Tucydides Trap
صورتحال اس وقت تیزی سے بگڑی جب 1972میں چین کے بارے میں اختیارکی جانے والی امریکی پالیسی ٹرمپ کے دورمیں بالکل الٹ دی گی
امریکی عالمی سفارتکاری کی تاریخ کی موثر ترین شخصیات میں سے ایک ڈاکٹر ہنری کیسنجر نے گزشتہ ماہ اپنی زندگی کے سو برس مکمل کیے۔ 27 مئی کو انھوں نے اپنی 100ویں سالگرہ منائی۔
اس سے قبل 17مئی کو ان کا انٹرویو ممتاز برطانوی جریدے دی اکنامسٹ میں شایع ہوا جس میں انھوں نے ایک بڑی جنگ کے خطرے سے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا ''ہم آج سو فی صد ویسی ہی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں جو پہلی جنگ عظیم کے آغاز کا باعث بنی تھی۔'' یہ بات وہ امریکا اور چین کے درمیان تناؤ کے تناظر میں کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا، ''ہم ایسی صورتحال میں پھنس چکے ہیں جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کو کوئی گنجائش دینے کی پوزیشن میں نہیں' تناؤ اس قدر ہے کہ جہاں کہیں یہ نازک توازن بگڑا' دنیا کے لیے اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔''
ہنری کیسنجر وہ شخصیت ہیں جن کی پاکستان کے ساتھ مل کر کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں چین اور امریکا کے درمیان معمول کے تعلقات کا آغاز ہوا تھا۔ 1972 میں چین امریکا سربراہی اجلاس میں دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی اور چین کی 23 برس پر محیط سفارتی تنہائی کا خاتمہ ہوا تھا۔ اسی لیے چین اور امریکا کے درمیان تعمیری تعلقات کے فروغ کی سب سے زیادہ خواہش یقیناً ہنری کیسنجر ہی کو ہو گی۔
کیسنجر نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا ''بنی نوع انسان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ امریکا اور چین ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا طریقہ سیکھ لیں اور ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس پانچ دس برس سے زیادہ وقت نہیں ہے۔''
کیسنجر نے اپنے انٹرویو میں جو سب سے اہم بات کی وہ یہ تھی کہ ''امریکی انتظامیہ میں موجود چین کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے حامیوں نے امریکی تجارتی پالیسی پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے جو چین کو تعمیر و ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کے حوالے سے رتی برابر گنجائش دینے پر آمادہ نہیں۔''
امریکا کے ایک ممتاز ماہر سیاسیات گراہم ٹی ایلی سن نے 'جنھیں ہاورڈ یونیورسٹی کا سب سے بڑا دماغ قرار دیا جاتا ہے' چین اور امریکا کے درمیان جاری کشمکش کے تناظر میں ایک بڑی دلچسپ اصطلاح متعارف کرائی ہے جسے عالمی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے لوگ توسیڈیڈس ٹریپThucydides Trap کے نام سے جانتے ہیں۔
توسیڈیڈس (Thucydide) ایک ممتاز یونانی جنرل اور مورخ تھا۔ یہ یونان کی شہری ریاستوں میں سب سے ممتاز جانی جانے والی ریاست ایتھنز کا باشندہ تھا۔ اس نے ایتھنز اور سپارٹاکے درمیان لڑی جانے والی طویل اور خونریز جنگ 'جسے تاریخ میں پیلوپونیشن وار Peloponnesian Warکے نام سے یاد کیا جاتا ہے' کی وجہ سپارٹاکے اس خوف کو قرار دیا تھا جو اسے ایتھنز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قوت سے لاحق تھا۔
توسیڈیڈس نے لکھا تھا، ''جنگِ پیلو پونیشن ناگزیر تھی۔ اس سے بچ نکلنا اس لیے ناممکن تھا کیونکہ ایتھنز کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت نے سپارٹاکو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا تھا۔ پروفیسر گراہم ایلی سن کا بھی یہی خیال ہے کہ امریکا خواہ مخواہ چین کی وجہ سے دنیا پر اپنی حاکمیت چھن جانے کے خطرے کو ہوّا بنائے ہوئے ہے۔ وہ کیسنجر ہوں یا ایلی سن، یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ چین دنیا پر حاکمیت قائم کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ ان کے خیال میں چین خودکو صرف ایک طاقتور ملک دیکھنا چاہتا ہے۔
ایلی سن نے جو تصور پیش کیا اُس کے مطابق دنیا میں جب کوئی نئی طاقت اُبھرتی ہے تو وہ پہلے سے موجود فیصلہ کُن عالمی طاقت میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اسے اپنی عالمی حیثیت کے چھن جانے کا اندیشہ درپیش ہوتا ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر اپنی مقتدر عالمی حیثیت کو کھونا نہیں چاہتی۔ نئی طاقت کی طرف سے برتری حاصل کرنے کی کوشش اور پہلے سے موجود قوت کا اپنی حیثیت برقرار رکھنے پر اصرار ایک ایسا جال یا پھندہ ہوتا ہے جو انھیں کھینچ کر تصادم کی طرف لے جاتا ہے۔
ایلی سن نے اپنے اس تجزیے کے حق میں تفصیلی استدلال کھڑا کیا ہے، جس میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ تاریخ انسانی میں 16ایسے ادوار گزرے ہیں جب کسی موجود عالمی طاقت کو کسی نئی اُبھرتی ہوئی عالمی قوت نے چیلنج کیا اور ان 16مواقع میں سے 12کا نتیجہ جنگ کی شکل میں سامنے آیا۔ ان تاریخی حوالوں میں پہلی جنگ عظیم بھی شامل ہے جس کا ذکر ہنری کیسنجر نے اپنے انٹرویو بھی کیا ہے۔
ایلی سن کے اس استدلال پر تاریخ اورعالمی سیاست کے ماہرین نے اعتراضات بھی کیے اور اس سے مکمل اتفاق نہیں کیا۔ مثال کے طور پر امور خارجہ کے امریکی محقق ''ہال برانڈز'' سمیت کئی ماہرین ایلی سن کے بتائے ہوئے جنگی ماڈل سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا پر تسلط قائم کرنے والی عالمی طاقت کا آمرانہ رویہ ہی جنگ کا باعث بنتا ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے لیے خطرہ بننے والی اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت کی برق رفتار ترقی اور معاشی پیش قدمی اچانک مضحکہ خیز انداز میں جمود کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ جمود اسے جنگ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ تمام اعتراضات اور جوابی استدلال کے باوجود یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آپ کسی کو تخت سے بے دخل کرنے کی کوشش کریں تو مزاحمت ہی کو دعوت دیں گے۔
دوسری جانب جیساکہ ہنری کیسنجر نے بھی کہا کہ امریکی انتظامیہ میں شامل لوگ چین کی ترقی کو روکنا چاہتے ہیں تو اگر یہ ترقی امریکا کے مخالفانہ حربوں کے باعث رکتی ہے تو اس کا موجب بھی امریکی منفی رویہ ہی قرار پائے گا۔
اس وقت بین الاقوامی سیاسی امور کے ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ امریکا اور چین کے تعلقات غیرمعمولی سرعت کے ساتھ انتہائی کم عرصہ میں انتہائی نچلی سطح پر آ چکے ہیں۔ آج کی صورتحال کا موازنہ اگر سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دو ادوار اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کے ابتدائی عرصے سے کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ صورتحال اس وقت تیزی سے بگڑی جب 1972میں چین کے بارے میں اختیار کی جانے والی امریکی پالیسی ٹرمپ کے دور میں بالکل الٹ دی گی۔
ہنری کیسنجر نے ' جو صدر نکسن کے دور میں امریکا کے وزیر خارجہ تھے' 1971میں چین کا خفیہ دورہ کیا تھا جس میں چین کے وزیر اعظم چو این لائی نے 'جو امور خارجہ کے بھی نگران تھے' کیسنجر پر واضح کر دیا تھا کہ دو طرفہ تعلقات اسی صورت میں آگے بڑھیں گے جب امریکا تائیوان کو چیں کا حصہ تسلیم کرے، وہاں سے امریکی فوجیں نکال لی جائیں اور تائیوان میں برسراقتدار 'کومنتانگ' حکومت کی فوجی امداد بند کی جائے، یہ سبھی باتیں مان لی گئی تھیں۔ لیکن اب امریکا ان سے پہلو تہی کر رہا ہے۔
اس بارے میں اُمید اُس وقت پیدا ہوئی تھی جب موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو غلط قرار دیتے ہوئے اس پالیسی کو بدلنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ جب یہ صاحب برسراقتدار آئے توامریکی اسٹیبلشمنٹ نے انھیں اپنا وعدہ پورا نہیں کرنے دیا بلکہ اُلٹا بائیڈن کو مزید چینی کمپنیوں پر پابندیاں لگانا پڑیں۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ ہوا کہ بائیڈن مزید ملکوں کو چین کے خلاف متحد کرنے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ موجودہ صورتحال مایوس کُن ہے۔ اگر یہ تناؤ تصادم کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کے تباہ کُن اثرات صرف ان دو ملکوں تک محدود نہیں رہیں گے۔