کیا چوری اور ڈاکا ڈالنا ثواب ہے
اگر ان کی اس توجیہہ اور دلیل کو درست مان لیا جائے کہ چونکہ بجلی کے نرخ اس قدر بڑھا دیے گئے ہیں
پاکستان بنا تے وقت کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہماری اجتماعی اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی قدریں رفتہ رفتہ اس قدر انحطاط پذیر ہوتی جائیں گی کہ ایک دن ہمارے قومی لیڈر چوری، رہزنی اور ڈکیتی کو ثواب قرار دینے لگیں گے۔ آنکھیں یہ دیکھ کر ششدر، کان یہ سن کر حیران اور دل یہ جان کر دہل جاتا ہے کہ ہمارے رہبر و رہنما اپنے کردار اور اپنے اخلاق اور خطابات سے اس قوم کو کہاں لے جارہے ہیں۔ کیا ہم نے اسی دن کے لیے لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے کر اپنے لیے یہ وطن حاصل کیا تھاکہ یہاں ایک دن ہر طرف کرپشن، چوری اور رہزنی کا دور دورہ ہوگا۔ قوم کا ہر فرد کسی نہ کسی طرح راتوں رات امیر بن جانے کی فکر میں قانون اور سزا سے بے خوف و بے پرواہ ہوکر ملکی دولت پر ہاتھ صاف کر رہا ہوگا۔ جمشید دستی نے پچھلے دنوں بجلی کی چوری سے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اسے ہم کسی دیوانے یا خبط الحواس شخص کی بڑ سمجھ کر سنی ان سنی یا درگزر نہیں کرسکتے۔
اگر ان کی اس توجیہہ اور دلیل کو درست مان لیا جائے کہ چونکہ بجلی کے نرخ اس قدر بڑھا دیے گئے ہیں، اس لیے چوری سے بجلی حاصل کرنا نہ صرف مستحسن فعل ہے بلکہ ثواب حاصل کرنے کے مترادف ہے تو سارا نظام مملکت ہی تتر بتر، الٹ پلٹ اور تہہ و بالا ہوکر رہ جائے گا۔ کیونکہ آج صرف ایک شے بجلی ہی اس ملک میں مہنگی نہیں ہے، ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی اور عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ جمشید دستی کے ان مقدس خیالات اور افکار کو اگر ہمارے لوگ اپنے لیے مشعلِ راہ بنانے لگیں تو پھر کسی کو بھی کام کرنے کی چنداں ضرورت باقی نہ رہے۔ بجلی، گیس اور ضروریات زندگی کی ہر شے چوری کرکے یا چھین کر وہ سکون و آرام کے ساتھ اپنا وقت گزار سکتے ہیں۔ ہر چیز کے دام انسان کی قوت خرید سے باہر ہوچکے ہیں۔ ہمارے اس غم خوار اور ہمدرد قومی رہنما کی باتوں پر عمل کرکے ہم زندگی کی تمام تکالیف اور مشکلات سے اپنی جان باآسانی چھڑا سکتے ہیں۔
صبح سویرے بستر سے اٹھنے پر نہ فکرِ معاش ہوگا اور نہ غمِ روزگار۔ جس کا دل جس چیز کی خواہش کرے گا وہ اسے فوراً ہی مفت اور بلا تگ و دو مل جائے گی۔ قوم کے غریبوں کو یہ درس دیتے وقت جمشید دستی نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سوچا کہ ان کے ان فرمودات کے نتیجے میں اس ملک کا کیا بنے گا۔ یہ قوم جس کی اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی روایتیں پہلے ہی مخدوش اور پامال ہوتی جارہی ہیں انھیں ہم کس مقام پر پہنچا رہے ہیں۔ کرپشن اور قوم خزانے کی لوٹ مار میں تو ہم نے پہلے ہی دنیا میں بڑا نام کمالیا ہے، اب ان کے ان مفید اور ثوابی مشوروں کے بعد اگر اس قوم نے ان پر عملدرآمد شروع کردیا تو قوموں کی برادری میں ہم کیا منہ دکھا پائیں گے۔
یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کو پہلے ہی روزگار نہیں مل رہا ہے اور وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، انھیں اپنے رہنماؤں کی ان باتوں میں یقیناً وزن معلوم ہوگا اور وہ بے ساختہ اس راہ پر چل نکلیں گے۔ بلکہ مستقبل کے نوجوان تو انھیں اپنا رول ماڈل بناتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے جعلی ڈگری کے حصول کی کوششوں میں پڑجائیں گے۔ کیونکہ ہمارا قانون نہ جعلی ڈگریوں کے کاروبار پر کوئی قدغن لگا سکا ہے اور نہ جعلی ڈگریوں کے حامل لوگوں کو کوئی سزا دلوا سکا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ اتنا بے حس اور لاپروا ہوچکا ہے کہ اس کی نظر میں جعلی ڈگری حاصل کرنا بھی اب کوئی جرم ہی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جعلی ڈگری حاصل کرنے کی پاداش میں جب جمشید دستی کو ہماری عدلیہ نے قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کر دیا تو وہ فوراً ہی اپنی چھوڑی ہوئی سیٹ پر پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔ اور تو اور ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی ایسے لوگوں کو بڑے عزت و احترام سے اپنے پروگراموں میں مہمان بھی بناتا رہتا ہے۔
من حیث القوم ہم آج اخلاقی اور تہذیبی طور پر کتنے زوال پذیر ہوتے جارہے ہیں، اس کا اندازہ ان ہی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی چوری اور کرپشن سے مال بناکر اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جائے تو ہم سب اسے جھک کر سلام کیا کرتے ہیں، بلکہ اسے اپنا رہبر و رہنما مان کر اس کی تقلید کر نے لگتے ہیں۔ اس کی خاطر ہزاروں مصیبتیں اور صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے اسے الیکشن میں بھاری ووٹوں سے کامیاب کرواتے ہیں، نتیجتاً وہ پہلے سے زیادہ نڈر، بے باک اور باہمت ہوکر غبن اور لوٹ مار کرنے لگتا ہے۔ عدلیہ ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، جب سارا معاشرہ ہی ان کا حامی و مددگار بنا ہوا ہوتا ہے۔
جن لوگوں کا فرض قوم کو درست اور صحیح راہ دکھانا ہے وہی جب رہزن، قزاق اور ڈاکو بن جائیں اور دوسروں کو چوری اور لوٹ مار کی تعلیم دینے لگیں تو بھلا اب خیر کی توقع کس طرح ممکن ہو۔ بجلی کی مہنگائی کو روکنے کا صحیح حل یہ تو نہیں ہے جو جمشید دستی نے ہمیں بتایا ہے۔ وہ ایک منتخب رکن اسمبلی ہیں۔ اپنی آواز باآسانی حکمرانوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ حکومت وقت کو پہلے زبان سے اور پھر میدان میں نکل کر تنبیہہ کرسکتے ہیں۔ قوم کے ایک مقبول رہنما کی حیثیت سے اس اہم اور نیشنل کاز کی خاطر بڑے سے بڑا عوامی لشکر لے کر پارلیمنٹ ہاؤس کے آگے دھرنا دے سکتے ہیں۔ جب طاہرالقادری جو ایک منتخب سیاستدان بھی نہ تھے، گزشتہ برس الیکشن سے چند روز قبل انتخابات رکوانے کے اپنے بے مقصد اور غیر جمہوری مطالبے کی خاطر چار روز تک اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تماشا لگا سکتے ہیں تو جنھیں عوام نے بھاری ووٹوں سے نوازا ہو وہ بھلا ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ جب کہ روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف اور غریب عوام کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر کوئی قدم خلوصِ نیت سے اٹھایا جائے تو یقیناً اسے عوامی پذیرائی بھی حاصل ہوگی اور ایسا کرنے والے کو شاید ثواب بھی ملے گا۔
برسوں سے مصائب کی چکی میں پسنے والے ہمارے عوام کو ابھی تک مخلص، ایماندار اور دیانت دار رہنما نہیں ملا۔ سبھی نے صرف زبانی و کلامی جمع خرچ کرکے قوم کے معصوم لوگوں کو بے وقوف ہی بنایا ہے۔ خود جعلی ڈگریاں لے کر بڑے بڑے ایوانوں میں پہنچ کر تمام فوائد اور مراعات سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور عوام کے لیے وہی پسماندگی اور درماندگی کی زندگی۔ قوم اچھے دنوں کی آس میں برسہا برس گزار چکی، راحت و سکون اور پرآسائش زندگی کی خواہش میں اپنا بچپن اور اپنی جوانی بتا چکی۔ قوم پینسٹھ سال بعد اپنے رہنماؤں سے یہ سوال کرنے میں یقیناً حق بجانب ہے کہ آخر اس ملک کے حالات کب سدھریں گے۔ کب یہاں خوشحالی آئے گی؟ کوئی اسے مطمئن کرنے والا نہیں۔ سب اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں، کوئی دلاسے دے رہا ہے تو کوئی سبز باغ دکھا رہا ہے اور کوئی ثواب حاصل کرنے کے ایسے دلکش اور دل نشیں مشورے دے رہا ہے کہ جن پر عمل کرنے سے کوئی نیکی یا ثواب تو کیا حاصل ہو البتہ عاقبت ضرور خراب ہوجائے گی۔