دوسروں کا بھی خیال کریں
حکومت نے نئے بجٹ میں اپنے ملازموں کا ہی خیال کیا ہے عوام کا کوئی خیال کیا ہے
نئے وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 35 فی صد اور پنشن میں 17.5فی صد اضافہ کیا گیا ہے اور مزدوروں کی تنخواہ بھی کم ازکم32 ہزار روپے کرنے کا کہا گیا ہے جو ایک معقول فیصلہ ہے مگر نجی اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں ملازمین کو نئے بجٹ میں اپنا کوئی مفاد نظر نہیں آیا اور نہ نیا بجٹ ان کے لیے حوصلہ افزا ہے کیونکہ ملک میں مہنگائی ریکارڈ قائم کرچکی ہے اور ملک کے عوام کی اکثریت اب بھی حکومت کی طرف سے ملنے والے ریلیف کی منتظر ہے۔
ملک میں مہنگائی کی اصل وجہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی قیمتیں ہیں جن میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا کوئی بھی فائدہ عوام کو نہیں ملتا اور حکومت بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرکے عوام کو ریلیف دے سکتی ہے مگر ریلیف کئی سالوں سے عوام کو نہیں دیا جا رہا بلکہ بجلی و گیس کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں اور کبھی کبھی بجلی کی قیمت معمولی کم تو کی جاتی ہے مگر زیادہ تر اس میں ہر ماہ اضافہ ہی ہوتا آ رہا ہے جب کہ سوئی گیس کی قیمت میں تو معمولی کمی بھی نہیں کی جاتی اور حال ہی میں گرمیوں کے باوجود گیس کی قیمت بڑھائی گئی ہے جب کہ گھروں کو گرمیوں میں بھی مکمل گیس نہیں مل رہی اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود بلوں میں کمی نہیں ہو رہی بلکہ اضافہ ہی ہوتا آ رہا ہے جس پر عوام حیران ہیں بجلی و گیس کم ملنے کے باوجود بل کم کیوں نہیں آتے۔
یوں تو ہر سال ہی بجٹ میں قومی و صوبائی حکومتیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی آئی ہیں جو انھیں ملتا بھی ہے مگر نجی ملازمین کے لیے فائدے کا اعلان تو کیا جاتا ہے مگر سرکاری ملازمین کی طرح ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ حکومت اپنے ریگولر ملازمین کی تنخواہیں تو ہر سال بڑھاتی ہے مگر نجی ملازمین کی تنخواہیں سرکاری اعلان کے مطابق نہیں بڑھائی جاتی ہے اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشن معمولی بڑھتی ہے۔ ای او بی آئی کے تحت ریٹائرڈ ملازمین کو اس مہنگائی میں صرف ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے، گزشتہ روز پیش کیے جانے والے بجٹ میں اس رقم کو صرف دس ہزار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
نجی ملازمین پہلے ہر ماہ 780 روپے اپنی طرف سے جمع کراتے تھے جو اس سال جنوری سے پندرہ سو روپے ماہانہ کردیے گئے مگر انھیں ماہانہ ملنے والی رقم میں اضافہ نہیں کیا جاتا جب کہ وہ 15 سال رقم دینے کے بعد اس معمولی رقم کے حق دار بنتے ہیں یا ساٹھ سال کی عمر کے بعد انھیں ای او بی آئی ان ہی کی رقم سے ماہانہ اب دس ہزار کا حق دار سمجھے گا ۔
گزشتہ دنوں ملک بھر میں ریڈیو پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین نے مظاہرے کیے جن میں ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط ہے کہ انھیں دو ماہ کی پنشن ادا کردی گئی ہے جب کہ انھیں کوئی ادائیگی نہیں کی گئی اور ای سی سی کے اجلاس میں پنشن کی ادائیگی کے لیے رقم مخصوص ہی نہیں کی گئی تو انھیں پنشن کیسے ملے گی۔ ملک بھر میں پنشنرز اضافے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر شنوائی نہیں ہو رہی۔
ملک میں نجی اداروں کے ملازمین ہر ماہ جو رقم ادا کرتے ہیں اس کا زیادہ فائدہ متعلقہ سرکاری اداروں کو ہی ہو رہا ہے اور انھوں نے جو رقم ادا کی ہے اس کا انھیں فائدہ نہیں دیا جا رہا۔ ملک میں مہنگائی عوام اور سرکاری ملازمین کے لیے ہی نہیں بڑھی بلکہ ریٹائرڈ ملازمین زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ ان میں عمر بڑھنے سے مزید بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ سرکاری ملازمین کو تو طبی سہولتیں مل جاتی ہیں مگر عام لوگ اور ریٹائرڈ نجی ملازمین کو یہ سہولت میسر نہیں۔
مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی حکومتوں کی آئینی ذمے داری ہے جو ادا کرنے میں ہر صوبائی حکومت مکمل ناکام ثابت ہوئی ہے اور گرانفروشوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ گراں فروشوں کے خلاف صرف رمضان المبارک میں دکھاوے کی کچھ کارروائی ہوتی ہے باقی 11 ماہ صوبائی حکومتیں کچھ نہیں کرتیں اور مہنگائی مسلسل بڑھائی جاتی رہتی ہے جس سے عوام سخت پریشان ہیں۔
کراچی انتظامیہ مہنگائی بڑھانے پر یقین رکھتی ہے کراچی میں ملک میں سب سے زیادہ مہنگا دودھ فروخت ہو رہا ہے جس کی قیمتوں پر حکومتی کنٹرول ہے نہ کوئی ادارہ دودھ کا معیار چیک کرتا ہے۔ سرکاری مقررہ نرخ محض دکھاوا ہوتا ہے جن پر کوئی عمل نہیں ہوتا۔ پنجاب میں تو نرخ آویزاں ہوتے ہیں مگر سندھ میں ایسا بھی نہیں ہو رہا۔
حکومت نے نئے بجٹ میں اپنے ملازموں کا ہی خیال کیا ہے عوام کا کوئی خیال کیا ہے، نیا بجٹ انتخابی بجٹ بھی نہیں ہے کہ عوام کا خیال رکھا جاتا۔ حکومت نے 14 مہینوں میں عوام کا کچھ خیال کیا نہ حالیہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیا ہے۔ حکومت کو نجی ملازمین اور عوام کا بھی خیال کرنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا جس سے لوگ مایوس ہیں۔ بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرنے اور گراں فروشوں کے خلاف عبرتناک کارروائی سے ہی عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ معاشی بدحالی کی سزا صرف عوام کو مل رہی ہے مگر ریلیف بالکل نہیں مل رہا جن پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔