سستی ایل پی جی ری فنانسنگ اور معیشت
بلاشبہ وفاقی حکومت نے ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے
روس سے مایع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) کی پہلی کھیپ طورخم بارڈرکے راستے پاکستان پہنچ گئی ہے، ایل پی جی کارگو دس ٹینکرز پر مشتمل ہے جو روس سے خریدی گئی ایک لاکھ دس ہزار ٹن ایل پی جی کا حصہ ہے۔
بلاشبہ وفاقی حکومت نے ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومت نے ایل این جی کی اسپاٹ پروکیورمنٹ پر انحصار کم کرنے کے لیے مزید درآمدی معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ حویلی بہادر شاہ، بھکی، بلوکی اور تریموں جھنگ میں واقع چار آر ایل این جی پر مبنی پاور پلانٹس کو 700 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی کی ضرورت ہے۔
ڈسکوز کی نجکاری، پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کے خطرے کو کم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
ایل پی جی پاکستان کے مختلف علاقوں میں بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہے۔ گھریلو استعمال کے علاوہ صنعتی شعبے میں بھی اس کا خاصا استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایل پی جی کی سالانہ طلب 14 لاکھ میٹرک ٹن تک ہے۔ اس 14 لاکھ میٹرک ٹن میں تقریباً آٹھ لاکھ 76 ہزار میٹرک ٹن پاکستان خود پیدا کرتا ہے جب کہ باقی ماندہ ضرورت کے لیے ایران سے بذریعہ تافتان بارڈر ایل پی جی درآمد کی جاتی ہے۔
روس سے ایل پی جی کی درآمد پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل کے لیے بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں ایل پی جی کی طلب کا 40 فیصد پاکستان خود پیدا کرتا ہے جب کہ باقی ایل پی جی ترکمانستان، اور ایران سے درآمد کی جاتی ہے۔
پہلے پاک ایران تافتان بارڈر، گوادر (جس کو 250 بادر کہا جاتا ہے)، مند، پنجگور اور ترکمانستان سے چمن بارڈر کے ذریعے ایل پی جی درآمد کی جاتی ہے جب کہ اب طورخم بارڈر سے درآمد شروع ہو گئی ہے، جس طرح پورٹ قاسم پر ایک لیبارٹری لگی ہے جو گیس کی کوالٹی کو چیک کرتی ہے، اس طرح کی لیبارٹریاں سرحد پر بھی لگائی جانی چاہئیں تاکہ غیر معیاری گیس پاکستان نہ آئے۔ یہ ایل پی جی کے نجی سیکٹرز کے صنعت کار درآمد کر رہے ہیں۔
یہ ایک اچھا اقدام ہے اور حکومت نے نجی سیکٹرکی اتنی مدد کی ہے کہ پہلے طورخم بارڈر پر ایل پی جی کارگو نہیں آ رہی تھی لیکن اب اس کی اجازت مل گئی ہے اور مستقبل میں بھی مزید کنٹینرز آئیں گے۔
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا روس سے آئی ایل پی جی سے قیمت میں کمی آ سکتی ہے؟ بلاشبہ قیمتوں میں اس سے کمی آ سکتی ہے بشرطیکہ حکومت نجی سیکٹر کو مزید سہولیات فراہم کرے۔ ترکمانستان، ازبکستان اور روس سے ایل پی جی درآمد کرنے پر باتیں گزشتہ تین مہینوں سے چل رہی تھیں اور اب طورخم بارڈر پر پہلی کھیپ پہنچ گئی ہے۔
پہلے قطر اور دیگر عرب ممالک سے ایل پی جی آتی تھی اور بلوچستان میں ایران سے اسمگل بھی ہوتی تھی جو بلوچستان میں استعمال ہوتی تھی۔ تاہم اب روس کے ترمیز شہر سے ازبکستان اور وہاں سے افغانستان سرحد پر واقع حیراتان پوسٹ کے ذریعے طورخم بارڈر پہنچ جاتی ہے۔
اس میں ایک فائدہ یہ ہو گا کہ چھوٹے صنعت کار بھی ضرورت کے مطابق ایل پی جی درآمد کریں گے جب کہ اس سے قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔ دوسری جانب پاکستان نے رواں ماہ میں اپنی ری فنانسنگ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک ارب ڈالرکا چینی قرض پیشگی ادا کردیا ہے، جس سے ایک بار پھر زرمبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے نیچے چلے گئے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کو قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان کو موجودہ مالی سال اور اگلے دو مالی برسوں میں بیرونی قرضوں کی مد میں بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
موجودہ مالی سال کے باقی مہینوں میں پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے تو اس سے زیادہ بڑا مسئلہ اگلے دو مالی سالوں میں پاکستان کے ذمے واجب الادا 50 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے جو ان دو سالوں میں پاکستان کو واپس کرنا ہے جن میں چین اور چینی کمرشل بینکوں کو واپس کیا جانے والا قرض بھی شامل ہے۔
پاکستانی معیشت کے ماہرین کے مطابق چین کی جانب سے قرضے کی واپسی میں سہولت یقینی طور پر پاکستان کے اقتصادی محاذ کو لاحق خطرات کو کم کر سکتی ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی بہت ضروری ہے۔
موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں پیرس کلب کے رکن ممالک کی جانب سے فراہم کیا جانے والے قرضے کا تناسب پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے میں بڑا تھا، تاہم گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین کی جانب سے دیا گیا قرضہ سب سے زیادہ ہے تو اس کے ساتھ چینی بینکوں کی جانب سے دیا گیا قرضہ بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
ماہرین معیشت کے مطابق چینی قرضے کے بڑھنے کی وجہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں انرجی اور انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں قرضے کی شکل میں چینی سرمایہ کاری ہے تو اس کے ساتھ پاکستان نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے بھی چینی کمرشل بینکوں سے قرضہ حاصل کیا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال چائنہ ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے منظورکیا جانے والا 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ ہے جو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے مطابق ملک کے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں مدد دے گا۔
آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق بجٹ کی تیاری اور اعلان کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بظاہر آسان نظر آتی ہے جس کے بعد نئے قرضے ملنا اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی آسان شرائط پر ممکن ہو جائے گی۔
اس لیے حکومت کو سات ہزار ارب روپے کے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے مقامی مہنگے قرضوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا جس سے مہنگائی میں قدرے کمی آئے گی۔آئی ایم ایف پروگرام کے بحال ہونے سے کاروباری برادری کا اعتماد بحال ہو گا۔
آئی ایم ایف سے تعاون کے حصول کے لیے حکومت کو اپنی مستقبل کی پالیسیاں بھی آئی ایم ایف کے اطمینان کے مطابق ہی بنانی ہونگی۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ہمیں اخراجات اور آمدن کے درست تخمینے اور بنیادی اقتصادی اصولوں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ ناکام سرکاری اداروں کی نجکاری اور بجلی وگیس کے شعبوں میں نقصانات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ہمیں ترقیاتی اور دیگر حکومتی اخراجات کے لیے کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینا ہونگے جس کا سارا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی مہنگائی کے سبب زندہ درگور ہو چکے ہیں۔
معیشت ہو یا سیاست یا پھر دیگر مسائل، ان تمام درپیش چیلنجز کے حل کے لیے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد پہلی شرط ہے۔ انتخابات کے بعد ہی سیاسی استحکام آئے گا اور منتخب حکومت معاشی حالات پر توجہ مرکوز کرسکتی ہے۔
آیندہ مالی سال کے بجٹ میں الیکشن کے لیے 42ارب روپے مختص کیے جاچکے ہیں، لہٰذا مقررہ وقت پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی دن الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے قائدین اس بات پر متفق ہیں کہ معیشت کی بہتری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرزکو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
خود وزیر اعظم شہباز شریف کئی بار میثاقِ معیشت کی پیش کرچکے ہیں۔ حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی معاشی استحکام کے لیے اہم مشورہ دیا۔
بظاہر ایک ہی چیز ہے جو فی الوقت بڑی سیاسی جماعتوں کو ہاتھ بڑھانے اور ہاتھ ملانے سے روک رہی ہے وہ ہے الیکشن۔ ہر سیاسی جماعت عام انتخابات میں خود کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے مگر وہ اس وجہ سے خوفزدہ ہے کہ کہیں کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے ان کا ووٹر یا عوامی رائے ان کے مخالف نہ ہوجائے۔ خدارا ملک کا سوچیں، ریاست کی بہتری پر توجہ دیں۔
قومی اقتصادی سروے کے ذریعے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شعبوں کی کارکردگی عوام کے سامنے آچکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت، سرمایہ کاری، امپورٹ اور ایکسپورٹ کا جو حال ہے لگتا نہیں ہے کہ یہ پاکستان کی رپورٹ ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ سیاسی دنگل اور انتشار کے باعث ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف بلیک میلنگ پر بھی ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے معیشت مزید پستی میں جارہی ہے۔ ملک کا خزانہ خالی ہے اور ملک کے اخراجات اتنے ہیں ہے کہ حساب لگانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
یہ صورتحال سیاسی لڑائی اور نفرتوں کو ختم کرنے کا تقاضا کررہی ہے، اگر اب بھی دیرکی گئی تو حالات بد سے بدتر ہوتے چلیں گے اور الیکشن میں جیتنے والی حکومت کے لیے اژدھا کی طرح اخراجات منہ کھولے ہوں گے لیکن اس وقت کی حکومت کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔
اتحادی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ڈانواں ڈول معیشت کو سہارا دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے لیکن حالات اتنے برے ہیں کہ ایک زخم بھرتے ہیں تو دوسرا رسنے لگتا ہے۔
حکومت لوگوں کو ذرایع آمدن ظاہر کیے بغیر بیرون ملک سے 1لاکھ ڈالر تک لانے کی اجازت دینے جارہی ہے جس سے امید ہے کہ اگلے مالی سال میں ڈالر کی قلت کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوسکے گا، اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو امید دلائی ہے کہ استحکام کا سفر شروع ہوچکا ہے جس سے شرح نمو بڑھے گی مگر ایک بات تو واضح ہے کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معاشی استحکام کا خواب بھی پورا نہیں ہوگا۔
بلاشبہ وفاقی حکومت نے ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حکومت نے ایل این جی کی اسپاٹ پروکیورمنٹ پر انحصار کم کرنے کے لیے مزید درآمدی معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ حویلی بہادر شاہ، بھکی، بلوکی اور تریموں جھنگ میں واقع چار آر ایل این جی پر مبنی پاور پلانٹس کو 700 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی کی ضرورت ہے۔
ڈسکوز کی نجکاری، پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کے خطرے کو کم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے۔
ایل پی جی پاکستان کے مختلف علاقوں میں بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہے۔ گھریلو استعمال کے علاوہ صنعتی شعبے میں بھی اس کا خاصا استعمال ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایل پی جی کی سالانہ طلب 14 لاکھ میٹرک ٹن تک ہے۔ اس 14 لاکھ میٹرک ٹن میں تقریباً آٹھ لاکھ 76 ہزار میٹرک ٹن پاکستان خود پیدا کرتا ہے جب کہ باقی ماندہ ضرورت کے لیے ایران سے بذریعہ تافتان بارڈر ایل پی جی درآمد کی جاتی ہے۔
روس سے ایل پی جی کی درآمد پاکستان میں توانائی کے بحران کے حل کے لیے بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں ایل پی جی کی طلب کا 40 فیصد پاکستان خود پیدا کرتا ہے جب کہ باقی ایل پی جی ترکمانستان، اور ایران سے درآمد کی جاتی ہے۔
پہلے پاک ایران تافتان بارڈر، گوادر (جس کو 250 بادر کہا جاتا ہے)، مند، پنجگور اور ترکمانستان سے چمن بارڈر کے ذریعے ایل پی جی درآمد کی جاتی ہے جب کہ اب طورخم بارڈر سے درآمد شروع ہو گئی ہے، جس طرح پورٹ قاسم پر ایک لیبارٹری لگی ہے جو گیس کی کوالٹی کو چیک کرتی ہے، اس طرح کی لیبارٹریاں سرحد پر بھی لگائی جانی چاہئیں تاکہ غیر معیاری گیس پاکستان نہ آئے۔ یہ ایل پی جی کے نجی سیکٹرز کے صنعت کار درآمد کر رہے ہیں۔
یہ ایک اچھا اقدام ہے اور حکومت نے نجی سیکٹرکی اتنی مدد کی ہے کہ پہلے طورخم بارڈر پر ایل پی جی کارگو نہیں آ رہی تھی لیکن اب اس کی اجازت مل گئی ہے اور مستقبل میں بھی مزید کنٹینرز آئیں گے۔
یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا روس سے آئی ایل پی جی سے قیمت میں کمی آ سکتی ہے؟ بلاشبہ قیمتوں میں اس سے کمی آ سکتی ہے بشرطیکہ حکومت نجی سیکٹر کو مزید سہولیات فراہم کرے۔ ترکمانستان، ازبکستان اور روس سے ایل پی جی درآمد کرنے پر باتیں گزشتہ تین مہینوں سے چل رہی تھیں اور اب طورخم بارڈر پر پہلی کھیپ پہنچ گئی ہے۔
پہلے قطر اور دیگر عرب ممالک سے ایل پی جی آتی تھی اور بلوچستان میں ایران سے اسمگل بھی ہوتی تھی جو بلوچستان میں استعمال ہوتی تھی۔ تاہم اب روس کے ترمیز شہر سے ازبکستان اور وہاں سے افغانستان سرحد پر واقع حیراتان پوسٹ کے ذریعے طورخم بارڈر پہنچ جاتی ہے۔
اس میں ایک فائدہ یہ ہو گا کہ چھوٹے صنعت کار بھی ضرورت کے مطابق ایل پی جی درآمد کریں گے جب کہ اس سے قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔ دوسری جانب پاکستان نے رواں ماہ میں اپنی ری فنانسنگ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک ارب ڈالرکا چینی قرض پیشگی ادا کردیا ہے، جس سے ایک بار پھر زرمبادلہ کے ذخائر تین ارب ڈالر سے نیچے چلے گئے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کو قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان کو موجودہ مالی سال اور اگلے دو مالی برسوں میں بیرونی قرضوں کی مد میں بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
موجودہ مالی سال کے باقی مہینوں میں پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے تو اس سے زیادہ بڑا مسئلہ اگلے دو مالی سالوں میں پاکستان کے ذمے واجب الادا 50 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے جو ان دو سالوں میں پاکستان کو واپس کرنا ہے جن میں چین اور چینی کمرشل بینکوں کو واپس کیا جانے والا قرض بھی شامل ہے۔
پاکستانی معیشت کے ماہرین کے مطابق چین کی جانب سے قرضے کی واپسی میں سہولت یقینی طور پر پاکستان کے اقتصادی محاذ کو لاحق خطرات کو کم کر سکتی ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی بہت ضروری ہے۔
موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں پیرس کلب کے رکن ممالک کی جانب سے فراہم کیا جانے والے قرضے کا تناسب پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے میں بڑا تھا، تاہم گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین کی جانب سے دیا گیا قرضہ سب سے زیادہ ہے تو اس کے ساتھ چینی بینکوں کی جانب سے دیا گیا قرضہ بھی بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
ماہرین معیشت کے مطابق چینی قرضے کے بڑھنے کی وجہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں انرجی اور انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں قرضے کی شکل میں چینی سرمایہ کاری ہے تو اس کے ساتھ پاکستان نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے بھی چینی کمرشل بینکوں سے قرضہ حاصل کیا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال چائنہ ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے منظورکیا جانے والا 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ ہے جو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے مطابق ملک کے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں مدد دے گا۔
آئی ایم ایف کی سفارشات کے مطابق بجٹ کی تیاری اور اعلان کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بظاہر آسان نظر آتی ہے جس کے بعد نئے قرضے ملنا اور پرانے قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی آسان شرائط پر ممکن ہو جائے گی۔
اس لیے حکومت کو سات ہزار ارب روپے کے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے مقامی مہنگے قرضوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا جس سے مہنگائی میں قدرے کمی آئے گی۔آئی ایم ایف پروگرام کے بحال ہونے سے کاروباری برادری کا اعتماد بحال ہو گا۔
آئی ایم ایف سے تعاون کے حصول کے لیے حکومت کو اپنی مستقبل کی پالیسیاں بھی آئی ایم ایف کے اطمینان کے مطابق ہی بنانی ہونگی۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ہمیں اخراجات اور آمدن کے درست تخمینے اور بنیادی اقتصادی اصولوں کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ ناکام سرکاری اداروں کی نجکاری اور بجلی وگیس کے شعبوں میں نقصانات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ہمیں ترقیاتی اور دیگر حکومتی اخراجات کے لیے کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینا ہونگے جس کا سارا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی مہنگائی کے سبب زندہ درگور ہو چکے ہیں۔
معیشت ہو یا سیاست یا پھر دیگر مسائل، ان تمام درپیش چیلنجز کے حل کے لیے ملک میں عام انتخابات کا انعقاد پہلی شرط ہے۔ انتخابات کے بعد ہی سیاسی استحکام آئے گا اور منتخب حکومت معاشی حالات پر توجہ مرکوز کرسکتی ہے۔
آیندہ مالی سال کے بجٹ میں الیکشن کے لیے 42ارب روپے مختص کیے جاچکے ہیں، لہٰذا مقررہ وقت پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی دن الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے قائدین اس بات پر متفق ہیں کہ معیشت کی بہتری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرزکو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
خود وزیر اعظم شہباز شریف کئی بار میثاقِ معیشت کی پیش کرچکے ہیں۔ حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی معاشی استحکام کے لیے اہم مشورہ دیا۔
بظاہر ایک ہی چیز ہے جو فی الوقت بڑی سیاسی جماعتوں کو ہاتھ بڑھانے اور ہاتھ ملانے سے روک رہی ہے وہ ہے الیکشن۔ ہر سیاسی جماعت عام انتخابات میں خود کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے مگر وہ اس وجہ سے خوفزدہ ہے کہ کہیں کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے ان کا ووٹر یا عوامی رائے ان کے مخالف نہ ہوجائے۔ خدارا ملک کا سوچیں، ریاست کی بہتری پر توجہ دیں۔
قومی اقتصادی سروے کے ذریعے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شعبوں کی کارکردگی عوام کے سامنے آچکی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت، سرمایہ کاری، امپورٹ اور ایکسپورٹ کا جو حال ہے لگتا نہیں ہے کہ یہ پاکستان کی رپورٹ ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ سیاسی دنگل اور انتشار کے باعث ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف بلیک میلنگ پر بھی ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے معیشت مزید پستی میں جارہی ہے۔ ملک کا خزانہ خالی ہے اور ملک کے اخراجات اتنے ہیں ہے کہ حساب لگانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
یہ صورتحال سیاسی لڑائی اور نفرتوں کو ختم کرنے کا تقاضا کررہی ہے، اگر اب بھی دیرکی گئی تو حالات بد سے بدتر ہوتے چلیں گے اور الیکشن میں جیتنے والی حکومت کے لیے اژدھا کی طرح اخراجات منہ کھولے ہوں گے لیکن اس وقت کی حکومت کے پاس کچھ نہیں ہوگا۔
اتحادی حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر ڈانواں ڈول معیشت کو سہارا دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے لیکن حالات اتنے برے ہیں کہ ایک زخم بھرتے ہیں تو دوسرا رسنے لگتا ہے۔
حکومت لوگوں کو ذرایع آمدن ظاہر کیے بغیر بیرون ملک سے 1لاکھ ڈالر تک لانے کی اجازت دینے جارہی ہے جس سے امید ہے کہ اگلے مالی سال میں ڈالر کی قلت کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوسکے گا، اگرچہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو امید دلائی ہے کہ استحکام کا سفر شروع ہوچکا ہے جس سے شرح نمو بڑھے گی مگر ایک بات تو واضح ہے کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا، معاشی استحکام کا خواب بھی پورا نہیں ہوگا۔