ورزش ایک مفت اور مفید دوا
ورزش کے دوران ہمارے پٹھے کئی طرح کے میٹا بولائٹس خون میں خارج کرتے ہیں
بدقسمتی سے ہمارے ہاں صحت مند طرز زندگی اور معیاری خوراک کا چلن پروان نہیں چڑھا۔ بحثیت قوم ہمارا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ بیماریوں کے باوجود ہم اپنی عادات میں تبدیلی نہیں لاتے، جس کی وجہ سے مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ہر قسم کی خطرناک اور جان لیوا بیماری کو بھی معمولی اور عارضی سمجھ کر اس سے چھٹکارا پانے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر بیماریوں کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ورزش نہ کرنا ہے۔
یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم لوگ سارا دن کھانے پینے میں مصروف رہتے ہیں۔ گھروں، ہوٹلوں، حجروں، فٹ پاتھوں یا دیگر تفریحی مقامات میں بیٹھے گھنٹوں گپ شپ میں لگے رہتے ہیں۔ اس کے لیے ہمارے پاس وقت بھی زیادہ ہوتا ہے اور پیسے بھی وافر۔
دوسری طرف 'مصروفیات' کی وجہ سے واک، جاگنگ یا ورزش کے لیے بیس، تیس منٹ نکالنا بھی ہمیں مشکل دکھائی دیتا ہے۔ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ورزش کے کیا فوائد ہیں اور صحت مند طرز زندگی سے ہم بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
تاہم اس معاملے میں غفلت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت ہماری ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔ ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ واک اور ورزش آپ کی بہتر صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بالخصوص ذیابیطس، بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار مریضوں کے لیے واک ایک اہم دوا کا کردار ادا کرتی ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اپنی صحت سے غافل، لاپروا اور بے فکر رہتے ہیں۔
اور اسی کاہلی، سستی اور غفلت کے باعث معمولی سی بیماری آہستہ آہستہ ہمیں موت اور معذوری کے منہ میں پھینک دیتی ہے۔ ویسے بھی سستی اور غفلت ہماری اجتماعی نفسیات کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ چاہے وہ بیماری کے متعلق ہمارا رویہ ہو یا سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے کے دوران دفتری اہلکاروں کا طرز عمل۔
جہاں تک ورزش کی بات ہے تو آخر اس میں ہمارا نقصان کیا ہے؟ جب ہم تمام کاموں میں اپنے لیے فائدہ ڈھونڈتے ہیں اور ہر وہ کام جس میں ہمارا مالی نقصان ہو اس سے اجتناب کرتے ہیں تو پھر ورزش میں تو روحانی اور جسمانی فائدہ ہی فائدہ ہے اورنقصان کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم گھر سے تھوڑے فاصلے پر چند منٹوں میں اپنے دفتر،کام کی جگہ یا بازار سے سودا سلف خریدنے پیدل جاسکتے ہیں تو موٹر سائیکل یا گاڑی کا استعمال کیوں کرتے ہیں جس میں مالی اور جسمانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
آپ تھوڑا سا وقت بچا کر اپنی صحت اور جیب کو روزانہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ پہلے زمانے کے لوگوں کی اچھی صحت اور درازی عمر کا راز بھی یہی تھا کہ وہ میلوں دور اپنے دفاتر،کام کاج کی جگہوں اور کھیتوں کلیانوں تک پیدل آیا جایا کرتے تھے، ساتھ خوراک بھی بڑی سادہ تھی۔ ملاوٹ، مضر صحت اشیاء اورمشروبات سے ناآشنا تھے۔
قدیم لوگ شاید واک کے نام سے اس طرح واقف نہ ہوں، مگر سخت محنت اور میلوں پیدل چلنے سے ان کی اچھی خاصی ورزش ہو جایا کرتی تھی۔ لہذا آج کے زمانے میں دنیا کے تمام ماہرین صحت اور ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ اچھی سے اچھی خوراک اور طاقت کی دوا واک یا ورزش کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ ورزش انسانی جسم کے تمام اعضاء خصوصاً دل و دماغ پر حیرت انگیز مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ورزش اور دماغی صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ یہ ہمارے سیکھنے کے عمل کو بہتر کرتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھوڑی دیر ورزش کرنے سے وہ جین سرگرم ہوتے ہیں جو دماغی خلیات کے باہمی رابطوں کو بہتر بناتے ہیں۔
2019ء میں اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیق کے ذریعے بتایا کہ صرف ایک مرتبہ ورزش کے بعد بھی دماغی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ خون کی بہتر فراہمی اور نیورونز کے درمیان بہتر روابط ہوتے ہیں۔
ساؤتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ورزش سے اعصابی لچک (نیورو پلاسٹی سٹی) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں دماغی خلیات (نیورون)کی وائرنگ اور ترتیب بدلتی رہتی ہے۔ یہ عمل سیکھنے اور نئے ہنر کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔ دماغی لچک کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے اور نت نئی باتیں سیکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دماغی لچک بڑھانے کے لئے کونسی ورزش موزوں ترین ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق 'بائی انٹینسٹی انٹرویل ٹریننگ' (ایچ آئی آئی ٹی) ورزش اگر 20 منٹ تک کی جائے تو اس سے دماغی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔ ورزش دماغی انحطاط کو روکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اگر یہ رفتار معمول سے بڑھ جائے تو ڈیمنشیا، الزائیمر اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔
باقاعدہ ورزش دماغی انحطاط اور انجماد کو کم کرتی ہے اور کئی امراض سے بچانے میں مدگار ہوتی ہے۔ ماہرین صحت یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ورزش کی عادت یادداشت کو متاثر ہونے سے روکتی ہے۔ 2019ء میں جامعہ ایکسیٹر کے سائنسدانوں نے دو لاکھ بالغ افراد کا جائزہ لیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ورزش سے ڈیمنشیا کا خطرہ 32 فیصد تک کم ہو سکتا ہے، خواہ اس مرض کا جینیاتی امکان ہی کیوں نہ موجود ہو۔ لیکن ضروری ہے کہ سگریٹ نوشی کو بالکل ترک کیا جائے اور متوازن غذا کھائی جائے۔
دماغی تناؤ بھگانے اور دماغ کی طاقت بڑھانے میں ورزش کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس کے علاوہ ابتدائی زندگی میں دی جانے والی غذا بچے کی دماغی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہی کام ورزش بھی کرتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچوں کو اوائل عمر سے ہی جسمانی مشقت سے گزارا جائے۔ سستی اور تن اسانی سے دور رکھا جائے۔
ماہرین صحت کے مطابق اگر کوئی مستقل ذہنی تناؤ سے گزر رہا ہو تو اس کے لیے دماغی ورزش یعنی کوئی کتاب، اخبار یا مگیزین کا مطالعہ بہت مفید اور کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر بچوں اور نوعمروں کو ابتدائی عمر سے ہی کھیل کود اور ورزش کی عادت ڈالی جائے تو آگے چل کر ان کی مجموعی صحت اور بالخصوص دل و دماغ پر بہت مفید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
ایسے بچے جوان ہو کر نفسیاتی امراض کا شکار کم ہوتے ہیں اور ان کا دماغ بھی تیز ہوتا ہے۔ ورزش نابینا پن اور جلد بڑھاپے کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو آج ہمارے ہاں اکثر لوگ بصارت کی کمی اور جلد بڑھاپے کا رونا روتے ہیں لہٰذا دیگر متعلقہ دواؤں کے ساتھ ساتھ ورزش کے لیے بھی وقت نکالنا ہوگا۔
اس ضمن میں یونیورسٹی آف ورجینیا نے ایک تجربہ چوہوں کے دو گروہوں پر کیا۔ ایک گروہ کو گھومنے پھرنے کی آزادی دی گئی اور دوسرے گروہ کو ایک تنگ پنجرے میں رکھا گیا۔ جب چار ہفتے بعد لیزر سے دونوں گروہوں کی آنکھوں کا ٹیسٹ کرایا گیا تومعلوم ہوا کہ باقاعدہ ورزش بصارت میں خرابی کو 32 سے 45 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ورزش آنکھوں کی بصارت کی بہت بڑی محافظ بھی ہے۔ ورزش سے جسم کا مدافعتی نظام طاقتور ہوتا ہے، اور یہ قدرتی دفاعی نظام طاقتور ہو کر جسم کو کئی بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتا ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے۔
ورزش کے دوران ہمارے پٹھے کئی طرح کے میٹا بولائٹس خون میں خارج کرتے ہیں جو دفاعی نظام کو کینسر سے لڑنے کے قابل بناتے ہیں۔ سویڈن کے مشہور کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ نے جانوروں پر تجربات کیے اور بتایا کہ ورزش ٹی سیلز کو قوت دے کر کینسر سے لڑنے کے قابل بناتی ہے۔
ورزش سے ہمارے معدے اور پیٹ میں مفید بیکٹیریا پورے جسم کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے نظام کو طبی اصطلاح میں مائیکروبائم کہتے ہیں۔
ورزش کی عادت جسم میں مائیکروبائم کی مقدار برقرار رکھتی ہے اور ہمارے جسم میں بیکٹیریا کی ضروری مقدار برقرار رہتی ہے۔2017ء میں الینوائے یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ ورزش سے پیٹ میں تندرست بیکٹیریا کا اضافہ ہوتا ہے۔
اس میں انہوں نے چوہوں اور انسانوں پر تجربات کیے۔ ورزش سے پہلے اور بعد میں چوہوں کے فضلوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ورزش بیکٹریا کے تناسب کو درست رکھتی ہے۔لہذا ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ وقت ورزش کے لیے نکالنا چاہیئے جس میں ہمارا فائدہ زیادہ ہے اور نقصان کچھ بھی نہیں۔
ہر قسم کی خطرناک اور جان لیوا بیماری کو بھی معمولی اور عارضی سمجھ کر اس سے چھٹکارا پانے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر بیماریوں کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ورزش نہ کرنا ہے۔
یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم لوگ سارا دن کھانے پینے میں مصروف رہتے ہیں۔ گھروں، ہوٹلوں، حجروں، فٹ پاتھوں یا دیگر تفریحی مقامات میں بیٹھے گھنٹوں گپ شپ میں لگے رہتے ہیں۔ اس کے لیے ہمارے پاس وقت بھی زیادہ ہوتا ہے اور پیسے بھی وافر۔
دوسری طرف 'مصروفیات' کی وجہ سے واک، جاگنگ یا ورزش کے لیے بیس، تیس منٹ نکالنا بھی ہمیں مشکل دکھائی دیتا ہے۔ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ورزش کے کیا فوائد ہیں اور صحت مند طرز زندگی سے ہم بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
تاہم اس معاملے میں غفلت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحت ہماری ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔ ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ روزانہ واک اور ورزش آپ کی بہتر صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بالخصوص ذیابیطس، بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار مریضوں کے لیے واک ایک اہم دوا کا کردار ادا کرتی ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اپنی صحت سے غافل، لاپروا اور بے فکر رہتے ہیں۔
اور اسی کاہلی، سستی اور غفلت کے باعث معمولی سی بیماری آہستہ آہستہ ہمیں موت اور معذوری کے منہ میں پھینک دیتی ہے۔ ویسے بھی سستی اور غفلت ہماری اجتماعی نفسیات کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ چاہے وہ بیماری کے متعلق ہمارا رویہ ہو یا سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے کے دوران دفتری اہلکاروں کا طرز عمل۔
جہاں تک ورزش کی بات ہے تو آخر اس میں ہمارا نقصان کیا ہے؟ جب ہم تمام کاموں میں اپنے لیے فائدہ ڈھونڈتے ہیں اور ہر وہ کام جس میں ہمارا مالی نقصان ہو اس سے اجتناب کرتے ہیں تو پھر ورزش میں تو روحانی اور جسمانی فائدہ ہی فائدہ ہے اورنقصان کچھ بھی نہیں۔ اگر ہم گھر سے تھوڑے فاصلے پر چند منٹوں میں اپنے دفتر،کام کی جگہ یا بازار سے سودا سلف خریدنے پیدل جاسکتے ہیں تو موٹر سائیکل یا گاڑی کا استعمال کیوں کرتے ہیں جس میں مالی اور جسمانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
آپ تھوڑا سا وقت بچا کر اپنی صحت اور جیب کو روزانہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ پہلے زمانے کے لوگوں کی اچھی صحت اور درازی عمر کا راز بھی یہی تھا کہ وہ میلوں دور اپنے دفاتر،کام کاج کی جگہوں اور کھیتوں کلیانوں تک پیدل آیا جایا کرتے تھے، ساتھ خوراک بھی بڑی سادہ تھی۔ ملاوٹ، مضر صحت اشیاء اورمشروبات سے ناآشنا تھے۔
قدیم لوگ شاید واک کے نام سے اس طرح واقف نہ ہوں، مگر سخت محنت اور میلوں پیدل چلنے سے ان کی اچھی خاصی ورزش ہو جایا کرتی تھی۔ لہذا آج کے زمانے میں دنیا کے تمام ماہرین صحت اور ماہرین خوراک کا کہنا ہے کہ اچھی سے اچھی خوراک اور طاقت کی دوا واک یا ورزش کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ ورزش انسانی جسم کے تمام اعضاء خصوصاً دل و دماغ پر حیرت انگیز مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ ورزش اور دماغی صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے کیونکہ یہ ہمارے سیکھنے کے عمل کو بہتر کرتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تھوڑی دیر ورزش کرنے سے وہ جین سرگرم ہوتے ہیں جو دماغی خلیات کے باہمی رابطوں کو بہتر بناتے ہیں۔
2019ء میں اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیق کے ذریعے بتایا کہ صرف ایک مرتبہ ورزش کے بعد بھی دماغی سرگرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ خون کی بہتر فراہمی اور نیورونز کے درمیان بہتر روابط ہوتے ہیں۔
ساؤتھ آسٹریلیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ورزش سے اعصابی لچک (نیورو پلاسٹی سٹی) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کیفیت میں دماغی خلیات (نیورون)کی وائرنگ اور ترتیب بدلتی رہتی ہے۔ یہ عمل سیکھنے اور نئے ہنر کو سمجھنے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔ دماغی لچک کا عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے اور نت نئی باتیں سیکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دماغی لچک بڑھانے کے لئے کونسی ورزش موزوں ترین ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق 'بائی انٹینسٹی انٹرویل ٹریننگ' (ایچ آئی آئی ٹی) ورزش اگر 20 منٹ تک کی جائے تو اس سے دماغی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔ ورزش دماغی انحطاط کو روکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ دماغی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اگر یہ رفتار معمول سے بڑھ جائے تو ڈیمنشیا، الزائیمر اور دیگر امراض جنم لیتے ہیں۔
باقاعدہ ورزش دماغی انحطاط اور انجماد کو کم کرتی ہے اور کئی امراض سے بچانے میں مدگار ہوتی ہے۔ ماہرین صحت یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ورزش کی عادت یادداشت کو متاثر ہونے سے روکتی ہے۔ 2019ء میں جامعہ ایکسیٹر کے سائنسدانوں نے دو لاکھ بالغ افراد کا جائزہ لیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ورزش سے ڈیمنشیا کا خطرہ 32 فیصد تک کم ہو سکتا ہے، خواہ اس مرض کا جینیاتی امکان ہی کیوں نہ موجود ہو۔ لیکن ضروری ہے کہ سگریٹ نوشی کو بالکل ترک کیا جائے اور متوازن غذا کھائی جائے۔
دماغی تناؤ بھگانے اور دماغ کی طاقت بڑھانے میں ورزش کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس کے علاوہ ابتدائی زندگی میں دی جانے والی غذا بچے کی دماغی نشوونما میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن یہی کام ورزش بھی کرتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچوں کو اوائل عمر سے ہی جسمانی مشقت سے گزارا جائے۔ سستی اور تن اسانی سے دور رکھا جائے۔
ماہرین صحت کے مطابق اگر کوئی مستقل ذہنی تناؤ سے گزر رہا ہو تو اس کے لیے دماغی ورزش یعنی کوئی کتاب، اخبار یا مگیزین کا مطالعہ بہت مفید اور کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر بچوں اور نوعمروں کو ابتدائی عمر سے ہی کھیل کود اور ورزش کی عادت ڈالی جائے تو آگے چل کر ان کی مجموعی صحت اور بالخصوص دل و دماغ پر بہت مفید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
ایسے بچے جوان ہو کر نفسیاتی امراض کا شکار کم ہوتے ہیں اور ان کا دماغ بھی تیز ہوتا ہے۔ ورزش نابینا پن اور جلد بڑھاپے کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو آج ہمارے ہاں اکثر لوگ بصارت کی کمی اور جلد بڑھاپے کا رونا روتے ہیں لہٰذا دیگر متعلقہ دواؤں کے ساتھ ساتھ ورزش کے لیے بھی وقت نکالنا ہوگا۔
اس ضمن میں یونیورسٹی آف ورجینیا نے ایک تجربہ چوہوں کے دو گروہوں پر کیا۔ ایک گروہ کو گھومنے پھرنے کی آزادی دی گئی اور دوسرے گروہ کو ایک تنگ پنجرے میں رکھا گیا۔ جب چار ہفتے بعد لیزر سے دونوں گروہوں کی آنکھوں کا ٹیسٹ کرایا گیا تومعلوم ہوا کہ باقاعدہ ورزش بصارت میں خرابی کو 32 سے 45 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ورزش آنکھوں کی بصارت کی بہت بڑی محافظ بھی ہے۔ ورزش سے جسم کا مدافعتی نظام طاقتور ہوتا ہے، اور یہ قدرتی دفاعی نظام طاقتور ہو کر جسم کو کئی بیماریوں سے لڑنے کے قابل بناتا ہے جن میں کینسر بھی شامل ہے۔
ورزش کے دوران ہمارے پٹھے کئی طرح کے میٹا بولائٹس خون میں خارج کرتے ہیں جو دفاعی نظام کو کینسر سے لڑنے کے قابل بناتے ہیں۔ سویڈن کے مشہور کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ نے جانوروں پر تجربات کیے اور بتایا کہ ورزش ٹی سیلز کو قوت دے کر کینسر سے لڑنے کے قابل بناتی ہے۔
ورزش سے ہمارے معدے اور پیٹ میں مفید بیکٹیریا پورے جسم کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس پورے نظام کو طبی اصطلاح میں مائیکروبائم کہتے ہیں۔
ورزش کی عادت جسم میں مائیکروبائم کی مقدار برقرار رکھتی ہے اور ہمارے جسم میں بیکٹیریا کی ضروری مقدار برقرار رہتی ہے۔2017ء میں الینوائے یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا تھا کہ ورزش سے پیٹ میں تندرست بیکٹیریا کا اضافہ ہوتا ہے۔
اس میں انہوں نے چوہوں اور انسانوں پر تجربات کیے۔ ورزش سے پہلے اور بعد میں چوہوں کے فضلوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ورزش بیکٹریا کے تناسب کو درست رکھتی ہے۔لہذا ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ وقت ورزش کے لیے نکالنا چاہیئے جس میں ہمارا فائدہ زیادہ ہے اور نقصان کچھ بھی نہیں۔