گیمز…
آپ تک بات پہنچتی ہے تو آپ شرمندہ ہوتے ہیں، اپنے بچے کو ڈانٹتے اور مارتے ہیں، اس کی انا کو ٹھیس پہنچاتے ہیں
سعید بھائی کی بیٹی پھر واپس آ گئی ہے، اس بار تو بچوں سمیت آئی ہے اور نہ صرف واپس آ گئی ہے، اس بار اپنے باپ کے گھر میں بھی نہیں رہ رہی ہے۔ کبھی اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں جاتی ہے کبھی کسی کے ہاں۔'' مجھے بتایا گیا۔
'' اوہو۔'' میں نے حیرت کا اظہار کیا۔ پچھلی دفعہ جب وہ آ کر واپس گئی تھی تو تب تو علم ہوا تھا کہ اس کے سسرال والوں کے مالی حالات کافی اچھے ہوگئے تھے، پیسے کی ریل پیل ہو گئی تھی۔ میں نے سعید بھائی سے پوچھا بھی کہ کیسے پیسے کی ریل پیل ہو گئی کہ گاڑی نہیں دو دو گاڑیاں لے لیں۔ مکا ن بھی بڑا کرائے پر لے لیا ہے اور بیٹی بڑے برسوں کے بعد صحیح معنوں میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھانا کھانے اور ڈھنگ کے کپڑے پہننا شروع ہوئی تھی۔
اس سے پہلے تو اس نے شادی کے پہلے دس برسوں میں گنتی کے ہی چند دن سسرال میں گزارے تھے، خاوند خود کام نہ کرتا تھا، سال کے سال بچوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری تھا اور سسرال والے اس نکھٹو کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ تھے۔ سعید بھائی نے بتایا تھا کہ اس کا دیور اب کمپیوٹر پرکوئی کھیل کھیلتا تھا اور اس سے انہیں یوں گنتی کے نہیں بلکہ وزن کے حساب سے نوٹوں کی آمدن ہو رہی تھی۔
میںیہ سن کرتو خوش ہوئی تھی مگر اس حیرت کا اظہار بھی کیا تھا کہ ایسی کون سی گیم ہے اور دیہات کے لوگوں کویہ گیم اس مہارت سے آتی ہے، شہروں کے لڑکے تو یوں ہی کھیلتے اور وقت اور پیسے کا زیاں کرتے ہیں ۔ انہوں نے اس کی تفصیل سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا، ''پب جی '' کا نام لیا تھا کہ غالباً پب جی کھیلتے ہیں، یقینا انہوں نے اس وباء کی طرح پھیلی ہوئی گیم کا نام کہیں سے سن رکھا ہو گا۔ اب یہ سن کر کہ ان کی بیٹی ایک بار پھر بچوں سمیت لوٹ آئی ہے مجھے حیرت اور تجسس ہوا اور زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا کہ وہ نہ صرف آ گئے بلکہ آتے ہی اسی بات کی طرف آ گئے۔
'' بیٹی پھر واپس آ گئی ہے۔ '' انہوں نے بتایا۔
'' اب کیا ہوا ہے؟''
'' اس کے جواں سال دیور نے خود کشی کر لی ہے۔'' انہوں نے بتایا اور میرا منہ حیرت اور تاسف سے کھل گیا۔
'' وہی جو گیم کھیلتا تھا؟'' سوال کیا ۔
'' ہاں وہی، دو بیٹیاں ہیں تین اور ڈیڑھ برس کی۔ بیوہ بھی جوان جہاں ہے بے چاری۔ ''
'' کیوں خود کشی کی ''
'' اس نے گھر والوں سے کہا تھا کہ وہ کوئی گیم کھیلتا ہے کمپیوٹر پر مگر اصل میں وہ لوگوں سے کمپیوٹر کے ذریعے پیسے منگوا کر انہیں مقررہ مدت کے بعد دوگنا کر کے دیتا تھا۔''
'' ایک اور ڈبل شاہ؟''
'' ہاں، بالکل ڈبل شاہ کی طرح، وہ ایک آدمی سے رقم پکڑتا اور اسے چند ماہ میں ڈبل کر کے دے دیتا، اس کے بعد اس آدمی سے دوبارہ رقم نہ لیتا تھا۔ اب جس آدمی کو ایک بار رقم بنا کچھ کئے چند ماہ میں دوگنا ہو کر مل جائے وہ تو چاہے گا کہ دوبارہ بھی رقم دوگنا کروائے اور اپنے نام سے نہ ہو سکا تو لوگوں نے اپنے گھر والوں اور پھر دیگر عزیزوں کے ناموں پر رقوم جمع کروانا شروع کر دیں۔
پہلے لوگوں نے لاکھوں کو دوگنا کروایا، لالچ بڑھا تو کروڑوں کی گیم چل پڑی اور یوں اس لڑکے نے کروڑوں کمانا اور خرچ کرنا شروع کر دئیے۔ ایک وقت آیا کہ جب اس کے بعد رقم جمع کروانے والے لوگوں کی سفارشیں لے لے کر آنے لگے۔ وہ بھی کمپیوٹر کے ذریعے ہی حساب کتاب کر کے، تیری رقم مجھے اور میری تجھے دے کر گیم چلا رہا تھا کہ ایک مقام آ گیا جہاں مزید رقمیں دوگنا کرنا اس کے اختیار میں نہ رہا۔
بالکل خالی ہاتھ ہو گیا، چند سالوں کا جو عیاشی کا سلسلہ تھا وہ معطل ہوا اور وہ اپنے انوسٹرز سے چھپنے لگا، ان کی کالیں اٹینڈ کرنا بند کر دیں اور ان سے ملنے سے بھی انکاری ہو گیا۔ وہی لوگ جو اس کے پیچھے رقوم جمع کروانے کے لئے پڑے ہوتے تھے، اب اس کے پیچھے اپنی رقوم واپس لینے کے لئے بھاگنے لگے اور وہ نہیں ملتا تھا۔ منتوں ترلوں سے کام نہ بنا تو لوگ انہیں ڈرانے دھمکانے اور پولیس تک جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ دل میں انہیں بھی معلوم تھا کہ ان کے پاس پولیس کے پاس جانے کا نہ کوئی جواز تھا اور نہ اس کے خلاف کوئی ثبوت۔
لوگوں کے ہاتھ اس کی ماں کی اوڑھنی اور باپ کی پگڑی تک پہنچنے لگے تھے... اس کی بیوی اور بیٹیوں کو اٹھانے کی دھمکیاں دینے لگے تھے۔ اس کی بیوی اس پریشر کو نہ برداشت کر سکی اور اپنے میکے چلی گئی۔ گھر والوں کے طعنوں سے تنگ آ کر اس نے خود کشی کی کوشش کی جو کہ سو فیصد کامیاب ہوئی اور یوں اس گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اب والدین اور گھر والے پچھتاتے ہیں مگر کس کارن؟ اس وقت انہیں خیال نہیں آیا کہ اس سے پوچھیں کہ ان کا لال کون سی ایسی گیم کھیل رہا تھا جس میں یوں ہن برس رہا تھا ؟
اس وقت وہ بھی اس دولت کے مزے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ انہیں اپنے مفاد کے سامنے کچھ غلط محسوس ہی نہ ہوا تھا کہ وہ اپنے اس نوجوان بیٹے سے باز پرس کرتے... سوال تو کرتے کہ بیٹا یہ سب کچھ کہاں سے آ رہا ہے۔ ان کے گھر کے صحن سے بیٹے کا جنازہ اٹھا تو انہی صفوں پر لوگوں نے بستر لگا لئے کہ اپنی رقوم لے کر نکلیں گے۔ سعید لالہ کی بیٹی بھی چھپ کر اپنی عزت بچا کر نکلی اور اس کے بھائی بھی چھپتے پھر رہے ہیں، والدین بوڑھے ہیں، کہیں بھاگ تو نہیںسکتے مگر عجیب سی مصیبت میں مبتلا ہیں کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔
ساری غلطی اس میں والدین اور بڑے بھائی بہنوں کی ہوتی ہے ۔ ہمارا بچہ جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو ہمیں اولین سالوں میں ہی اس پر اس چیز کا چیک رکھنا چاہئے۔ پہلے دن جب وہ گھر میں کوئی ایسی چیز لے کر آتا ہے خواہ وہ کوئی چھوٹا سا کھلونا ہو، گیند ہو، پنسل ہو یا شارپنر یا کوئی ٹافی، آپ کو علم ہونا چاہئے کہ وہ چیز آپ کے بچے کی نہیں ہے تو اس کے پاس کہاں سے آئی، اس سے باز پرس کریں۔
بسا اوقات دو ننھے ہم جماعت آپس میں اپنی چیزوں کا تبادلہ کر لیتے ہیں کہ انہیں دوسرے کی چیز پسند آ جاتی ہے، یہ چیزیں بہت معمولی ہوتی ہیں، پنسل، ربڑ یا شارپنر اور بعض دفعہ لنچ۔ پہلے تو بچے ہنسی خوشی تبادلہ کر لیتے ہیں مگر بعد میں انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی اپنی چیز کسی اور کے پاس کیوں ہو... ایسے موقعے پر وہ ایک کہانی گھڑ کر اپنے والدین یا اساتذہ سے کہہ کر آپ کے بچے کو چور یا bully ثابت کر دیتے ہیںکہ اس نے اس بچے کی چیز زبردستی لے لی۔
آپ تک بات پہنچتی ہے تو آپ شرمندہ ہوتے ہیں، اپنے بچے کو ڈانٹتے اور مارتے ہیں، اس کی انا کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، اسے سزا دیتے ہیں اور اس کی بے گناہی کا بھی یقین نہیں کرتے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ جس دن آپ اپنے بچے کے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیزدیکھیں جو کہ اس کی نہیں ہے، آپ نے اسے نہیں لے کر دی، اس کے بارے میں اس سے استفسار کریں۔
اگر بچہ کہے کہ اسے کسی اور بچے نے تحفتا یا تبادلے میں دی ہے تو اپنے بچے کی بات پر یقین کریں مگر اس کے بارے میں اس کی ٹیچر کو فورا نوٹ لکھ کر بھیجیں۔ اپنے بچے سے بھی کہیں کہ آپ نے اپنے دوست سے اس کی چیز کے ساتھ ایک دن کے تبادلہ کر لیا تھا، وہ کافی تھا، آج اس کی چیز اسے واپس کریں اور اپنی واپس لے آئیں کیونکہ آپ کو وہ آپ کے ماما پاپا نے لے کر دی ہے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں، آپ کی پیار سے کہی ہوئی بات کو سمجھ اور مان جاتے ہیں۔ اس عمر کی یہ چھوٹی چھوٹی سرزنش، انہیں عمر کے باقی سالوں میں بڑی برائیوں کے ارتکاب سے بچاتی ہے۔
'' اوہو۔'' میں نے حیرت کا اظہار کیا۔ پچھلی دفعہ جب وہ آ کر واپس گئی تھی تو تب تو علم ہوا تھا کہ اس کے سسرال والوں کے مالی حالات کافی اچھے ہوگئے تھے، پیسے کی ریل پیل ہو گئی تھی۔ میں نے سعید بھائی سے پوچھا بھی کہ کیسے پیسے کی ریل پیل ہو گئی کہ گاڑی نہیں دو دو گاڑیاں لے لیں۔ مکا ن بھی بڑا کرائے پر لے لیا ہے اور بیٹی بڑے برسوں کے بعد صحیح معنوں میں اپنے گھر میں پیٹ بھر کر کھانا کھانے اور ڈھنگ کے کپڑے پہننا شروع ہوئی تھی۔
اس سے پہلے تو اس نے شادی کے پہلے دس برسوں میں گنتی کے ہی چند دن سسرال میں گزارے تھے، خاوند خود کام نہ کرتا تھا، سال کے سال بچوں کی پیدائش کا سلسلہ جاری تھا اور سسرال والے اس نکھٹو کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ تھے۔ سعید بھائی نے بتایا تھا کہ اس کا دیور اب کمپیوٹر پرکوئی کھیل کھیلتا تھا اور اس سے انہیں یوں گنتی کے نہیں بلکہ وزن کے حساب سے نوٹوں کی آمدن ہو رہی تھی۔
میںیہ سن کرتو خوش ہوئی تھی مگر اس حیرت کا اظہار بھی کیا تھا کہ ایسی کون سی گیم ہے اور دیہات کے لوگوں کویہ گیم اس مہارت سے آتی ہے، شہروں کے لڑکے تو یوں ہی کھیلتے اور وقت اور پیسے کا زیاں کرتے ہیں ۔ انہوں نے اس کی تفصیل سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا، ''پب جی '' کا نام لیا تھا کہ غالباً پب جی کھیلتے ہیں، یقینا انہوں نے اس وباء کی طرح پھیلی ہوئی گیم کا نام کہیں سے سن رکھا ہو گا۔ اب یہ سن کر کہ ان کی بیٹی ایک بار پھر بچوں سمیت لوٹ آئی ہے مجھے حیرت اور تجسس ہوا اور زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا کہ وہ نہ صرف آ گئے بلکہ آتے ہی اسی بات کی طرف آ گئے۔
'' بیٹی پھر واپس آ گئی ہے۔ '' انہوں نے بتایا۔
'' اب کیا ہوا ہے؟''
'' اس کے جواں سال دیور نے خود کشی کر لی ہے۔'' انہوں نے بتایا اور میرا منہ حیرت اور تاسف سے کھل گیا۔
'' وہی جو گیم کھیلتا تھا؟'' سوال کیا ۔
'' ہاں وہی، دو بیٹیاں ہیں تین اور ڈیڑھ برس کی۔ بیوہ بھی جوان جہاں ہے بے چاری۔ ''
'' کیوں خود کشی کی ''
'' اس نے گھر والوں سے کہا تھا کہ وہ کوئی گیم کھیلتا ہے کمپیوٹر پر مگر اصل میں وہ لوگوں سے کمپیوٹر کے ذریعے پیسے منگوا کر انہیں مقررہ مدت کے بعد دوگنا کر کے دیتا تھا۔''
'' ایک اور ڈبل شاہ؟''
'' ہاں، بالکل ڈبل شاہ کی طرح، وہ ایک آدمی سے رقم پکڑتا اور اسے چند ماہ میں ڈبل کر کے دے دیتا، اس کے بعد اس آدمی سے دوبارہ رقم نہ لیتا تھا۔ اب جس آدمی کو ایک بار رقم بنا کچھ کئے چند ماہ میں دوگنا ہو کر مل جائے وہ تو چاہے گا کہ دوبارہ بھی رقم دوگنا کروائے اور اپنے نام سے نہ ہو سکا تو لوگوں نے اپنے گھر والوں اور پھر دیگر عزیزوں کے ناموں پر رقوم جمع کروانا شروع کر دیں۔
پہلے لوگوں نے لاکھوں کو دوگنا کروایا، لالچ بڑھا تو کروڑوں کی گیم چل پڑی اور یوں اس لڑکے نے کروڑوں کمانا اور خرچ کرنا شروع کر دئیے۔ ایک وقت آیا کہ جب اس کے بعد رقم جمع کروانے والے لوگوں کی سفارشیں لے لے کر آنے لگے۔ وہ بھی کمپیوٹر کے ذریعے ہی حساب کتاب کر کے، تیری رقم مجھے اور میری تجھے دے کر گیم چلا رہا تھا کہ ایک مقام آ گیا جہاں مزید رقمیں دوگنا کرنا اس کے اختیار میں نہ رہا۔
بالکل خالی ہاتھ ہو گیا، چند سالوں کا جو عیاشی کا سلسلہ تھا وہ معطل ہوا اور وہ اپنے انوسٹرز سے چھپنے لگا، ان کی کالیں اٹینڈ کرنا بند کر دیں اور ان سے ملنے سے بھی انکاری ہو گیا۔ وہی لوگ جو اس کے پیچھے رقوم جمع کروانے کے لئے پڑے ہوتے تھے، اب اس کے پیچھے اپنی رقوم واپس لینے کے لئے بھاگنے لگے اور وہ نہیں ملتا تھا۔ منتوں ترلوں سے کام نہ بنا تو لوگ انہیں ڈرانے دھمکانے اور پولیس تک جانے کی دھمکیاں دینے لگے۔ دل میں انہیں بھی معلوم تھا کہ ان کے پاس پولیس کے پاس جانے کا نہ کوئی جواز تھا اور نہ اس کے خلاف کوئی ثبوت۔
لوگوں کے ہاتھ اس کی ماں کی اوڑھنی اور باپ کی پگڑی تک پہنچنے لگے تھے... اس کی بیوی اور بیٹیوں کو اٹھانے کی دھمکیاں دینے لگے تھے۔ اس کی بیوی اس پریشر کو نہ برداشت کر سکی اور اپنے میکے چلی گئی۔ گھر والوں کے طعنوں سے تنگ آ کر اس نے خود کشی کی کوشش کی جو کہ سو فیصد کامیاب ہوئی اور یوں اس گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اب والدین اور گھر والے پچھتاتے ہیں مگر کس کارن؟ اس وقت انہیں خیال نہیں آیا کہ اس سے پوچھیں کہ ان کا لال کون سی ایسی گیم کھیل رہا تھا جس میں یوں ہن برس رہا تھا ؟
اس وقت وہ بھی اس دولت کے مزے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے۔ انہیں اپنے مفاد کے سامنے کچھ غلط محسوس ہی نہ ہوا تھا کہ وہ اپنے اس نوجوان بیٹے سے باز پرس کرتے... سوال تو کرتے کہ بیٹا یہ سب کچھ کہاں سے آ رہا ہے۔ ان کے گھر کے صحن سے بیٹے کا جنازہ اٹھا تو انہی صفوں پر لوگوں نے بستر لگا لئے کہ اپنی رقوم لے کر نکلیں گے۔ سعید لالہ کی بیٹی بھی چھپ کر اپنی عزت بچا کر نکلی اور اس کے بھائی بھی چھپتے پھر رہے ہیں، والدین بوڑھے ہیں، کہیں بھاگ تو نہیںسکتے مگر عجیب سی مصیبت میں مبتلا ہیں کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔
ساری غلطی اس میں والدین اور بڑے بھائی بہنوں کی ہوتی ہے ۔ ہمارا بچہ جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو ہمیں اولین سالوں میں ہی اس پر اس چیز کا چیک رکھنا چاہئے۔ پہلے دن جب وہ گھر میں کوئی ایسی چیز لے کر آتا ہے خواہ وہ کوئی چھوٹا سا کھلونا ہو، گیند ہو، پنسل ہو یا شارپنر یا کوئی ٹافی، آپ کو علم ہونا چاہئے کہ وہ چیز آپ کے بچے کی نہیں ہے تو اس کے پاس کہاں سے آئی، اس سے باز پرس کریں۔
بسا اوقات دو ننھے ہم جماعت آپس میں اپنی چیزوں کا تبادلہ کر لیتے ہیں کہ انہیں دوسرے کی چیز پسند آ جاتی ہے، یہ چیزیں بہت معمولی ہوتی ہیں، پنسل، ربڑ یا شارپنر اور بعض دفعہ لنچ۔ پہلے تو بچے ہنسی خوشی تبادلہ کر لیتے ہیں مگر بعد میں انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی اپنی چیز کسی اور کے پاس کیوں ہو... ایسے موقعے پر وہ ایک کہانی گھڑ کر اپنے والدین یا اساتذہ سے کہہ کر آپ کے بچے کو چور یا bully ثابت کر دیتے ہیںکہ اس نے اس بچے کی چیز زبردستی لے لی۔
آپ تک بات پہنچتی ہے تو آپ شرمندہ ہوتے ہیں، اپنے بچے کو ڈانٹتے اور مارتے ہیں، اس کی انا کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، اسے سزا دیتے ہیں اور اس کی بے گناہی کا بھی یقین نہیں کرتے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ جس دن آپ اپنے بچے کے پاس پہلی بار کوئی ایسی چیزدیکھیں جو کہ اس کی نہیں ہے، آپ نے اسے نہیں لے کر دی، اس کے بارے میں اس سے استفسار کریں۔
اگر بچہ کہے کہ اسے کسی اور بچے نے تحفتا یا تبادلے میں دی ہے تو اپنے بچے کی بات پر یقین کریں مگر اس کے بارے میں اس کی ٹیچر کو فورا نوٹ لکھ کر بھیجیں۔ اپنے بچے سے بھی کہیں کہ آپ نے اپنے دوست سے اس کی چیز کے ساتھ ایک دن کے تبادلہ کر لیا تھا، وہ کافی تھا، آج اس کی چیز اسے واپس کریں اور اپنی واپس لے آئیں کیونکہ آپ کو وہ آپ کے ماما پاپا نے لے کر دی ہے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں، آپ کی پیار سے کہی ہوئی بات کو سمجھ اور مان جاتے ہیں۔ اس عمر کی یہ چھوٹی چھوٹی سرزنش، انہیں عمر کے باقی سالوں میں بڑی برائیوں کے ارتکاب سے بچاتی ہے۔