سچ کڑوا ہوتا ہے
حیدر آباد کا موسم ہر رت میں خوبصورت ہے۔ یہاں کی ہوائیں ہمیشہ تازہ دم رہتی ہیں۔ یہ تخلیقی عمل کا شعر ہے
حیدر آباد کا موسم ہر رت میں خوبصورت ہے۔ یہاں کی ہوائیں ہمیشہ تازہ دم رہتی ہیں۔ یہ تخلیقی عمل کا شعر ہے۔ جو آنکھیں خواب دیکھتی اور شعر سوچتی ہیں ان کے لیے ایک تحرک ہے۔ خاموش لمحوں کو کھوجتے ذہن کہیں بھی چلے جائیں ہر طرف ٹھہراؤ ملتا ہے۔ لوگوں کا مزاج بھی دھیما ہے۔ اپنی دھن میں رہتے ہیں اور کم فاصلوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔ دریاؤں کے کنارے آباد ہونے والے شہر خوبصورت کہلاتے ہیں۔ موسم کی پہلی بارش کے بعد کوئل نے دوبارہ سر بکھیرنے شروع کردیے ہیں۔ آج کی شام پرلطف ہے۔ ہواؤں میں دریاؤں کی مستی اور گرمی کے موسم میں کھلنے والے پھولوں کی مہک احساس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتی ہے۔ سرسبز بڑے سے لان میں بچے کھیل رہے ہیں۔ اور کلب کے طویل واکنگ ٹریک پر میں حسب معمول چل رہی ہوں کہ وہ ذہین سی لڑکی سندھیا میری طرف آرہی ہے۔ قریب آکر میرے ساتھ چلنے لگی۔
''ہیلو کیسی ہیں؟'' سندھیا مسکرائی۔
''بالکل ٹھیک، تم کیسی ہو؟''
''ایک دم ہشاش بشاش'' وہ ہمیشہ ایک ہی جملہ دہراتی ہے۔
''آپ یہاں کیسے، میں تو سمجھی تھی کہ آپ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کرنے گئی ہوں گی''۔ وہ حیرت سے بولی۔
''اچھا تو کیا دوبارہ لٹریچر فیسٹیول ہو رہا ہے؟''
''حیرت ہے کہ ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود آپ کو ملک میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کا علم نہیں ہے؟''
''آج کل مصروف ہوں شاید اس لیے دھیان نہیں دیا۔''
''پچھلی بار کراچی میں لٹریچر فیسٹیول ہوا تھا اس میں بھی آپ نہیں تھیں۔''
''میرا جانے کا ارادہ تھا مگر حالات کی وجہ سے نہیں جاسکی۔''
''میں نے وہ فیسٹیول اٹینڈ کیا تھا۔ خوب انجوائے کیا۔ ایک سیشن میں بڑے مزے کی بات ہوئی تھی۔ پروگرام کے دوران ایک لڑکے نے اینکر سے سوال کیا تھا کہ ہر مرتبہ وہی چہرے کیوں ہوتے ہیں؟ کیا اس ملک میں دوسرے لوگ نہیں ہیں؟ ابھی اس سیشن کی گفتگو کو ہی لیجیے۔ کہ جو خواتین بلائی گئی ہیں ان کا کیا مطالعہ ہے، یہ اپنی گفتگو سے سامعین پر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی ہیں۔ کیا کرائیٹیریا ہے انھیں پروگرام میں بلانے کا؟''
''اچھا تو ایسا سوال اٹھایا گیا تھا۔ پھر جواب کیا ملا؟''
''اینکر پرسن کے چہرے پر خفگی کے آثار نمودار ہوئے۔ سامعین کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ میزبان غصے سے بولیں یہ سوال جاکر منتظمین سے کیجیے۔ ہم سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ اس لڑکے نے ایک لحاظ سے میرے دل کی ترجمانی کی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ میں ادبی پروگرامز میں جاتی رہتی ہوں۔ سالہا سال سے وہی پرانے چہرے دیکھ رہی ہوں۔''
''یہ رجحان تمہیں ہر شعبے میں ملے گا۔ بات فقط ادب کی نہیں ہے؟''
''اس کے بعد خاموشی چھاگئی۔ بہت سی شناسا خواتین ٹریک پر تھیں۔ اب حیدرآباد میں چند ایک بڑے سے پارک بن گئے ہیں۔ جہاں شام کو لوگ واک کرنے نکل جاتے ہیں۔ آج کل خواتین میں جسمانی فٹنس کے حوالے سے بڑا شعور پایا جاتا ہے۔''
''ہر مرتبہ یہ فیسٹیولز فائیو اسٹار ہوٹلز میں منعقد ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ادب عوامی حلقوں سے نکل کر امیروں کی میراث بنتا جا رہا ہے۔'' سندھیا نے ایک اور سوال اٹھایا۔
''یہ بات سوچ کر مجھے بھی افسوس ہوتا ہے۔'' میں نے جواب دیا۔
''کچھ عرصہ پہلے حیدرآباد میں بھی مشاعرہ ہوا تھا۔ مشاعرے میں شرکت کرنے والے اکثر شعرا نے پرانا کلام سنایا۔ لوگ سالہا سال سے پرانے کلام چلا رہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ تھک گئے ہیں تو ریٹائر ہوجائیں۔ نئے لوگوں کو موقع دیں۔''
وہ بہت غصے میں تھی۔ سندھیا شعر بھی کہتی ہے۔ مضمون نویس ہونے کے ساتھ وہ اچھی نقاد بھی ہے۔ میں نے اس جنریشن میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ یہ لوگ مصلحت پسند نہیں ہیں۔ صاف سچ منہ پر کہہ دیتے ہیں۔ کوئی بات بری لگے تو شور مچاتے ہیں۔ احتجاج کرتے ہیں۔ اس کی بات میں وزن ہے۔ آج کل شادیاں بھی فائیو اسٹار ہوٹلز میں ہونے لگی ہیں۔ نمایش کا دور دورہ ہے۔ امارت پسندی کی نہ ختم ہونے والی دوڑ ہے۔ لوگ سب سے پہلے بہت اچھی ہی پی آر بنالیتے ہیں۔ اور پھر ہر محفل میں نظر آتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں، جو اعلیٰ پائے کے تخلیقی کام میں مگن ہیں مگر گوشہ نشین ہیں۔ انھیں دور جدید کے لوازمات نہیں آتے کہ وہ آگے کی صفوں میں جا بیٹھیں۔
''آپ خاموش کیوں ہوگئیں؟'' سندھیا بولی۔
''تمہاری باتیں مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔''
''اسی لیے اکثر لوگ مجھ سے ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔'' وہ اداسی سے بولی۔
''سچ بہت کڑوا ہوتا ہے۔ شاید اس لیے۔'' وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی۔ ''میں نے بھی سالہا سال سے ایسا ہی دیکھا کہ جس نے اپنی جگہ بنائی، اس نے دوسرا کا راستہ روک دیا۔ کہ کہیں وہ بے اثر نہ ہوجائے۔ اور کوئی دوسرا آکر اس کی جگہ نہ لے لے۔ یا پھر گروپ بن جاتے ہیں۔ پھر فقط اپنے دوستوں کا تذکرہ کرو۔ انھیں سراہو اور ہر جگہ انھیں لیے لیے پھرو۔''
''اسی لیے تو میں آپ سے ہمیشہ کہتی ہوں کہ اس اجارہ داری اور اقربا پروری کے خلاف لکھیں تاکہ تبدیلی آئے اور حق دار کو اس کا جائز حق مل سکے۔''
''حق دار کو اگر اس کا جائزہ حق ملنے لگے تو جو حق دار نہیں ہیں ان کا کیا ہوگا؟'' میں نے ازراہ مذاق کہا مگر وہ نہیں ہنسی۔
''دیکھو سندھیا! تبدیلی آ رہی ہے۔لوگ سوال اٹھانے لگے ہیں۔ وہ پہلے سے بہت سمجھدار ہوچکے ہیں''۔
''لوگوں کی سمجھداری سے کچھ نہیں ہوگا۔ سمجھدار رہنماؤں کو ہونا چاہیے۔ منتظمین کو سوچنا چاہیے۔''
''یہ حقیقت ہے کہ فن و ادب ہمیشہ پسماندہ اور متوسط طبقوں سے سر اٹھاتا ہے۔ جو لڑتے، مرتے اور سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ زمین کی خوشبو سے قریب تر ہیں۔ وہ صلے کا نہیں سوچتے، کسی اعزاز کا انتظار نہیں کرتے۔ سند یا ایوارڈ ان کے لیے بے معنی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو عوام کے قریب تر ہوتے ہیں۔ ان کے دکھوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عوام کی محبت پر لکھنے والوں کا بہت بڑا اعزاز ہے۔''
''باصلاحیت لوگوں اور نوجوانوں کی اس ملک میں قدر نہیں ہے۔''
وہ ہمیشہ سے جذباتی ہے۔ اس ملک کے اکثر نوجوان ایک انداز سے سوچتے ہیں۔ ان کا ادراک جھوٹ کو پرکھ لیتا ہے۔ ان کی سمجھ سچائی کی تہہ تک اتر جاتی ہے۔ سب کچھ دیکھ کر اور محسوس کرکے یہ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ یہ قول و عمل میں تضاد پاکر پریشان ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ماحول کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ہر انسان کو محض اس کی صلاحیت کی بنا پر موقع ملنا چاہیے۔
صحافی، دانشور اور ادیب اس ملک کا آئینہ ہیں۔ ان پر بہت بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ذاتی پسند، ناپسند، انفرادی سوچ اور جانبدار رویے سے بالاتر ہوکر سوچیں۔ وہ فن و فکر اور ادب کو امیروں کی میراث نہ بنائیں۔ وہ تخلیق کو عوامی سطح پر لے آئیں۔
''ہیلو کیسی ہیں؟'' سندھیا مسکرائی۔
''بالکل ٹھیک، تم کیسی ہو؟''
''ایک دم ہشاش بشاش'' وہ ہمیشہ ایک ہی جملہ دہراتی ہے۔
''آپ یہاں کیسے، میں تو سمجھی تھی کہ آپ اسلام آباد لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کرنے گئی ہوں گی''۔ وہ حیرت سے بولی۔
''اچھا تو کیا دوبارہ لٹریچر فیسٹیول ہو رہا ہے؟''
''حیرت ہے کہ ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود آپ کو ملک میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں کا علم نہیں ہے؟''
''آج کل مصروف ہوں شاید اس لیے دھیان نہیں دیا۔''
''پچھلی بار کراچی میں لٹریچر فیسٹیول ہوا تھا اس میں بھی آپ نہیں تھیں۔''
''میرا جانے کا ارادہ تھا مگر حالات کی وجہ سے نہیں جاسکی۔''
''میں نے وہ فیسٹیول اٹینڈ کیا تھا۔ خوب انجوائے کیا۔ ایک سیشن میں بڑے مزے کی بات ہوئی تھی۔ پروگرام کے دوران ایک لڑکے نے اینکر سے سوال کیا تھا کہ ہر مرتبہ وہی چہرے کیوں ہوتے ہیں؟ کیا اس ملک میں دوسرے لوگ نہیں ہیں؟ ابھی اس سیشن کی گفتگو کو ہی لیجیے۔ کہ جو خواتین بلائی گئی ہیں ان کا کیا مطالعہ ہے، یہ اپنی گفتگو سے سامعین پر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی ہیں۔ کیا کرائیٹیریا ہے انھیں پروگرام میں بلانے کا؟''
''اچھا تو ایسا سوال اٹھایا گیا تھا۔ پھر جواب کیا ملا؟''
''اینکر پرسن کے چہرے پر خفگی کے آثار نمودار ہوئے۔ سامعین کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ میزبان غصے سے بولیں یہ سوال جاکر منتظمین سے کیجیے۔ ہم سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ اس لڑکے نے ایک لحاظ سے میرے دل کی ترجمانی کی۔ آپ تو جانتی ہیں کہ میں ادبی پروگرامز میں جاتی رہتی ہوں۔ سالہا سال سے وہی پرانے چہرے دیکھ رہی ہوں۔''
''یہ رجحان تمہیں ہر شعبے میں ملے گا۔ بات فقط ادب کی نہیں ہے؟''
''اس کے بعد خاموشی چھاگئی۔ بہت سی شناسا خواتین ٹریک پر تھیں۔ اب حیدرآباد میں چند ایک بڑے سے پارک بن گئے ہیں۔ جہاں شام کو لوگ واک کرنے نکل جاتے ہیں۔ آج کل خواتین میں جسمانی فٹنس کے حوالے سے بڑا شعور پایا جاتا ہے۔''
''ہر مرتبہ یہ فیسٹیولز فائیو اسٹار ہوٹلز میں منعقد ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ادب عوامی حلقوں سے نکل کر امیروں کی میراث بنتا جا رہا ہے۔'' سندھیا نے ایک اور سوال اٹھایا۔
''یہ بات سوچ کر مجھے بھی افسوس ہوتا ہے۔'' میں نے جواب دیا۔
''کچھ عرصہ پہلے حیدرآباد میں بھی مشاعرہ ہوا تھا۔ مشاعرے میں شرکت کرنے والے اکثر شعرا نے پرانا کلام سنایا۔ لوگ سالہا سال سے پرانے کلام چلا رہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ تھک گئے ہیں تو ریٹائر ہوجائیں۔ نئے لوگوں کو موقع دیں۔''
وہ بہت غصے میں تھی۔ سندھیا شعر بھی کہتی ہے۔ مضمون نویس ہونے کے ساتھ وہ اچھی نقاد بھی ہے۔ میں نے اس جنریشن میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ یہ لوگ مصلحت پسند نہیں ہیں۔ صاف سچ منہ پر کہہ دیتے ہیں۔ کوئی بات بری لگے تو شور مچاتے ہیں۔ احتجاج کرتے ہیں۔ اس کی بات میں وزن ہے۔ آج کل شادیاں بھی فائیو اسٹار ہوٹلز میں ہونے لگی ہیں۔ نمایش کا دور دورہ ہے۔ امارت پسندی کی نہ ختم ہونے والی دوڑ ہے۔ لوگ سب سے پہلے بہت اچھی ہی پی آر بنالیتے ہیں۔ اور پھر ہر محفل میں نظر آتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں، جو اعلیٰ پائے کے تخلیقی کام میں مگن ہیں مگر گوشہ نشین ہیں۔ انھیں دور جدید کے لوازمات نہیں آتے کہ وہ آگے کی صفوں میں جا بیٹھیں۔
''آپ خاموش کیوں ہوگئیں؟'' سندھیا بولی۔
''تمہاری باتیں مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔''
''اسی لیے اکثر لوگ مجھ سے ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔'' وہ اداسی سے بولی۔
''سچ بہت کڑوا ہوتا ہے۔ شاید اس لیے۔'' وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی۔ ''میں نے بھی سالہا سال سے ایسا ہی دیکھا کہ جس نے اپنی جگہ بنائی، اس نے دوسرا کا راستہ روک دیا۔ کہ کہیں وہ بے اثر نہ ہوجائے۔ اور کوئی دوسرا آکر اس کی جگہ نہ لے لے۔ یا پھر گروپ بن جاتے ہیں۔ پھر فقط اپنے دوستوں کا تذکرہ کرو۔ انھیں سراہو اور ہر جگہ انھیں لیے لیے پھرو۔''
''اسی لیے تو میں آپ سے ہمیشہ کہتی ہوں کہ اس اجارہ داری اور اقربا پروری کے خلاف لکھیں تاکہ تبدیلی آئے اور حق دار کو اس کا جائز حق مل سکے۔''
''حق دار کو اگر اس کا جائزہ حق ملنے لگے تو جو حق دار نہیں ہیں ان کا کیا ہوگا؟'' میں نے ازراہ مذاق کہا مگر وہ نہیں ہنسی۔
''دیکھو سندھیا! تبدیلی آ رہی ہے۔لوگ سوال اٹھانے لگے ہیں۔ وہ پہلے سے بہت سمجھدار ہوچکے ہیں''۔
''لوگوں کی سمجھداری سے کچھ نہیں ہوگا۔ سمجھدار رہنماؤں کو ہونا چاہیے۔ منتظمین کو سوچنا چاہیے۔''
''یہ حقیقت ہے کہ فن و ادب ہمیشہ پسماندہ اور متوسط طبقوں سے سر اٹھاتا ہے۔ جو لڑتے، مرتے اور سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ زمین کی خوشبو سے قریب تر ہیں۔ وہ صلے کا نہیں سوچتے، کسی اعزاز کا انتظار نہیں کرتے۔ سند یا ایوارڈ ان کے لیے بے معنی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو عوام کے قریب تر ہوتے ہیں۔ ان کے دکھوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عوام کی محبت پر لکھنے والوں کا بہت بڑا اعزاز ہے۔''
''باصلاحیت لوگوں اور نوجوانوں کی اس ملک میں قدر نہیں ہے۔''
وہ ہمیشہ سے جذباتی ہے۔ اس ملک کے اکثر نوجوان ایک انداز سے سوچتے ہیں۔ ان کا ادراک جھوٹ کو پرکھ لیتا ہے۔ ان کی سمجھ سچائی کی تہہ تک اتر جاتی ہے۔ سب کچھ دیکھ کر اور محسوس کرکے یہ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ یہ قول و عمل میں تضاد پاکر پریشان ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ماحول کا خواب دیکھتے ہیں جہاں ہر انسان کو محض اس کی صلاحیت کی بنا پر موقع ملنا چاہیے۔
صحافی، دانشور اور ادیب اس ملک کا آئینہ ہیں۔ ان پر بہت بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ذاتی پسند، ناپسند، انفرادی سوچ اور جانبدار رویے سے بالاتر ہوکر سوچیں۔ وہ فن و فکر اور ادب کو امیروں کی میراث نہ بنائیں۔ وہ تخلیق کو عوامی سطح پر لے آئیں۔