ افغانستان کے وزیر تعلیم ، ندا محمد ندیم،بھی اگر افغان خواتین کی تعلیم کے حق میں لب کشائی نہیں کرتے تو ہم کیوں افغان خواتین کی تعلیم بارے اتاولے ہو رہے ہیں؟ ہاں ہمارا بنیادی سفارتی فریضہ یہ ہے کہ ہم افغان طالبان حکام کو مجبور کریں کہ وہ افغان خواتین پر عائد کی گئی پابندیاں جلد از جلد اُٹھائیں۔ اور اگر وہ پابندیاں نہیں اُٹھاتے تو اُن کی مرضی ۔افغانستان کے شہری وہاں رہ کر اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے کے بجائے فرار ہ کر پاکستان آتے ہیں' پھر جو ملک اور جو لوگ انھیں پناہ دیتے ہیں' روز گار دیتے' یہ اس ملک کے خلاف کام کرتے ہیں۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایران بھی افغانستان کا ہمسایہ ہے اور ازبکستان ، تاجکستان اور ترکمانستان بھی ۔آخر یہ افغان خواتین ان ممالک کی جانب تعلیم کے حصول کے لیے ہجرت کیوں نہیں کرتیں؟ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان چاروں ممالک میں افغان مہاجرین کو اپنے پاؤں پسارنے کی آزادی نہیں ملتی ۔ جب کہ پاکستان میں ملی بے محابہ آزادی سے افغان مہاجرین ناجائز مفادات سمیٹ رہے ہیں۔
پاکستان کا تعلیمی ویزہ لے کر اگر افغان خواتین ، بچیاں اور لڑکیاں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں آتی ہیں تو سو بسم اللہ ، لیکن تعلیم کے بھیس میں مہاجر بن کر نہیں ۔خیبر پختونخوا کے میڈیکل کالجوں میں افغان طلبا و طالبات کے لیے 15سیٹوں کا کوٹہ مختص ہے ۔ پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 5ہزار افغان طلبا و طالبات ، قانونی طور پر، داخلہ لے سکتے ہیں ۔ مگرکسی بھی افغان طالب علم یا افغان شہری کو بغیر ویزہ پاکستان میں داخلے کی قطعی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔
افغان طالبان حکام پاکستان دشمن ٹی ٹی پی کو جس طرح اعانت اور پناہ فراہم کر رہے ہیں، اس کے بعد تو افغانستان سے پاکستان آنے والوں سے اُسی طرح کا سلوک کیا جانا چاہیے جیسا سلوک ترکیہ میں ہر قسم کے افغان مہاجرین سے کیا جارہا ہے ۔
اب تو صدرِ ترکیہ، جناب طیب ایردوان، کے خصوصی حکم سے ترکیہ سرحد پر 764کلومیٹر لمبی اور 17فٹ بلند دیوار کھڑی کی جارہی ہے تاکہ شامی اور افغان مہاجرین کے راستے مسدود کیے جا سکیں ۔ افغان طالبان حکام کے پاکستان مخالف رویوں کے کارن اب کسی بھی افغان مہاجر کو پاکستان میں خوشدلی سے ویلکم نہیں کیا جانا چاہیے ۔