شیطاں کے بعد دوسری شہرت ملی مجھے
باقر مہدی کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ دوسروں کو تو رسوا کرتے ہی تھے مگر خود کو بھی رسوا کرلیتے تھے
ہمارے ہاں ایک مشہور ادیب و شاعر اور ناقد تھے، باقر مہدی (پاکستان کے واقعتاً اہل ادب بھی اُن سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ا ن کے علم و ادب کے معترف بھی ہیں۔)
ان کے سامنے اچھے اچھوں کی بولتی '' بند '' ہوتے ہم نے خود دیکھی ہے، ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے مزاج کی تندی اور انتہائی بے باکی مشہور نہیں بلکہ نیک نامی کی ضد تھی، یہاں تک کہ اپنے زمانے میں ترقی پسندوں کے سردار شاعر و ادیب علی سردار جعفری جیسا شخص بھی ان سے محتاط رہتا تھا کہ نجانے محفل میں سب کے سامنے وہ کیا انداز تخاطب اختیار کر لیں۔
واضح رہے کہ باقر مہدی نہ تو مالدار آدمی تھے اور نہ ہی سیاسی اثر و رسوخ کے حامل شخص تھے، قارئین کے لیے یہ بھی ایک اطلاع ہوگی کہ معاشیات میں ایم اے کرنے والے باقر مہدی نے عمر بھر نہ کسی کی باقاعدہ ملازمت کی اور نہ کوئی کاروبار۔
باقر مہدی کے تبحرِ علمی کے قائل اُردو وا لے ہی نہیں تھے، بلکہ غیر اُردو والے بھی ان کے معترف تھے، معتبر لوگوں سے روایت ہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے انگریزی اخبار '' ٹائمز آف انڈیا '' کے ایڈیٹر شیام لال ان کے خاص دوستوں میں تھے، جو لوگ باقر مہدی سے چڑتے تھے وہ بھی ان کے علم کے معترف تھے یعنی قدرت نے انھیں علم کے تمول کے ساتھ اُن کا اقبال بھی بلند کر رکھا تھا، وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
باقر صاحب کے سامنے کسی کا بول '' بالا '' نہیں ہوتا تھا، ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ دہلی میں مشہور ادیب وناقد گوپی چند نارنگ نے ایک جلسے کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے مرکزی وزیر ضیا الرحمنٰ انصاری کو خصوصی طور پر مدعو کیا، وزیر موصوف جب تقریر کر رہے تھے تو انہوں نے اپنی تقریر میں ایک شعر پڑھتے ہوئے کہا، مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے (مثلاً) :
جل اٹھے بزم ِغیر کے در و بام
جب بھی ہم خانماں خراب آئے
جلسے میں ایک سے ایک ادیب و شاعر اور عمائدین حاضر تھے، تمام حاضرین بہ تبسم خموشی سے وزیر باتدبیر کی طرف گوش بر آواز تھے کہ اچانک ایک بلند آواز گونجی۔
یہ شعر غالبؔ کا نہیں فیضؔ کا ہے۔
وزیر ِموصوف نے اپنی تقریر جاری رکھی اور جب وہ مائیک سے ہٹ کر اپنی نشست پر بیٹھے تو اپنے ہم نشست مہمان سے پوچھا کہ فیضؔ کے شعر والے یہ کون صاحب تھے؟
جواب ملا : '' باقر مہدی۔''
وزیر موصوف نسبت ِ شعر کی غلطی کے باوجود باقر مہدی سے واقف ہی نہیں ، ان کے ادبی تشخص سے بھی باخبر تھے، باقر مہدی کے نام پر انہوں نے صرف ایک تبسم ہی کی زحمت کی۔ البتہ جلسے کے اختتام پر مہتمم جلسہ گوپی چند نارنگ یہ کہتے سنے گئے۔
'' باقر مہدی موقع محل اور آداب ِ محفل کی نزاکت سے بھی بے پروا ہو جاتے ہیں۔''
باقر مہدی کے ایسے نجانے کتنے واقعات مشہور ہیں۔ وہ ادبی دورے پر پاکستان گئے تو کسی شاعر نے انھیں اپنا شعری مجموعہ نذر کیا تو باقر مہدی نے جواباً اس کا لحاظ بھی نہیں رکھا کہ وہ ایک میزبان ملک میں ہیں۔ شاعر سے کہا۔ '' کیا آپ نہیں جانتے کہ ہمارے ملک میں بھی بڑی تعداد میں بُری کتابیں چھپتی ہیں۔''
وہ پاکستانی شاعر کتاب کے ساتھ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔باقرمہدی پاکستان میں جس جگہ ٹھہرے تھے وہاں کچھ شاعر و ادیب پہنچے۔ انہوں نے باقر مہدی سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ ہم '' بزمِ ادب '' کی جانب سے ان کے اعزاز میں ایک پروگرام کرنا چاہتے ہیں۔ باقر نے بڑی بے رخی سے کہا۔
''آپ نے ہماری کوئی کتاب پڑھی ہے، اگر نہیں، پھر آپ مجھے جانتے نہیں، تو پروگرام کرنا فضول ہے۔ آپ تشریف لے جاسکتے ہیں۔''
باقر مہدی کے بارے میں مشہور ہندوستانی طنز و مزاح نگار یوسف ناظم کا یہ قول تو بہت دور تک اہل ادب میں مشہور ہے۔
باقر مہدی علم کی اُس بلندی پر ہیں جہاں علم کو پہنچنے میں ابھی کچھ دیر ہے۔
باقر مہدی کا مطالعہ مشہور تھا۔ کسی جلسے میں ( پروفیسر شمیم حنفی جیسے اہل ِعلم نے ) انھیں کار بھیج کر بلانے کی پیش کش کی تو اُن کا جواب تھا۔ '' ایک کتاب گھر پر رکھی ہے، وہ پڑھنی ہے، اگر آپ کے جلسے میں آگیا تو میرا کتنا وقت ضائع ہو جائے گا۔''
وہ جو کہا جاتا ہے کہ قدرت کی رَسی ڈھیلی رہتی ہے مگر کسی وقت وہ اسی رسی کو کھینچ بھی لیتی ہے اور یوں ہوا کہ باقر مہدی جیسے بولتے خاں کی زبان پر فالج کا اثر ہوگیا، ان کی بولتی متاثر ہوئی، وہ تقریباً گویائی سے محروم ہو گئے ، بعض احباب کے بقول، وہ ساکت ہونے کے سبب اپنی ضروریات اہلیہ کو لکھ کر بتلاتے تھے ، مگر ہم بھولے رہتے ہیں۔
آدمی مختار ہو کر کس قدر مجبور ہے
جیسا کہ بتایا گیا کہ باقر مہدی نے نہ کوئی ملازمت کی اور نہ ہی کوئی کاروبار ، ان کی بیگم عرف خیری (خیر النسا) کسی کالج میں لیکچرر تھیں اور انہیں سے کاشانہ باقر کا نظام زندگی چلتا تھا، خیری محترمہ کس قدر باوفا اہلیہ تھیں ، رزم ردولوی جیسے دین دار شاعر کے فرزند باقر مہدی نے اپنی آخری رسوم کے بارے میں وصیت کر رکھی تھی۔
جب23 ستمبر 2006 میں اُن کا انتقال ہوا تو وصیت کے مطابق اُن کے جَسَد کو نذرِ آتش کرنے کا معاملہ زیر بحث آیا تو اس پر بات ٹھہری کہ خیری محترمہ کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے۔ جب خیری محترمہ سے پوچھا گیا تو اُن کا تاریخی جواب تھا۔ '' مَیں نے عمر بھر باقر سے کبھی اور کسی معاملے میں اختلاف نہیں کیا تو اب ان کی وصیت سے اختلاف کیسے کر سکتی ہوں۔''
بہرحال ان کے بعض دوستوں نے باقر مہدی کو ''آنجہانی'' ہونے سے بچا لیا۔
باقر مہدی کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ دوسروں کو تو رسوا کرتے ہی تھے مگر خود کو بھی رسوا کرلیتے تھے، یہ شعر باقر مہدی کی سرشت کا آئینہ ہے۔
بس میرا ذکر آتے ہی محفل اُجڑ گئی
شیطاں کے بعد دوسری شہرت ملی مجھے