مسقط میں چند روز

چناں چہ ہم نے اس کاؤنٹر کا رخ کیا جہاں ہمارے آگے صرف ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔


Shakeel Farooqi April 29, 2014
[email protected]

KARACHI: اتوار کی صبح اپنے گھر سے روانہ ہوکر ہم جب کراچی سے مسقط روانگی کے لیے جناح انٹر نیشنل ایئرپورٹ پہنچے تو اس وقت سوا نو بجے تھے اور جہاز کے روانہ ہونے میں پورے تین گھنٹے باقی تھے۔وقت کی یہ پابندی ہماری ریڈیو پاکستان کی طویل ملازمت کی تربیت کا ثمر ہے۔ ہم سامان کی ٹرالی پکڑے ہوئے آگے کی جانب بڑھے کیونکہ چیک ان شروع ہوچکی تھی۔ ابتدائی مراحل سے گزرنے میں صرف چند منٹ لگے جس کے بعد ہم ایئرلائن کے کاؤنٹر پر بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کے لیے اپنی قطار میں کھڑے ہوگئے۔ خلاف توقع یہاں کا مرحلہ بہت جلد طے ہوگیا کیونکہ عمان ایئر کا عملہ نہایت مستعد اور چاق و چوبند تھا۔ اگلا مرحلہ امیگریشن کا تھا جہاں کاؤنٹر تو کئی تھے لیکن قطاریں قدرے لمبی تھیں۔

چناں چہ ہم نے اس کاؤنٹر کا رخ کیا جہاں ہمارے آگے صرف ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ لیکن چند ہی لمحوں میں ہمیں اس بات کا احساس ہوگیا کہ ہم نے غلط کاؤنٹر کا انتخاب کیا تھا کیونکہ کاؤنٹر پر موجود امیگریشن کا اہلکار ہمارے آگے والے شخص سے بری طرح الجھ رہا تھا۔ ہم نے ادھر ادھر نظر ڈالی تو امیگریشن کے دیگر کاؤنٹرز پر پہلے سے لگی ہوئی قطاریں مزید لمبی ہوچکی تھیں اور ہمارے پاس اس کے سوائے اور کوئی چارہ کار باقی نہیں تھا کہ صبر و تحمل کے ساتھ اسی قطار میں کھڑے رہیں۔ ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ کاؤنٹر پر اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والا امیگریشن کا اہلکار فطرتاً اچھا انسان نہیں تھا اور شاید اس کی نیت بھی صاف نہیں تھی۔ قصہ مختصر جب معاملہ طے نہ ہو پایا تو ہم نے اس اہلکار سے کہا کہ وہ ہمارا وقت مزید خراب نہ کرے اور ہمیں جلد ازجلد فارغ کردے کیونکہ ہم میں اور ہماری اہلیہ میں مزید انتظار کی زحمت گوارا کرنے کی ہمت و سکت باقی نہیں تھی۔ ہم نے اپنے سفری کاغذات بشمول پاسپورٹ اور وزٹ ویزا اور ٹکٹ اس کی جانب بڑھادیے جس کے بعد اس نے الٹ پلٹ کر دیکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس دوران ہماری نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں جو اس کی فطرت کی بالکل صاف عکاسی کر رہا تھا کیونکہ چہرہ انسان کی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ:

Face is the index of mind ۔ جب ہماری سفری دستاویزات میں کوئی خامی نظر نہیں آئی تو اس نے اعتراض برائے اعتراض کی نیت سے کہا کہ ہمارے ویزا پر ایئرلائن کی جانب سے Ok to board کا اندراج نہیں تھا جس کے جواب میں ہم نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اوریجنل ویزا ہونے کی صورت میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی مگر وہ اپنی کٹ حجتی سے باز آنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ مجبوراً ہمیں ایئرلائن کے عملے سے رجوع کرنا پڑا جس نے اپنا ایک اہلکار ہماری مدد کے لیے ہمارے ہمراہ کردیا۔ اس اہلکار نے امیگریشن کے اہلکار کو وہی بات سمجھانے کی کوشش کی جو ہم نے اس سے قبل اس سے کہی تھی۔ مگر امیگریشن اہلکار اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔ چار و ناچار ایئرلائن کا اہلکار اپنے سینئر افسر کو اپنے ہمراہ لے کر آیا جس نے اس اہلکار سے کہا کہ کیا اسے قواعد و قوانین سے اتنی سی بھی واقفیت نہیں کہ اوریجنل ویزا ہونے کی صورت میں Ok to board کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے اس اہلکار نے اپنے برابر بیٹھے ہوئے دوسرے اہلکار سے رجوع کیا جس نے اس بات کی تصدیق کردی اور یوں ''کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے'' کے مصداق اس نااہل اور بدنیت امیگریشن اہلکار سے ہماری جان چھوٹی۔

اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد وزارت داخلہ کے افسران بالا تک یہ بات پہنچانا ہے کہ وہ اپنے ماتحت اس قسم کے اہلکاروں کی حرکات پر نظر رکھیں جن کا کام لوگوں کو خواہ مخواہ تنگ کرکے اپنی مٹھی گرم کرنا ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردیں کہ اس قسم کی شکایات عام ہیں کہ ایئرپورٹ پر تعینات امیگریشن کا عملہ ان مزدور پیشہ ناخواندہ اہل وطن کو بہت پریشان کرتا ہے جو بیرون ملک ملازمت کے ذریعے وطن عزیز کو اپنے خون پسینے کی کمائی سے قیمتی زرمبادلہ فراہم کرکے ملکی خزانے کو بھرنے کے لیے روز و شب کوشاں اور سرگرداں رہتے ہیں۔ ہماری وزارت داخلہ سے درخواست ہے کہ وہ ان امیگریشن اہلکاروں پر کڑی نظر رکھے اور خواہ مخواہ لوگوں کو تنگ کرنے والوں کی گوشمالی کا بندوبست کرے تاکہ وہ خود کو مطلق العنان اور بے لگام تصور نہ کریں اور اپنی حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی جرأت اور جسارت نہ کرسکیں۔

امیگریشن کے بعد دیگر تمام مراحل الحمداللہ پلک جھپکتے اور نہایت آسانی اور سہولت سے طے ہوگئے اور اس کے بعد ہم لاؤنج میں داخل ہوگئے جہاں کے انتظامات انتہائی معیاری اور قطعی معقول تھے۔ ٹھیک پونے بارہ بجے بورڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہم Tunnel سے گزر کر ہوائی جہاز میں داخل ہوگئے جہاں عمان ایئر کا انتہائی بااخلاق میزبان عملہ مسافروں کے پرتپاک خیرمقدم کا منتظر تھا۔ جلد ہی ہم نے اپنی اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ وقت گویا پر لگا کر اڑ رہا تھا۔ ابھی ہمیں اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے بہت زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ جہاز حرکت میں آگیا۔ ہم نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی تو دوپہر کے بارہ بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کردیا اور ٹھیک سوا بارہ بجے اپنے مقررہ وقت پر ٹیک آف کرلیا۔ اس وقت ہمیں بے ساختہ اپنی قومی ایئرلائن یاد آگئی وقت کی پابندی کبھی جس کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ عمان ایئر کی فضائی میزبانوں کا انداز تواضح قابل ستائش تھا اور جہاز کا اندرونی ماحول اور حسن انتظام بھی اتنا ہی لائق تحسین و تعریف تھا اور ہم اپنے دل ہی دل میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

ہمیں وہ زمانہ یاد آگیا جب ہماری قومی ایئرلائن کا حسن انتظام دنیا بھر میں بہترین مانا جاتا تھا اور Great people of fly with کا سلوگن اس پر خوب سجتا تھا۔

کراچی سے مسقط تک کا مختصر سا سفر نہایت آرام اور مزے سے گزرا اور سب سے بڑھ کر یہ ذرا سی بھی تاخیر کے بجائے ہمارا طیارہ مقررہ وقت سے بھی چند منٹ قبل Smooth Landing کرتے ہوئے مسقط ایئرپورٹ پر اتر گیا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔