سراج الحق اپنی ٹیم کے ساتھ چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کے لئے تیار

سراج الحق بھی ایک متحرک ، فعال شخصیت کے مالک ہیں۔


Shehbaz Anwer April 30, 2014
سراج الحق بھی ایک متحرک ، فعال شخصیت کے مالک ہیں۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: ملک کی دوسری بڑی مذہبی سیاسی جماعت ، جماعت اسلامی کے نئے امیر سراج الحق نے اپنے انتخاب کے کم وبیش تین ہفتوں کے بعد (جماعت کی شوریٰ سے مشاورت کے ساتھ) تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کردیا ہے جس میں سیکرٹری جنرل کے عہدے پر پہلے سے موجود لیاقت بلوچ ہی کو برقرار رکھا گیا ہے۔

نائب امراء میں پروفیسر خورشید احمد، میاں محمد اسلم ، حافظ محمدادریس، اسد اﷲ بھٹو اور راشد نسیم کے نام شامل ہیں ۔ ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کو دوبارہ شامل کرنے کے ساتھ حافظ ساجد انور، خالد رحمان اور محمد اصغر کو بھی لے لیا گیا ہے۔ سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر امیر العظیم کا انتخاب کیا گیا ہے کہ ان کے پیش رو انورخان نیازی نے انتہائی خلوص نیت ، محنت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ بھرپور خدمات انجام دینے کے بعد معذوری ظاہر کردی تھی ۔

جماعت کے ہیجانی اور بحرانی دور میں انور نیازی اور ان کے ساتھ قیصر شریف، فرحان شوکت سمیت میڈیا سیل کے دیگرارکان نے جس جانفشانی سے کام کیا وہ بہرحال لائق ستائش ہے۔ انور نیازی کی ان ہی خدمات کی وجہ سے انھیں میڈیا ٹیم میں شامل رکھا گیا ہے۔

سیاسی پنڈتوں اور بڑے بڑے جغادری قسم کے تجزیہ کاروں کی توقعات کے برعکس جماعت اسلامی کی امارت کے لیے سید منور حسن اور لیاقت بلوچ ایسے منجھے ہوئے سینئر سیاسی قائدین کی موجودگی میں جب ان سے کم عمر اور کم تجربہ رکھنے والے سراج الحق کا انتخاب کیا گیا تو انہوں نے دور کی کوڑیاں لانا شروع کردیں اور یہ پیش گوئی کی جانے لگی کہ ''خوبرو اور جوان ِ رعنا '' سراج الحق اب اپنی ٹیم میں بھی نوجوان عبقریوں کو شامل کریں گے اور بزرگ اور'' تھکے ہوئے '' رہنماوں سے جان چھڑا لیں گے تاکہ جماعت کو توانا اور نئے ولولوں سے سرشارٹیم کے ذریعے فعال اور متحرک عوامی جماعت بنایا جا سکے۔

ہم نے اس موقع پر بھی یہ کہا تھا کہ سراج الحق انتہائی زیر ک ، سمجھدار اور معاملہ فہم انسان ہیں وہ یقینی طورپر نوجوان ساتھیوں سے تعاون حاصل کرنے کے ساتھ سینئر اور تجربہ کار قائدین سے رہنمائی بھی حاصل کریں گے تاکہ قدیم و جدید کے خوبصورت امتزاج کے ساتھ ایک ایسی ٹیم وجود میں آسکے جو موجودہ ملکی حالات اور سیاسی صورت حال میں جماعت کو ایک موثر اور جاندار سیاسی قوت بنانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت جو ٹیم تشکیل دی گئی ہے اس میں نہ تو نرے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو آزمانے کا رسک لیا گیا ہے اور نہ ہی محض سینئر اور پرانے لوگوں پر تکیہ کیا گیا ہے۔

سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ درپیش حالات میں یہ ایک متوازن ٹیم ہے جس میں پروفیسر خورشید احمد ، حافظ ادریس، اسد اﷲ بھٹو اور لیاقت بلوچ ایسی تجربہ کار اور جہاندیدہ شخصیات بھی شامل ہیں اور امیر العظیم ، راشد نسیم ، حافظ ساجد انور، خالد رحمان ایسے جواں فکر اور جواں حوصلوں کے مالک ذہین و فطین رہنما بھی ہیں۔ گویا سراج الحق کی نئی ٹیم میں ون ڈے کے کھلاڑی بھی شامل ہیں اور ٹیسٹ اننگز کھیلنے والے بھی جو موقع محل کے مطابق جاندار کھیل پیش کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔

گزشتہ کم وبیش ایک عشرے کی جماعتی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات واضح طور پرسامنے آتی ہے کہ اس عرصہ کے دوران دو قومی انتخابات بھی ہوئے۔ جماعت تمام تر انتخابی حکمت عملیوں اور ''سیاسی حربوں'' کو آزمانے اورمنظم و مستعد کارکنوں کی معقول تعداد کا اثاثہ رکھنے کے باوجود (معروف معنوں میں ) ایک کامیاب عوامی سیاسی جماعت کا درجہ حاصل کر سکی اور نہ بیلٹ بکس کے ذریعے اپنا کوئی مقام بنا سکی۔



جماعت کے اْس وقت کے امیر قاضی حسین احمد جماعت کے دستیاب اکابرین میں بلا مبالغہ سب سے زیادہ کرشماتی شخصیت کے مالک تھے جن کے شخصی اوصاف ایسے تھے کہ جو کارکنوں اور خصوصاً نوجوان طبقے کو قائل کرنے کی قدرت رکھتے تھے لیکن وہ بھی جماعت کو پارلیمنٹ میں معقول نشستیں دلوانے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ اب خیر سے سراج الحق کی صورت میں ایک اور مرد کوہستانی کو جماعت کی امارت کا تاج پہنایا گیا ہے وہ بھی ایک متحرک ، فعال شخصیت کے مالک ہیں ۔ ایسے وقت میں کہ جب پورے ملک میں جماعت اسلامی کا صفایا ہوگیا تھا انہوں نے خیبر پختون خوا میں معقول نشستیں حاصل کرکے جماعت کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کا معجزہ کر دکھایا ہے۔

اس وقت ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اندرون ملک امن و امان کی تشویش ناک صورت حال ،دہشت گردی کے عفریت ، مہنگائی ،بیروزگاری ، ظلم و ناانصافی نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

خطے میں سٹریٹیجک اہمیت رکھنے کے باوجود ناقص خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری اور عالمی برادری میں پاکستان کی غیر موثر نمائندگی اور عالمی طاقتوں کا مہرہ بننے کی وجہ سے اپنی الگ شناخت سے محرومی ، نظریاتی تشخص میں دھندلاہٹ اور دہشت گردی کے حوالے سے کمزور موقف نے ہمیں جس پستی میں دھکیل رکھا ہے۔

اس کے پیش نظر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے سیاسی کردار پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور جماعت اسلامی کو بھی اسی تناظر میں اپنی پالیسیوں کو' ری وزٹ ' کرنا ہوگا اور ایسی راہ عمل اختیار کرنا ہوگی کہ جس پر چل کر جماعت اسلامی ایک بار پھر اپنا کھویا وقار بحال کر سکے اور جس اسلامی انقلاب کی وہ داعی ہے اس سمت پیش قدمی کر سکے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آج کی جماعت اسلامی کی قیادت اور اس کی نوتشکیل کردہ ٹیم میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ان تمام چیلنجز کا نہ صرف ادراک رکھتی ہے بلکہ ان سے عہدہ براء ہونے کی مطلوبہ استعداد بھی رکھتی ہے۔گوکہ یہ ہدف آسان نہیں ہے لیکن ناممکن بھی نہیں کہ جواں عزم ، پختہ ارادے اور ٹھوس کمٹمنٹ کی بدولت ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔ آنے والے چند ماہ میں ہی اس ٹیم کی کارکردگی اور آوٹ پٹ سامنے آجائے گی اور اس کی اٹھا ن سے بھی اندازہ لگایا جاسکے گا کہ اس کا مستقبل کیا اور کیسا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں