پولیس افسروں کی طرف سے ڈاکوؤں کی سہولت کاری کا انکشاف
سندھ پنجاب بارڈر پر کچے کے ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن جاری
پنجاب اور سندھ کے بارڈرز پر کچے کے علاقہ میں ڈاکوؤں کے خلاف دوصوبوں کی پولیس کا مشترکہ کریک ڈاؤن گزشتہ 2 ماہ سے جاری ہے، سندھ کے 4 اضلاع (گھوٹکی، کشمور، شکارپور، سکھر) میں ڈاکوؤں کا منظم اور مضبوط نیٹ ورک موجود ہے جہاں سندھ پولیس کا آپریشن جاری ہے۔
سندھ کے ان 4 اضلاع میں ڈاکوؤں کے تقریباً 19 گروپس موجود ہیں جن میں 11 انتہائی مضبوط ہیں، جو اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری اور پولیس اہلکاروں کی شہادت میں ملوث ہیں ، پولیس نے ڈاکوؤں کو محدود کرنے کے لئے پولیس چوکیاں قائم کرنا شروع کر دی ہیں۔
انسپکٹر جنرل سندھ پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے ڈاکوؤں کو سی پیک اور انڈس ہائی وے سے دور رکھنے کے لئے کچے اور ہائی ویز کے درمیان پولیس چوکیاں قائم کر کے پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔
گھوٹکی میں بچاؤ بند (ماچکا) اور سدھوجا کے قریب گھوٹکی پولیس نے 3 بڑی پولیس پوسٹیں اور 60 چھوٹی پولیس کی چوکیاں قائم کی ہیں، گھوٹکی پولیس کو تقریباً 140 پولیس چوکیاں قائم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ ڈاکوؤں کو ایک مخصوص علاقے تک محدود کیا جاسکے۔
گھوٹکی میں پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 37 ڈاکوؤں کو ہلاک کیا ہے جبکہ 11 ڈاکوؤں کو زخمی حالت میں گرفتار کیا ہے، پولیس نے حالیہ کریک ڈاؤن میں ڈاکوؤں کے 85 سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا ہے، جو ڈاکوؤں و اغوا کاروں کو مخبریاں کرتے تھے، پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے اہم علاقے رونتی میں آپریشن کے دوران 5400 ایکڑ زمین بھی ڈاکوؤں کے قبضے سے چھڑائی گئی ہے۔
پولیس کی جانب سے کچے کے علاقے میں قائم کی گئی بڑی چیک پوسٹوں کو بایا BAYA-1-2-3 کا نام دیا گیا ہے، ان پولیس پوسٹوں پر 100 جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے جو دوربین اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں ، گھوٹکی پولیس کی جانب سے رونتی ، بیلو میر پور اور اندل سندھرانی کے علاقے میں 60 چھوٹی پوسٹیں قائم کی گئی ہیں جن میں 480 تربیت یافتہ اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے ۔
پولیس کو کچے میں آپریشن کے دوران گھنے جنگل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ پنجاب میں بھی جاری ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے باعث ڈاکو بارڈر ایریا عبور کر کے سندھ کا رخ کر رہے ہیں جن کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔
سندھ کا دوسرا انتہائی متاثر ضلع کشمور ہے، جہاں گزشتہ دنوں ڈاکوؤں نے پولیس موبائل پر راکٹ لانچر سے حملہ کر کے دو پولیس اہلکاروں کو شہید کیا ہے۔
لاڑکانہ رینج میں کشمور کے بارڈر ایریا پر ڈاکو انتہائی مضبوط اور منظم دکھائی دیتے ہیں ، حالیہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ڈاکو گزشتہ ایک ماہ میں 30 افراد کو اغوا کرچکے ہیں، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے ، کشمور پولیس کی کوشش ہے درانی مہر اور کرم پور جیسے علاقوں میں ڈاکوؤں کو محدود کیا جاسکے۔
پولیس کا سب سے بڑا ٹاسک گھوٹکی اور کشمور کو ملانے والے پْل کی تعمیر ہے جس کا آغاز 2020 میں کیا گیا تھا ، پْل کے تعمیر شروع ہونے کے بعد ڈاکوؤں نے کچھ انجینئرز کو اغوا کیا اور کروڑوں روپے بھتے کا بھی مطالبہ کیا گیا جس کے بعد اس پْل کی تعمیر کا کام روک دیا گیا تھا لیکن اب اس پْل کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے اطراف میں پولیس کی جانب سے ایک بڑی پولیس پوسٹ بھی قائم کردی گئی ہے۔
سندھ کا تیسرا ضلع شکار پور ہے جہاں لکھی ، ناپر کوٹ اور گڑھی یسین میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا سلسلہ جاری ہے ، شکاپور پولیس کے پاس 2 بکتر بند گاڑیاں بی 6 اور ایک بکتر بند گاڑی بی 7 موجود ہے۔
ڈی آئی جی سکھرجاوید جسکانی کا کہنا ہے کہ سندھ میں کچے کا علاقہ بااثر وڈیروں کی زیر پرستی ہے، جن کی خواہش نہیں کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو ، سندھ حکومت لینڈ ریفارم کرے اور اس زرخیز زمین کو برادریوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے تو شاید امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہو۔
ماضی میں پولیس ڈاکوؤں کی بھینیسں چرا کر مغوی چھڑاتی تھی یا گندم پر قبضہ کر کے مغویوں کو رہا کراتی تھی مگر اس موسم میں یہ کام نہیں ہو رہا بلکہ اب سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کا کہنا ہے کہ گھوٹکی میں نامی گرامی ڈاکو سلطو شر کی ہلاکت کے بعد ڈاکوؤں کے نئے گروپس بنائے گئے ہیں، یہ گروپس پنجاب کے ڈاکوؤں سے بھی رابطوں میں ہیں ، گھوٹکی پولیس بکتر بند گاڑیوں اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ ان کے علاقوں میں داخل ہوتی ہے تو یہ پنجاب کا رخ کرتے ہیں مگر اب صورتحال مختلف ہے کیوں کہ دونوں صوبوں میں ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔
ایس ایس پی عرفان سموں کا کہنا ہے کہ کشمور اب تک انتہائی متاثر ہے جہاں اب تک 30 سے زائد افراد کو اغوا کیا جا چکا ہے اور پولیس کی شہادتیں بھی معمول بن چکی ہیں۔
ڈاکو پولیس کی چیک پوسٹوں پر راکٹ لانچر سے حملہ کرتے ہیں، ایس ایس پی عرفان سموں نے انکشاف کیا کہ کشمور میں تعینات کچھ پولیس افسران و اہلکار ان ڈاکوؤں کے گروپس کی سہولت کاری کرتے ہیں۔
ماضی میں نامی گرامی ڈاکوؤں نے تھانیدار تعینات کیے ہوئے تھے جو اغوا برائے تاوان ، ڈکیتی اور بھتہ خوری میں ڈاکوؤں کی بھرپور مدد کرتے تھے جس کی وجہ سے اس ضلع میں امن و امان کی صورتحال مزید بگڑی ہے اب پولیس کی کالی بھیڑوں کو نوکری سے برطرف کیا جارہا ہے۔
ایس ایس پی شکارپور امجد شیخ کا کہنا ہے کہ یہ ضلع انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس میں کچے کے کچھ علاقے لاڑکانہ کے بارڈر ایریا اور کچھ سکھر کے بارڈر ایریا سے ملتے ہیں۔
شکارپور میں گڑھی یسین کا علاقہ لاڑکانہ سے ملتا ہے جہاں ڈاکوؤں کا تعیغانی اور کلوڑا قبیلہ موجود ہے جبکہ ناپر کوٹ میں جتوئی اور لکھی میں سیداٹی گروپ مضبوط اور منظم سمجھا جاتا ہے۔
ایس ایس پی شکارپور کا کہنا ہے کہ فی الحال شکارپور میں اغوا برائے تاوان یا بھتہ خوری کی وارداتیں رپورٹ نہیں ہورہی ہیں جس کی وجہ ڈاکوؤں کو کچھ علاقوں میں محدود کرنا ہے۔
سنگھار ملک ایس ایس پی سکھر تعینات ہیں ، سنگھار ملک کا کہنا ہے کہ سکھر گھوٹکی اور شکارپور کا بارڈر ایریا ہے لیکن اس ضلع کی سڑکیں کچھ بہتر ہیں جس کی وجہ سے کچے کے راستوں میں ڈاکوؤں اتنا منظم اور مضبوط نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔
سندھ کے ان 4 اضلاع میں ڈاکوؤں کے تقریباً 19 گروپس موجود ہیں جن میں 11 انتہائی مضبوط ہیں، جو اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری اور پولیس اہلکاروں کی شہادت میں ملوث ہیں ، پولیس نے ڈاکوؤں کو محدود کرنے کے لئے پولیس چوکیاں قائم کرنا شروع کر دی ہیں۔
انسپکٹر جنرل سندھ پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے ڈاکوؤں کو سی پیک اور انڈس ہائی وے سے دور رکھنے کے لئے کچے اور ہائی ویز کے درمیان پولیس چوکیاں قائم کر کے پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔
گھوٹکی میں بچاؤ بند (ماچکا) اور سدھوجا کے قریب گھوٹکی پولیس نے 3 بڑی پولیس پوسٹیں اور 60 چھوٹی پولیس کی چوکیاں قائم کی ہیں، گھوٹکی پولیس کو تقریباً 140 پولیس چوکیاں قائم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے تاکہ ڈاکوؤں کو ایک مخصوص علاقے تک محدود کیا جاسکے۔
گھوٹکی میں پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن میں 37 ڈاکوؤں کو ہلاک کیا ہے جبکہ 11 ڈاکوؤں کو زخمی حالت میں گرفتار کیا ہے، پولیس نے حالیہ کریک ڈاؤن میں ڈاکوؤں کے 85 سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا ہے، جو ڈاکوؤں و اغوا کاروں کو مخبریاں کرتے تھے، پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے اہم علاقے رونتی میں آپریشن کے دوران 5400 ایکڑ زمین بھی ڈاکوؤں کے قبضے سے چھڑائی گئی ہے۔
پولیس کی جانب سے کچے کے علاقے میں قائم کی گئی بڑی چیک پوسٹوں کو بایا BAYA-1-2-3 کا نام دیا گیا ہے، ان پولیس پوسٹوں پر 100 جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے جو دوربین اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں ، گھوٹکی پولیس کی جانب سے رونتی ، بیلو میر پور اور اندل سندھرانی کے علاقے میں 60 چھوٹی پوسٹیں قائم کی گئی ہیں جن میں 480 تربیت یافتہ اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے ۔
پولیس کو کچے میں آپریشن کے دوران گھنے جنگل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ پنجاب میں بھی جاری ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے باعث ڈاکو بارڈر ایریا عبور کر کے سندھ کا رخ کر رہے ہیں جن کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔
سندھ کا دوسرا انتہائی متاثر ضلع کشمور ہے، جہاں گزشتہ دنوں ڈاکوؤں نے پولیس موبائل پر راکٹ لانچر سے حملہ کر کے دو پولیس اہلکاروں کو شہید کیا ہے۔
لاڑکانہ رینج میں کشمور کے بارڈر ایریا پر ڈاکو انتہائی مضبوط اور منظم دکھائی دیتے ہیں ، حالیہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ڈاکو گزشتہ ایک ماہ میں 30 افراد کو اغوا کرچکے ہیں، جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے ، کشمور پولیس کی کوشش ہے درانی مہر اور کرم پور جیسے علاقوں میں ڈاکوؤں کو محدود کیا جاسکے۔
پولیس کا سب سے بڑا ٹاسک گھوٹکی اور کشمور کو ملانے والے پْل کی تعمیر ہے جس کا آغاز 2020 میں کیا گیا تھا ، پْل کے تعمیر شروع ہونے کے بعد ڈاکوؤں نے کچھ انجینئرز کو اغوا کیا اور کروڑوں روپے بھتے کا بھی مطالبہ کیا گیا جس کے بعد اس پْل کی تعمیر کا کام روک دیا گیا تھا لیکن اب اس پْل کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے اطراف میں پولیس کی جانب سے ایک بڑی پولیس پوسٹ بھی قائم کردی گئی ہے۔
سندھ کا تیسرا ضلع شکار پور ہے جہاں لکھی ، ناپر کوٹ اور گڑھی یسین میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا سلسلہ جاری ہے ، شکاپور پولیس کے پاس 2 بکتر بند گاڑیاں بی 6 اور ایک بکتر بند گاڑی بی 7 موجود ہے۔
ڈی آئی جی سکھرجاوید جسکانی کا کہنا ہے کہ سندھ میں کچے کا علاقہ بااثر وڈیروں کی زیر پرستی ہے، جن کی خواہش نہیں کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہو ، سندھ حکومت لینڈ ریفارم کرے اور اس زرخیز زمین کو برادریوں میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے تو شاید امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہو۔
ماضی میں پولیس ڈاکوؤں کی بھینیسں چرا کر مغوی چھڑاتی تھی یا گندم پر قبضہ کر کے مغویوں کو رہا کراتی تھی مگر اس موسم میں یہ کام نہیں ہو رہا بلکہ اب سنجیدگی سے اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ایس ایس پی گھوٹکی تنویر تنیو کا کہنا ہے کہ گھوٹکی میں نامی گرامی ڈاکو سلطو شر کی ہلاکت کے بعد ڈاکوؤں کے نئے گروپس بنائے گئے ہیں، یہ گروپس پنجاب کے ڈاکوؤں سے بھی رابطوں میں ہیں ، گھوٹکی پولیس بکتر بند گاڑیوں اور جدید ہتھیاروں کے ساتھ ان کے علاقوں میں داخل ہوتی ہے تو یہ پنجاب کا رخ کرتے ہیں مگر اب صورتحال مختلف ہے کیوں کہ دونوں صوبوں میں ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔
ایس ایس پی عرفان سموں کا کہنا ہے کہ کشمور اب تک انتہائی متاثر ہے جہاں اب تک 30 سے زائد افراد کو اغوا کیا جا چکا ہے اور پولیس کی شہادتیں بھی معمول بن چکی ہیں۔
ڈاکو پولیس کی چیک پوسٹوں پر راکٹ لانچر سے حملہ کرتے ہیں، ایس ایس پی عرفان سموں نے انکشاف کیا کہ کشمور میں تعینات کچھ پولیس افسران و اہلکار ان ڈاکوؤں کے گروپس کی سہولت کاری کرتے ہیں۔
ماضی میں نامی گرامی ڈاکوؤں نے تھانیدار تعینات کیے ہوئے تھے جو اغوا برائے تاوان ، ڈکیتی اور بھتہ خوری میں ڈاکوؤں کی بھرپور مدد کرتے تھے جس کی وجہ سے اس ضلع میں امن و امان کی صورتحال مزید بگڑی ہے اب پولیس کی کالی بھیڑوں کو نوکری سے برطرف کیا جارہا ہے۔
ایس ایس پی شکارپور امجد شیخ کا کہنا ہے کہ یہ ضلع انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس میں کچے کے کچھ علاقے لاڑکانہ کے بارڈر ایریا اور کچھ سکھر کے بارڈر ایریا سے ملتے ہیں۔
شکارپور میں گڑھی یسین کا علاقہ لاڑکانہ سے ملتا ہے جہاں ڈاکوؤں کا تعیغانی اور کلوڑا قبیلہ موجود ہے جبکہ ناپر کوٹ میں جتوئی اور لکھی میں سیداٹی گروپ مضبوط اور منظم سمجھا جاتا ہے۔
ایس ایس پی شکارپور کا کہنا ہے کہ فی الحال شکارپور میں اغوا برائے تاوان یا بھتہ خوری کی وارداتیں رپورٹ نہیں ہورہی ہیں جس کی وجہ ڈاکوؤں کو کچھ علاقوں میں محدود کرنا ہے۔
سنگھار ملک ایس ایس پی سکھر تعینات ہیں ، سنگھار ملک کا کہنا ہے کہ سکھر گھوٹکی اور شکارپور کا بارڈر ایریا ہے لیکن اس ضلع کی سڑکیں کچھ بہتر ہیں جس کی وجہ سے کچے کے راستوں میں ڈاکوؤں اتنا منظم اور مضبوط نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔