آتش فشاں

کہیں ایسا نہ ہوکہ پرامن احتجاج کا یہ سکوت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوجو آنیوالے وقتوں میں بڑی تباہی کا باعث بنے


مبشر اکرام April 29, 2014
کہیں ایسا نہ ہوکہ پرامن احتجاج کا یہ سکوت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوجو آنیوالے وقتوں میں بڑی تباہی کا باعث بنے۔ فوٹو فائل

کھیل کے میدان میں پورادن بھاگنے کے بعد'' پان سنگھ تومر'' اپنی بیرک میں لوٹا ہی تھا کہ پتا چلا کہ گائوں سے ملنے کے لئے چند مہمان آئے ہیں۔ پان سنگھ فوج میں ملازم تھا۔اسلحے میں مہارت اس کی فوج میں عزت کا باعث بنی اور رہی سہی کسر تب نکل گئی جب پان سنگھ نے کھیلوںمیں حصہ لینا شروع کردیا۔پان سنگھ کڑیل جسم اورمضبوط اعصاب کا مالک تھا ۔کھیل میں اسکی کارکردگی اتنی شاندار رہی کہ اس کے بنائے ہوئے ریکارڈ 10 سال تک توڑے نہ جاسکے۔ ہندوستانی فوج کا یہ سپاہی ایک خاص طرز کی دوڑ میں پانچ سال تک نیشنل چیمپین رہا۔

فوج کی زندگی شاندار جارہی تھی لیکن اچانک پان سنگھ کے آبائی گائوں میں رشتہ داروں کے درمیان زمین کا تنازعہ چل نکلا ۔آئے روزپان سنگھ کے رشتہ دار زخمی چہرہ لیے اس کے پاس یونٹ میں آتے اوررو رو کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم بیان کرتے۔جس کی وجہ سے پان سنگھ کو وقت سے پہلے ہی فوج سے ریٹائرمنٹ لینی پڑی ۔اور وہ گاؤں لوٹ گیا گائوں کے حالات ذرا بھی اچھے نہ تھے۔ایک دن اس کے مخالفین اس کے گھر گھس آئے اور پان سنگھ کی ضعیف ماں اور جواں سالہ بیٹے کو بری طرح پیٹ ڈالا ۔پان سنگھ سارا دن سرکاری دفتروں اور تھانوں کے دھکے کھا کر گھر پہنچا تو اپنی ماں اور بیٹے کو لہو لہان دیکھ کر تلملا اٹھا'ایک تو تھا راجپوت اوپر سے تھا فوجی'بندوق چلانا کوئی نئی بات نہ تھی ۔گائوں کے لوگوں کو تب ہوش آیا جب گولیوں کی تڑتڑاہت گونجی اور پان سنگھ کے بہت سارے مخالفین خون میں لوٹتے نظر آئے۔ پان سنگھ اپنے بھتیجوں اور چند رشتہ داروں کو لے کر اپنے گھر سے فرار ہو گیا۔

پان سنگھ اب ایک فوجی سے باغی بن چکا تھا۔ اس نے اغواء برائے تاوان کا کام شروع کر دیا اور جہاں موقع ملتا ٹھاکروں اور سیٹھوں کے گھروں پر دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیتا۔ پان سنگھ فوج کا تربیت یافتہ تھا اس لیے اس کے گینگ کو پکڑنا نہایت ہی مشکل ثابت ہوا۔ اس نے اپنے گینگ کو خالص فوجی انداز میں تربیت دی۔ لیکن سب احتیاطوں کے باوجود بھی پان سنگھ کا ایک اپنا ہی بندہ پولیس کے ساتھ مل کر غداری کر بیٹھا۔پولیس نے اس کے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر وہ پان سنگھ کی پولیس کو مخبری کر دے تو وہ اسے پولیس میں بھرتی کرادیں گے۔ مخبری کامیاب رہی اور پان سنگھ بارہ گھنٹے کے طویل مقابلے کے بعد مارا گیا۔

پان سنگھ کی کہانی تو یہیں ختم ہوجاتی ہے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ پان سنگھ ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے ۔اس رویے کا اظہار ہر وہ شخص کر تا ہے جو طاقتور کی طرف سے کیے جانے والے مظالم سے تنگ آکر بغاوت کی راہ اپنا لے۔کہا جاتا ہے کہ ظلم کرنے والے سے کئی گنا زیادہ طاقتور ظلم سہنے والا ہوتا ہے آج میں جب یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو ٹی وہ اسکرین پر اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے لگائے گئے کیمپ پر پولیس کی جانب سے دھاوا بول دینے کی خبریں چل رہیں تھیں۔

پولیس نے کیمپ میں احتجاج کرتے لوگوں پر بری طرح لاٹھی چارج کیا اور لاپتہ افراد کے مسئلے سے شہرت پانے والی اور خود اس المیے کا شکار آمنہ مسعود کو گھسیٹے ہوئے اپنی وین میں ڈالا اور تھانے لے گئے۔ جبکہ آٹھ سال قبل آمنہ مسعود کے خاوند کو بھی اسی طرح گرفتار کیا گیا تھا اور پھر اس کا سراغ نہ مل سکا۔ لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین ہر روز تھانے کچہریوں کے دھکے کھا رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ عدالت کے حکم کے باوجود لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش نہیں کیا جارہا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ دہشت گردوں کی حمایت کی جائے لیکن یہ تو مجرم کے اہلِ خانہ کا بھی حق ہے کہ وہ مجرم کی گرفتاری سے باخبر ہوں اور وہ اس پر چلائے جانے والے مقدمے کی پیروی کر سکیں۔آئین اور قانون میں خفیہ طور پر اتنے طویل عرصے تک کسی قیدی کو رکھنے کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں۔ اوپر سے ظلم یہ کہ پر امن طریقے سے احتجاج کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا جائے۔ یہی حالات ایک عام انسان کو پر امن شہری سے باغی بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ انہی لاپتہ افراد میں سے کسی کا بیٹا یا بھائی اٹھے اور پان سنگھ کی تقلید کرتا ہوا بندوق کے زور پر ملک کے خلاف بغاوت کاا علان کردے۔ اب بھی وقت ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ لاپتہ افراد کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے اور انہیں حل کرنے کے لئے جلد از جلد عملی اقدامات کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پرامن احتجاج کا یہ سکوت کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو جو آنے والے وقتوں میں بڑی تباہی کا باعث بنے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں