کتاب اورکتبہ
نئی کتابوں کی دکانیں اور پرانی کتابوں کے ٹھکانے، خریدار کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں
پاکستان میں ذرایع ابلاغ کی آمد کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا، مگر ہمارے معاشرے میں اس بحث نے جنم لیاکہ اس کی وجہ سے مطالعے کے رجحان میں کمی ہوئی ہے۔ ہر کوئی اس موضوع پر بات کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے، اس حوالے سے ہر شخص کی اپنی رائے ہے، مگر زمینی حقائق کچھ اورکہانی سناتے ہیں۔ صرف گزشتہ دس سال کا جائزہ لیا جائے، تو بات پوری طرح سمجھ آجاتی ہے۔
اس عرصے میں درجن بھر نئے اخبارات کی اشاعت کا آغاز ہوا، جو پورے ملک میں اب اپنے قدم جما چکے ہیں۔ پرانے اخبارات کی مقبولیت کا تناسب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت دیگر کئی چھوٹے بڑے شہروں میں کتب میلوں کی روایت زور پکڑ گئی ہے۔ سالانہ بنیادوں پر کتابوں کی نمائشیں ان کے علاوہ ہیں۔ اس دہائی میں جتنی کتابیں مغربی دنیا سے ترجمہ ہوئی ہیں، اگر ان کی گنتی کی جائے تو تعداد ہزاروں میں جاپہنچتی ہے۔
نئی کتابوں کی دکانیں اور پرانی کتابوں کے ٹھکانے، خریدار کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں دل نہیں مانتا کہ مطالعے کی رجحان میں کمی ہوئی ہے، کتابیں، اخبارات، رسائل و جرائد تو برابر فروخت ہورہے ہیں، لکھنے والوں کی بہتات اور پڑھنے والوں کا قحط نہیں۔ اس لیے بقول فیض ''چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے''۔ تو گلشن کا کاروبار تو خوب چل رہا ہے، بلکہ دوڑ رہا ہے اور دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگ گیا ہے۔ اس لیے کہ کتابیں چھاپنے والے اندھادھند کتابیں چھاپ رہے ہیں اور خریدنے والے اندھادھند خرید رہے ہیں۔ دونوں طرح کے شائقین کی ایک طویل قطار ہے۔ ہمارے ہاں اکثریت اس گناہ بے لذت میں مبتلا ہے۔
ہم اگر اس صورت حال کا غور سے جائزہ لیں، تو اسی قطار کے ساتھ مزید دو قطاریں نظر آئیں گی۔ ایک قطار ان لوگوں کی ہے جنہیں مفت کتاب چاہیے اور دوسری قطار ان کی ہے، جنہیں کسی بھی طرح کتاب حاصل کرنی ہے، چاہے حصول کے بعد اس کو پلٹ کر بھی نہ دیکھیں۔ اب یہ جم غفیر، جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے، یہ ادبی میلوں میں امڈ آتا ہے اور کتاب کی نمائش میں بھی شیخ کے اونٹ کی مانند متحرک رہتا ہے۔ میں ایسے کئی لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، جنھوں نے کوئی کتاب صرف اس لیے خریدی کہ اس پر مصنف سے دستخط کروالیں، مگر اس کو پڑھنے کی نوبت آج تک نہیں آئی۔
جن دنوں میں رضا علی عابدی کی سوانح حیات لکھ رہا تھا، اس حوالے سے کئی ادب شناس شخصیات سے خیالات کا تبادلہ ہوا، تو زیادہ تر نے یہ تاثر دیا شاید یہ کتاب مرتب کی گئی ہے، جبکہ میں بارہا بتاچکا تھا کہ یہ باقاعدہ کسی کی زندگی کی کہانی لکھی گئی ہے، جس کی تحقیق میں کئی برس صرف ہوئے ہیں اور یہ کسی جامعہ کا تدریسی مقالہ نہیں، بلکہ ایسی تحقیق ہے، جس میں عابدی صاحب کی زندگی کے کئی گم شدہ گوشوں کو بازیافت کیا گیا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کس نوعیت کی کتابیں ہمارے ہاں لکھی جارہی ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے مشاہیر کے اندازوں کے پیمانے اس قدر غیر متوازن ہیں۔ یقیناً اس کتاب میں سہواً کچھ خامیاں رہ گئی ہوں گی، جن کو دوسری اشاعت میں ٹھیک کرلیا جائے گا ۔تاہم ایک شخص کا کہنا تھا کہ ''فلاں صاحب'' نے یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ کتاب میں غلطیوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی ، میں نے ان ''فلاں صاحب'' سے رابطہ کیا اور کہا میری رہنمائی فرمائیں تاکہ اس کتاب کی دوسری اشاعت میں ان غلطیوں کی اصلاح کرلی جائے اور اس کتاب کی اشاعت سے پہلے انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا، ان کے کتب خانے میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو شخصیات کی سوانح عمریاں ہیں، میں نے ان سے یہ بھی درخواست کی، مجھے ان کی فہرست مہیا کردیں تاکہ بوقت ضرورت کتاب مستعار لی جاسکے اور اگر کسی کو ضرورت ہو تو اس کو بھی مطلع کیا جاسکے۔ اس کے بعد میں نے کئی مرتبہ فون کرکے پوچھا، ہر بار نئے وعدے کے ساتھ وہ ''فلاں صاحب'' عاجزی کا پتلا بنتے رہے۔ اب کئی ہفتے گزر گئے ہیں، نہ فہرست ملی، نہ ہی پروف کی غلطیوں پر اصلاح۔ میں ہوں کہ مجسم انتظار ان کی راہ تک رہا ہوں۔ جس مستقل مزاجی سے انھوں نے میری کتاب کے بارے میں مختلف شخصیات سے اظہار خیال کیا تھا، اگر اس توجہ کا چوتھائی حصہ صرف کرتے تو میری دونوں معمولی درخواستیں قبول ہوجاتیں۔ کتاب کو کتبہ بنانے میں مہارت ہر کسی کا خاصا نہیں ہوا کرتی۔
اس قصے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد ایک مخصوص رویے کی عکاسی کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جوتے بھی بہت فروخت ہوتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں ہر کوئی ننگے پاؤں گھوم رہا ہے۔ کتاب لکھنا اور جمع کرنا فیشن بن گیا ہے۔ چھاپنے والے کو دکانداری سے مطلب ہے، خریدنے والوں کی اکثریت کتاب کو ڈرائنگ روم کی زینت بناتی ہے یا علمی رعب و دبدبے کی خاطر کتب خانے سجاتی ہے۔ یہ ''فلاں آدمی'' کا رویہ انفرادی سے اجتماعی حیثیت میں محلول ہوچکا ہے۔
کبھی پرانی کتابوں کے بازار جائیں، وہاں جتنی نایاب کتابیں ملیں گی، وہ کسی ایک نے دوسرے کو لکھ کر دی ہوگی۔ اب جس نے وصول کی یا تو اس نے کاٹھ کباڑ میں پھینک دی یا پھر کسی گھر میں علم کا وہ چراغ گل ہوا تو گھر والوں نے ردی والے کو بلا کر اپنی چاندی کرلی۔ میں خود کئی ایسے موقعوں کا گواہ ہوں، بیرون ملک سے شاعر ادیب پاکستان آتے ہیں، ان کو بہت سے مصنفین کتابیں تحفے میں پیش کرتے ہیں، ان کے سامان میں اگر کچھ جگہ بچ جائے تو وہ چند کتابیں لے کر باقی میزبان کے حوالے کردیتے ہیں، اس شرط پر کہ کسی کو بتائیے گا نہیں۔
باصلاحیت نوجوان نسل، جن میں لکھنے کی صلاحیت موجود ہے، وہ سب سے زیادہ اس ''فلاں آدمی'' والے رویے کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے پہلے جو مسند سنبھالے بیٹھا ہے، وہ راستہ دینے کو تیار نہیں۔ ہمارے معاشرے میں دو طرح کے سینئر دانشور اور لکھنے والے ملیں گے، ایک تو وہ جو بزرگ ہیں اور ان سے جب بھی ملاقات ہو، وہ گفتگو کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، علم کا چشمہ بہہ رہا ہے اور ہم سیراب ہورہے ہیں۔ ان کی بزرگی نوجوان کے لیے فکری تحفظ کا کام بھی دیتی ہے، وہ صحیح معنوں میں ان سے مستفید ہوتے ہیں، کیونکہ انھوں نے اس راہ میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے، اگر کسی نوجوان کو ایسے بزرگ میسر آجائیں تو کیا بات ہے، ورنہ پھر قسمت میں دوسری قسم کے سینئر بھی ہیں۔
یہ دوسری قسم کے سینئر وہ بزرگ ہیں، جنہیں نرگسیت کا مرض لاحق ہے۔ علم کو کم ظرف دل اور مکاری کی پڑیا میں باندھ کے رکھتے ہیں۔ کسی کو خبر نہ ہوجائے کہ ان کے پاس فلاں کتاب ہے یا یہ کسی کے کام آسکتے ہیں، البتہ انھیں دربار لگانے کا بہت شوق ہے، درباری کی حیثیت سے آپ کچھ تھوڑا بہت مستفید ہوسکتے ہیں، مگر آپ نے ان کے خلاف اُف بھی کی تو یہ آپ کا زائچہ بنادیتے ہیں۔ اب یہ نئے لکھنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ کب تک ایسے لوگوں کا علمی تشدد برداشت کریں اور ''فلاں آدمی'' والے رویے کے ہاتھوں اپنی محنت اور جستجو کو مٹی میں ملتا دیکھیں۔
نئی نسل میں لکھنے والوں کے لیے مشورہ ہے کہ اتنی پہچان ضرور کرلیں۔ میں نے یہاں کوئی مفروضے نہیں بیان کیے، کچھ پردہ نشینوں کے نام لیے بغیر اپنے تجربات کی کتھا آپ کو سنائی ہے۔ ایک ایسی کہانی، جس میں نووارد تخلیق کار کو اس کا کردار بننا پڑتا ہے، وہ اب ایسا چاہے یا نہ چاہے، مگر اسے اس صورت حال کا سامنا ہوگا۔
(کتاب کے عالمی دن کے موقع پر آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں ''کتاب زندگی ہے'' کی تقریب میں پڑھی گئی تحریر)
اس عرصے میں درجن بھر نئے اخبارات کی اشاعت کا آغاز ہوا، جو پورے ملک میں اب اپنے قدم جما چکے ہیں۔ پرانے اخبارات کی مقبولیت کا تناسب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت دیگر کئی چھوٹے بڑے شہروں میں کتب میلوں کی روایت زور پکڑ گئی ہے۔ سالانہ بنیادوں پر کتابوں کی نمائشیں ان کے علاوہ ہیں۔ اس دہائی میں جتنی کتابیں مغربی دنیا سے ترجمہ ہوئی ہیں، اگر ان کی گنتی کی جائے تو تعداد ہزاروں میں جاپہنچتی ہے۔
نئی کتابوں کی دکانیں اور پرانی کتابوں کے ٹھکانے، خریدار کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں، ایسے میں دل نہیں مانتا کہ مطالعے کی رجحان میں کمی ہوئی ہے، کتابیں، اخبارات، رسائل و جرائد تو برابر فروخت ہورہے ہیں، لکھنے والوں کی بہتات اور پڑھنے والوں کا قحط نہیں۔ اس لیے بقول فیض ''چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے''۔ تو گلشن کا کاروبار تو خوب چل رہا ہے، بلکہ دوڑ رہا ہے اور دوڑتے دوڑتے ہانپنے لگ گیا ہے۔ اس لیے کہ کتابیں چھاپنے والے اندھادھند کتابیں چھاپ رہے ہیں اور خریدنے والے اندھادھند خرید رہے ہیں۔ دونوں طرح کے شائقین کی ایک طویل قطار ہے۔ ہمارے ہاں اکثریت اس گناہ بے لذت میں مبتلا ہے۔
ہم اگر اس صورت حال کا غور سے جائزہ لیں، تو اسی قطار کے ساتھ مزید دو قطاریں نظر آئیں گی۔ ایک قطار ان لوگوں کی ہے جنہیں مفت کتاب چاہیے اور دوسری قطار ان کی ہے، جنہیں کسی بھی طرح کتاب حاصل کرنی ہے، چاہے حصول کے بعد اس کو پلٹ کر بھی نہ دیکھیں۔ اب یہ جم غفیر، جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے، یہ ادبی میلوں میں امڈ آتا ہے اور کتاب کی نمائش میں بھی شیخ کے اونٹ کی مانند متحرک رہتا ہے۔ میں ایسے کئی لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، جنھوں نے کوئی کتاب صرف اس لیے خریدی کہ اس پر مصنف سے دستخط کروالیں، مگر اس کو پڑھنے کی نوبت آج تک نہیں آئی۔
جن دنوں میں رضا علی عابدی کی سوانح حیات لکھ رہا تھا، اس حوالے سے کئی ادب شناس شخصیات سے خیالات کا تبادلہ ہوا، تو زیادہ تر نے یہ تاثر دیا شاید یہ کتاب مرتب کی گئی ہے، جبکہ میں بارہا بتاچکا تھا کہ یہ باقاعدہ کسی کی زندگی کی کہانی لکھی گئی ہے، جس کی تحقیق میں کئی برس صرف ہوئے ہیں اور یہ کسی جامعہ کا تدریسی مقالہ نہیں، بلکہ ایسی تحقیق ہے، جس میں عابدی صاحب کی زندگی کے کئی گم شدہ گوشوں کو بازیافت کیا گیا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کس نوعیت کی کتابیں ہمارے ہاں لکھی جارہی ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے مشاہیر کے اندازوں کے پیمانے اس قدر غیر متوازن ہیں۔ یقیناً اس کتاب میں سہواً کچھ خامیاں رہ گئی ہوں گی، جن کو دوسری اشاعت میں ٹھیک کرلیا جائے گا ۔تاہم ایک شخص کا کہنا تھا کہ ''فلاں صاحب'' نے یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ کتاب میں غلطیوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی ، میں نے ان ''فلاں صاحب'' سے رابطہ کیا اور کہا میری رہنمائی فرمائیں تاکہ اس کتاب کی دوسری اشاعت میں ان غلطیوں کی اصلاح کرلی جائے اور اس کتاب کی اشاعت سے پہلے انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا، ان کے کتب خانے میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو شخصیات کی سوانح عمریاں ہیں، میں نے ان سے یہ بھی درخواست کی، مجھے ان کی فہرست مہیا کردیں تاکہ بوقت ضرورت کتاب مستعار لی جاسکے اور اگر کسی کو ضرورت ہو تو اس کو بھی مطلع کیا جاسکے۔ اس کے بعد میں نے کئی مرتبہ فون کرکے پوچھا، ہر بار نئے وعدے کے ساتھ وہ ''فلاں صاحب'' عاجزی کا پتلا بنتے رہے۔ اب کئی ہفتے گزر گئے ہیں، نہ فہرست ملی، نہ ہی پروف کی غلطیوں پر اصلاح۔ میں ہوں کہ مجسم انتظار ان کی راہ تک رہا ہوں۔ جس مستقل مزاجی سے انھوں نے میری کتاب کے بارے میں مختلف شخصیات سے اظہار خیال کیا تھا، اگر اس توجہ کا چوتھائی حصہ صرف کرتے تو میری دونوں معمولی درخواستیں قبول ہوجاتیں۔ کتاب کو کتبہ بنانے میں مہارت ہر کسی کا خاصا نہیں ہوا کرتی۔
اس قصے کو یہاں بیان کرنے کا مقصد ایک مخصوص رویے کی عکاسی کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جوتے بھی بہت فروخت ہوتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں ہر کوئی ننگے پاؤں گھوم رہا ہے۔ کتاب لکھنا اور جمع کرنا فیشن بن گیا ہے۔ چھاپنے والے کو دکانداری سے مطلب ہے، خریدنے والوں کی اکثریت کتاب کو ڈرائنگ روم کی زینت بناتی ہے یا علمی رعب و دبدبے کی خاطر کتب خانے سجاتی ہے۔ یہ ''فلاں آدمی'' کا رویہ انفرادی سے اجتماعی حیثیت میں محلول ہوچکا ہے۔
کبھی پرانی کتابوں کے بازار جائیں، وہاں جتنی نایاب کتابیں ملیں گی، وہ کسی ایک نے دوسرے کو لکھ کر دی ہوگی۔ اب جس نے وصول کی یا تو اس نے کاٹھ کباڑ میں پھینک دی یا پھر کسی گھر میں علم کا وہ چراغ گل ہوا تو گھر والوں نے ردی والے کو بلا کر اپنی چاندی کرلی۔ میں خود کئی ایسے موقعوں کا گواہ ہوں، بیرون ملک سے شاعر ادیب پاکستان آتے ہیں، ان کو بہت سے مصنفین کتابیں تحفے میں پیش کرتے ہیں، ان کے سامان میں اگر کچھ جگہ بچ جائے تو وہ چند کتابیں لے کر باقی میزبان کے حوالے کردیتے ہیں، اس شرط پر کہ کسی کو بتائیے گا نہیں۔
باصلاحیت نوجوان نسل، جن میں لکھنے کی صلاحیت موجود ہے، وہ سب سے زیادہ اس ''فلاں آدمی'' والے رویے کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے پہلے جو مسند سنبھالے بیٹھا ہے، وہ راستہ دینے کو تیار نہیں۔ ہمارے معاشرے میں دو طرح کے سینئر دانشور اور لکھنے والے ملیں گے، ایک تو وہ جو بزرگ ہیں اور ان سے جب بھی ملاقات ہو، وہ گفتگو کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، علم کا چشمہ بہہ رہا ہے اور ہم سیراب ہورہے ہیں۔ ان کی بزرگی نوجوان کے لیے فکری تحفظ کا کام بھی دیتی ہے، وہ صحیح معنوں میں ان سے مستفید ہوتے ہیں، کیونکہ انھوں نے اس راہ میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے، اگر کسی نوجوان کو ایسے بزرگ میسر آجائیں تو کیا بات ہے، ورنہ پھر قسمت میں دوسری قسم کے سینئر بھی ہیں۔
یہ دوسری قسم کے سینئر وہ بزرگ ہیں، جنہیں نرگسیت کا مرض لاحق ہے۔ علم کو کم ظرف دل اور مکاری کی پڑیا میں باندھ کے رکھتے ہیں۔ کسی کو خبر نہ ہوجائے کہ ان کے پاس فلاں کتاب ہے یا یہ کسی کے کام آسکتے ہیں، البتہ انھیں دربار لگانے کا بہت شوق ہے، درباری کی حیثیت سے آپ کچھ تھوڑا بہت مستفید ہوسکتے ہیں، مگر آپ نے ان کے خلاف اُف بھی کی تو یہ آپ کا زائچہ بنادیتے ہیں۔ اب یہ نئے لکھنے والوں کو سوچنا ہوگا کہ کب تک ایسے لوگوں کا علمی تشدد برداشت کریں اور ''فلاں آدمی'' والے رویے کے ہاتھوں اپنی محنت اور جستجو کو مٹی میں ملتا دیکھیں۔
نئی نسل میں لکھنے والوں کے لیے مشورہ ہے کہ اتنی پہچان ضرور کرلیں۔ میں نے یہاں کوئی مفروضے نہیں بیان کیے، کچھ پردہ نشینوں کے نام لیے بغیر اپنے تجربات کی کتھا آپ کو سنائی ہے۔ ایک ایسی کہانی، جس میں نووارد تخلیق کار کو اس کا کردار بننا پڑتا ہے، وہ اب ایسا چاہے یا نہ چاہے، مگر اسے اس صورت حال کا سامنا ہوگا۔
(کتاب کے عالمی دن کے موقع پر آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں ''کتاب زندگی ہے'' کی تقریب میں پڑھی گئی تحریر)