سیاست نہیں ریاست بچاؤ

پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر سب سے بہترین راستہ یہی ہے کہ الیکشن کو ملتوی کیا جائے


[email protected]

موسم گرما کی حدت نے پورے ملک کا پارہ ہائی کررکھا ہے لیکن پاکستانی سیاست میں ایک سال سے جاری گرما گرمی بالکل ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔

ملکی سیاست نے غیر متوقع طور پر یوٹرن لے لیا ہے۔ نائن الیون ثانی یعنی 9 مئی سے پہلے چائے کی پیالی میں جو ''یوتھی طوفان'' برپا تھا وہ مکمل طور پر تھم چکا ہے۔

جو سیاسی رہنما آپے سے باہر، بلکہ کپڑوں سے باہر آنے کی کوشش کررہے تھے وہ اب ترلوں اور منتوں پر آچکے ہیں۔

سانحہ9مئی بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ثابت ہوا۔ یہ سیاہ دن سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستانی قوم کے لیے سب سے بڑے صدمے کا باعث بنا۔ کپتان کے ایماء پر اس کے ٹائیگرز اور ٹائیگرسزنے قوم کو رلایا لیکن مقتدر حلقوں نے جس صبر و تحمل کا عملی مظاہرہ کرنے کے بعد حملہ آوروں اور ان کے سرغنہ کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ٹھانی اس سے قوم کے حوصلے بلند ہوئے۔

اس قومی سانحہ میں جو کوئی بھی ملوث ہے 'وہ چاہے کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اسے کیفرکردار تک پہنچایا جائے، ان کا مکمل صفایا ہمارے مقتدر اداروں پر فرض کے ساتھ دھرتی ماں کا قرض بھی ہے مگر خیال رکھا جائے کہ کوئی بے گناہ نہ پھنس جائے۔

آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر نے سانحہ 9مئی میں ملوث ملزموں اور ان کے ماسٹر مائنڈ کو انجام تک پہنچانے کا جو عزم کیا ہے قوم ان کے ساتھ ہے۔

خود غرض و مفاد پرست کپتان نے ملک و قوم کو نہ صرف اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھایا بلکہ اپنی ہی پارٹی کی خواتین ورکرز کی عزت و ناموس کا بھی لحاظ نہیں کیا۔

ہر غیرت مند خاتون اور ان کے خاندان کے پاس عزت و ناموس ہر شے سے بڑھ کر ہوتی ہے، اگر وہ پامال ہو جائے تو عورت معاشرے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان میں بھی کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتی۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں گرفتار پی ٹی آئی کی خواتین سے متعلق یہ غلیظ پروپیگنڈا شروع کیا کہ دوران حراست انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس طرح کے گرے ہوئے الزامات صرف پی ٹی آئی چیئرمین ہی لگا سکتا ہے تاکہ کسی بھی طرح اپنی سیاست کو زندہ رکھے۔

تحریک انصاف کی گرفتار خواتین کارکنان نے عدالت میں پیشی پر اپنے چیئرمین کے الزامات کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا کہ جیل میں ان ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی، بس ہمیں جیل میں رکھنا ہی زیادتی ہے۔ کپتان نے ان خواتین کے بارے میں جو گھٹیا پروپیگنڈا شروع کیا' اس پر بھی کپتان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

ایسے ہی الزامات وہ پہلے پی ٹی آئی کے گرفتار ہونے والے مرد رہنماؤں کے متعلق بھی لگاتے رہے، یہاں تک کہ 70 سالہ اعظم سواتی کی عمر کا بھی لحاظ نہیں کیا۔

سیاسی رہنما اور ورکر تو ہر پارٹی کے گرفتار ہوتے رہے ہیں مگر ملکی تاریخ میں کسی لیڈر نے جنسی زیادتی کا الزام نہیں لگایا۔ اس کے پیچھے صرف ملک اور ملکی اداروں کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کے مقصد کے سوا کچھ نہیں۔

تحریک انصاف کے ''پریس کانفرنس گروپ'' کے جن ارکان نے پارٹی چھوڑی ہے' اس کی ایک وجہ کپتان کا یہ طریقہ واردات بھی ہے' سانحہ 9مئی سے پہلے جس جماعت کو وفاق کی اکلوتی اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کہا جاتا تھا' آج اس کا ٹکٹ لینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے آیندہ ملکی سیاست میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جن بدترین معاشی و اقتصادی حالات کا شکار ہے، دہشت گردی کی جس لہر کا مقابلہ کررہا ہے، ایسے حالات میں الیکشن مسائل کا حل ہوسکتے ہیں یا مزید مسائل کا باعث ہوں گے؟

پاکستان کے سنجیدہ طبقات، سیاسی و اقتصادی امور کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید بڑھیں گے۔

یہ بات سب سے پہلے پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہی تھی، انھوں نے موجودہ اسمبلیوں کی مدت ایک سال بڑھانے کی تجویز سب سے پہلے دی تھی، اب حکومتی اتحاد میں شامل اکثر پارٹیوں کی جانب سے بھی یہ مطالبہ آرہا ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر سب سے بہترین راستہ یہی ہے کہ الیکشن کو ملتوی کیا جائے، چاہے اس کے لیے قانون سازی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اگر موجودہ اسمبلی کی مدت میں توسیع کے لیے کوئی آئینی قدغن نہیں تو یہ کام ضرور ہونا چاہیے ورنہ پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کو ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں ٹیکنوکریٹس یا قومی عبوری حکومت پر اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے۔

تاکہ اس ملک کو دوبارہ پٹری پر لاکھڑا کریں جسے سابق وزیراعظم نے اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔

اس پلان پر شاید مسلم لیگ نون، جے یو آئی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر کئی جماعتیں مان جائیں لیکن سانحہ9مئی سے پہلے فوری انتخابات کا جو مطالبہ پہلے صرف سابق وزیراعظم کی زبان پر تھا اب وہی مطالبہ بلاول کے ابو کی زبان پر مچل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی شاید کسی اور ہی مار پر دکھائی دے رہی ہے۔

ہم نے پہلے بھی کئی بار اسی کالم میں یہ بات لکھی تھی کہ ایک زرداری اب دو دھاری تلوار بن چکا ہے'وہ اگلا الیکشن جیتنے کے لیے اپنے حریفوں ہی حلیفوں کی پرواہ نہیں کر رہے' پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ ہے لیکن وہ فرماتے ہیں ہم پی ڈی ایم کا حصہ نہیں، ہم تو اس کے ساتھ صرف مل کر چل رہے ہیں۔

یہ بات انھوں نے چند روز قبل وہاڑی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی تھی۔ اسی نشست میں انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ سیاسی ماحول بنے گا تب سیاسی فیصلے ہوں گے اور امید ہے الیکشن وقت مقررہ پر ہی ہوں گے۔ پھر ایک جگہ کسی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ الیکشن کب ہوں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ جب ہم چاہیں گے الیکشن تب ہوں گے۔

لگتا ہے کہ اب زرداری پی ڈی ایم پر واقعی بھاری ثابت ہو رہے ہیں۔ آصف علی زرداری نے نہایت ہوشیاری سے مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کو استعمال کیا ہے۔

پی ڈی ایم حکومت کے غیر مقبول فیصلوں کا سارے کا سارا ملبہ نون لیگ اور جے یو آئی پر آن پڑا ہے، اس لیے نون لیگ اور جے یو آئی سمیت مخلوط حکومت کے تمام پارٹیاں ملکی معاشی حالت اور ہوشربا مہنگائی سے پریشان ہیں اور کوشش میں ہیں کہ حالات سدھار کر الیکشن میں جائیں مگر پیپلز پارٹی الیکشن میں جانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔

، وہ الیکشن کو ملتوی کرنے کے حق میں نہیں ہے، آزاد کشمیر کے ضمنی الیکشن کے رزلٹ نے ان کے حوصلے بلند کردیے ہیں جہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے نون لیگ کے امیدوار مشتاق منہاس کو شکست دی، یہ سیٹ تحریک انصاف کے آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم کی نا اہلی کے بعد خالی ہوئی تھی، پی ٹی آئی کے امیدوار کی اپنی ہی سیٹ پر ضمانت ضبط ہوگئی۔

ان کے خیال میں یہ آیندہ کے عام انتخابات کی ایک جھلک ہے اگر وقت مقررہ پر الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی پہلے نمبر پر آئے گی نون لیگ دوسری پوزیشن پر ہوگی، جے یو آئی خیبر پختونخوا میں پہلے اور بلوچستان میں بہت مضبوط پوزیشن میں ہوگی۔

لیکن معاشی ابتری کو سنبھالنے سے پہلے الیکشن کی صورت میں نقصان ملک و قوم اور ریاست کا ہوگا کیونکہ ان حالات میں بہتری لانا الیکشن کے بعد آنے والی کسی بھی سیاسی حکومت کے بس کی بات نہیں ہوگی، اس سے ملک مزید دلدل میں دھنس جائے گا۔

اگرچہ لمحہ موجود میں آصف زرداری جنوبی پنجاب میں بھی اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کے مشن پر کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔

اور استحکام پاکستان پارٹی سے بھی امیدیں وابستہ کی ہیں مگر لگتا یہ کہ اس پارٹی کا فائدہ پنجاب میں مسلم لیگ نون کو ملے گا۔ مقتدر حلقوں اور پیپلز پارٹی کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

اپنی تھوڑے سے مفاد کی خاطر ملک کو تباہی کی طرف مزید دھکیلنا سب کے نقصان کا باعث ہوگا ہمیں یہ بات سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے یہ سیاست کو نہیں ریاست کو بچانے کا وقت ہے۔ اللہ کریم اس ملک کی سیاسی قیادت کو بہتر فیصلے کرنے کی توفیق دے۔( آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔