جدید نظم نگاری کا منفرد نام‘ ن۔ م راشد

’’ اقبال اور راشد دونوں کو یکساں عالمی مسائل کا سامنا تھا لیکن دونوں کا رویہ مختلف رہا۔‘‘


صدام ساگر June 11, 2023

اُردو شاعری کی صنف نظم نگاری میں کوئی قصہ، کوئی واقعہ، کوئی تجربہ یا کوئی خیال تسلسل کیساتھ پیش کیا جاتا ہے،کیونکہ نظم کے معنی ہی پرونے اور یکجا کرنے کے ہیں۔

نظیر اکبر الہ آبادی ہمارے پہلے بڑے نظم نگار ہیں لیکن نظم نگاری کی تحریک حالی کے زمانے میں انہی بزرگوں کی کوششوں سے شروع ہوئی۔ '' اُردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ '' اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر سنبل نگار لکھتی ہے کہ '' اُردو نظم جب اقبال تک پہنچتے پہنچتے نظم کا رنگ روپ خاصا بدل گیا تھا، اقبال کے بعد یہ تبدیلیاں جاری رہی۔ شرر نے بے قافیہ نظم لکھی۔

عظمت اللہ خاں نے ہندی پنگل سے فائدہ اُٹھایا اور گیت نما نظمیں لکھی۔ اختر شیرانی نے سانیٹ کے انداز پر نظمیں لکھی۔ ان شاعروں نے اُردو نظم کی دیرینہ روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے نئے تجربات کیے جس سے نظم کا دامن وسیع ہوا اور اس کے اسالیب میں تنوع پیدا ہوا لیکن راشد کی نظمیں بڑی ہنگامہ خیز اور انقلاب آفریں ثابت ہوئیں۔''

آج جدید نظم نگاری میں ن۔ م۔ راشد کا نام ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے تخلیقی ذہن نے اُردو نظم کے مروجہ سانچوں کو قبول نہیں کیا اور انہیں توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ ان کا طرزِ احساس ان کی نظموں کی ہیت اور تکنیک اُردو قاری کیلئے ایک نئی اور انوکھی چیز تھی۔ اسی لیے ان کی نظموں میں اس کے برعکس پیچیدگی اور ابہام ہوتا تھا۔ وہ فرانس اور انگلستان کے نظم نگاروں سے متاثر تھے۔ ان کی نظموں نے قارئین کو جھونکا کر رکھ دیا کیونکہ ان کی نظمیں سادہ اور بیانیہ نظم سے قطعی مختلف تھی۔ اس میں افسانوی اور ڈرامائی انداز گھل مل گئے تھے۔ ان کی نظم کی تعمیر کا انداز نیا تھا۔

ن۔ م۔ راشد نے غزل کے ذریعے بھی نیا ادراک اور شعور شامل کر کے اس کی وسعت کو بڑھایا مگر ان کا بطورِ خاص کارزار میدان آزاد نظم ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ '' راشد بہت سے نقادوں کے نزدیک اُردو میں آزاد نظم کے گنے چنے ہنر مند شاعروں میں سے ہیں جنہیں یہ ملکہ حاصل ہے۔

ن۔ م۔ راشد کے بارے میں کتاب'' تذکرے اور تبصرے'' میں سراج الاسلام لکھتے ہیں کہ '' راشد کی طبعیت کی جدت پسندی نے شاعری کو ایسے موضوعات سے روشناس کرایا جو ان سے پہلے ہماری روایت میں موجود نہ تھے، لہٰذا لوگوں کو فوری طور پر انہیں ہضم کرنے میں دقت ہوئی لیکن پھر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ یہ بات ثابت ہوئی کہ زندگی ہم سے یکسانیت کے بجائے جدت اور اختلاف کا تقاضا کرتی ہے راشد نے زندگی کے نشیب و فراز کو اپنے لاشعور سے گزار کر اپنے تجربات کی روشنی فراہم کی جس نے موضوعات کو جدت عطا کرنے کیساتھ لطافت خیال اور اسلوب بیان دونوں کو قائم رکھا اور اپنی شاعری میں بہت سی ایسی صفات پیدا کیں جو ان کے بعد آج تک کسی اور کے ہاں دیکھنے میں نہیں آئیں یا شاید راشد کی بدنامی کے بعد کسی اور شاعر نے اس راستے پر چلنے کی ہمت نہیں کی۔''

ن۔ م۔ راشد نے مغربی شاعری کے علاوہ فارسی اور اُردو کی شعری روایت کا اثر قبول کیا۔ ان کا زمانہ اقبال سے کچھ ہی بعد کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر اقبال کے بہت نزدیک نظر آتے ہیں۔ اقبال نے جس طرح ملکی اور مقامی اثرات سے آزاد ہو کر آفاقیت کی کھلی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی اسی طرح راشد نے بھی آخرِ کار آفاقی انسان کو اپنی شاعری کا محور بنایا۔

ایک جگہ پر اس انداز سے بھی کہا گیا ہے کہ '' اقبال اور راشد دونوں کو یکساں عالمی مسائل کا سامنا تھا لیکن دونوں کا رویہ مختلف رہا۔'' اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے '' اُردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ میں ن۔ م۔ راشد کے حوالے سے ڈاکٹر سنبل نگار کے تحریر کردہ مضمون میں خلیل الرحمن کے لکھے ہوئے مضمون سے اقتباس شامل کیا گیا ہے کہ ''راشد کی شاعری پر جب جب میں نے غور کیا ہے اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کی شاعری دراصل اقبال کی شعری کا تسلسل یا اس کی تشکیلِ نو ہے۔ راشد کے یہاں جو چیز اقبال سے مختلف ہے وہ ان کا زاویہ نگاہ ہے جو ان کی اپنی شخصیت اور ذاتی وجدان کی دین ہے۔''

ماورا، ایران میں اجنبی اور لا۔ انسان، راشد کی نظموں کے مجموعے ہیں۔ جن کا مطالعہ اگر تسلسل کیساتھ کیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ابتدائی دور کے کلام میں اقبال کے لہجے کی گونج سنائی دیتی ہے جو بتدریج کم ہوتے ہوتے آخرِکار گم ہو جاتی ہے لیکن ان کے لہجے کی صلابت ، ترنم کی بلند آہنگی اور متحرک و رقصاں پیکروں کی تخلیق راشد کی وہ خصوصیات ہیں جو بہر حال اقبال کی یاد دلاتی ہیں۔ یہاں چند نظمیں نمونے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں ۔

ہم محبت کے خوابوں کے مکیں

ریگِ دی روز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے

سایہ ناپید تھا، سائے کی تمنا کے تلے سوتے رہے

...٭...

زندگی! تو اپنے ماضی کے کنویں میں جھانک کر کیا پائے گی

اس پرانے اور زہریلے ہوائوں سے بھرے سوتے کنویں میں

جھانک کر اس کی کیا خبر لائے گی؟

اس تہ میں سنگ ریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں

جز صدا کچھ بھی نہیں

...٭...

قہوہ خانہ کے شبستانوں کی خلوت گاہ میں

آج کی شب تیرا دز دانہ ورود

عشق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب

تیری آنکھ اور میرا دل

عنکبوت اور اس کا بیچارہ شکار

ن۔ م۔ راشد کا پیدائشی نام نذر محمد تھا جبکہ وہ دنیائے ادب میں ن۔ م۔ راشد کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش گوجرانوالہ میں 1910 ء میں ہوئی۔ ان کی تعلیم ایم اے۔ اقتصادیات، پنجاب یونیورسٹی جبکہ ملازمت UNO1952 میں بحیثیت انفارمیشن آفیسر، آل انڈیا ریڈیو میں بھی ملازمت کی۔ آزاد نظم کی نئے انداز سے تعمیر کرنے والے ن۔ م ۔ راشد نے 10 اکتوبر1975 ء میں وفات پائی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں