میثاق معیشت
پاکستان کی تاریخ کا یہ سال معاشی اعتبار سے انتہائی بدترین نکلا
اسی ہفتے آصف علی زرداری نے ایک بیان دیا کہ وہ اگر اقتدار میں آئے تو ملک کی بیرونی کرنسی کے ذخائر سو ارب ڈالر تک لائیں گے۔ ان کے وعدے خان صاحب کے وعدوں کی طرح تو نہیں ہیں، مگر اتنا آسان بھی نہیں ہے، انھوں نے میثاق معیشت کی بات بھی کی۔
ماضی میں میاں نواز شریف اور بے نظیر آپس میں لڑتے لڑتے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں آپس میں لڑنا نہیں چاہیے، اس حد تک کہ جہاں جمہوریت کی بنیادیں ہلنے کا خطرہ ہو۔ ہم نے دیکھا کہ جب 2014 میں خان صاحب پارلیمنٹ پر یلغار کر کے بیٹھ گئے، اس وقت آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوئے، یہ اور بات ہے کہ جب زرداری صاحب حکومت میں تھے تو میاں صاحب ''ان ''کے بہکاوے میں آکر میمو گیٹ اسکینڈل لے کر 2011 میں سپریم کورٹ میں کالا کوٹ پہن کر پہنچ گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ زرداری صاحب نے میاں صاحب کی حکومت کو گرانے کے لیے بلوچستان اسمبلی توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں خان صاحب کا ساتھ دیا۔ ان تمام چھوٹے یا بڑے تنازعات کے باوجود چارٹر آف ڈیموکریسی برقرار رہااور اب پیش خدمت ہے میثاق معیشت۔ یہ معاہدہ اس وقت اہم ضرورت ہو چکا ہے۔
لیکن اس معاہدے میں کون کون بیٹھے گا؟ آیا کہ اس میں صرف سیاسی پارٹیاں شریک ہوں گی یا وہ لوگ بھی ہوں گے جو اس ملک کے بڑے بڑے کاروباری ہیں جن کی معیشت دستاویزی نہیں، اور اسٹاک بروکر بھی ہیں جو بڑی بڑی ڈیلیں کراتے ہیں۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، جو اہل اقتدار، آمریتوں اور جمہوری ادوار میں خوب پیسہ کماتی ہیں، خان صاحب کا زمانہ ان کے لیے ایک سنہری دور تھا۔ سرکاری بینک جو آج پرائیویٹ ہو چکا ہیں، حیرت یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے مگر بینک اربوں روپے بنا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ شوگر انڈسٹری کے مالکان، پھر ہمارے وہ تاجر جو افغانستان آٹا ، گندم ، ڈالر اسمگل کرتے ہیں اور وہاں سے اسلحہ،موٹر کاریں، جیپیں اور دیگر سامان پاکستان میں بغیر کسی راہداری ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی پاکستان میں لاتے ہیں، یہ لوگ آج کل پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ دور، دور تک خان صاحب اور ان کے ہنڈلرزکے واپس آقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اب یہ لوگ لازمی طور پر اپنے نئے تعلقات بنائیں گے تو کیا پھر اسی طرح سے ہی ایس آر اوز جاری کیے جائیں گے اور ٹیکسز کے ریٹ تبدیل کیے جائیں گے، ٹیکسوں میںچھوٹ دی جائے گی۔
لائسنز کا اجرا ء میرٹ پر نہیں کسی اور بنیاد پر کیا جائے گا؟ افغانستان کی سرحد کھلی رہے گی تاکہ غیرقانونی کاروبار چلتا رہے اور قومی خزانے کو اربوں کھربوں کا نقصان پہنچتا رہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں نے بھی بڑے مسائل پیدا کیے، ہماری معاشیات کے زوال میں، جس میں ایک ریکوڈک کا یہاں حوالہ دے رہا ہوں۔ ایسے درجنوں فیصلے ہیں جنھوں نے ہماری معیشت کے ڈھانچے کو بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہماری بدحال معیشت دراصل ہمارے سیاسی بحران کی عکاس ہے، جیسے ہی سیاسی بحران بڑھا، معیشت بھی بگڑتی گئی۔ اس وقت یقینا ایک بات بڑی مثبت ثابت ہو رہی ہے کہ خاں صاحب جو ایک پروجیکٹ کے طور پر اس قوم پر مسلط کیے گئے تھے ، جس کی وجہ سے یہ سیاسی بحران پیدا ہوا، ایک مخصوص سوچ اور مخصوص مفاد نے ایک ہو کر اپنے عزائم کو آگے بڑھایا، وہ اب بہت حد تک تھم چکا ہے ، اب ہم تعمیر نو کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
مختصرا یہ کہ ان سب کو کیسے چارٹر آف معیشت کے پیج پر لایا جائے؟ اور کون سے بنیادی مقاصد ہیں، جن پر ان سب کو آن بورڈ ہونا پڑے گا؟ ہماری عسکری قوتوں تعداد کے بجائے ٹیکنالوجی بیسڈ اسمارٹ، برق رفتار اور کاری ضرب لگانے والی آرمی بنانا ہوگا، اگرغور کیا جائے تو ہماری اشرافیہ جو ہمارے سیاسی ڈھانچے پر براجمان ہے، جس طرح سے پارلیمنٹ کو کمزور کیا گیا، ایک مخصوص ٹولے نے آمریتی طرز کے اس سسٹم میں ایک اور مخصوص بیانیے کو جنم دیا اور یہ بیانیہ معیشت کی جڑوں میں چلا گیا۔
ایسا بیانیہ نہ بنگلہ دیش میں پایا جاتا ہے نہ ہندوستان میں، ہمارا یہ بیانیہ آمریت کے ساتھ جڑے مخصوص سیاسی اشرافیہ کے مفادات کی تقلید کرتا ہے۔ میثاق معیشت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اب احتساب سب کا ہوگا، وہ سیاستدان ہو، بیوروکریٹس ہوں، اربوں کھربوں کے مالک بزنس گروپس ہوں،ججز ہوں یا جرنیل ہوں۔
میثاق معیشت صرف یہ نہیں کہ کس طرح سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں، کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ کم ہو۔ مارکیٹ فورسز میں Efficiency لائی جائے تاکہ رسد متاثر نہ ہو، ذخیرہ اندوز اس سے فائدہ نہ لے سکیں جس کے نتیجے میں افراط زر پر منفی اثر پڑے، لوگوں کی آمدنی متاثر ہوں۔
میثاق معیشت میں انسانی وسائل کو بہتر کرنا بھی شامل ہے، جس کو ایچ ڈی آئی کہا جاتا ہے، جو مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) یا شرح نموکی طرح معیشت پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے۔ ایچ ڈی آئی کے بانیوں میں ہمارے ڈاکٹر محبوب الحق کے علاوہ ڈاکٹر امریتا سین بھی ہیں، ان دونوں بڑے دماغوں کا تعلق ہمارے جنوبی ایشیا سے ہے۔ ڈاکٹر پاشا کی صورت میں اور ایسے بہت سے معیشت دان ہیں، ڈاکٹر قیصر بنگالی جن سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
ہمارے پاس اس وقت صرف میثاق معیشت کی سمت باقی بچی ہے، جس سمت سے ہم اس ملک کو آگے نکال سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے ایک دم سے غیر دستاویزی معیشت کو بہت تیزی سے دستاویزی کرنے کی کوشش کی تو بھی منفی اثر پڑے گا، لیکن مجموعی طور پے پالیسی واضع کی جائے ،اہداف حاصل کرنے کے لیے short term goal کیlong term goal سے مماثلت ہو ان کے بیچ۔ ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے۔
اگرہم غور کریں توتاریخی اعتبار سے جس طرح کے ہم بجٹ بناتے رہے ہیں، اس میں سب سے زیادہ متاثر جو عمل رہا ہے وہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے ہوئی رقم، اس میں بھی ہم کٹوتی کردیتے ہیں اس لیے میثاق معیشت کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ ہم بجٹ کے پیچھے موجود پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ سال معاشی اعتبار سے انتہائی بدترین نکلا۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی اور قانونی تاریخ کا بھی یہ سال بدترین تھا پچھلے سال پاکستان میں بدترین سیلاب آئے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، بالخصوص ساؤتھ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں۔ اس بربادی کی ذ مہ داری پوری کی پوری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
ایک تو خان صاحب نے ان کے لیے بدترین مالی بحران چھوڑا، دوسرا پورا سال خان صاحب نے سیاسی عدم استحکام پھیلائے رکھا، اسی طرح عدالتوں میں بھی یہی افراتفری اور غیر یقینی صورتحال رہی۔ اس کے بعد کہیں جاکر موجودہ حکومت ذمے داری ٹھہرتی ہے۔
ماضی میں میاں نواز شریف اور بے نظیر آپس میں لڑتے لڑتے اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں آپس میں لڑنا نہیں چاہیے، اس حد تک کہ جہاں جمہوریت کی بنیادیں ہلنے کا خطرہ ہو۔ ہم نے دیکھا کہ جب 2014 میں خان صاحب پارلیمنٹ پر یلغار کر کے بیٹھ گئے، اس وقت آصف علی زرداری پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوئے، یہ اور بات ہے کہ جب زرداری صاحب حکومت میں تھے تو میاں صاحب ''ان ''کے بہکاوے میں آکر میمو گیٹ اسکینڈل لے کر 2011 میں سپریم کورٹ میں کالا کوٹ پہن کر پہنچ گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ زرداری صاحب نے میاں صاحب کی حکومت کو گرانے کے لیے بلوچستان اسمبلی توڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات میں خان صاحب کا ساتھ دیا۔ ان تمام چھوٹے یا بڑے تنازعات کے باوجود چارٹر آف ڈیموکریسی برقرار رہااور اب پیش خدمت ہے میثاق معیشت۔ یہ معاہدہ اس وقت اہم ضرورت ہو چکا ہے۔
لیکن اس معاہدے میں کون کون بیٹھے گا؟ آیا کہ اس میں صرف سیاسی پارٹیاں شریک ہوں گی یا وہ لوگ بھی ہوں گے جو اس ملک کے بڑے بڑے کاروباری ہیں جن کی معیشت دستاویزی نہیں، اور اسٹاک بروکر بھی ہیں جو بڑی بڑی ڈیلیں کراتے ہیں۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، جو اہل اقتدار، آمریتوں اور جمہوری ادوار میں خوب پیسہ کماتی ہیں، خان صاحب کا زمانہ ان کے لیے ایک سنہری دور تھا۔ سرکاری بینک جو آج پرائیویٹ ہو چکا ہیں، حیرت یہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے مگر بینک اربوں روپے بنا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ شوگر انڈسٹری کے مالکان، پھر ہمارے وہ تاجر جو افغانستان آٹا ، گندم ، ڈالر اسمگل کرتے ہیں اور وہاں سے اسلحہ،موٹر کاریں، جیپیں اور دیگر سامان پاکستان میں بغیر کسی راہداری ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی پاکستان میں لاتے ہیں، یہ لوگ آج کل پریشانی کا شکار ہیں، کیونکہ دور، دور تک خان صاحب اور ان کے ہنڈلرزکے واپس آقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں۔ اب یہ لوگ لازمی طور پر اپنے نئے تعلقات بنائیں گے تو کیا پھر اسی طرح سے ہی ایس آر اوز جاری کیے جائیں گے اور ٹیکسز کے ریٹ تبدیل کیے جائیں گے، ٹیکسوں میںچھوٹ دی جائے گی۔
لائسنز کا اجرا ء میرٹ پر نہیں کسی اور بنیاد پر کیا جائے گا؟ افغانستان کی سرحد کھلی رہے گی تاکہ غیرقانونی کاروبار چلتا رہے اور قومی خزانے کو اربوں کھربوں کا نقصان پہنچتا رہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں نے بھی بڑے مسائل پیدا کیے، ہماری معاشیات کے زوال میں، جس میں ایک ریکوڈک کا یہاں حوالہ دے رہا ہوں۔ ایسے درجنوں فیصلے ہیں جنھوں نے ہماری معیشت کے ڈھانچے کو بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہماری بدحال معیشت دراصل ہمارے سیاسی بحران کی عکاس ہے، جیسے ہی سیاسی بحران بڑھا، معیشت بھی بگڑتی گئی۔ اس وقت یقینا ایک بات بڑی مثبت ثابت ہو رہی ہے کہ خاں صاحب جو ایک پروجیکٹ کے طور پر اس قوم پر مسلط کیے گئے تھے ، جس کی وجہ سے یہ سیاسی بحران پیدا ہوا، ایک مخصوص سوچ اور مخصوص مفاد نے ایک ہو کر اپنے عزائم کو آگے بڑھایا، وہ اب بہت حد تک تھم چکا ہے ، اب ہم تعمیر نو کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
مختصرا یہ کہ ان سب کو کیسے چارٹر آف معیشت کے پیج پر لایا جائے؟ اور کون سے بنیادی مقاصد ہیں، جن پر ان سب کو آن بورڈ ہونا پڑے گا؟ ہماری عسکری قوتوں تعداد کے بجائے ٹیکنالوجی بیسڈ اسمارٹ، برق رفتار اور کاری ضرب لگانے والی آرمی بنانا ہوگا، اگرغور کیا جائے تو ہماری اشرافیہ جو ہمارے سیاسی ڈھانچے پر براجمان ہے، جس طرح سے پارلیمنٹ کو کمزور کیا گیا، ایک مخصوص ٹولے نے آمریتی طرز کے اس سسٹم میں ایک اور مخصوص بیانیے کو جنم دیا اور یہ بیانیہ معیشت کی جڑوں میں چلا گیا۔
ایسا بیانیہ نہ بنگلہ دیش میں پایا جاتا ہے نہ ہندوستان میں، ہمارا یہ بیانیہ آمریت کے ساتھ جڑے مخصوص سیاسی اشرافیہ کے مفادات کی تقلید کرتا ہے۔ میثاق معیشت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اب احتساب سب کا ہوگا، وہ سیاستدان ہو، بیوروکریٹس ہوں، اربوں کھربوں کے مالک بزنس گروپس ہوں،ججز ہوں یا جرنیل ہوں۔
میثاق معیشت صرف یہ نہیں کہ کس طرح سے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں، کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ کم ہو۔ مارکیٹ فورسز میں Efficiency لائی جائے تاکہ رسد متاثر نہ ہو، ذخیرہ اندوز اس سے فائدہ نہ لے سکیں جس کے نتیجے میں افراط زر پر منفی اثر پڑے، لوگوں کی آمدنی متاثر ہوں۔
میثاق معیشت میں انسانی وسائل کو بہتر کرنا بھی شامل ہے، جس کو ایچ ڈی آئی کہا جاتا ہے، جو مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) یا شرح نموکی طرح معیشت پرکھنے کا ایک پیمانہ ہے۔ ایچ ڈی آئی کے بانیوں میں ہمارے ڈاکٹر محبوب الحق کے علاوہ ڈاکٹر امریتا سین بھی ہیں، ان دونوں بڑے دماغوں کا تعلق ہمارے جنوبی ایشیا سے ہے۔ ڈاکٹر پاشا کی صورت میں اور ایسے بہت سے معیشت دان ہیں، ڈاکٹر قیصر بنگالی جن سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔
ہمارے پاس اس وقت صرف میثاق معیشت کی سمت باقی بچی ہے، جس سمت سے ہم اس ملک کو آگے نکال سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے ایک دم سے غیر دستاویزی معیشت کو بہت تیزی سے دستاویزی کرنے کی کوشش کی تو بھی منفی اثر پڑے گا، لیکن مجموعی طور پے پالیسی واضع کی جائے ،اہداف حاصل کرنے کے لیے short term goal کیlong term goal سے مماثلت ہو ان کے بیچ۔ ٹکرائو نہیں ہونا چاہیے۔
اگرہم غور کریں توتاریخی اعتبار سے جس طرح کے ہم بجٹ بناتے رہے ہیں، اس میں سب سے زیادہ متاثر جو عمل رہا ہے وہ ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے ہوئی رقم، اس میں بھی ہم کٹوتی کردیتے ہیں اس لیے میثاق معیشت کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ ہم بجٹ کے پیچھے موجود پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ سال معاشی اعتبار سے انتہائی بدترین نکلا۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی سیاسی اور آئینی اور قانونی تاریخ کا بھی یہ سال بدترین تھا پچھلے سال پاکستان میں بدترین سیلاب آئے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، بالخصوص ساؤتھ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں۔ اس بربادی کی ذ مہ داری پوری کی پوری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
ایک تو خان صاحب نے ان کے لیے بدترین مالی بحران چھوڑا، دوسرا پورا سال خان صاحب نے سیاسی عدم استحکام پھیلائے رکھا، اسی طرح عدالتوں میں بھی یہی افراتفری اور غیر یقینی صورتحال رہی۔ اس کے بعد کہیں جاکر موجودہ حکومت ذمے داری ٹھہرتی ہے۔