نئی سیاسی جماعت کی تشکیل اور مہم جوئی
جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت ’’استحکام پاکستان‘‘ پارٹی سیاسی منظر پر آئی ہے
سیاسی جماعتوں کی تشکیل سیاسی اور جمہوری عمل میں ایک مثبت قدم ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی بنیادیں وہ نہیں ہوتی جو بیان کی جاتی ہیں۔
جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت ''استحکام پاکستان'' پارٹی سیاسی منظر پر آئی ہے۔اس نئی جماعت میں پی ٹی آئی سے منحرف ارکان کی ایک قابل قدر تعداد شامل ہوئی ہے اور کئی سابق ارکان اسمبلی بھی اس نئی سیاسی جماعت کا حصہ بنے ہیں جو اب ایک نئے سیاسی کردار اور نئے سیاسی کھلاڑی کی قیادت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔
یہ جماعت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پنجاب میں پی ٹی آئی کو زبردست جھٹکا لگا ہے اور اس کے کئی ٹکٹ ہولڈر پارٹی ہی چھوڑ گئے ہیں۔
اس نئی جماعت کی تشکیل میں اصل مقصد پنجاب میں جو بھی حالیہ سیاسی تقسیم ہے اس میں مزید تقسیم یا سیاسی حصہ دار پیدا کیے جائیں ۔جو لوگ اس نئی جماعت کا حصہ بنے ہیں وہ کوئی نئے کردار نہیں بلکہ ماضی میں بھی طاقت کی حکمرانی میں اپنے سیاسی کردار اور جماعتوں کو تبدیل کرتے رہے ہیں ۔
دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ جہانگیرترین کی نئی سیاسی جماعت پنجاب کی انتخابی سیاست میں '' بڑے سیاسی خاندانوں اور حلقہ جاتی سیاست کے مضبوط سیاسی کردار''کی مدد سے کلیدی کردار ادا کرے گی ۔یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ اس جماعت کو بڑے سیاسی خاندانوں کی بھی حمایت اور سرپرستی حاصل ہوگی ۔
ابھی یہ جماعت آگے بڑھ رہی ہے اور دیکھنا ہوگا کہ یہ آگے جاکر مزید کتنے بڑے سیاسی خاندانوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے یا سیاسی کرداروں کو ان کی طرف ایک خاص منصوبہ بندی یا حکمت عملی کے تحت بھیج دیا جاتا ہے کہ ان کی اگلی سیاسی منزل یہ نئی سیاسی جماعت ہے ۔جہانگیر ترین کی سیاسی طاقت کو جنوبی پنجاب کی سیاست سے ہی جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔
ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ جہانگیر ترین گروپ یا ان کی نئی سیاسی جماعت کا اصل سیاسی میدان بھی جنوبی پنجاب کی ہی سیاست ہوگی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنی سیاسی بحالی کی جنگ بھی لڑرہی ہے اور اس کی طاقت کے حصول کا مرکز جنوبی پنجاب ہی کی سیاست ہے ۔جو لوگ ابھی تک اس نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوئے ہیں یا ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔
ان کی باڈی لینگوئج میں پرجوش کم اور مایوسی کا پہلو زیادہ نمایاں ہے ۔کچھ لوگوں کے بقول یہ '' جبری طلاقوں '' پر مشتمل کہانی ہے جو ان کے چہروں سے نمایاں دیکھی جاسکتی ہے۔ایک سوال یہ بنتا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت بڑے خاندانوں کو اپنی حمایت میں لے بھی آتی ہے تو اس کے پاس ووٹ بینک کی سیاسی طاقت کہاں کھڑی ہے ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ بڑے ناموں کی شمولیت کے باوجود ان کو سیاسی کارکنوں یا سیاسی ووٹروں کی تلاش کا عمل آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکے گا۔پی ٹی آئی کاووٹر پارٹی چھوڑنے والوں کو الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالے گا۔
اس لیے اگر یہ منطق مان لی جائے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر استحکام پاکستان پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ نہیں ڈالے گا تو پھر جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت کہاں کھڑی ہوگی ؟
پاکستان میں مختلف ادوار میں کسی کی حمایت اور مخالفت میں سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئیں اور جب یہ جماعتیں اپنا رنگ نہ دکھا سکیں یا ان کی اہمیت ختم ہوجائے یا ان کو استعمال کرلیا جائے یا یہ جماعتیں مطلوبہ نتائج نہ دے سکیں تو پھر ان کی سرپرستی بھی ختم کردی جاتی ہے یا یہ جماعتیں خود ہی ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں ۔
کیونکہ سیاسی جماعتوں کی بنیادی بقا عوامی حمایت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کئی سو کی تعداد میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں غیر فعال ہیں یا یہ عوامی حمایت سے محروم ہیں۔پیپلزپارٹی پٹریاٹ، مسلم لیگ ق اسی سیاست کی نذر ہوگئی ۔
جہاں تک جہانگیر ترین کی جماعت کا تعلق ہے ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ جماعت بطور جماعت اپنا سیاسی وجود بھی قائم رکھ سکے گی یا خود ہمیں اس جماعت کی تشکیل کے ساتھ ہی اس میں سیاسی دڑاریں دیکھنے کو ملیں گی ۔
کیونکہ یہ سب لوگ ایک مجبوری کی شادی کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے ہیں اور جلد ہی ان میں سے بیشتر کو احساس ہوگا کہ وہ غلطی پر تھے ۔کیونکہ عوامی سطح پر اس جماعت کی تشکیل سے لے کر اس کے پس منظر تک اور اس میں شامل کرداروں کے بارے میں عوامی رائے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بہت پیچھے کھڑے ہیں ۔ البتہ ان میں سے کچھ بڑے خاندان کے الیکٹیبل کچھ اپنا رنگ دکھا سکیں گے۔
بنیادی بات ملک میں تیزی سے جتنی بڑی تعداد میں نوجوان ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور اگر ان نوجوانوں نے پولنگ اسٹیشن پر جاکر ووٹ ڈالنا ہے تو پھر ا ن کی چوائس کبھی بھی نئی جماعت نہیں ہوگی ۔یہ منطق کہ اس نئی جماعت کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اگر یہ منطق مان بھی لی جائے تو سوال یہ ہے کہ یہ نئی جماعت ووٹرز کہاں سے پیدا کرے گی۔
جہانگیر ترین کی جماعت میں وہ لوگ جو کل تک پی ٹی آئی کے لیے سیاست کرتے تھے اور اپنا سب کچھ پی ٹی آئی سے ہی وابستہ کیے ہوئے تھے اب ان کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ان ہی کرداروں کو اپنے اپنے حلقوں میں پی ٹی آئی کے سخت گیر نوجوانوں کے سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔
کیونکہ پی ٹی آئی کا ووٹر ان افراد سے خوش نہیں بلکہ غصہ میں ہے کہ ان لوگوں نے مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین کی جماعت کو عوامی سطح پر سخت مزاحمت کا بھی سامنا ہوگا ۔ ان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ ہم کہیں گھاٹے میں نہ رہ جائیں ۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس نئی جماعت کے پاس جو واحد آپشن ہے وہ بڑی دو جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد ہے ۔
اول تو یہ امکان ہے کہ جہانگیر ترین کی جماعت ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق مشترکہ طور پر مل کر انتخاب لڑیں ۔ دوسراامکان یہ ہے کہ یہ نئی جماعت بہت سی نشستوں پر کہیں پیپلزپارٹی اور کہیں مسلم لیگ ن سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی ۔
خود مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کے بقول ہمیں جہانگیر ترین سے کوئی خطرہ نہیں اور ممکن ہے کہ ہم بہت سی نشستوں پر ان کے ساتھ اتحاد کرکے انتخاب لڑیں ۔ جہانگیر ترین لندن کے دورے پر ہیں اور ان کی نواز شریف سے ملاقات بھی متوقع ہے تو دیکھنا ہوگا کہ یہ ملاقات کیا رنگ دکھاتی ہے ، وگرنہ دوسری صورت پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں ہوگی۔
دلچسپ بات یہ ہے پنجاب کی سطح پر تینوں جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اور یہ نئی جماعت جہانگیر ترین کی، کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہوگا یا پی ٹی آئی کا مقابلہ ان کی تمام تر مخالف جماعتوں کے ساتھ ہونا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل خواجہ آصف ہی یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ اگر ہمیں پنجاب میں پی ٹی آئی کا ہی مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے تمام جماعتوں کا اتحاد اور مشترکہ امیدوار ہونا چاہیے ۔
لیکن 9مئی کے واقعات کے بعد جس انداز سے تحریک انصاف کو سیاسی مشکلات کا سامنا ہے اور مسلم لیگ ن خود کو زیادہ بہتر محسوس کررہی ہے تو ممکن ہے کہ پہلی حکمت عملی کے مقابلے میں نئی حکمت عملی اختیار کی جائے ۔
جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت ''استحکام پاکستان'' پارٹی سیاسی منظر پر آئی ہے۔اس نئی جماعت میں پی ٹی آئی سے منحرف ارکان کی ایک قابل قدر تعداد شامل ہوئی ہے اور کئی سابق ارکان اسمبلی بھی اس نئی سیاسی جماعت کا حصہ بنے ہیں جو اب ایک نئے سیاسی کردار اور نئے سیاسی کھلاڑی کی قیادت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔
یہ جماعت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پنجاب میں پی ٹی آئی کو زبردست جھٹکا لگا ہے اور اس کے کئی ٹکٹ ہولڈر پارٹی ہی چھوڑ گئے ہیں۔
اس نئی جماعت کی تشکیل میں اصل مقصد پنجاب میں جو بھی حالیہ سیاسی تقسیم ہے اس میں مزید تقسیم یا سیاسی حصہ دار پیدا کیے جائیں ۔جو لوگ اس نئی جماعت کا حصہ بنے ہیں وہ کوئی نئے کردار نہیں بلکہ ماضی میں بھی طاقت کی حکمرانی میں اپنے سیاسی کردار اور جماعتوں کو تبدیل کرتے رہے ہیں ۔
دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ جہانگیرترین کی نئی سیاسی جماعت پنجاب کی انتخابی سیاست میں '' بڑے سیاسی خاندانوں اور حلقہ جاتی سیاست کے مضبوط سیاسی کردار''کی مدد سے کلیدی کردار ادا کرے گی ۔یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ اس جماعت کو بڑے سیاسی خاندانوں کی بھی حمایت اور سرپرستی حاصل ہوگی ۔
ابھی یہ جماعت آگے بڑھ رہی ہے اور دیکھنا ہوگا کہ یہ آگے جاکر مزید کتنے بڑے سیاسی خاندانوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے یا سیاسی کرداروں کو ان کی طرف ایک خاص منصوبہ بندی یا حکمت عملی کے تحت بھیج دیا جاتا ہے کہ ان کی اگلی سیاسی منزل یہ نئی سیاسی جماعت ہے ۔جہانگیر ترین کی سیاسی طاقت کو جنوبی پنجاب کی سیاست سے ہی جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔
ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ جہانگیر ترین گروپ یا ان کی نئی سیاسی جماعت کا اصل سیاسی میدان بھی جنوبی پنجاب کی ہی سیاست ہوگی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی اپنی سیاسی بحالی کی جنگ بھی لڑرہی ہے اور اس کی طاقت کے حصول کا مرکز جنوبی پنجاب ہی کی سیاست ہے ۔جو لوگ ابھی تک اس نئی سیاسی جماعت میں شامل ہوئے ہیں یا ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔
ان کی باڈی لینگوئج میں پرجوش کم اور مایوسی کا پہلو زیادہ نمایاں ہے ۔کچھ لوگوں کے بقول یہ '' جبری طلاقوں '' پر مشتمل کہانی ہے جو ان کے چہروں سے نمایاں دیکھی جاسکتی ہے۔ایک سوال یہ بنتا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت بڑے خاندانوں کو اپنی حمایت میں لے بھی آتی ہے تو اس کے پاس ووٹ بینک کی سیاسی طاقت کہاں کھڑی ہے ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ بڑے ناموں کی شمولیت کے باوجود ان کو سیاسی کارکنوں یا سیاسی ووٹروں کی تلاش کا عمل آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکے گا۔پی ٹی آئی کاووٹر پارٹی چھوڑنے والوں کو الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالے گا۔
اس لیے اگر یہ منطق مان لی جائے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر استحکام پاکستان پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ نہیں ڈالے گا تو پھر جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت کہاں کھڑی ہوگی ؟
پاکستان میں مختلف ادوار میں کسی کی حمایت اور مخالفت میں سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئیں اور جب یہ جماعتیں اپنا رنگ نہ دکھا سکیں یا ان کی اہمیت ختم ہوجائے یا ان کو استعمال کرلیا جائے یا یہ جماعتیں مطلوبہ نتائج نہ دے سکیں تو پھر ان کی سرپرستی بھی ختم کردی جاتی ہے یا یہ جماعتیں خود ہی ماضی کا قصہ بن جاتی ہیں ۔
کیونکہ سیاسی جماعتوں کی بنیادی بقا عوامی حمایت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کئی سو کی تعداد میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں غیر فعال ہیں یا یہ عوامی حمایت سے محروم ہیں۔پیپلزپارٹی پٹریاٹ، مسلم لیگ ق اسی سیاست کی نذر ہوگئی ۔
جہاں تک جہانگیر ترین کی جماعت کا تعلق ہے ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ یہ جماعت بطور جماعت اپنا سیاسی وجود بھی قائم رکھ سکے گی یا خود ہمیں اس جماعت کی تشکیل کے ساتھ ہی اس میں سیاسی دڑاریں دیکھنے کو ملیں گی ۔
کیونکہ یہ سب لوگ ایک مجبوری کی شادی کی بنیاد پر اکٹھے ہوئے ہیں اور جلد ہی ان میں سے بیشتر کو احساس ہوگا کہ وہ غلطی پر تھے ۔کیونکہ عوامی سطح پر اس جماعت کی تشکیل سے لے کر اس کے پس منظر تک اور اس میں شامل کرداروں کے بارے میں عوامی رائے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بہت پیچھے کھڑے ہیں ۔ البتہ ان میں سے کچھ بڑے خاندان کے الیکٹیبل کچھ اپنا رنگ دکھا سکیں گے۔
بنیادی بات ملک میں تیزی سے جتنی بڑی تعداد میں نوجوان ووٹرز رجسٹرڈ ہوئے ہیں اور اگر ان نوجوانوں نے پولنگ اسٹیشن پر جاکر ووٹ ڈالنا ہے تو پھر ا ن کی چوائس کبھی بھی نئی جماعت نہیں ہوگی ۔یہ منطق کہ اس نئی جماعت کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اگر یہ منطق مان بھی لی جائے تو سوال یہ ہے کہ یہ نئی جماعت ووٹرز کہاں سے پیدا کرے گی۔
جہانگیر ترین کی جماعت میں وہ لوگ جو کل تک پی ٹی آئی کے لیے سیاست کرتے تھے اور اپنا سب کچھ پی ٹی آئی سے ہی وابستہ کیے ہوئے تھے اب ان کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ان ہی کرداروں کو اپنے اپنے حلقوں میں پی ٹی آئی کے سخت گیر نوجوانوں کے سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ۔
کیونکہ پی ٹی آئی کا ووٹر ان افراد سے خوش نہیں بلکہ غصہ میں ہے کہ ان لوگوں نے مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہانگیر ترین کی جماعت کو عوامی سطح پر سخت مزاحمت کا بھی سامنا ہوگا ۔ ان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ ہم کہیں گھاٹے میں نہ رہ جائیں ۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس نئی جماعت کے پاس جو واحد آپشن ہے وہ بڑی دو جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد ہے ۔
اول تو یہ امکان ہے کہ جہانگیر ترین کی جماعت ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق مشترکہ طور پر مل کر انتخاب لڑیں ۔ دوسراامکان یہ ہے کہ یہ نئی جماعت بہت سی نشستوں پر کہیں پیپلزپارٹی اور کہیں مسلم لیگ ن سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گی ۔
خود مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کے بقول ہمیں جہانگیر ترین سے کوئی خطرہ نہیں اور ممکن ہے کہ ہم بہت سی نشستوں پر ان کے ساتھ اتحاد کرکے انتخاب لڑیں ۔ جہانگیر ترین لندن کے دورے پر ہیں اور ان کی نواز شریف سے ملاقات بھی متوقع ہے تو دیکھنا ہوگا کہ یہ ملاقات کیا رنگ دکھاتی ہے ، وگرنہ دوسری صورت پیپلز پارٹی سے اتحاد کی صورت میں ہوگی۔
دلچسپ بات یہ ہے پنجاب کی سطح پر تینوں جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اور یہ نئی جماعت جہانگیر ترین کی، کا مقابلہ پی ٹی آئی سے ہوگا یا پی ٹی آئی کا مقابلہ ان کی تمام تر مخالف جماعتوں کے ساتھ ہونا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل خواجہ آصف ہی یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ اگر ہمیں پنجاب میں پی ٹی آئی کا ہی مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے تمام جماعتوں کا اتحاد اور مشترکہ امیدوار ہونا چاہیے ۔
لیکن 9مئی کے واقعات کے بعد جس انداز سے تحریک انصاف کو سیاسی مشکلات کا سامنا ہے اور مسلم لیگ ن خود کو زیادہ بہتر محسوس کررہی ہے تو ممکن ہے کہ پہلی حکمت عملی کے مقابلے میں نئی حکمت عملی اختیار کی جائے ۔