شدت پسندی جامعات اور بیانیہ کی جنگ
پاکستان میں جو چند بڑے مسائل ہیں ان میں ایک مسئلہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی یا شدت پسندی پر مبنی رجحانات ہیں
پاکستان میں جو چند بڑے مسائل ہیں ان میں ایک مسئلہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی یا شدت پسندی پر مبنی رجحانات ہیں۔ یہ ہی رجحانات آگے جاکر بڑے تنازعات یا دہشت گردی میں تبدیل ہوتے ہیں۔ بالخصوص ہمارے نوجوان طبقہ میں انتہا پسندی کے معاملات میں زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
یہ شدت پسندی محض اب مذہبی یا فرقہ وارانہ معاملات تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہمیں لسانی ، سیاسی اور علاقائی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کے خطرناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔خاص طور پر جامعات کی سطح پر جو تیزی سے شدت پسندی کے مناظر نظر آرہے ہیں۔
ان میں لسانی نوعیت کے معاملات کافی سرفہرست ہیں ۔اس شدت پسندی کے ماحول میں '' مکالمہ کی اہمیت '' یا مختلف گروہوں کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں '' قبولیت یا سماجی ، سیاسی ، مذہبی ، لسانی ہم آہنگی '' کا معاملہ کافی پیچیدہ اور سنگین نوعیت کا ہے ۔
جامعات کی سطح پر امن ، رواداری ، سماجی و سیاسی ہم آہنگی اور تنازعات سے نمٹنے کی صلاحیت اور مختلف سوچ اور فکر یا خیالات کے درمیان ایک دوسرے کے لیے قبولیت اور ہم آہنگی کے فقدان نے تعلیمی اہمیت کو بھی کم کیا ہے ۔
جو مسائل قومی یا ریاستی سطح پر موجود ہیں اور جن کا تعلق براہ راست نوجوان نسل سے ہے اسے ہم اپنے تعلیمی بیانیہ میں کوئی زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ۔
شدت پسندی کی روک تھام میں ریاستی سطح پر چار اہم دستاویزات کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ اول، بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان، دوئم، پیغام پاکستان، سوئم، دختران پاکستان ، چہارم، نیشنل سیکیورٹی پالیسی شامل ہے ۔ ان دستاویزات کو قومی نصاب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
کیونکہ اس میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی روک تھام کے لیے رسمی اور غیر رسمی سطح پر موجود تعلیمی اصلاحات، نصاب میں تبدیلی، اساتذہ کی تربیت، نفرت یا شدت پسندی پر مبنی مواد کا خاتمہ ، مدارس کی اصلاحات ، سوشل میڈیا کا موثر اور مثبت استعمال ، نوجوانوں میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ، لاتعلقی اور بیگانگی جیسے امور پر توجہ دینا ، غیر نصابی سرگرمیوں کا فروغ، گورننس لاوڈ اسپیکر کا غلط استعمال ، فرقہ واریت کا خاتمہ اور قانون کی حکمرانی یا انصاف کے نظام کو بہتر بنانا شامل ہے ۔
جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ان تمام اہم دستاویزات اور مختلف سرگرمیوں کی مدد سے'' انتہا پسندی اور شدت پسندی ''کے خلاف قومی بیانیہ کی تشکیل کو اپنی ترجیحات کا اہم حصہ بنائیں ۔
اسی مسئلہ کو بنیاد بنا کر اسلام آباد میں موجود ایک بڑے قومی تھنک ٹینک یا ادارہ '' ایس ڈی پی آئی '' یعنی ادارہ برائے پائیدار ترقی نے مختلف جامعات کے سینئر استادوں، وائس چانسلروں، میڈیا ماہرین اور سول سوسائٹی پر مشتمل ایک تھنک ٹینک ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس کا نام سی آر آر این یعنی '' تحقیقی نیٹ ورک برائے قوت مدافعت'' ہے ۔
ڈاکٹر شفقت منیر اس کے سربراہ ہیں اور اس کا مقصد تعلیمی اداروں کی سطح پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی وجوہات کا مطالعہ ، پالیسی جائزہ ، پالیسیوں میں موجود خامیوں اور عملدرآمد کے مسائل کو جاننا ، تحقیقی عمل کرنا اور ان پر مختلف ماہرین کے تحقیقی مقالہ جات سمیت طلبہ ، اساتذہ، صحافیوں ، پالیسی ساز یا عوامی نمائندوں کے درمیان ان اہم معاملات پر مکالمہ کو فروغ دینا ، بیانیہ کی تشکیل جو امن اور رواداری سے جڑا ہو۔
اسی طرح یہ تھنک ٹینک ان ہی موجودہ مسائل کو بنیاد بنا کر مستقبل کے لیے نئے امکانات سمیت نئے مواقع کو تلاش کرتا ہے۔
ڈاکٹر نظام الدین جو سابقہ ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ہیں کہ بقول جب تک ہم اپنی جامعات کے موجودہ کردار میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں جن میں نصاب سمیت غیر نصابی سرگرمیوں کو بنیاد نہیں بنائیں گے معاملات میں موجود خرابی کی اصلاح ممکن نہیں ہوسکے گی اور جب تک ہم نوجوان نسل سے جڑے گورننس کے معاملات کو بہتر نہیں بنائیں گے ہم کیسے اس کو ممکن بناسکتے ہیں کہ نئی نسل شدت پسندی کا شکار نہ ہو۔پنجاب ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ڈاکٹر شاہد منیر کے بقول شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ہمیں پوری جامعات کا ماحول تبدیل کرنا ہوگا۔
اس کے لیے ہمیں صرف طلبہ کو ہی نہیں بلکہ اساتذہ کی تربیت کے موثر نظام کو بڑھانا ہوگا اور طلبہ کو زیادہ سے زیادہ غیر نصابی سطح پر مختلف سرگرمیوں کے ساتھ جوڑ کر ان میں مثبت انداز کی ذہن سازی کرنا ہوگی ۔
گورنمنٹ کالج اینڈ یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر اصغر زیدی کے بقول ہمیں آج کے جو نوجوان ہیں ان کے مسائل کو سمجھنا ہے اور ان کی اپنی آوازوں کو سن کر اور سمجھ کر اپنی قومی پالیسیوں کو ترتیب دینا ہوگا ۔کیونکہ یہ تاثر نئی نسل میں دیکھا جارہا ہے کہ ان کو قومی سطح یا ان کے اپنے مستقبل کے بارے میں نظرانداز کیا جارہا ہے یا اہمیت نہیں دی جارہی ۔ڈاکٹر روف اعظم جو خود بھی وائس چانسلر ہیں ان کے بقول نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے محرکات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان معاملات پر زیادہ سنجیدگی سے تحقیق کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو شدت پسندی پر قائل کرتی ہے ۔
سماجی علوم کے ماہر استاد اور وائس چانسلر ڈاکٹر زکریا زاکر کے بقول ہم نے شدت پسندی سے جڑے مسائل کو سمجھنے کی بجائے ان کا حل سیاسی تنہائی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ یہ مسئلہ محض کسی ایک فریق سے نہیں جڑا ہوا بلکہ اس کے لیے مجموعی طور پر ہمیں اپنی قومی ترجیحات کا درست انداز میں تعین کرنا چاہیے ۔
جامعہ پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر خالد محمود کے بقول نوجوانوں میں شدت پسندی محض جامعات سے ہی نہیں بلکہ جو جامعات سے باہر کا ماحول ہے اس میں بھی بڑی تبدیلیاں درکار ہیں ۔ اس مسئلہ کی جڑت جامعات کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر ہمارے پورے سیاسی عمل اور سیاسی حکمت عملی سے جڑا ہونا چاہیے اور اسی بنیاد پر یا ترجیحات کو بنیاد بنا کر جامعات بھی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اسی طرح طلبہ یونین کے مقابلے میں ہمیں اب بہت زیادہ توجہ'' اسٹوڈنٹس سوسائٹیوں '' کی تشکیل کرنے ، ان کو منظم اور متحرک کرنے اور ان پر بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔طلبہ و طالبات میں '' مکالمہ کے کلچر'' کو فروغ دینا ہوگا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو تسلیم نہ کرنے کے عمل میں انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔
جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو جن میں وائس چانسلرز بھی شامل ہیں مجموعی طور پر جامعات کی گورننس اور ان معاملات میں طلبہ و طالبات کی شرکت سمیت طلبہ اور اساتذہ کے درمیان موجود فاصلوں کو دور کرکے ان میں مثبت مکالمہ یا مباحث کو پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہم اس شدت پسندی کا عملی اور فکری بنیادوں پر علاج تلاش کرسکیں اور یہ ہی ہمارے قومی مفاد میں ہے ۔
یہ شدت پسندی محض اب مذہبی یا فرقہ وارانہ معاملات تک محدود نہیں بلکہ اس میں ہمیں لسانی ، سیاسی اور علاقائی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کے خطرناک مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔خاص طور پر جامعات کی سطح پر جو تیزی سے شدت پسندی کے مناظر نظر آرہے ہیں۔
ان میں لسانی نوعیت کے معاملات کافی سرفہرست ہیں ۔اس شدت پسندی کے ماحول میں '' مکالمہ کی اہمیت '' یا مختلف گروہوں کے درمیان ایک دوسرے کے بارے میں '' قبولیت یا سماجی ، سیاسی ، مذہبی ، لسانی ہم آہنگی '' کا معاملہ کافی پیچیدہ اور سنگین نوعیت کا ہے ۔
جامعات کی سطح پر امن ، رواداری ، سماجی و سیاسی ہم آہنگی اور تنازعات سے نمٹنے کی صلاحیت اور مختلف سوچ اور فکر یا خیالات کے درمیان ایک دوسرے کے لیے قبولیت اور ہم آہنگی کے فقدان نے تعلیمی اہمیت کو بھی کم کیا ہے ۔
جو مسائل قومی یا ریاستی سطح پر موجود ہیں اور جن کا تعلق براہ راست نوجوان نسل سے ہے اسے ہم اپنے تعلیمی بیانیہ میں کوئی زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ۔
شدت پسندی کی روک تھام میں ریاستی سطح پر چار اہم دستاویزات کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ اول، بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان، دوئم، پیغام پاکستان، سوئم، دختران پاکستان ، چہارم، نیشنل سیکیورٹی پالیسی شامل ہے ۔ ان دستاویزات کو قومی نصاب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
کیونکہ اس میں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی روک تھام کے لیے رسمی اور غیر رسمی سطح پر موجود تعلیمی اصلاحات، نصاب میں تبدیلی، اساتذہ کی تربیت، نفرت یا شدت پسندی پر مبنی مواد کا خاتمہ ، مدارس کی اصلاحات ، سوشل میڈیا کا موثر اور مثبت استعمال ، نوجوانوں میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ، لاتعلقی اور بیگانگی جیسے امور پر توجہ دینا ، غیر نصابی سرگرمیوں کا فروغ، گورننس لاوڈ اسپیکر کا غلط استعمال ، فرقہ واریت کا خاتمہ اور قانون کی حکمرانی یا انصاف کے نظام کو بہتر بنانا شامل ہے ۔
جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ان تمام اہم دستاویزات اور مختلف سرگرمیوں کی مدد سے'' انتہا پسندی اور شدت پسندی ''کے خلاف قومی بیانیہ کی تشکیل کو اپنی ترجیحات کا اہم حصہ بنائیں ۔
اسی مسئلہ کو بنیاد بنا کر اسلام آباد میں موجود ایک بڑے قومی تھنک ٹینک یا ادارہ '' ایس ڈی پی آئی '' یعنی ادارہ برائے پائیدار ترقی نے مختلف جامعات کے سینئر استادوں، وائس چانسلروں، میڈیا ماہرین اور سول سوسائٹی پر مشتمل ایک تھنک ٹینک ترتیب دیا ہوا ہے۔ اس کا نام سی آر آر این یعنی '' تحقیقی نیٹ ورک برائے قوت مدافعت'' ہے ۔
ڈاکٹر شفقت منیر اس کے سربراہ ہیں اور اس کا مقصد تعلیمی اداروں کی سطح پر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی وجوہات کا مطالعہ ، پالیسی جائزہ ، پالیسیوں میں موجود خامیوں اور عملدرآمد کے مسائل کو جاننا ، تحقیقی عمل کرنا اور ان پر مختلف ماہرین کے تحقیقی مقالہ جات سمیت طلبہ ، اساتذہ، صحافیوں ، پالیسی ساز یا عوامی نمائندوں کے درمیان ان اہم معاملات پر مکالمہ کو فروغ دینا ، بیانیہ کی تشکیل جو امن اور رواداری سے جڑا ہو۔
اسی طرح یہ تھنک ٹینک ان ہی موجودہ مسائل کو بنیاد بنا کر مستقبل کے لیے نئے امکانات سمیت نئے مواقع کو تلاش کرتا ہے۔
ڈاکٹر نظام الدین جو سابقہ ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ہیں کہ بقول جب تک ہم اپنی جامعات کے موجودہ کردار میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں جن میں نصاب سمیت غیر نصابی سرگرمیوں کو بنیاد نہیں بنائیں گے معاملات میں موجود خرابی کی اصلاح ممکن نہیں ہوسکے گی اور جب تک ہم نوجوان نسل سے جڑے گورننس کے معاملات کو بہتر نہیں بنائیں گے ہم کیسے اس کو ممکن بناسکتے ہیں کہ نئی نسل شدت پسندی کا شکار نہ ہو۔پنجاب ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ڈاکٹر شاہد منیر کے بقول شدت پسندی کی روک تھام کے لیے ہمیں پوری جامعات کا ماحول تبدیل کرنا ہوگا۔
اس کے لیے ہمیں صرف طلبہ کو ہی نہیں بلکہ اساتذہ کی تربیت کے موثر نظام کو بڑھانا ہوگا اور طلبہ کو زیادہ سے زیادہ غیر نصابی سطح پر مختلف سرگرمیوں کے ساتھ جوڑ کر ان میں مثبت انداز کی ذہن سازی کرنا ہوگی ۔
گورنمنٹ کالج اینڈ یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر اصغر زیدی کے بقول ہمیں آج کے جو نوجوان ہیں ان کے مسائل کو سمجھنا ہے اور ان کی اپنی آوازوں کو سن کر اور سمجھ کر اپنی قومی پالیسیوں کو ترتیب دینا ہوگا ۔کیونکہ یہ تاثر نئی نسل میں دیکھا جارہا ہے کہ ان کو قومی سطح یا ان کے اپنے مستقبل کے بارے میں نظرانداز کیا جارہا ہے یا اہمیت نہیں دی جارہی ۔ڈاکٹر روف اعظم جو خود بھی وائس چانسلر ہیں ان کے بقول نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے محرکات کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان معاملات پر زیادہ سنجیدگی سے تحقیق کی ضرورت ہے جو نوجوانوں کو شدت پسندی پر قائل کرتی ہے ۔
سماجی علوم کے ماہر استاد اور وائس چانسلر ڈاکٹر زکریا زاکر کے بقول ہم نے شدت پسندی سے جڑے مسائل کو سمجھنے کی بجائے ان کا حل سیاسی تنہائی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ یہ مسئلہ محض کسی ایک فریق سے نہیں جڑا ہوا بلکہ اس کے لیے مجموعی طور پر ہمیں اپنی قومی ترجیحات کا درست انداز میں تعین کرنا چاہیے ۔
جامعہ پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر خالد محمود کے بقول نوجوانوں میں شدت پسندی محض جامعات سے ہی نہیں بلکہ جو جامعات سے باہر کا ماحول ہے اس میں بھی بڑی تبدیلیاں درکار ہیں ۔ اس مسئلہ کی جڑت جامعات کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر ہمارے پورے سیاسی عمل اور سیاسی حکمت عملی سے جڑا ہونا چاہیے اور اسی بنیاد پر یا ترجیحات کو بنیاد بنا کر جامعات بھی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔
اسی طرح طلبہ یونین کے مقابلے میں ہمیں اب بہت زیادہ توجہ'' اسٹوڈنٹس سوسائٹیوں '' کی تشکیل کرنے ، ان کو منظم اور متحرک کرنے اور ان پر بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔طلبہ و طالبات میں '' مکالمہ کے کلچر'' کو فروغ دینا ہوگا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو تسلیم نہ کرنے کے عمل میں انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔
جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو جن میں وائس چانسلرز بھی شامل ہیں مجموعی طور پر جامعات کی گورننس اور ان معاملات میں طلبہ و طالبات کی شرکت سمیت طلبہ اور اساتذہ کے درمیان موجود فاصلوں کو دور کرکے ان میں مثبت مکالمہ یا مباحث کو پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہم اس شدت پسندی کا عملی اور فکری بنیادوں پر علاج تلاش کرسکیں اور یہ ہی ہمارے قومی مفاد میں ہے ۔