صحت سے زندگی

بچوں کو زبان کے ذائقے کی خاطر بنی بنائی اشیا سے بچائیے کہ یہ آگے بڑھ کر ہماری نسل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے

''آج کل کے بچے تو بڑے تیز ہیں یہ خود ہی اپنا راستہ بنا لیتے ہیں۔'' یہ کہنا تھا ایک والدہ کا جو بے حد مسرور تھیں کہ ان کا بچہ جو ابھی محض دو ڈھائی سال کا ہی تھا موبائل فون پر جس کی قیمت لاکھ سے کم کیا ہی ہوگی، رنگ برنگے کارٹون دیکھ رہا تھا۔ اردگرد بیٹھے لوگ بچے کی اس معصومانہ حرکت پر مسکرا اٹھے تھے اور اس کی والدہ صاحبہ پھول کر کپا ہوگئی تھیں کہ ان کے فرزند ارجمند نے گویا گولڈ میڈل حاصل کرلیا ہو۔

بچے ہر دور کے ہی سمجھدار ہوتے ہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ انھیں چیزوں کو کھوجنے، پرکھنے اور جانچنے کے لیے کچھ مشقت کرنا پڑتی ہے جو دیکھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنتی ہے اگر یہ مشقت مثبت انداز میں ہو تو یقینا قابل تحسین ہے لیکن موبائل فون کے حصول اور اس کی برقیاتی لہروں سے آنکھیں برباد کرنے کی ہو تو۔۔۔۔یہ کمپیوٹر ایج ہے، ترقی کا دور ہے اسی طرح کے جملے سن کر صرف خاموش رہنا مناسب لگتا ہے کہ اب آگے سے انسان کیا کہہ سکتا ہے کہ جب لوگ خود اپنے بچوں کو اس طرح کی خطرناک عادات میں ڈال کر مسرور و مطمئن ہیں، بہرحال ہماری قوم کے یہ ننھے منے بچے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں اس کا ابھی ہمیں احساس نہیں ہے۔

یہ دودھ کو تو ہاتھ بھی نہیں لگاتا، جب تک اس کے ساتھ انھوں نے ایک سافٹ ڈرنک کا نام لیا اور بڑے مسکراتے ہوئے اپنے ڈیڑھ سالہ سپوت کے منہ میں فیڈر فٹ کردیا۔ بچہ چسکیاں لینے لگا اور ماں کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ نمایاں ہوئی۔ جس سافٹ ڈرنک کا انھوں نے ذکر کیا تھا وہ ایک انتہائی کیلوریز سے بھرپور چینی اور سوڈے سے ملا جلا ایک مشروب ہے جس کو اب دودھ میں بھی ملا کر پینے کا رواج ہو چکا ہے۔

آپ جانتی ہیں کہ ایک سافٹ ڈرنک کے گلاس میں گیارہ چمچے چینی شامل ہوتی ہے اور اس ننھی سی جان کو ایک ساتھ گیارہ چمچے چینی پلانا حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اس سے بچے میں نجانے کتنی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں اس کی قوت مدافعت کا نظام بگڑ سکتا ہے، ہڈیوں میں بھربھرا پن پیدا ہو سکتا ہے، سانس کی بیماری اور سب سے بڑھ کر دودھ کی اپنی افادیت بالکل گھٹ جاتی ہے۔ لیکن کیا کہیے کہ یہ تیز تر دوڑتی بھاگتی ترقی کا دور ہے بس چند ضبط کے گھونٹ اور بس۔۔۔۔

ہمارے جسم میں دو سو چھ ہڈیاں ہوتی ہیں، قدرت نے ان کے ریشے سخت اور ٹھوس ترتیب دیے ہیں، یہ ہمارے جسم کا مضبوط انفرااسٹرکچر ہیں اگر اس نظام میں کوئی کمزوری یا نقص رہ جائے تو پورے جسم کا نظام بگڑ کر رہ جاتا ہے اور انسان مسائل میں گھر جاتا ہے لہٰذا ہمیں اپنی ہڈیوں کی مضبوطی اور ان کی زندگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ توجہ ایک شیرخوار بچے کی عمر سے ہی کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے ویسے تو دوران حمل ماں کی ضروریات کا اس طرح خیال رکھنا چاہیے کہ ماں اور بچہ دونوں صحت مند رہیں لیکن پیدائش کے بعد یہ ضروریات اور بھی توجہ چاہتی ہیں۔

ہڈیاں مضبوط اور درست حالت میں ہوں تو ان کے ڈھانچے سے وہ عضلات یا پٹھے جو چمٹے ہوئے ہوتے ہیں درستگی سے کام کریں گے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ ہڈیوں کا خیال کم ہی رکھتے ہیں، اس کی افادیت اور اہمیت کا ہمیں تب اندازہ ہوتا ہے جب اسے چوٹ پہنچتی ہے۔ معمولی سا بال بھی عضلات میں سوجن اور درد کی کیفیت پیدا کردیتا ہے لہٰذا اندازہ کیجیے کہ ہڈیاں اور ان سے جڑے پٹھے ہماری زندگی کی صحت کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔


ہماری ہڈیاں لحمیات، شکر، معدنی نمک اور دیگر اجزا سے بنی ہوتی ہیں۔ ہڈیوں کی زندہ بافتیں خون کے خلیات تیار کرنے کے علاوہ کیلشیم اور فاسفیٹ جیسے معدنی اجزا کا خزانہ بھی ہوتی ہیں۔

لڑکوں کی ہڈیاں بیس سال کی عمر تک مضبوط ہوتی ہیں اور لڑکیوں کی ہڈیوں کی مضبوطی اور تعمیر کا سلسلہ اٹھارہ سال کی عمر تک چلتا رہتا ہے۔ بچوں میں بچپن سے ہی اپنی ہڈیوں کی تعمیر اور توجہ کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنا ضروری ہے لیکن افسوس کہ آج کل ہمارے والدین رنگارنگ اشتہارات اور اشیا کی نمائش میں ان کا خیال نہیں رکھتے، اسی کے ساتھ زبان کے ذائقے کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ ساری قدرتی توانائیاں نظرانداز کردیتے ہیں۔

لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو اپنی ہڈیوں کی درستگی اور صحت کا خیال رکھنا یوں بھی ضروری ہے کہ تیس سے چالیس سال کی عمر کے بعد ہڈیوں کی بوسیدگی اور ان کے گھلنے کا مرحلہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یہی عمل مردوں میں بھی تکلیف کا باعث ہوتا ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ پیدل چلنا، دوڑنا اور ہلکی پھلکی ورزشیں ساری عمر کرتے رہنا ضروری ہے جو نہ صرف ہماری ہڈیوں کے لیے بلکہ ہمارے پٹھوں کے لیے بھی مفید ثابت ہوتی ہیں۔

پرانے وقتوں میں دودھ، دہی، سبزیوں، دالوں، لہسن پیاز کے استعمال پر خاصا زور دیا جاتا تھا، آج کل بھی یہ تمام غذائیں عام ہیں البتہ اس کے استعمال کے طریقے مختلف نوعیت اختیار کر گئے ہیں، ہماری غذاؤں میں کولڈ ڈرنکس، مختلف انرجی ڈرنکس، چکن اور اس سے بنی اشیا کا استعمال بڑھ گیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ باآسانی بازار سے تیار پیکٹس کی صورت میں دستیاب ہوتے ہیں گھر لائے اور فوراً پکا ڈالا، لیکن ذرا سوچیے کہ اس طرح ہم کتنے غذائی اجزا ضایع کر دیتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے اہم ہیں۔ خاص کر مشروبات

میں ایک خاص حصہ اس مضر صحت جز کا ہوتا ہے جو وقتی طور پر انسان کو راحت پہنچاتا ہے ایسے مشروبات اسکولوں کے باہر عام فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔ صرف یہی نہیں بہت سی جھٹ پٹ اشیا کو محفوظ رکھنے کے لیے جو اجزا استعمال کیے جاتے ہیں وہ بھی ہماری صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہ اجزا نہ صرف انسانی جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ موٹاپے کی طرف بھی بڑھتے ہیں۔

بچوں کو زبان کے ذائقے کی خاطر بنی بنائی اشیا سے بچائیے کہ یہ آگے بڑھ کر ہماری نسل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، وقتی طور پر حاصل کردہ انرجی دوررس نہیں ہوتی، کوئی بھی ایسا عمل جو قدرتی عادات کے مخالف ہو، انسان کے لیے نقصان دہ ہیں، چاہے وہ کھانے پینے کے نظام سے مطابق ہو یا لکھنے پڑھنے اور تدریسی اداروں سے ہوں۔ یقینا ترقی کا سفر آسان نہیں ہوتا لیکن یہ کس قدر عجیب سی بات ہے کہ اس سفر میں حاصل اشیا کھٹاکھٹ تیار ہوکرہمارے اور ہماری نئی نسل کے ہاتھوں تک پہنچ جاتی ہیں۔

اپنی صحت اپنے بچوں کی صحت اور پرورش میں رنگین خوب صورت غباروں جیسے پروجیکٹس سے احتراز برتیں کہ یہ رنگینیاں بس نظر کی حد تک ہی دکھائی دیتی ہیں درحقیقت ان میں چھپے وہ کانٹے اہم ہیں جنھیں بڑی توجہ اور محنت سے ہمارے لیے تیار کیا گیا ہے۔ خدا ہماری اور ہماری آیندہ آنے والی نسلوں کی حفاظت فرمائے۔( آمین۔)
Load Next Story