شاعر ڈاکٹر جاوید منظر کا ادبی پس منظر

ان کا نعتوں کا ایک مجموعہ ’’میرے دل پہ کعبے کا در کھلا ‘‘ بھی بہت مشہور ہوا

hamdam.younus@gmail.com

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ڈاکٹر جاوید منظر کے ساتھ ہم بھی نوجوان لکھاریوں میں شامل تھے اور اس وقت حلقہ ارباب ذوق کراچی کی ادبی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔

آرٹس کونسل کراچی میں ہر پندرہ دن بعد نشستیں ہوا کرتی تھیں اور ڈاکٹر جاوید منظر، انور شعور، عشرت آفرین، رضوان صدیقی، نوشابہ صدیقی، ضیا شہزاد، عرفان عابدی، ہارون رشید اور فصیح چغتائی وغیرہ گوشہ ادب کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں مشہور شاعر نقاش کاظمی حلقہ ارباب ذوق کے کرتا دھرتا ہوا کرتے تھے۔

نقاش کاظمی ایک طویل عرصے تک آرٹس کونسل کراچی کی لٹریری سوسائٹی کے چیئرمین بھی رہے تھے۔ انھوں نے کبھی آرٹس کونسل کے عہدوں سے مالی منفعت کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ وہ خلوص اور ادب سے محبت کا دور تھا پھر اس دوران میں شاعری کے ساتھ ساتھ فلمی صحافت سے بھی جڑتا چلا گیا تھا۔ اسی دوران ریڈیو ٹیلی وژن کے لیے لکھنا شروع کیا تھا اور پھر کراچی کی چند فلموں کے لیے اسکرپٹ اور گانے لکھنے کے بعد میں لاہور چلا گیا اور پھر وہاں جا کر بحیثیت کہانی و مکالمہ نگار اور نغمہ نگار فلمی دنیا سے منسلک ہو گیا تھا۔

ڈاکٹر جاوید منظر اور دیگر ادبی دوستوں سے میرا رابطہ ہی نہ رہ سکا تھا لاہور کی فلمی دنیا کی چمک دمک میں آہستہ آہستہ میں بھی مدغم ہوتا چلا گیا تھا پھر جب میں دس بارہ سال کے بعد لاہور کی فلمی دنیا سے واپس کراچی لوٹا تو کراچی میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکا اور فیملی کے ساتھ امریکا آگیا اور یہاں کی ریاست نیوجرسی میں سکونت اختیار کر لی، اب مجھے یہاں بیس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں۔

اس دوران اکثر و بیشتر کراچی، پاکستان جاتا رہتا ہوں، دیرینہ دوستوں سے ملاقاتیں رہتی ہیں، شعری نشستیں اور ادبی بیٹھکیں بھی خوب ہوتی ہیں دو سال پہلے جب میں کراچی میں تھا تو کراچی کی مشہور افسانہ نگار خاتون اور براڈ کاسٹر صائمہ نفیس نے میرے اعزاز میں کراچی زو کے مغل گارڈن میں ایک شام کا اہتمام کیا تھا اور کراچی کی مقتدر ادبی شخصیات کو بھی مدعو کیا تھا جن میں ڈاکٹر جاوید منظر اور پروفیسر نوشابہ صدیقی خاص طور پر قابل ذکر تھیں۔

پروفیسر نوشابہ صدیقی کے ساتھ میں نے مختلف اردو اخبارات میں بچوں کے صفحات پر لکھنا شروع کیا تھا، اسی زمانے میں انور شعور بھی ہم نو عمر لکھنے والوں میں شامل تھے۔ اس شام مجھے ڈاکٹر جاوید منظر سے مل کر بڑی خوشی ہوئی تھی۔

ایک دیرینہ دوست کے ساتھ کافی یادیں اور باتیں شیئر ہوئی تھیں انھوں نے مجھے اپنا نیا شعری مجموعہ '' دیار غزل'' عنایت کیا جس کے جواب میں، میں نے اپنا شعری مجموعہ '' ریزہ ریزہ شبنم'' ان کی نذر کیا اور اس شام مغل گارڈن میں صائمہ نفیس پروفیسر نوشابہ صدیقی اور ڈاکٹر جاوید منظر سے باتیں ہی باتیں ہوتی رہیں اور مغل گارڈن میں مہکتی ہوئی شام اپنے سنہرے رنگوں کے ساتھ اور زیادہ حسین ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے گزشتہ دس سال کی ساری روداد میرے احساس کے دریچوں میں شگفتہ پھولوں کی طرح بچھا دی تھی۔

اب میں آتا ہوں ڈاکٹر جاوید منظر کے ادبی پس منظر اور ان کی ادبی جدوجہد اور کچھ ابتدائی زندگی کی طرف، ڈاکٹر جاوید منظر ایک مشہور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے گھر کا سارا ماحول ہی ادبی تھا، شاعری ان کو وراثت میں ملی تھی، ان کے والد ڈاکٹر حسن ایک معروف شاعر اور ایک ممتاز عالم دین بھی تھے اور ان کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں علمی، ادبی، مذہبی اور سیاسی شخصیات بھی شامل تھیں جن میں مولانا ماہرالقادری، حضرت یاس یگانہ چنگیزی، نواب بہادر یار جنگ، علامہ رشید ترابی، تابش دہلوی اور رئیس امروہوی کا نام بھی شامل تھا۔

ڈاکٹر جاوید منظر کے والدین کا تعلق ہندوستان کے شہر بدایوں سے تھا، ڈاکٹر جاوید منظر کے دادا جان بھی شاعر تھے اور ان کی والدہ ماجدہ بھی شعرکہتی تھیں اور شعر و ادب اس خاندان کا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ ڈاکٹر جاوید کے بڑے بھائی جعفر محمود جو محمود ساگر کے نام سے ادبی دنیا میں اپنی شہرت رکھتے تھے، ان کا بھی ایک شعری مجموعہ ''گردش'' کے نام سے منظر عام پر آیا تھا، ڈاکٹر جاوید منظر تیرہ سال کی عمر ہی سے شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز نعتیہ کلام سے کیا تھا اور پہلا شعر اس انداز سے کہا تھا:


محمدؐ محمدؐ پکارا کروں میں

اسی نام سے دل نکھارا کروں میں

جس کی ابتدا اس طرح ہو وہ بھلا کیسے آگے نہ بڑھتا۔ شعری ذوق عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا، آہستہ آہستہ غزلیں اور نظمیں کہتے رہے، شہرکی شعری محفلوں اور مشاعروں میں اپنی ایک ممتاز جگہ بناتے رہے انھوں نے اس دوران کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹر کیا اور پھر مقامی اخبارات، رسائل میں ان کے کلام کی بھرمار ہوتی چلی گئی اور یہ صف اول کے شاعروں میں آگئے تھے ۔

1986 میں ان کا ایک شعری مجموعہ ''خواب سفر'' شایع ہوا، پھر یکے بعد دیگرے شعری مجموعے بے صدا بستیاں، ماورا منظر عام پر آئے اور بڑی پذیرائی ملی اور پھر ڈاکٹر جاوید منظر ایک شاعر، ایک محقق اور ایک اچھے نظامت کار کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کی تصانیف کا اندراج لائبریری آف کانگریس واشنگٹن میں بھی موجود ہے۔

ان کا نعتوں کا ایک مجموعہ ''میرے دل پہ کعبے کا در کھلا '' بھی بہت مشہور ہوا پھر ان کی خوبصورت نظموں کا مجموعہ ''شاخ بریدہ'' کے عنوان سے بھی ادبی حلقوں میں بڑا پسند کیا گیا۔ 2015 میں جہان لطیف کے نام سے بھی ان کی ایک کتاب کو بڑی شہرت ملی، ان کی شہرت کا آغاز پھر انھیں بیرون ممالک بھی لے گیا، یورپ، امریکا کے مشاعروں میں بھی شرکت کی اور ہر مشاعرے میں اپنے آپ کو منوایا اور خوب داد وصول کی۔

ہندوستان میں اردو کے نامور رائٹر اور برصغیر میں ترقی پسند تحریک کے روح رواں علی سردار جعفری مرحوم کی یاد میں ایک بین الاقوامی مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستان سے ڈاکٹر جاوید منظر کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ہندوستان میں بھی ان کی شاعری کے بڑے عرصے تک چرچے رہے۔ ان کی شاعری میں بڑی گہرائی کے ساتھ خدمت انسانی کا عنصر بھی موجود ہے اور محبت کے جذبات کی مٹھاس بھی بدرجہ اتم موجود ہے انھوں نے مشاہدات، واقعات اور حالات زمانہ کا بڑی شدت سے احساس کیا ہے اور وہ سب کچھ اپنی شاعری میں سمو دیا ہے، بقول ساحر لدھیانوی:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جوکچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

ویسے تو ان کی بہت سی نظموں نے ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی مگر ایک نظم '' ماں '' کے عنوان سے ہے جو سب نظموں پر سبقت لے گئی ہے۔

جتنے اچھے یہ غزل کے شاعر ہیں اتنے ہی بہترین نظموں کو اشعار میں ڈھالتے ہیں ، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ میرے دیرینہ دوست بھی ہیں اور میرے فلمی گیتوں کے دیوانے بھی، دیکھتے ہیں اب دو دیوانے کب دوبارہ ملتے ہیں۔
Load Next Story