ایک یادگار سالگرہ یاد گار شخصیت
صحافت میں میرے استاد اور رہنما اور ذاتی زندگی میں میرے سرپرست مجید نظامی صاحب کی سالگرہ منائی گئی۔
صحافت میں میرے استاد اور رہنما اور ذاتی زندگی میں میرے سرپرست مجید نظامی صاحب کی سالگرہ منائی گئی۔ مجھے اطلاع نہیں کی گئی یا نہ جانے کیا ہوا کہ مجھے ان کے احباب اور اخبار کے ذریعے سے اس مبارک تقریب کا پتہ چلا۔ مجھے اس میں شرکت نہ کرنے کا بہت دکھ ہوا اور یہ غیر حاضری مجھ پر ایک سچ مچ کا بوجھ بن گئی جسے میں اب بعدازوقت اتارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس سے چند دن پہلے میری سالگرہ میں وہ بڑے شوق و دعاؤں کے ساتھ شریک ہوئے۔ میں سالگرہ نہیں مناتا بچوں نے یہ تکلف کیا اور کس کو نہیں معلوم کہ میرے نظامی خاندان کے ساتھ کیا نیاز مندانہ تعلقات ہیں۔ انھوں نے نظامی صاحب کو زحمت دی اور وہ خوشی کے ساتھ شریک ہوئے۔ بحمد للہ کہ وہ روز مرہ کی مصروفیات میں دن رات مصروف رہتے ہیں اور اس قوم کو بھولی ہوئی تحریک پاکستان یاد دلاتے ہیں ورنہ اس ویرانے میں مولوی جناح کی یاد کون دلاتا۔
میری مجید صاحب سے نیاز مندی ان کی لندن سے لاہور آ کر نوائے وقت کے معاملات سنبھالنے سے شروع ہوئی ہے اس سے قبل وہ لندن میں تھے۔ نوائے وقت کے بانی اور مرشد وفات پا گئے تو ان کے بھائی نے ان کی جگہ سنبھال لی۔ ہم سب انھیں مجید صاحب کہا کرتے تھے، نظامی صاحب صرف حمید نظامی تھے۔ ان دنوں نوائے وقت کی نوکرشاہی تین افراد پر مشتمل تھی جن کو ان کے بقول ان کو ویٹو پاور حاصل تھی۔ ان کی مجھ سے نہیں بنتی تھی چنانچہ انھوں نے مجھے ملازمت سے نکلوا دیا۔ میں نے ان دنوں اردو فیچر سروس کے نام سے کام شروع کر دیا۔ میں فیچر لکھتا اور مختلف اخبارات کو بھجوا دیتا۔ یہ کام چل نکلا اور میں بھی جوں توں کر کے وقت کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ایک شام مجید صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ مال روڈ کے مشہور فٹ پاتھ پر سیر کر رہے تھے کہ ان کا میرے ساتھ سامنا ہو گیا اورانھوں نے مجھے ملنے کو کہا۔ میں ان سے ملنے دفتر گیا تو انھوں نے مجھے واپس ادارے میں رکھ لیا۔ تب تک ان کی ویٹو پاور ان کو واپس مل چکی تھی۔
اپنے وقت کے سب سے بڑے رپورٹر زاہد چوہدری میرے چیف تھے۔ میں نے ان سے بہت سیکھا اور انھوں نے مجھے دل کھول کر سکھایا۔ ایک تو اپوزیشن کا واحد اخبار اور میں اس کا واحد سیاسی رپورٹر۔ یوں میں اپنے وقت کا بہت ہی اہم رپورٹر تھا جو اپنے ایڈیٹر کے اعتماد کا حامل بھی تھا۔ بڑے بڑے لیڈر پریس کانفرنس شروع کرنے میں میرا انتظار کرتے تھے کیونکہ ان کی باتیں اگر کہیں چھپتی تھیں تو وہ نوائے وقت ہی تھا۔ ایک بار ایئر مارشل اصغر خان نے پریس کانفرنس میں بھٹو صاحب کے بخئیے ادھیڑ دیے۔ میں نے دفتر پہنچ کر مجید صاحب کو بتایا کہ کیا کروں یہ چھپ نہیں سکتی۔ اب میرے ایڈیٹر کی ذہانت دیکھئے کہ انھوں نے کہا صرف اتنا چھاپ دو کہ آج ایئر مارشل اصغر خان نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس یہ کام نہیں کر سکتی تھی جو ان چند سطروں نے کر دیا۔ قومی سطح پر تجسس کہ ایئر مارشل نے کیا کہا۔
مجید صاحب پیدائشی اپوزیشن صحافی تھے۔ انھوں نے اپنے اخبار والوں کا ذہن بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ڈسک پر بھی بڑے کام کے آدمی تھے اور بعض اوقات خبر میں جان ڈال دیتے تھے۔ ظہور عالم شہید صاحب تھے زکریا ساجد تھے صالح محمد صدیق تھے اور کئی دوست جو اچھی صحافت کو اپنی عزت سمجھتے تھے۔ یہ عرض کر دوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب استاد جونیئر کو سکھاتے تھے اور ان کے اندر ایسا جذبہ بھر دیتے تھے کہ رپورٹر خبر کے لیے جان لڑا دیتے تھے۔ معمولی تنخواہیں مگر زمانہ سستا تھا۔ میں 120 روپے ماہانہ کی تنخواہ پر مال روڈ پر واقعہ وائی ایم ای اے کے ہوسٹل میں رہتا تھا اس ہوسٹل کے یا کسی دوسرے ریستوران سے کھانا کھاتا تھا اور صاف ستھری زندگی تھی۔ حسب ضرورت تفریح بھی ہوتی رہتی تھی۔ یہ سب کچھ جاری رہتا مگر کیا مجال کہ کوئی سیاستدان کسی قسم کی پیش کش کر سکے۔ بڑے نامور لوگ سیاسی جماعتوں کے صدر تھے اور انھیں میری بہت ضرورت رہتی تھی لیکن ان کی سیاست کی رپورٹنگ میری ڈیوٹی تھی اور بات زیادہ سے زیادہ کبھی چائے تک چلی جاتی اور بس۔ رات گئے جب آخری کاپی پریس چلی جاتی تو ہم سب قریب کے چیئرنگ کراس کے ایک چبوترے پر جمع ہو جاتے جہاں قومی ترانہ گایا جاتا اور پھر ہماری سائیکلیں اور لاہور کی گلیوں کے کتے اس طرح رات کو گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔
دفتر میں ایک پال صاحب تھے جو کیشئر تھے ہمارے لیے یہ اس دفتر کے سب سے اہم فرد تھے مگر بڑے ہی کنجوس۔ ایڈوانس کی درخواست جو دس بیس روپے میں ہوتی تھی مگر پال صاحب معذرت کر دیتے۔ اب جب وہ دفتر سے گھر جانے کے لیے سائیکل سنبھالتے تو یہ وقت مراد بر لانے کا ہوتا تھا۔ پال صاحب ادھر ادھر دیکھ کر سائیکل کے ہینڈل کے سوراخ سے ایک نوٹ نکالتے جسے دیکھ کر روح کھل اٹھتی مگر دوسرے دن واپسی لازم تھی جو ہو جاتی کسی نسبتاً خوشحال ساتھی سے قرض لے کر۔ کیا مزے دار زندگی تھی۔ سیاست کی دنیا کا بادشاہ مگر پانچ دس روپے کا محتاج۔ بس ہی زندگی کا حسن تھا۔ مجید صاحب جو باس تھے اور چیف ایڈیٹر ہمیں ہر لحاظ سے مطمئن رکھتے تھے۔ عزت افزائی جاری رہتی کسی سیاست دان کی مجال نہیں تھی کہ گستاخی کر سکتا۔ سیاست میں ان دنوں نوجوان کا رکن ہوتے تھے مگر آج کی طرح کی بچہ پارٹی نہیں ہوتی تھی جسے چھوٹے بڑے کی تمیز نہ ہوتی۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ لوگ آزاد ہیں قابل خرید و فروخت نہیں ہیں بلکہ خطرہ ہے کہ اگر کبھی ایسی گستاخی ہو گئی تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
صبح دس گیارہ بجے دفتر پہنچ جاتے اسٹاف میٹنگ کے لیے پھر اس کے بعد چل سو چل ایک کام ختم نہیں ہوتا تھا تو دوسرا سر پر اور پھر نہائت ہی ذمے داری کیونکہ نہ جانے کتنے قارئین کی نظروں سے گزرے گا اور پھر اپوزیشن کا اکلوتا اخبار جس کی تحریروں اور خبروں پر قومی سیاست چلتی تھی اور آگے بڑھتی تھی۔ کبھی کبھار تو بڑے نامور لیڈر کوئی فرمائش کرتے کسی خبر کی اشاعت کی جو پوری کی جاتی تھی بشرطیکہ غلط نہ ہو اور ایڈیٹر کو بھی بتا دیا جاتا تھا کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ کسی بڑے اخبار میں کام کرنے میں ذمے داری بھی بہت ہوتی ہے لیکن ہمارے ایڈیٹر ہماری رہنمائی کے لیے ہر وقت تیار۔ مجید صاحب کے بارے میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں نے ان سے بڑا ایڈیٹر نہیں دیکھا۔ وہ ایڈیٹری کے فن کے ماہر تھے اور ہیں۔ میں تو بوجوہ زیادہ دیر ان کے ساتھ نہ رہ سکا لیکن جو لوگ رہے ہیں وہ ان کے اس فن کو جانتے ہیں۔ مجید صاحب ان دنوں نظریہ پاکستان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ وہ کچھ وقت نکال کر صحافت پر بھی گفتگو کر لیا کرتے۔ ان کے بڑے بھائی محترم مغفور حمید نظامی ان سے بھی بڑے ایڈیٹر تھے۔ یہ دونوں بھائی صحافت کے امام ہیں۔ اب ان کے ساتھ کام کرنے والے بھی ایک ایک کر کے چلے گئے اور ان کے فن کے شناسا اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجید صاحب کو کئی سالگرہیں نصیب کرے اور ہم ہر بار ان پر لکھتے رہیں۔ بس ایک عرض ہے کہ وہ جو تحریک پاکستان کے لیے پیدا ہوئے تھے اب ان کی تحریک بھلائی جا رہی ہے اور ان کے قائدین پر بچہ لوگ حرف گیری کر رہے ہیں۔ صرف ان کا نام ہی اس کے سامنے روگ بن سکتا ہے۔
میری مجید صاحب سے نیاز مندی ان کی لندن سے لاہور آ کر نوائے وقت کے معاملات سنبھالنے سے شروع ہوئی ہے اس سے قبل وہ لندن میں تھے۔ نوائے وقت کے بانی اور مرشد وفات پا گئے تو ان کے بھائی نے ان کی جگہ سنبھال لی۔ ہم سب انھیں مجید صاحب کہا کرتے تھے، نظامی صاحب صرف حمید نظامی تھے۔ ان دنوں نوائے وقت کی نوکرشاہی تین افراد پر مشتمل تھی جن کو ان کے بقول ان کو ویٹو پاور حاصل تھی۔ ان کی مجھ سے نہیں بنتی تھی چنانچہ انھوں نے مجھے ملازمت سے نکلوا دیا۔ میں نے ان دنوں اردو فیچر سروس کے نام سے کام شروع کر دیا۔ میں فیچر لکھتا اور مختلف اخبارات کو بھجوا دیتا۔ یہ کام چل نکلا اور میں بھی جوں توں کر کے وقت کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ایک شام مجید صاحب اپنی بیگم کے ہمراہ مال روڈ کے مشہور فٹ پاتھ پر سیر کر رہے تھے کہ ان کا میرے ساتھ سامنا ہو گیا اورانھوں نے مجھے ملنے کو کہا۔ میں ان سے ملنے دفتر گیا تو انھوں نے مجھے واپس ادارے میں رکھ لیا۔ تب تک ان کی ویٹو پاور ان کو واپس مل چکی تھی۔
اپنے وقت کے سب سے بڑے رپورٹر زاہد چوہدری میرے چیف تھے۔ میں نے ان سے بہت سیکھا اور انھوں نے مجھے دل کھول کر سکھایا۔ ایک تو اپوزیشن کا واحد اخبار اور میں اس کا واحد سیاسی رپورٹر۔ یوں میں اپنے وقت کا بہت ہی اہم رپورٹر تھا جو اپنے ایڈیٹر کے اعتماد کا حامل بھی تھا۔ بڑے بڑے لیڈر پریس کانفرنس شروع کرنے میں میرا انتظار کرتے تھے کیونکہ ان کی باتیں اگر کہیں چھپتی تھیں تو وہ نوائے وقت ہی تھا۔ ایک بار ایئر مارشل اصغر خان نے پریس کانفرنس میں بھٹو صاحب کے بخئیے ادھیڑ دیے۔ میں نے دفتر پہنچ کر مجید صاحب کو بتایا کہ کیا کروں یہ چھپ نہیں سکتی۔ اب میرے ایڈیٹر کی ذہانت دیکھئے کہ انھوں نے کہا صرف اتنا چھاپ دو کہ آج ایئر مارشل اصغر خان نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس یہ کام نہیں کر سکتی تھی جو ان چند سطروں نے کر دیا۔ قومی سطح پر تجسس کہ ایئر مارشل نے کیا کہا۔
مجید صاحب پیدائشی اپوزیشن صحافی تھے۔ انھوں نے اپنے اخبار والوں کا ذہن بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ڈسک پر بھی بڑے کام کے آدمی تھے اور بعض اوقات خبر میں جان ڈال دیتے تھے۔ ظہور عالم شہید صاحب تھے زکریا ساجد تھے صالح محمد صدیق تھے اور کئی دوست جو اچھی صحافت کو اپنی عزت سمجھتے تھے۔ یہ عرض کر دوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب استاد جونیئر کو سکھاتے تھے اور ان کے اندر ایسا جذبہ بھر دیتے تھے کہ رپورٹر خبر کے لیے جان لڑا دیتے تھے۔ معمولی تنخواہیں مگر زمانہ سستا تھا۔ میں 120 روپے ماہانہ کی تنخواہ پر مال روڈ پر واقعہ وائی ایم ای اے کے ہوسٹل میں رہتا تھا اس ہوسٹل کے یا کسی دوسرے ریستوران سے کھانا کھاتا تھا اور صاف ستھری زندگی تھی۔ حسب ضرورت تفریح بھی ہوتی رہتی تھی۔ یہ سب کچھ جاری رہتا مگر کیا مجال کہ کوئی سیاستدان کسی قسم کی پیش کش کر سکے۔ بڑے نامور لوگ سیاسی جماعتوں کے صدر تھے اور انھیں میری بہت ضرورت رہتی تھی لیکن ان کی سیاست کی رپورٹنگ میری ڈیوٹی تھی اور بات زیادہ سے زیادہ کبھی چائے تک چلی جاتی اور بس۔ رات گئے جب آخری کاپی پریس چلی جاتی تو ہم سب قریب کے چیئرنگ کراس کے ایک چبوترے پر جمع ہو جاتے جہاں قومی ترانہ گایا جاتا اور پھر ہماری سائیکلیں اور لاہور کی گلیوں کے کتے اس طرح رات کو گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔
دفتر میں ایک پال صاحب تھے جو کیشئر تھے ہمارے لیے یہ اس دفتر کے سب سے اہم فرد تھے مگر بڑے ہی کنجوس۔ ایڈوانس کی درخواست جو دس بیس روپے میں ہوتی تھی مگر پال صاحب معذرت کر دیتے۔ اب جب وہ دفتر سے گھر جانے کے لیے سائیکل سنبھالتے تو یہ وقت مراد بر لانے کا ہوتا تھا۔ پال صاحب ادھر ادھر دیکھ کر سائیکل کے ہینڈل کے سوراخ سے ایک نوٹ نکالتے جسے دیکھ کر روح کھل اٹھتی مگر دوسرے دن واپسی لازم تھی جو ہو جاتی کسی نسبتاً خوشحال ساتھی سے قرض لے کر۔ کیا مزے دار زندگی تھی۔ سیاست کی دنیا کا بادشاہ مگر پانچ دس روپے کا محتاج۔ بس ہی زندگی کا حسن تھا۔ مجید صاحب جو باس تھے اور چیف ایڈیٹر ہمیں ہر لحاظ سے مطمئن رکھتے تھے۔ عزت افزائی جاری رہتی کسی سیاست دان کی مجال نہیں تھی کہ گستاخی کر سکتا۔ سیاست میں ان دنوں نوجوان کا رکن ہوتے تھے مگر آج کی طرح کی بچہ پارٹی نہیں ہوتی تھی جسے چھوٹے بڑے کی تمیز نہ ہوتی۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ لوگ آزاد ہیں قابل خرید و فروخت نہیں ہیں بلکہ خطرہ ہے کہ اگر کبھی ایسی گستاخی ہو گئی تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
صبح دس گیارہ بجے دفتر پہنچ جاتے اسٹاف میٹنگ کے لیے پھر اس کے بعد چل سو چل ایک کام ختم نہیں ہوتا تھا تو دوسرا سر پر اور پھر نہائت ہی ذمے داری کیونکہ نہ جانے کتنے قارئین کی نظروں سے گزرے گا اور پھر اپوزیشن کا اکلوتا اخبار جس کی تحریروں اور خبروں پر قومی سیاست چلتی تھی اور آگے بڑھتی تھی۔ کبھی کبھار تو بڑے نامور لیڈر کوئی فرمائش کرتے کسی خبر کی اشاعت کی جو پوری کی جاتی تھی بشرطیکہ غلط نہ ہو اور ایڈیٹر کو بھی بتا دیا جاتا تھا کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ کسی بڑے اخبار میں کام کرنے میں ذمے داری بھی بہت ہوتی ہے لیکن ہمارے ایڈیٹر ہماری رہنمائی کے لیے ہر وقت تیار۔ مجید صاحب کے بارے میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں نے ان سے بڑا ایڈیٹر نہیں دیکھا۔ وہ ایڈیٹری کے فن کے ماہر تھے اور ہیں۔ میں تو بوجوہ زیادہ دیر ان کے ساتھ نہ رہ سکا لیکن جو لوگ رہے ہیں وہ ان کے اس فن کو جانتے ہیں۔ مجید صاحب ان دنوں نظریہ پاکستان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ وہ کچھ وقت نکال کر صحافت پر بھی گفتگو کر لیا کرتے۔ ان کے بڑے بھائی محترم مغفور حمید نظامی ان سے بھی بڑے ایڈیٹر تھے۔ یہ دونوں بھائی صحافت کے امام ہیں۔ اب ان کے ساتھ کام کرنے والے بھی ایک ایک کر کے چلے گئے اور ان کے فن کے شناسا اب نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مجید صاحب کو کئی سالگرہیں نصیب کرے اور ہم ہر بار ان پر لکھتے رہیں۔ بس ایک عرض ہے کہ وہ جو تحریک پاکستان کے لیے پیدا ہوئے تھے اب ان کی تحریک بھلائی جا رہی ہے اور ان کے قائدین پر بچہ لوگ حرف گیری کر رہے ہیں۔ صرف ان کا نام ہی اس کے سامنے روگ بن سکتا ہے۔