آرٹ آف وار اڑھائی ہزار سال پرانے نسخے
دشمن جب غفلت کے عالم میں نچنت ہو تو اس کی غفلت سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ، اس پر اچانک ہلّا بول دو
عجیب اتفاق ہے کہ زمانے میں ہمیشہ تغیر کو ثبات رہا جب کہ ہمارے ہاں گزشتہ 75سال میں نازک دور کو ثبات رہا۔ ہر حکمران نے کرسی اور ملک کو ٹھونک بجا کر پوری ذمے داری سے یہی بتایا کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے۔
ہم ٹھہرے سادہ لوح، ہمیشہ یقین کر بیٹھے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اِدھر کسی حکومتی یا اپوزیشن لیڈر نے ہونٹوں کو جنبش دی اُدھر جھٹ سے ہم نے جان لیا کہ نازک دور کی مالا جپنے کو ہے۔اب تو بقول احمد فراز؛
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
نازک دور کے ثبات کا نتیجہ عدم استحکام کی صورت میں ہاتھ کے ہاتھ ہر دور میں وصول ہوتا رہا۔ سیاست ہی کو لیجیے، عدم استحکام نے جان چھوڑی نہ استحکام کو پاؤں رکھنے کی جگہ مل سکی۔
استحکام کی تلاش میں ہر دور میں پرانی سیاسی پارٹیوں کی پیوند کاری کے ساتھ نئی پارٹیاں بنتی رہیں۔ کنونشن لیگ، کونسل مسلم لیگ، زمانہ قریب میں پاکستان مسلم لیگ کے احیاء کے بعد مسلم لیگ جونیجو گروپ، مسلم لیگ نواز گروپ، مسلم لیگ چٹھہ گروپ، پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز بنی اور پھر اسی میں سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنی۔
اُسی زمانے میں مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ ق بنی۔ ایم کیو ایم کو بھی مہاجر سے متحدہ اور پھر اسی میں سے حقیقی کا شرف حاصل ہوا بلکہ بات پاک سر زمین تک بھی پہنچی۔
نو مئی کے واقعات کی وحشتیں اور حیرانیاں جوں جوں کھلتی گئیں پی ٹی آئی سے نکلنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ابھی جانے والوں کی گنتی پر اتفاق رائے نہ ہوا تھا کہ خبر آئی ؛ نکلنے والوں کی اکثریت نے ایک نئی پارٹی بنانے پر اتفاق کر لیا ہے ، نام استحکام پاکستان پارٹی رکھا ہے۔
عدم استحکام کے مناظر ابھی ناظرین جذب بھی نہ کر پائے تھے کہ ایک نئے سیاسی نازک دور کا ڈول ڈل گیا۔ سیاسی پنڈتوں نے اپنی اپنی زنبیل کھول کر پیشین گوئیوں اور تجزیوں کے دفتر کھول دیے ہیں۔
جی تو ہمارا بھی چاہا کہ حیران کن تجزیوں اور 'اندر کی خبروں' کو بنیاد بنا کر بقول شخصے تجزیوں کی حد تک کشتوں کے پشتے لگا دیں لیکن پھر ساحر لدھیانوی کا حال یاد آیا ؛
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم تیری جستجو بھی نہیں
اسی عالم میں ایک کتاب ہاتھ لگی؛ The Art of War by Sun Tzu یعنی جنگ کا فن۔ اس مختصر سی کتاب کو چینی علم و ادب بلکہ تمام دنیا میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ سن زُو کا دور چینی مورخین 544- 496 قبل مسیح بتاتے ہیں یعنی اڑھائی ہزار سال قبل۔ وہ ایک جنرل، حکمت کار، فلسفی اور مصنف تھا۔
استاد سُن زُو کا شاہکار 'جنگ کا فن ' چین اور سارے مشرقی ایشیاء بلکہ مغربی دنیا میں بھی جنگی فلسفے پر اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ بیسویں صدی میں اس کتاب کو نت نئی جہتوں سے دیکھا جانے لگا، اب یہ جنگ اور جنگی حکمت عملی سے بڑھ کر سیاست، کاروبار اور کھیل کے میدانوں میں اپنا اثر دکھا رہی ہے۔
یہ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب جنگی حکمت عملی کے ایک اہم مضمون کا احاطہ کرتا ہے۔ انداز بیان سادہ مگر انتہائی بلیغ، حکمت اس قدر کہ ساٹھ صفحات کی یہ کتاب2500 سال بعد بھی کار آمد۔ مسلسل نازک دور سے گزرنے والے ملک، معاشرے، سیاست اور سیادت کے لیے اس میں بہت کارآمد نسخے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اقتباسات پیش ہیں۔
ساتواں باب، 'جنگ و جدل' سے...اصل مشکل کا آغاز جنگ و جدل کے ساتھ ہوتا ہے، ٹیڑھے کو سیدھا کرنا، اور بد قسمتی کو سود مند بنانا، جنگ و جدل کی اصل مشکل یہی ہے۔ جنگ کے فن کے زریں اصول ہیں کہ ایسی پیش قدمی سے باز رہو جس میں پہاڑی پر چڑھنا درکار ہو۔
ایسے دشمن سے ٹکر نہ لو جس کی پشت پر پہاڑی ہو۔ ایسے دشمن کا پیچھا مت کرو جو جھوٹ موٹ بھاگ رہا ہو۔ اس فوج پر حملہ نہ کرو جو جان پر کھیل جانے کو تیار ہو۔ کسی پھندے میں مت پھنسو۔ کسی گھر لوٹتی فوج کی راہ نہ روکو۔ گھیرے میں آئی فوج کو نکلنے کا راستہ دے دو۔ جس فوج کے پاس نہ جائے ماندن ہو نہ پائے رفتن ہو ، اس کے پیچھے مت پڑو۔ جنگ کا فن اسی کو کہتے ہیں۔
نواں باب، ' کوچ کے دوران میں ' پوزیشن سنبھالنے اور دشمن کے آمنے سامنے ہونے کے لیے پہاڑوں کو پار کرو۔ وادیوں کے بالکل آس پاس رہو۔ اونچی جگہ پڑاؤ ڈالو اس طرح کہ تمہارے سامنے کھلی جگہ ہو۔ اُترائی پر جنگ لڑو، چڑھائی پر مت لڑو۔ کوہستانی جنگ و جدل میں یہی پوزیشنیں ہیں۔ دریاؤں کو پار کرو اور پھر ان سے فاصلے پر رہو۔ اگر تم جنگ کرنے کے خواہاں ہو تو دریا کے قریب رہ کر سامنا کرو۔ اور اونچی جگہ قبضہ جماؤ جہاں تمہارے سامنے کھلی جگہ ہو۔ بہاؤ کے خلاف پیش قدمی نہ کرو۔ دریائی جنگ و جدل کی یہی پوزیشنیں ہیں۔
گیارھواں باب، 'زمین کی نو قسمیں'۔۔ اس سوال پر کہ ہم کیسے سامنا کریں جو تعداد میں زیادہ اور قرینے سے صف بند ہو کر حملے پر تُلا ہو ہو؟ میرا جواب یہ ہے کہ اس کی کسی ایسی چیز کو چھین جھپٹ لو جو دشمن کو دل و جان سے عزیز ہو۔ بعد ازاں دشمن وہی کرے گا جو تم چاہوگے۔ جنگ کا اصل جوہر برق رفتاری ہے۔
دشمن جب غفلت کے عالم میں نچنت ہو تو اس کی غفلت سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ، اس پر اچانک ہلّا بول دو، غیر متوقع راستہ اختیار کرو۔ فال لینے پر پابندی لگا دو۔ شکوک کو دل سے نکال پھینکو۔ گھوڑوں کا اگاڑی ڈالنا اور رتھوں کے پہیوں کو زمین میں گاڑ دینا کافی نہیں۔ اول تا آخر ایک ہی سا حوصلہ ہونا چاہیے، نظم و نسق سنبھالنے کا یہی طریقہ ہے۔ خرد افروزحکمران محتاط ہوتا ہے۔ کارگزار سپاہ سالار احتیاط پسند ہوتا ہے۔
( پبلشر ریڈنگز ، محمد سلیم الرحمٰن کے ترجمے سے استفادہ کیا گیا)
ہم ٹھہرے سادہ لوح، ہمیشہ یقین کر بیٹھے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اِدھر کسی حکومتی یا اپوزیشن لیڈر نے ہونٹوں کو جنبش دی اُدھر جھٹ سے ہم نے جان لیا کہ نازک دور کی مالا جپنے کو ہے۔اب تو بقول احمد فراز؛
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے نہیں غم خوار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
نازک دور کے ثبات کا نتیجہ عدم استحکام کی صورت میں ہاتھ کے ہاتھ ہر دور میں وصول ہوتا رہا۔ سیاست ہی کو لیجیے، عدم استحکام نے جان چھوڑی نہ استحکام کو پاؤں رکھنے کی جگہ مل سکی۔
استحکام کی تلاش میں ہر دور میں پرانی سیاسی پارٹیوں کی پیوند کاری کے ساتھ نئی پارٹیاں بنتی رہیں۔ کنونشن لیگ، کونسل مسلم لیگ، زمانہ قریب میں پاکستان مسلم لیگ کے احیاء کے بعد مسلم لیگ جونیجو گروپ، مسلم لیگ نواز گروپ، مسلم لیگ چٹھہ گروپ، پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرینز بنی اور پھر اسی میں سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنی۔
اُسی زمانے میں مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ ق بنی۔ ایم کیو ایم کو بھی مہاجر سے متحدہ اور پھر اسی میں سے حقیقی کا شرف حاصل ہوا بلکہ بات پاک سر زمین تک بھی پہنچی۔
نو مئی کے واقعات کی وحشتیں اور حیرانیاں جوں جوں کھلتی گئیں پی ٹی آئی سے نکلنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ابھی جانے والوں کی گنتی پر اتفاق رائے نہ ہوا تھا کہ خبر آئی ؛ نکلنے والوں کی اکثریت نے ایک نئی پارٹی بنانے پر اتفاق کر لیا ہے ، نام استحکام پاکستان پارٹی رکھا ہے۔
عدم استحکام کے مناظر ابھی ناظرین جذب بھی نہ کر پائے تھے کہ ایک نئے سیاسی نازک دور کا ڈول ڈل گیا۔ سیاسی پنڈتوں نے اپنی اپنی زنبیل کھول کر پیشین گوئیوں اور تجزیوں کے دفتر کھول دیے ہیں۔
جی تو ہمارا بھی چاہا کہ حیران کن تجزیوں اور 'اندر کی خبروں' کو بنیاد بنا کر بقول شخصے تجزیوں کی حد تک کشتوں کے پشتے لگا دیں لیکن پھر ساحر لدھیانوی کا حال یاد آیا ؛
مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں ترا غم تیری جستجو بھی نہیں
اسی عالم میں ایک کتاب ہاتھ لگی؛ The Art of War by Sun Tzu یعنی جنگ کا فن۔ اس مختصر سی کتاب کو چینی علم و ادب بلکہ تمام دنیا میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ سن زُو کا دور چینی مورخین 544- 496 قبل مسیح بتاتے ہیں یعنی اڑھائی ہزار سال قبل۔ وہ ایک جنرل، حکمت کار، فلسفی اور مصنف تھا۔
استاد سُن زُو کا شاہکار 'جنگ کا فن ' چین اور سارے مشرقی ایشیاء بلکہ مغربی دنیا میں بھی جنگی فلسفے پر اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے۔ بیسویں صدی میں اس کتاب کو نت نئی جہتوں سے دیکھا جانے لگا، اب یہ جنگ اور جنگی حکمت عملی سے بڑھ کر سیاست، کاروبار اور کھیل کے میدانوں میں اپنا اثر دکھا رہی ہے۔
یہ کتاب تیرہ ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب جنگی حکمت عملی کے ایک اہم مضمون کا احاطہ کرتا ہے۔ انداز بیان سادہ مگر انتہائی بلیغ، حکمت اس قدر کہ ساٹھ صفحات کی یہ کتاب2500 سال بعد بھی کار آمد۔ مسلسل نازک دور سے گزرنے والے ملک، معاشرے، سیاست اور سیادت کے لیے اس میں بہت کارآمد نسخے ہیں۔ نمونے کے طور پر چند اقتباسات پیش ہیں۔
ساتواں باب، 'جنگ و جدل' سے...اصل مشکل کا آغاز جنگ و جدل کے ساتھ ہوتا ہے، ٹیڑھے کو سیدھا کرنا، اور بد قسمتی کو سود مند بنانا، جنگ و جدل کی اصل مشکل یہی ہے۔ جنگ کے فن کے زریں اصول ہیں کہ ایسی پیش قدمی سے باز رہو جس میں پہاڑی پر چڑھنا درکار ہو۔
ایسے دشمن سے ٹکر نہ لو جس کی پشت پر پہاڑی ہو۔ ایسے دشمن کا پیچھا مت کرو جو جھوٹ موٹ بھاگ رہا ہو۔ اس فوج پر حملہ نہ کرو جو جان پر کھیل جانے کو تیار ہو۔ کسی پھندے میں مت پھنسو۔ کسی گھر لوٹتی فوج کی راہ نہ روکو۔ گھیرے میں آئی فوج کو نکلنے کا راستہ دے دو۔ جس فوج کے پاس نہ جائے ماندن ہو نہ پائے رفتن ہو ، اس کے پیچھے مت پڑو۔ جنگ کا فن اسی کو کہتے ہیں۔
نواں باب، ' کوچ کے دوران میں ' پوزیشن سنبھالنے اور دشمن کے آمنے سامنے ہونے کے لیے پہاڑوں کو پار کرو۔ وادیوں کے بالکل آس پاس رہو۔ اونچی جگہ پڑاؤ ڈالو اس طرح کہ تمہارے سامنے کھلی جگہ ہو۔ اُترائی پر جنگ لڑو، چڑھائی پر مت لڑو۔ کوہستانی جنگ و جدل میں یہی پوزیشنیں ہیں۔ دریاؤں کو پار کرو اور پھر ان سے فاصلے پر رہو۔ اگر تم جنگ کرنے کے خواہاں ہو تو دریا کے قریب رہ کر سامنا کرو۔ اور اونچی جگہ قبضہ جماؤ جہاں تمہارے سامنے کھلی جگہ ہو۔ بہاؤ کے خلاف پیش قدمی نہ کرو۔ دریائی جنگ و جدل کی یہی پوزیشنیں ہیں۔
گیارھواں باب، 'زمین کی نو قسمیں'۔۔ اس سوال پر کہ ہم کیسے سامنا کریں جو تعداد میں زیادہ اور قرینے سے صف بند ہو کر حملے پر تُلا ہو ہو؟ میرا جواب یہ ہے کہ اس کی کسی ایسی چیز کو چھین جھپٹ لو جو دشمن کو دل و جان سے عزیز ہو۔ بعد ازاں دشمن وہی کرے گا جو تم چاہوگے۔ جنگ کا اصل جوہر برق رفتاری ہے۔
دشمن جب غفلت کے عالم میں نچنت ہو تو اس کی غفلت سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤ، اس پر اچانک ہلّا بول دو، غیر متوقع راستہ اختیار کرو۔ فال لینے پر پابندی لگا دو۔ شکوک کو دل سے نکال پھینکو۔ گھوڑوں کا اگاڑی ڈالنا اور رتھوں کے پہیوں کو زمین میں گاڑ دینا کافی نہیں۔ اول تا آخر ایک ہی سا حوصلہ ہونا چاہیے، نظم و نسق سنبھالنے کا یہی طریقہ ہے۔ خرد افروزحکمران محتاط ہوتا ہے۔ کارگزار سپاہ سالار احتیاط پسند ہوتا ہے۔
( پبلشر ریڈنگز ، محمد سلیم الرحمٰن کے ترجمے سے استفادہ کیا گیا)