اکتوبر میں انتخابات
اکتوبر میں انتخابات کرانے کا مطالبہ پاکستان سے زیادہ امریکا میں ہورہا ہے
کیا آئین کے تحت اکتوبر میں انتخابات منعقد ہونگے؟ یہ سوال جواب طلب ہے۔
سپریم کورٹ نے ایک دن انتخابات کرانے کے مقدمہ میں اپنے تحریری حکم میں توقع ظاہر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات پر متفق ہوجائیں گی۔ مسائل مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی کوشش قابلِ ستائش ہے۔ سیاسی معاملات مذاکرات اور اتفاق رائے سے ہی حل ہوسکتے ہیں مگر سیاسی جماعتیں کسی قسم کے مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔
حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بیانیہ ہے کہ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں، ہر پارٹی کا اپنا منشور ہے، الیکشن پر ہمارا فیصلہ متفقہ ہوگا۔ جو ملک کے لیے مفید ہوگا وہی کریں گے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ ملک کو نئے ہنگاموں اور تجربات کے نذر نہیں کرسکتے۔
پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف زرداری جنھوں نے لاہور میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے، کہتے ہیں کہ یہ لوگ دو ماہ میں انتخابات نہیں کرائیں گے، میں آکر انتخابات کراؤں گا۔ اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری کے ایک ترجمان سے یہ بیان منسلک ہوا تھا کہ انتخابات سے قبل جامع مذاکرات ضروری ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے پی ڈی ایم کی حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ صرف اسٹیبلشنمٹ سے ہی مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین اب بھی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ جب بھی انتخابات ہونگے ان کے امیدوار ہی کامیاب ہونگے۔
دوسری طرف تحریک انصاف سے علیحدہ ہونے اور سیاست چھوڑنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ تحریک انصاف سندھ کی قیادت سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، سابق وزیر علی زیدی اور محمود مولوی، پنجاب سے فواد چوہدری، پشاور سے پرویز خٹک اور سیکڑوں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، منتخب ارکان اور جن لوگوں کو پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ دیے گئے تھے وہ تیزی سے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کررہے ہیں۔ ان تمام افراد کے بیانات میں حیرت انگیز یکسانیت پائی جاتی ہے۔
تمام رہنما 9مئی کو ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں مگر پنجاب اسمبلی کے سابق اراکین اسمبلی کا ایک گروہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو تحریک انصاف کے بانی سے بغاوت کر کے ایک نیا گروپ بنانے کا اعلان کرچکا ہے۔ تحریک انصاف کے سب سے بڑے فنانسر جہانگیر ترین نے بھی سابق منتخب اراکین اور تحریک انصاف کے پرانے رہنماؤں سے مذاکرات مکمل کر لیے ہیں۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین عدالتی فیصلہ کے تحت کسی جماعت کی قیادت کے لیے تمام عمر نااہل قرار دیے جاچکے ہیں، وہ خود کسی جماعت کی قانونی طور پر صدارت نہیں کرسکتے مگر میاں نواز شریف کی طرح اپنی مجوزہ جماعت یا گروپ کے غیر رسمی طور پر سرپرست بن کر اپنی جماعت کو اقتدار کے راستہ کی جانب گامزن کرسکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی قیادت ابھی تک تحریک انصاف سے علیحدہ ہونے والے رہنماؤں کو ٹکٹ دینے کی پالیسی تیار نہیں کرسکی ہے مگر مسلم لیگ ق کے رہنماؤں چوہدری شجاعت حسین اور پنجاب کے سابق گورنر چوہدری سرور تحریک انصاف کے رہنماؤں کو مسلم لیگ ق میں شمولیت کروانے کے لیے مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف زرداری نے اپنی توجہ جنوبی پنجاب کی طرف مبذول کی ہوئی ہے، یوں لاہور کے بلاول ہاؤس میں روزانہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن کے بارے میں '' الیکٹیبل'' ہونے کا تصور پایا جاتا ہے، پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔
ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابھی تک کوئی معروف رہنما پیپلز پارٹی کے حصہ میں نہیں آیا ہے۔ زرداری صاحب نے کمزور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے تاجروں کو نسخے بتانا شروع کر دیے ہیں۔ ان کا نیا بیانیہ یہ ہے کہ دفاعی بجٹ زیادہ نہیں ہے، اس پر شور شرابہ کا کوئی جواز نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، حماد اظہر اور ڈاکٹر یاسمین راشد وغیرہ ابھی تک اپنی جماعت سے وابستگی پر فخر کررہے ہیں۔ اس بحران کی ایک خاص بات عدالتوں کا رویہ ہے۔ ایک سینئر وکیل کا کہنا ہے کہ جس طرح پنجاب کی عدالتیں گرفتار رہنماؤں کو ریلیف دے رہی ہیں اور کرپشن کے الزامات کے باوجود پرویز الٰہی اور دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات خارج کررہی ہیں، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
سینئر وکیل کا مزید کہنا ہے کہ ماضی میں مہینوں پولیس والے سیاسی کارکنوں کے خلاف عدالتوں میں چالان جمع نہیں کراتے تھے، یوں حکومت مخالف سیاسی کارکنوں کی جیل سے رہائی ایک سال سے زائد عرصہ سے پہلے تک ممکن نہیں ہوتی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے ایک ماہ جیل گزارنے کے بعد اپنے قائد سے ملاقات کی اور خاموشی سے کراچی چلے گئے۔ ان کے مستقبل کے فیصلوں کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جا رہے ہیں۔
بہرحال اس پر آشوب دور میں عدالتوں کا انسانی حقوق کے تحفظ کا بیانیہ ایک خوش آیند امر ہے۔ اکتوبر میں انتخابات کرانے کا مطالبہ پاکستان سے زیادہ امریکا میں ہورہا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں ایک منظم طریقہ سے مہم چلا رہے ہیں کہ ان ممالک کی حکومتیں حکومتِ پاکستان پر اکتوبر میں انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ ڈالیں۔
گزشتہ 75 برس کے دوران خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں یورپی ممالک میں پاکستانی سیاسی منحرفین کی ایک بڑی تعداد جمع ہوتی تھی۔ یہ سیاسی منحرفین جن میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے علاوہ بائیں بازو کی تنظیموں کے اراکین بھی شامل ہوتے تھے 1973 کے آئین کی بحالی، بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے راہ ہموار کرنے کی مسلسل جستجو کرتے ہیں۔
ان منحرف رہنماؤں میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ صفدر شاہ، بیرسٹر صبغت اﷲ قادری اور بائیں بازو کے رہنما طارق علی وغیرہ شامل تھے ۔ بعد میں لندن آنے کے بعد بے نظیر بھٹو اس تحریک کا حصہ بن گئی تھیں مگر برطانیہ اور یورپی ممالک، افغانستان میں سوویت یونین کے قبضہ کے خلاف لڑائی میں جنرل ضیاء الحق کے رفیق تھے۔ اس لیے ان ممالک نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایسا رویہ اختیار نہیں کیا تھا، جیسا رویہ آج کل نظر آرہا ہے۔
بے نظیر بھٹو کے دور طالب علمی کے دوستوں نے جن میں کئی امریکی سینیٹرز بھی شامل تھے، نے بے نظیر بھٹو کی ملک واپسی اور ملک میں عام انتخابات کرانے کے لیے امریکی انتظامیہ پر کچھ دباؤ ضرور ڈالا تھا، مگر میاں شہباز شریف کے دانشوروں کو امید ہے کہ اس ماہ کے آخر تک آئی ایم ایف گرانٹ دینے پر تیار ہوجائے گی، یوں پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنی انتخابی مہم زیادہ بہتر انداز میں چلا سکیں گی۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں انتخابات سے مزید معاشی تباہی آجائے گی، اس بناء پر قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی اور بلوچستان کی اسمبلی کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع ہوسکتی ہے۔
بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن میں اکتوبر میں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں مگر پیپلز پارٹی انتخابات کرانے کے حق میں نظر آتی ہے۔ گزشتہ ایک برس کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کسی طور پر اپنی رٹ برقرار نہیں رکھ پائی ہے۔
وفاقی حکومت نے اس سال کے شروع میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ تمام مارکیٹیں اور بازار 8 بجے رات بند ہوجائیں گے مگر وفاقی حکومت اپنے تمام تر احکامات پر بھرپور اعلانات کے باوجود عمل درآمد نہیں کرا پائی ہے، یوں زیادہ امکان یہ ہے کہ حکومت مستقبل میں سخت فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کر پائے گی۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی انجینئرنگ کے ذریعہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے مگر یہ کوششیں کامیاب ہوں یا نہ ہوں اکتوبر میں انتخابات ہی مسئلہ کا حل ہیں۔