اقتصادی و معاشی مسائل کا حل

پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے

پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے (فوٹو : فائل)

رواں مالی معاشی ترقی کی شرح 0.29 فی صد رہی جو گزشتہ مالی سال میں 6.1 فی صد تھی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے رواں مالی سال کا اقتصادی سروے جاری کرتے ہوئے، اس بات کی نشاندہی کی۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر یہ حکومت ذمے داری نہ سنبھالتی تو نہ جانے ملک کہاں کھڑا ہوتا اور دیوالیہ ہوجاتا، معیشت میں جو گراؤٹ ہو رہی تھی وہ رک چکی ہے، درست سمت کا تعین کردیا، اب ہماری کوششیں اسے ترقی کے راستے پر لے جانا ہے۔

یہ بات خاصی پریشان کن ہے کہ وفاقی حکومت رواں مالی سال کے معاشی اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور اسی صورتحال میں وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں اقتصادیات کے شعبے میں ریسرچ کی شدید کمی ہے، شاید اسی وجہ سے ملک میں اقتصادی ماہرین کی بھی کمی ہے، پاکستان میں معیشت کے ساتھ جڑے کیا مسائل ہیں؟

ہمارے پاس اچھے ماہر معیشت کی کمی ہے یا پھر ہمارے مسائل ایسے ہیں کہ ان کوکوئی بھی ماہر معیشت نہیں سلجھا سکتا؟ اس میں دونوں باتیں ہیں، پاکستان میں معاشی امور سے متعلق اچھے ماہرین کی کمی بھی ہے اور ہمارے معاشی مسائل بھی ایسے ہیں کہ ان کو کوئی بھی ماہر معاشیات حل نہیں کرسکتا، تو پھر پاکستان کے معاشی مسائل کا حل کیا ہے؟

ان حالات میں مدد ہمیشہ سے امریکی امداد کی صورت میں آتی تھی یا پھر امریکا کی سفارش پر آئی ایم ایف سے قرض ملتا تھا، موجودہ دور میں امریکی امداد بھی دستیاب نہیں ہے اور آئی ایم ایف بھی ہماری بات نہیں سن رہا، اس لیے ملک میں ڈیفالٹ کے خطرے کی دہائی مچی ہوئی ہے، کیونکہ آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو دی گئی شرائط میں نرمی سے انکارکر دیا ہے جس کے بعد پاکستان کے لیے آگے مشکلات کا ایسا طوفان کھڑا ہے جس سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے، اُس کے لیے سوچ بچار کا عمل ضروری ہے۔

حکومت نے پاکستان میں ادائیگیوں کے توازن کے بدترین بحران کو ختم کرنے کے لیے درآمدی کنٹرولز لگانے جیسے وقتی اقدامات کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اقتصادی صورتحال پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ صنعتی شعبہ بھی سکڑگیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہورہی ہیں اور اشیا کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔

گزشتہ سال آنے والے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں ملک میں زرعی شعبے پر شدید اثرات مرتب ہوئے اور پیداوار میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ درآمدات پر پابندیوں اور خام مال کی قلت کے باعث ملک کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری جانب افراطِ زر بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے جب کہ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اب ''ریلیف بجٹ'' پیش کرنے جا رہی ہے جس میں عوام کے مفاد میں اقدامات کیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ اس سے ملک میں معاشی بحران کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوگی۔

ماضی میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے میثاق معیشت کی بات کی تھی کہ ملکی معیشت کے لیے سیاست دانوں کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیے اور معیشت کی درستگی کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے تو صحیح معنوں میں یہ وقت ہے جس کے لیے سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے غور کرنا ہوگا، اگر آئی ایم ایف اپنی شرائط منوائے گا تو پھر پاکستانی عوام کے لیے اُس میں ایسا مہنگائی کا طوفان چھپا ہوگا، جس کا سامنا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

پٹرول کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی، بجلی کی قیمتیں آسمان پر لے جانا ہوں گی، الغرض ہر وہ چیز جس سے پیسہ بنایا جا سکے، اُس کو مہنگا کیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ سری لنکا جیسی شرائط کا اطلاق پاکستان پر بھی کیا جائے، اگر ایسا وقت آیا تو پھر لامحالہ سب کو اکٹھا بیٹھ کر اُس کا حل نکالنا ہوگا کیونکہ پاکستان اپنی جغرافیائی ساخت کی وجہ سے ان شرائط کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے، معیشت کے مضبوط ہونے کا سفر تو بہت کٹھن اور طویل ہے، بہتری ہوگی تو ہم مضبوط معیشت کی طرف جائیں گے۔ ڈالرکو قابو میں لائے بغیر اس کی اسمگلنگ روکے بغیر اور جب تک امپورٹڈ آئٹمز پر بھاری سرمایہ خرچ کرنے کی روش ترک نہیں کی جائے گی اس وقت تک بہتری نہیں ہوسکتی۔


حکومت کے لیے سب سے آسان ہے کہ آئی ایم ایف سے ہدایات لے اور کمزور طبقے کی جیب سے پیسے نکالنا شروع کردے چونکہ وہ بے زبان ہیں بول نہیں سکتے، اگر بولنے کی طاقت رکھتے بھی ہیں تو ان کے بولنے سے طاقتور حلقوں اور حکومتوں کو فرق نہیں پڑتا یہی وجہ ہے کہ ڈالرکی اسمگلنگ اور امپورٹڈ آئٹمز پر سرمایہ لٹانے کی حکمت عملی تبدیل نہیں ہو رہی تھی، وہ سیاست دان جنھیں آج عوام کی تکلیف سب سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے، انھوں نے بھی اس اہم ترین مسئلے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

آج آئی ایم ایف کی شرائط دیکھیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ڈالرکی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمت پر شور مچانے والے ہی درحقیقت موجودہ حالات کے ذمے دار ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے امپورٹ بل کم کرنے، اپنی انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ ستم ظریفی ہے کہ یہ لوگ باہر سے منگوانے والی اپنے استعمال کی اشیا کو آخر تک بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

قوم سے قربانی کا تقاضا کرنے والے خود کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان سب کی عیاشیاں تو جاری ہیں لیکن عام آدمی کو کچلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جن کی حکومت ختم ہوئی نہ انھوں نے اس طرف توجہ دی اور موجودہ حکومت بھی آخری وقت تک اپنوں کو بچانے کی کوششوں میں رہی۔

حکومت نے وفاقی کابینہ سے منظوری کے لیے ایک سمری سرکولیشن کے ذریعے بھیج دی تاکہ گیارہ ارب روپے حاصل کرنے کے لیے جی ایس ٹی کی شرح کو اٹھارہ سے بڑھا کر پچیس فیصد کرنے کے لیے فہرست میں مزید اشیاء شامل کی جائیں۔ تفریح اور نجی استعمال کے لیے کشتیاں یا بحری جہاز اور ہوائی جہاز، جیولری اورگھڑیاں شامل ہیں۔

اب ان اشیاء کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن پر جی ایس ٹی کی اضافہ شدہ شرح وصول کی جائے گی، مقامی طور پر تیارکردہ موٹر گاڑیاں جنھیں عیش وآرام کی اشیاء کے طور پر نمٹنے کی تجویز ہے صرف ایس یو ویز یا سی یو ویز کی کیٹیگری کی گاڑیاں، 14 سو سی سی یا اس سے اوپر کے انجن کی صلاحیت کی دیگر گاڑیاں اور ڈبل کیبن پر 25 فیصد کی زیادہ شرح سے ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔

25 فیصد کے اضافہ شدہ سیلز ٹیکس کی شرح کے لیے منتخب کردہ درآمدی اشیاء وہی سامان ہیں جنھیں کابینہ نے '' لگژری گڈز'' کے طور پر متعین کیا اور مئی 2022 میں ان کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ ان اشیاء میں (سوڈا) واٹر اور جوسز،آٹو کمپلیلیٹی بلٹ یونٹس (سی بی یو)، سینیٹری اور باتھ روم کا سامان، قالین، فانوس اور روشنی کے آلات یا سامان، چاکلیٹ، سگریٹ، کنفیکشنری اشیاء، کارن فلیکس وغیرہ، کاسمیٹکس اور شیونگ آئٹمز، ٹشو پیپرز، کراکری، سجاوٹ، آرائشی آلات، کتوں اور بلیوں کی خوراک، دروازے اور کھڑکیوں کے فریم، مچھلی، جوتے، پھل اور خشک میوہ جات، فرنیچر وغیرہ شامل ہیں۔ ان اشیاء کا عام آدمی سے کوئی تعلق ہے اور کیا ان اشیا کی خریداری سے ملک کا امپورٹ بڑھتا نہیں ہے۔

حکمران ڈالرز باہر بھیج رہے ہیں لیکن اپنی مارکیٹ کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کرتے، یہ کیوں خود کفیل ہونے کے لیے پالیسی نہیں بناتے۔ پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ، ٹیرف میں کمی اور بہتر قواعد وضوابط ، قوانین سمیت دیگر مراعات کی پیش کش کرکے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کرنا پاکستان کو سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بنا سکتا ہے۔

پاکستان کو اپنے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، بشمول ٹرانسپورٹیشن نیٹ ورک، بجلی کی پیداوار، اور ٹیلی کمیونیکیشن۔ اس کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی، لیکن یہ بالآخر اقتصادی سرگرمیوں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ تعلیم اور تربیت ملک کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان کو اپنی برآمدات پر مبنی صنعتوں جیسے کہ ٹیکسٹائل، زراعت اور فارماسیوٹیکلز کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی، تحقیق اور ترقی اور مارکیٹنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ کرپشن پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت کو بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں قانونی نظام کو مضبوط کرنا اور سرکاری کاموں میں شفافیت کو بڑھانا شامل ہے۔

پاکستان ایسی اہم جگہ واقع ہے جہاں وہ خطے میں تجارت کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کو پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے اور سرحد پار تجارت کو فروغ دے کر علاقائی انضمام کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک اہم چیلنج ہے۔

حکومت ملکی پیداوار کو فروغ دے کر اور مقامی صنعتوں کو ترقی دے کر درآمدات کو کم کرنے پر توجہ دے۔ اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ مجموعی طور پر، پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت اور نجی شعبے کی جانب سے بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہوگی جو اقتصادی ترقی کو روک رہے ہیں۔
Load Next Story