ضمیر اقتدار میں کیوں نہیں جاگتے
دونوں پارٹیوں میں شامل رہنماؤں کو اگلی باری ملنے کا مکمل یقین ہوتا تھا
پاکستان استحکام پارٹی میں شامل ہونے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور نئی پارٹی میں شامل ہونے والے لوگوں کا تعلق سابق حکمران پارٹی سے ہے جس کا اقتدار تقریباً سوا سال قبل ختم ہوا تھا، جس کا خاتمہ غیر آئینی نہیں مکمل آئینی تھا اور ملک میں پہلی بار ایک تحریک اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ایک اتحادی حکومت وجود میں آئی تھی مگر سابق وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے خاتمے پر ایک سازش کا بیانیہ بنایا جو انتہائی کامیاب رہا اور وہ خود کو مظلوم ثابت کرتے رہے اور ملک کے عوام ان کے اقتدار میں ہونے والے انتقامی اقدامات اور ان تمام دعوؤں کو بھولنے لگے جن میں ان سے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کے وعدے بھی شامل تھے۔
سابق وزیر اعظم کے کامیاب بیانیے نے نہ صرف ان کی پارٹی کو مستحکم رکھا بلکہ اتحادی حکومت سے مایوس رہنما بھی حقائق نظرانداز کر کے سابق حکمران جماعت میں شامل ہوتے رہے کہ انتخابات میں وہی کامیاب ہو کر حکومت بنا لے گی جب کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ جس پارٹی کی حکومت کو ہٹایا گیا ہو چند ماہ بعد وہ ہی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی ہو۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) واقعی باریاں لے کر اقتدار میں آتی رہیں مگر انھیں کبھی جلد اور کبھی سالوں انتظار کے بعد دوبارہ اقتدار ملا اور دونوں پارٹیوں نے صرف ایک ایک بار ہی اپنی 5 سالہ مدت مکمل کی۔
دونوں پارٹیوں میں شامل رہنماؤں کو اگلی باری ملنے کا مکمل یقین ہوتا تھا، اس لیے ان میں زیادہ ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوتی تھی اور دونوں پارٹیوں میں نظریاتی رہنما شامل رہتے تھے اور اب بھی دونوں سابق حکمران پارٹیوں میں ایسے رہنما شامل ہیں جنھوں نے اقتدار سے محرومی کے بعد بھی اپنی پارٹی نہیں چھوڑی اور انھیں وزارتیں بھی دوبارہ ملیں۔
سابق حکمران پارٹی میں نظریاتی رہنما کم اور برساتی موقع پرست اور مفاد پرست زیادہ تھے جو اپنی پرانی پارٹیوں کو چھوڑ کر آئے تھے۔ ایسے رہنماؤں میں باضمیر اور اصول پرست تو بہت ہی کم ہوتے ہیں اس لیے وہ پارٹی کے اقتدار کے خاتمے اور پارٹی پر برا وقت آنے پر اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ہیں جس کے اقتدار میں آنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
یہی سابق حکمران پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا جس کے موقع پرست پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی امید میں منتظر رہے اور حالات بھی ایسے صاف نظر آرہے تھے کہ جلد انتخابات اسے دوبارہ اقتدار میں لے آئیں گے اس لیے ان کے قائد ہی نہیں بلکہ وہ رہنما خود بھی ضرورت سے زیادہ بلند و بانگ دعوے کرتے رہے۔
سابق حکمران جماعت کے اکثر دعوے جھوٹے تھے مگر آج کی سیاست اس مقام پر آگئی ہے کہ جتنا جھوٹ بولو گے اور گمراہ کن پروپیگنڈا کروگے اتنے ہی کامیاب رہو گے۔
سابق حکمران جماعت میں جھوٹ اس کامیابی سے بولا گیا کہ وہ سچ لگتا اور سچ جھوٹوں میں دب کر رہ گیا۔سابق حکمران جماعت کے دور میں یہ ریکارڈ ضرور قائم ہوا اور احتساب کے نام پر (ن) لیگ اور پی پی کی قیادت سمیت تمام رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور نیب کو استعمال کرکے ایسے مقدمات بنوائے گئے جن کے ثبوت عدالتوں میں پیش نہیں کیے گئے اور حکومت کی مرضی کے خلاف تمام مخالف رہنما چھوٹ گئے اور ان کی عدالتوں سے ضمانتیں منظور ہوگئیں۔
سابق حکمران جماعت کی قیادت اور رہنما پورے 13 ماہ مطمئن اور پرامید رہے کہ وہ جلد ہی دوبارہ اقتدار میں آجائیں گے۔ جلد اقتدار کے لیے انھوں نے قومی اسمبلی چھوڑی اور اپنی پنجاب و کے پی کی اسمبلیاں توڑ کر اپنے پیروں پر خود کلہاڑا مارا جس کی ماضی میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔
قیادت کی اقتدار کے لیے جلد بازی، انتہائی گمراہ کن تقاریر اور الزامات جاری رہے مگر پارٹی کے کسی رہنما کا ضمیر نہ جاگا کہ وہ اپنے چیئرمین کو حد اور اعتدال میں رہنے کا مشورہ ہی دیتے مگر وہ اشتعال انگیز صورتحال پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ آگ بھڑکانے کے لیے ایسی نعرے بازی اور تقاریر کرتے رہے کہ 9 مئی کا سانحہ رونما ہوا نہیں بلکہ قیادت نے خود کرایا جس سے ایسی آگ بھڑکائی گئی جو ہمارا دشمن بھارت چاہتا تھا۔
قیادت اور رہنماؤں کا خیال تھا کہ 9 مئی کے واقعات پر اقتدار ان کی گود میں آ گرے گا مگر معاملہ الٹا ہو گیا اور 9 مئی پر چند رہنماؤں کی گرفتاری سے ہی چوری کھانے والے مجنوؤں کا ضمیر اچانک اس لیے جاگ گیا کہ 9 مئی ان کی قیادت کے باعث الٹا گلے پڑ گیا جس نے حصول اقتدار کی خواہش ہی ختم نہیں کی بلکہ اپنے گھروں میں رہنا ہی مشکل ہو گیا۔
چند اہم رہنماؤں کی گرفتاری کیا عمل میں آئی قید کی سختی اور موسم نے اقتدار ملنے کے سہانے خواب ہی بھلا دیے اور مفاد پرستوں کا ضمیر انھوں نے خود ہی جگا لیا اور انھیں اپنی قیادت میں برائیاں نظر آگئیں جس کے نتیجے میں کسی نے سیاست چھوڑی، کسی نے بریک لیا، باہر آنے کے لیے انھوں نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی ان سے توقع ہی نہ تھی۔
حالات کی اشتعال انگیزی اور حقائق سب عیاں تھے مگر کسی کو بھی 9 مئی سے پہلے سچ بولنے کی جرأت نہ تھی کیونکہ اقتدار کے مزے لینے والوں کی آنکھیں بند اور ضمیر سویا ہوا تھا جو 9 مئی سے جاگ گیا۔
یہ اگر واقعی باضمیر ہوتے تو حالات کا ادراک کرکے قیادت کو سمجھاتے، ملکی حالات ان کے علم میں تھے چند ماہ کے صبر کا مشورہ کسی نے نہ دیا۔ سب یس سر، یس سر کرتے رہے اور آگ لگانے میں مصروف رہے اور کسی نے دور اندیشی دکھائی نہ محسنوں کا احسان مانا۔ اگر ان کے ضمیر پہلے جاگ جاتے تو 9مئی سے بچا جاسکتا تھا اور نئی پارٹی میں سر چھپانے کی نوبت ہی نہ آتی۔