بس للکارنے کی دیر ہے
موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لوگوں کے پاس دو واضح راستے موجود ہیں ...
اگر خود آپ اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو اور کوئی چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی ۔ پکوڈیلہ میرانڈولہ (1396 تا1459) نے انسان پر اپنے اعتماد کا اظہار ان مشہور الفاظ میں کیا ہے جو اس نے اپنی کتاب ''انسان کی عظمت پر ایک خطبہ'' میں خدا سے منسوب کیے ہیں۔ پکوڈیلہ کے الفاظ میں خدا آدم سے مخاطب ہو کرکہتا ہے '' اے آدم میں نے تمہاری تقدیر نہ ہی پہلے سے طے کی ہے اور نہ ہی تمہیں خصوصی مراعات دی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم خود اپنے فیصلے اور انتخاب کے ذریعے یہ سب کچھ حاصل کرو، تمہارے سوا میری تمام مخلوقات میرے طے کردہ قوانین کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں۔
ان کی فطرت ہی یہ ہی ہے لیکن تم اپنی فطرت کا تعین کسی رکاوٹ کے بغیر اس آزادی کے ذریعے خود ہی کروگے۔ جو میں نے تمہیں عطا کی ہے میں نے تمہیں کائنا ت کے مر کز میں رکھ دیا ہے تا کہ اس مقام سے تم بہتر نظارہ کر سکو تم نہ ہی آسمانی مخلوق ہو نہ ہی محض اس دنیا کی۔ تم نہ فانی ہو اور نہ ہی لافانی یہ اس لیے ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار دستکار کی طرح تم اپنے آپ کو اپنی مر ضی کے سانچے میں ڈھال سکو ۔'' آج پاکستان کے حالات بدترین سطح سے بھی نیچے آ چکے ہیں اگر آج شاعر مشرق علامہ اقبال زندہ ہوتے تو ملک و قوم کی حالت زار دیکھ کر وہ ایک نہیں بلکہ ہزاروں شکو ے لکھتے۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو اپنی حالت زار پر خود رحم نہیں آ رہا آپ پاکستان کے لوگوں سے ملک کے حالات اور ان کے حالات زندگی پر زرا سوال کر کے دیکھیے ۔ تو آپ کو اپنی جان چھڑانا مشکل ہو جائے گی اور گھنٹوں بعد جب وہ اپنی بات ختم کر چکے ہوں تو آپ فوراً ان سے دوسرا سوال کر لیجیے کہ ان حالات سے نجات حاصل کرنے کے لیے آپ اپنا کردار کس طرح ادا کر رہے ہیں۔ تو آپ دیکھیں گے کہ ان حضرات کے پاس آپ کے سوال کا کوئی جواب بھی نہ ہو گا سوائے شر مندگی کے یہاں ایک بالکل ہی سید ھا سا دہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکا، فرانس، ایران، ویت نام، روس، چین اور دیگر تمام خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کے عوام ماضی میں اپنے اور ملکی حالات کے بارے میں یہ ہی رویہ اور جواز رکھتے جو آج پاکستان کے عوام نے رکھا ہوا ہے۔
توکیا وہ اپنے عذابوں سے نجات حاصل کر سکتے تھے کیا وہ انتہائی ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکتے تھے۔ ظاہر ہے آپ کاجواب نفی میں ہو گا اور یہ ہی وہ واحد نکتہ ہے جس کو پاکستان کے عوام نے سمجھنا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز نے کہا تھا میری نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنی ذہنی رحجان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کر سکتے ہیں ۔''
ساڑھے تین سو سال پہلے جب انگریزی کا غیر فانی شاعر ملٹن اندھا ہوا تھا تو اس نے بھی یہ ہی حقیقت معلوم کی تھی کہ ''ذہن خود ہی اپنا مقام بنا سکتا ہے جنت سے جہنم اور جہنم سے جنت ۔'' عظیم فلسفی اپیکٹیٹس متنبہ کرتا ہے کہ '' ہمیں اپنے جسم سے ورم، پھوڑے اور سولیاں دورکر نے کی نسبت اپنے ذہن سے غلط خیالات خارج کرنے کی زیادہ فکرو کوشش کرنی چاہیے۔ اپیکٹیٹس نے یہ الفاظ انیس صدیاں قبل کہے تھے لیکن جدید طب اب بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ ایک مشہور ادیب اپنی کتا ب لکھنے کے دوران شکاگو یونیورسٹی گئے اور چانسلر رابرٹ مینارڈ ہیوچنزسے پوچھا آپ پریشانیوں سے کیسے دور رہتے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا میں ہمیشہ اس چھوٹی سی نصیحت پر عمل کرنے کی کو شش کر تا ہوں جو مجھے سیزر روبک اینڈکمپنی کے سابق صدر جو لیس روزن والڈ نے کی تھی کہ '' اگر تمہیں نیبو ملا ہو تواس سے شربت بنا لو ۔''
ایک بڑے ماہر تعلیم کا تو یہ طریقہ تھا لیکن ایک بیوقوف اس کے برعکس کرتا ہے اگر وہ دیکھتا ہے کہ زندگی نے اسے کوئی نیبو دیا ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلانے لگتا ہے ہائے میں لٹ گیا پٹ گیا قسمت نے مجھے مار ڈالا مجھے کوئی موقع نہ ملا پھر وہ ساری دنیاکے خلاف شکایت کے دفتر کھول دیتا ہے اور خود ترسی کی لعنت میں گرفتار ہو جاتا ہے، لیکن جب عقل مند انسان کو نیبو ملتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس مصیبت سے کیا سبق سیکھ سکتا ہوں میں اپنی حالت کیسے سدھار سکتاہوں میں اس نیبو سے شر بت کیسے بنا سکتا ہوں۔ زندگی بھر انسانوں اور ان کی قوتوں کے پوشیدہ سر چشموں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا ''انسان میں ایک تعجب خیز خو بی یہ ہے کہ اس کے پاس منفی کو مثبت میں بدل دینے کی قوت ہے۔''
موجودہ صورتحال میں پاکستان کے لوگوں کے پاس دو واضح راستے موجود ہیں ایک تو وہ بے وقوفوں کی طرح اپنی قسمت کو کوستے رہیں چلاتے رہیں ہائے وہ لٹ گئے پٹ گئے قسمت نے انھیں مار ڈالا اور ساتھ ساتھ ساری دنیا کو برا بھلا کہتے رہیں۔ یقین رکھیے آپ کو اس طرح رونے ، کوسنے اور برا بھلا کہنے سے کوئی بھی نہیں روکے گا اور دوسرا راستہ عقل مندوں کاہے کہ آپ ایک لمحے ٹھہریں سو چیں ارادہ کریں اور اپنی قسمت اور نصیب کو بدلنے کی جدو جہد کا آغاز کر دیں۔ لٹیروں، چوروں، ڈاکوئوں کے سامنے صف آرا ہو جائیں ڈٹ جائیں انھیں صاف صاف بتا دیں کہ بس بہت ہو چکا اب کسی بھی صورت تمہاری یہ لوٹ مار، کرپشن، ڈاکا زنی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اب ہمیں اپنی بے اختیاری، اپنی غربت، اپنی ذلت، اپنی خواری، اپنی بے بسی، اپنی بیروزگاری سے نفر ت ہو گئی ہے۔ ملک کے تمام اختیارات اور وسائل کے ہم مالک ہیں لیکن ان پر تمہارا جبراً قبضہ اب ہم اور برداشت نہیں کریں گے اور اپنی اس آواز کے دیے سے دیا جلانا شروع کر دیں۔ پھر دیکھیں یہ چور، لٹیرے، زانی، بد کار، ڈاکو کس طرح تمہارے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور کس طرح اپنی زندگیوں کی بھیک تم سے مانگتے ہیں یاد رکھو عوام سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی اور نہیں ہے۔ بس تمہاری للکار کی دیر ہے ۔
تمہیں حضرت دائو د علیہ السلام اورگولائتھ کی لڑائی کا واقعہ تو یاد ہو گا گولائتھ ایک دیو نما شخص تھا ہر کوئی اس سے خوف کھاتا تھا ایک دن پندرہ سالہ چرواہا بچہ اپنے بھائیوں سے ملنے آیا اس بچے نے کہا تم اس دیو سے لڑنے کے لیے کیوں نہیں اٹھتے اس کے بھائی گولائتھ سے خو ف زدہ تھے۔انھوں نے کہا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اتنا لحیم شحیم ہے کہ اسے مارا نہیں جا سکتا حضرت دائود علیہ السلام نے کہا نہیں وہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ اسے مارا نہ جا سکے اس کے لحیم شحیم ہونے کا تو فائدہ یہ ہے کہ ہمار اکوئی وار خالی نہیں جا سکتا۔ اور یہ ہی ہوا حضرت دائو علیہ السلام نے اسے غلیل سے مار ڈالا ہمیں بھی ایک بے درد اشرافیہ کے دیو کا سامنا ہے اس کے لحیم شحیم ہونے کا ہمیں بھی یہ ہی فائدہ حاصل ہے کہ ہمارا کوئی بھی وار خالی نہیں جا سکتا ہے اور یقین ہی نہیں بلکہ ایمان ہے کہ ہم اس دیو کو غلیل سے ہی مار ڈالیں گے، بس ارادے کی دیر ہے ۔