انسانی حقوق اور عدلیہ
پاکستان میں ان حقوق کے نگہبان بہت سارے ادارے ہیں، ان میں سے ایک HRCP بھی ہے
آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے اپنی آبزرویشن دیتے ہوئے سوال کیا ''عدالت کو بتایا جائے کیا ہر شہری کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں؟ آئین میں درج زندگی اور انسانی عظمت کا حق ریاست کی اکثریتی آبادی کو حاصل نہیں۔'' معزز عدالت نے اس خیال کا اظہار کیا کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت زندگی کے تحفظ اور آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت استحصال سے پاک اور انسانی وقار پر مبنی معاشرے سے انسانوں کی آبادی کا بڑا حصہ محروم ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 38 کی ذیلی شق ڈی کے تحت عوام کی فلاح و بہبود کی ذمے داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عاید ہوتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ وہ انسان اجتماعی مسائل کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے جو صرف اپنے پیٹ کے بارے میں سوچتا ہے۔ عدالت کو بتایا جائے کہ عوام کے کھانے پینے، تعلیم، صحت اور سر پر چھت جیسی بنیادی انسانی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں؟ جسٹس جواد نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں، نہ کوئی دو رائے ہے کہ ملک میں غربت دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہے۔ ریاست تب چلے گی جب اسے قانون کے مطابق چلایا جائے۔
انسان کے بنیادی حقوق کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کے ان ریمارکس کو نہ صرف تاریخی بلکہ ان المناک حقائق کی جامع تصویر کشی کہا جاسکتا ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ترقی پسند ممالک کا یہ بڑا عجیب مذاق ہے کہ وہ قولاً تو انسانی حقوق کاپروپیگنڈا کرتے ہیں لیکن عملاًاس کی نفی کرتے ہیں۔ پاکستانی زندگی کا ہر شعبہ کسی نہ کسی لٹیرے گروہ کے قبضے میں ہے۔ آٹا انسانی خاص طور پر غریب طبقے کی خوراک کا بنیادی حصہ ہے جس پر فلور ملز مافیا کا قبضہ ہے، وہ جب چاہے اپنی مرضی سے کسی بھی بہانے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کردیتی ہے۔جسٹس جواد نے حکومت سے یہ انتہائی منصفانہ سوال کیا ہے کہ کیا ہر پاکستانی شہری کو اس کے بنیادی حقوق جن میں کھانا، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت وغیرہ شامل ہیں مہیا کیے جا رہے ہیں؟ منڈیوں میں ایک جنس موجود ہے لیکن وہ جنس عوام تک نہیں پہنچ پاتی تو یہ مجموعی انتظامی ناکامی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آخر ان مسائل کی ذمے داری کس پر آتی ہے اور یہ مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں؟
اس سوال کا بہت سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان مسائل کی ذمے داری حکومتوں پر عاید ہوتی ہے اور ان مسائل کو پیدا کرنے کی ذمے داری اس نظام پر عاید ہوتی ہے جس میں ہم زندہ ہیں۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں جمہوریت کو انسانی مسائل کا حل قرار دیا جا رہا ہے اور بعض حلقے تو جمہوریت کے حوالے سے اس قدر جذباتی ہوجاتے ہیں کہ اسے سیاسی ارتقا کی تاریخ کی آخری منزل اور حرف آخر قرار دیتے ہیں لیکن فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایک جمہوری ملک میں سانس نہیں لے رہے ہیں، کیا ہم ایک جمہوری ملک میں زندہ نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر یہاں وہ ساری برائیاں، وہ ساری معاشی ناانصافیاں، وہ سارے مظالم کیوں جاری ہیں جن کا جمہوری ملکوں میں وجود نہیں ہونا چاہیے؟ اس انتہائی مشکل سوال کا انتہائی آسان جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سرے سے جمہوریت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ یہاں چند لٹیرے خاندانوں کی حکمرانی ہے، جن کے طبقاتی مفادات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ہر قیمت پر سیاست اور حکومت پر قبضہ برقرار رہے اور جمہوریت کے نام پر عوام کا استحصال جاری رہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت قائم ہے، اس جمہوریت میں سیکڑوں برسوں پر مشتمل سرمایہ دارانہ ترقی کی انتہا یہ ہے کہ عوام کی صرف بنیادی ضرورت پوری ہو رہی ہیں، انھیں وہ آسودہ زندگی حاصل نہیں جو ہر انسان کا فطری اور اخلاقی حق ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس نظام میں قومی دولت کا 80 فیصد حصہ دو فیصد لٹیرے طبقے کے قبضے میں ہوتا ہے اور 98 فیصد انسانوں کو صرف 20 فیصد قومی دولت میں گزر بسر کرنا پڑتا ہے، جس کا نتیجہ بھوک، افلاس، بے روزگاری، بیماری، جہل کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ہر سال دنیا کے امیر ترین انسانوں کی فہرست اور ان کی دولت کے حوالے سے تفصیلات مختلف میگزین میں آتی ہیں، ان امیر ترین انسانوں کے قبضے میں اربوں ڈالر ہوتے ہیں، ظاہر ہے جس نظام میں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوگا ان ملکوں میں عوام دو وقت کی روٹی سے محتاج رہیں گے، بھوک اور غربت سے تنگ آکر انفرادی اور اجتماعی خودکشیاں کریں گے۔ ہم نے سوال کیا تھا کہ اس کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے؟ اور یہ مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اس کا جواب بھی دے دیا تھا کہ اس کی ذمے داری حکومتوں پر عاید ہوتی ہے اور ان مسائل کا پیدا کنندہ وہ نظام ہوتا ہے جس میں ہم زندہ ہیں۔ اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ حکومتوں اور نظام سے چھٹکارا کیونکر ممکن ہے؟
لوٹ مار کا نظام قومی سطح سے بین الاقوامی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ لوٹ مار کی ویسے تو بے شمار شکلیں ہیں، لیکن لوٹ مار کرنے والا طبقہ ایک ہی ہے۔ بات آٹے کی مہنگائی سے چلی تھی، سو اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ ہر سال کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے نام پر گندم کی خریداری کے دام میں سیکڑوں روپے من کااضافہ کردیا جاتا ہے۔بے چارے کسانوں ہاریوں کو اس اضافے کا کوئی فائدہ اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کے پاس جو گندم پیدا ہوتی ہے وہ مشکل سے ان کی ضروریات پوری کرتی ہے لیکن وڈیرے اور جاگیرداروں کی ہزاروں ایکڑ زمین پر پیدا ہونے والی لاکھوں من گندم سے یہ طبقہ کروڑوں روپے کما لیتا ہے۔دنیا بھر کے پسماندہ ملکوں کی ''بہتری'' کے لیے آئی ایم ایف بھاری سود پر قرض فراہم کرتا ہے۔ اس قرض کے ساتھ سود کے علاوہ بہت ساری ایسی لازمی شرطیں ہوتی ہیں جن سے غریب عوام کو نقصان پہنچتا ہے مثلاً بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، ٹیکسوں میں اضافہ اور غریب طبقات کو مختلف اشیا پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ۔ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جن کے ذریعے غریب عوام کی زندگی کو جہنم بنایا جا رہا ہے۔جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے، سامراجی ملک عوام سے اپنی مصنوعی ہمدردی کا مظاہرہ مختلف شکلوں میں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک انسانی حقوق کی پاسداری ہے، ان حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر جمہوری ملک کے آئین میں ان حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی جاتی ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی انسانی حقوق کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارے محترم جسٹس جواد نے ان حقوق کا جس طرح پوسٹ مارٹم کیا ہے اس کے بعد ان حقوق کی بے معنویت پر کچھ لکھنا وقت کے زیاں کے علاوہ کچھ نہیں۔
پاکستان میں ان حقوق کے نگہبان بہت سارے ادارے ہیں، ان میں سے ایک HRCP بھی ہے، اس کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2013 کے دوران 687 غیر مسلموں کو قتل کیا گیا اور غیرت کے نام پر 869 خواتین کو ہلاک کیا گیا۔ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیوں کا ذکر ہے لیکن ہر سال لاکھوں انسان بھوک سے مرجاتے ہیں۔ لاکھوں بچے دودھ وغیرہ سے محرومی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لاکھوں خواتین مناسب غذا نہ ملنے اور طبی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے جان سے جاتی ہیں۔ کیا یہ سارے نقصانات انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہیں؟ HRCP کی اس رپورٹ کی سرخی ہے State Fails، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک جمہوری حکومت انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہوجاتی ہے تو پھر۔۔۔؟ کیا اس پھر کا جواب انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس ہے؟