بند گلی
جب کسی سیاستدان سے اس کے سیاسی ساتھی چھین لیے جائیں تو زندگی جیل ہی بن جاتی ہے
پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں ہر روز تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ آج بھی سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کا بیان ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کی مشکلات میں آنے والے دنوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
ویسے تو وہ پہلے ہی کافی مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ مزید کیا مشکلات ہوںگی والا سوال بھی اہم ہے۔ بس جیل جانا باقی ہے۔ لیکن ان کی آجکل کی زندگی بھی کسی جیل سے کم نہیں' وہ قید تنہائی میں ہی ہیں۔
جب کسی سیاستدان سے اس کے سیاسی ساتھی چھین لیے جائیں تو زندگی جیل ہی بن جاتی ہے۔جیسے آج کل پی ٹی آئی کوچھوڑ کر جا رہے ہیں' ایسے میں لیڈر بظاہر آزاد رہ کر بھی جیل میں ہی ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی آج کل بھی اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کرنے کے لیے کوشاں ہے' وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔
پارٹی قائد ایک سال تواسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر اپنی حمایت پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ لیکن دباؤ کے اس کھیل میں معاملات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ اب مشکل سے نکلنا ناممکن نظر آرہا ہے تو بات چیت کے لیے بھیک مانگ مانگی جا رہی ہے۔ پہلے دباؤ ڈالا جا رہا تھا' اب منتیںکی جا رہی ہیں۔ لیکن بات بن نہیں رہی ہے۔
پی ٹی آئی کل بھی ملک کی سیاسی قیادت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں تھی، آج بھی تیار نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔
نو مئی سے پہلے سب جماعتیں پی ٹی آئی سے بات چیت کی خواہاں تھیں لیکن سانحہ نو مئی کے بعد کوئی بھی بات کے لیے تیار نہیں۔ سیاست بے رحم کھیل ہے' اس میں کب کھیل آپ کے ہاتھ سے نکل جائے' کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا' کھیل سابق وزیراعظم کے ہاتھ سے نکل گیا۔
وہ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔پی ٹی آئی نے وہ کھیل کھیلا ہے جو سیاسی نہیں ہے' ایسے تو دہشت گرد تنظیمیں کرتی ہیں۔
اب پی ٹی آئی کے کارکن اور لیڈر ایسے شکنجے میں آ گئے ہیں 'جس سے نکلنے کے لیے انھیں ناک سے لکیریں نکالنی پڑ رہی ہیں لیکن پھر بھی بات نہیں بن رہی۔ انھوں نے جیسا کام کیا ہے 'ویسے ہی سلوک ان کے ساتھ ہو گا۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بہت تحریکیں چلی ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ملکر بھی ایسی تحاریک چلائی ہیں۔ لوگوں نے بحالی جمہوریت کے لیے خود کو بھی آگ لگائی ہے۔ لیکن کسی نے کبھی فوجی تنصیبات کو آگ نہیں لگائی۔ شہداء کی عزت و حرمت برقرار رکھی گئی ہے۔پی ٹی آئی قیادت اس منطق کو سمجھ ہی نہیں سکی۔
اس سے پہلے شہباز گل کے خلاف بھی جو مقدمہ درج ہوا تھا' وہ بھی فوج میں بغاوت کی کوشش کے حوالے سے ہی تھا۔ میں سمجھتا ہوں جو رد عمل نو مئی کو دیا گیا' وہ تب دینا چاہیے تھا' تب بہت نرمی دکھائی گئی' اسی وجہ سے نو مئی ہوا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو ایک حوصلہ ملا کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ وہ سمجھے شہباز گل کمزور نکلے۔ اس لیے نئے گھوڑے تیار کرنے چاہیے۔
حالانکہ سوال گھوڑوں کے کمزور یا مضبوط ہونے کا نہیں تھا۔ سوال تھا کہ ان کو ایک موقع دیا گیا تھا۔ جو انھوں نے ضایع کر دیا۔ وہ نرمی کو اپنی طاقت سمجھ بیٹھے۔ حالانکہ وہ پی ٹی آئی کے قائدین کبھی اتنے طاقتور نہ تھے کہ ریاست کو چیلنج کر سکتے۔
بہت لوگ سوال کرتے ہیں کہ اب پی ٹی آئی کی قیادت کو کیا کرنا چاہیے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ سولو فلائٹ کی عادت انھیں لے بیٹھے گی۔
آج بھی سولو فلائٹ ہی ان کا سب سے بڑ امسئلہ ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پی ٹی آئی والوں کو فوری طور پر اب اپنے سیاسی مخالفین کے گھر چلے جانا چاہیے۔ لیکن کم از کم سابق وزیراعظم اپنے ساتھیوں کی بات تو سنیں۔ جو ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ان کے چھوڑنے کی بھی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ تحریک انصاف میں بات کرنے کا کوئی پلیٹ فارم ہی نہیں ہے۔
سب لوگ کہاں بات کرتے۔ ساری جماعت بھیفرد واحد سے اختلاف کرے تب بھی اختلا ف کرنے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ اس لیے سب کے پاس پارٹی چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ اس لیے جب اختلاف کرنے کا راستہ بند تھا تو لوگوں کے پاس چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔
اس لیے میں ان کو زیادہ قصور وار نہیں سمجھتا۔ آج بھی پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنی جماعت میں اختلاف کا راستہ کھولنا ہوگا۔ ورنہ ان کا بند گلی کا سفر تیز ہوتا جائے گا۔ اس سفر کو روکنے کے لیے قیادت کے احتساب کی اجازت دینا ہوگی۔
اب آگے کیا ہو گا؟ کیا گرفتاری ہو گی، یہ کوئی اہم سوال ہی نہیں۔ قانون اپنا راستہ لازمی لے گا۔ان کے لیے بہتر بھی یہی ہے کہ قانون کو اپنا راستہ لینے دیا جائے۔
جب جب کسی نے قانون کا راستہ روکا ہے انھیں نقصان ہوا ہے۔ نو مئی کو بھی پی ٹی آئی کی قیادت قانون کا راستہ روک رہی تھی۔ اس سے پہلے بھی جو مشکلات بڑھی ہیں وہ قانون کا راستہ روکنے کی وجہ سے بڑھی ہیں۔ جتنے مقدمات بنے ہیں وہ سب قانون سے مزاحمت کی وجہ سے بنے ہیں۔ باقی سیاستدان پاگل نہیں ہوتے کہ وہ قانون سے مزاحمت نہیں کرتے بلکہ خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں۔
قانون کے سامنے سرنڈر کرنا سیاستدان کی پہلی نشانی ہے۔ قانون سے مزاحمت قانون شکن ہونے کی نشانی ہے۔ سیاستدان کی پہچان یہی ہے کہ وہ غیر قانونی گرفتاری بھی دے دیتا ہے۔ زمان پارک کو جس طرح نو گو ایریا بنایا گیا وہ کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں تھی۔
آج دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی ساری قیادت کو اس کا نقصان ہی ہوا ہے۔ ساری حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے۔ آج بغیر کسی بڑے آپریشن کے زمان پارک ویران ہے۔ اس لیے جو سیاستدان ایسا نہیں کرتے رہے ان کی عقل و دانش ہمارے سامنے ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت آج بھی بیرون ملک اپنے حامیوں سے جو کام لے رہی ہے۔ وہ ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ جس طرح پہلے سارے منصوبے ناکام ہو ئے ہیں' اب یہ بھی ناکام ہو جائے گا۔ پتہ نہیںکون یہ مشورہ دے رہا ہے کہ امریکی چند سنیٹرز کا خط یا چند بیانات ریاست پاکستان کو بے بس کر دیں گے۔پی ٹی آئی والوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ ریاست سے نہیں ٹکر اسکتے۔ پہلے بھی ناکامی ہو ئی ہے۔
اب بھی ناکامی ہی ہوگی۔ پتہ نہیں کون انھیں سمجھا رہا ہے کہ وہ امریکا کے چند سینیٹرز کے بیانات سر پر یہ جنگ جیت جائیں گے' کل تک پی ٹی آئی کے قائد امریکا مخالف تھے' آج امریکا کے کندھوں پر سوار ہیں۔ نہ کل ٹھیک تھا نہ آج ٹھیک تھا۔ بیرونی مدد ایک حد تک کارآمد ہوتی ہے' آپ یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ بلکہ ہار یقینی ہوجاتی ہے۔
ویسے تو وہ پہلے ہی کافی مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ مزید کیا مشکلات ہوںگی والا سوال بھی اہم ہے۔ بس جیل جانا باقی ہے۔ لیکن ان کی آجکل کی زندگی بھی کسی جیل سے کم نہیں' وہ قید تنہائی میں ہی ہیں۔
جب کسی سیاستدان سے اس کے سیاسی ساتھی چھین لیے جائیں تو زندگی جیل ہی بن جاتی ہے۔جیسے آج کل پی ٹی آئی کوچھوڑ کر جا رہے ہیں' ایسے میں لیڈر بظاہر آزاد رہ کر بھی جیل میں ہی ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی آج کل بھی اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کرنے کے لیے کوشاں ہے' وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی ہے۔
پارٹی قائد ایک سال تواسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر اپنی حمایت پر مجبور کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ لیکن دباؤ کے اس کھیل میں معاملات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ اب مشکل سے نکلنا ناممکن نظر آرہا ہے تو بات چیت کے لیے بھیک مانگ مانگی جا رہی ہے۔ پہلے دباؤ ڈالا جا رہا تھا' اب منتیںکی جا رہی ہیں۔ لیکن بات بن نہیں رہی ہے۔
پی ٹی آئی کل بھی ملک کی سیاسی قیادت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں تھی، آج بھی تیار نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔
نو مئی سے پہلے سب جماعتیں پی ٹی آئی سے بات چیت کی خواہاں تھیں لیکن سانحہ نو مئی کے بعد کوئی بھی بات کے لیے تیار نہیں۔ سیاست بے رحم کھیل ہے' اس میں کب کھیل آپ کے ہاتھ سے نکل جائے' کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا' کھیل سابق وزیراعظم کے ہاتھ سے نکل گیا۔
وہ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔پی ٹی آئی نے وہ کھیل کھیلا ہے جو سیاسی نہیں ہے' ایسے تو دہشت گرد تنظیمیں کرتی ہیں۔
اب پی ٹی آئی کے کارکن اور لیڈر ایسے شکنجے میں آ گئے ہیں 'جس سے نکلنے کے لیے انھیں ناک سے لکیریں نکالنی پڑ رہی ہیں لیکن پھر بھی بات نہیں بن رہی۔ انھوں نے جیسا کام کیا ہے 'ویسے ہی سلوک ان کے ساتھ ہو گا۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بہت تحریکیں چلی ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے ملکر بھی ایسی تحاریک چلائی ہیں۔ لوگوں نے بحالی جمہوریت کے لیے خود کو بھی آگ لگائی ہے۔ لیکن کسی نے کبھی فوجی تنصیبات کو آگ نہیں لگائی۔ شہداء کی عزت و حرمت برقرار رکھی گئی ہے۔پی ٹی آئی قیادت اس منطق کو سمجھ ہی نہیں سکی۔
اس سے پہلے شہباز گل کے خلاف بھی جو مقدمہ درج ہوا تھا' وہ بھی فوج میں بغاوت کی کوشش کے حوالے سے ہی تھا۔ میں سمجھتا ہوں جو رد عمل نو مئی کو دیا گیا' وہ تب دینا چاہیے تھا' تب بہت نرمی دکھائی گئی' اسی وجہ سے نو مئی ہوا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو ایک حوصلہ ملا کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ وہ سمجھے شہباز گل کمزور نکلے۔ اس لیے نئے گھوڑے تیار کرنے چاہیے۔
حالانکہ سوال گھوڑوں کے کمزور یا مضبوط ہونے کا نہیں تھا۔ سوال تھا کہ ان کو ایک موقع دیا گیا تھا۔ جو انھوں نے ضایع کر دیا۔ وہ نرمی کو اپنی طاقت سمجھ بیٹھے۔ حالانکہ وہ پی ٹی آئی کے قائدین کبھی اتنے طاقتور نہ تھے کہ ریاست کو چیلنج کر سکتے۔
بہت لوگ سوال کرتے ہیں کہ اب پی ٹی آئی کی قیادت کو کیا کرنا چاہیے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ سولو فلائٹ کی عادت انھیں لے بیٹھے گی۔
آج بھی سولو فلائٹ ہی ان کا سب سے بڑ امسئلہ ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پی ٹی آئی والوں کو فوری طور پر اب اپنے سیاسی مخالفین کے گھر چلے جانا چاہیے۔ لیکن کم از کم سابق وزیراعظم اپنے ساتھیوں کی بات تو سنیں۔ جو ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔ ان کے چھوڑنے کی بھی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ تحریک انصاف میں بات کرنے کا کوئی پلیٹ فارم ہی نہیں ہے۔
سب لوگ کہاں بات کرتے۔ ساری جماعت بھیفرد واحد سے اختلاف کرے تب بھی اختلا ف کرنے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا۔ اس لیے سب کے پاس پارٹی چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ اس لیے جب اختلاف کرنے کا راستہ بند تھا تو لوگوں کے پاس چھوڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔
اس لیے میں ان کو زیادہ قصور وار نہیں سمجھتا۔ آج بھی پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنی جماعت میں اختلاف کا راستہ کھولنا ہوگا۔ ورنہ ان کا بند گلی کا سفر تیز ہوتا جائے گا۔ اس سفر کو روکنے کے لیے قیادت کے احتساب کی اجازت دینا ہوگی۔
اب آگے کیا ہو گا؟ کیا گرفتاری ہو گی، یہ کوئی اہم سوال ہی نہیں۔ قانون اپنا راستہ لازمی لے گا۔ان کے لیے بہتر بھی یہی ہے کہ قانون کو اپنا راستہ لینے دیا جائے۔
جب جب کسی نے قانون کا راستہ روکا ہے انھیں نقصان ہوا ہے۔ نو مئی کو بھی پی ٹی آئی کی قیادت قانون کا راستہ روک رہی تھی۔ اس سے پہلے بھی جو مشکلات بڑھی ہیں وہ قانون کا راستہ روکنے کی وجہ سے بڑھی ہیں۔ جتنے مقدمات بنے ہیں وہ سب قانون سے مزاحمت کی وجہ سے بنے ہیں۔ باقی سیاستدان پاگل نہیں ہوتے کہ وہ قانون سے مزاحمت نہیں کرتے بلکہ خود کو قانون کے سامنے سرنڈر کرتے ہیں۔
قانون کے سامنے سرنڈر کرنا سیاستدان کی پہلی نشانی ہے۔ قانون سے مزاحمت قانون شکن ہونے کی نشانی ہے۔ سیاستدان کی پہچان یہی ہے کہ وہ غیر قانونی گرفتاری بھی دے دیتا ہے۔ زمان پارک کو جس طرح نو گو ایریا بنایا گیا وہ کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں تھی۔
آج دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی ساری قیادت کو اس کا نقصان ہی ہوا ہے۔ ساری حکمت عملی ناکام ہو گئی ہے۔ آج بغیر کسی بڑے آپریشن کے زمان پارک ویران ہے۔ اس لیے جو سیاستدان ایسا نہیں کرتے رہے ان کی عقل و دانش ہمارے سامنے ہے۔
پی ٹی آئی کی قیادت آج بھی بیرون ملک اپنے حامیوں سے جو کام لے رہی ہے۔ وہ ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ جس طرح پہلے سارے منصوبے ناکام ہو ئے ہیں' اب یہ بھی ناکام ہو جائے گا۔ پتہ نہیںکون یہ مشورہ دے رہا ہے کہ امریکی چند سنیٹرز کا خط یا چند بیانات ریاست پاکستان کو بے بس کر دیں گے۔پی ٹی آئی والوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ ریاست سے نہیں ٹکر اسکتے۔ پہلے بھی ناکامی ہو ئی ہے۔
اب بھی ناکامی ہی ہوگی۔ پتہ نہیں کون انھیں سمجھا رہا ہے کہ وہ امریکا کے چند سینیٹرز کے بیانات سر پر یہ جنگ جیت جائیں گے' کل تک پی ٹی آئی کے قائد امریکا مخالف تھے' آج امریکا کے کندھوں پر سوار ہیں۔ نہ کل ٹھیک تھا نہ آج ٹھیک تھا۔ بیرونی مدد ایک حد تک کارآمد ہوتی ہے' آپ یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔ بلکہ ہار یقینی ہوجاتی ہے۔