کیا دو گے

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم نے اپنے دوسرے حلیف امریکی صدر کو مشورہ دیا...


Jabbar Jaffer April 30, 2014

ایک شخص چلچلاتی دھوپ میں کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔ دوسرا شخص جو شیڈ میں بیٹھا ہوا تھا اس سے رہا نہیں گیا۔ آواز دی ''بھائی صاحب! کب سے دھوپ میں کھڑے بس کا انتظار کر رہے ہو، شیڈ میں آ کر بیٹھ جائیے۔ بس آنے میں کافی دیر ہے'' دھوپ میں کھڑے ہوئے شخص نے اس کو گھور کر دیکھا اور پوچھا ''کیا دو گے؟''

ایسے ملک کے خزانے میں اگر پورے ڈیڑھ ارب ڈالر جمع ہو جائیں تو اٹھارہ کروڑ کنگلے عوام کی چیخیں تو نکلیں گی جو بیرونی سودی قرضے ادا کرتے کرتے اب اس حال کو پہنچ گئے کہ مقروض بچے پیدا کر رہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہیں آخر ''کس نے دیے ہیں یہ ڈیڑھ ارب ڈالر؟ کہاں سے آئے ہیں یہ ڈیڑھ ارب ڈالر؟ اور تو اور موجودہ حزب اختلاف سابقہ حزب اقتدار جو اپنے دور میں اربوں ڈالر کے قرضے ہضم کر چکی ہے وہ بھی کھٹی ڈکاریں لے رہی ہے کہ ''کیا کہہ رہے ہیں یہ ڈیڑھ کروڑ ڈالر؟ حالانکہ اگر کوئی شخص بینک سے ایک لاکھ قرضہ لیتا ہے تو یہ اس کا مسئلہ بن جاتا ہے لیکن اگر ایک کروڑ قرضہ لینے میں کامیاب ہو جائے تو یہ بینک کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہاں تو ڈیڑھ ارب کا سوال ہے اور وہ بھی ڈالر کا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سوال کا کیا جواب ہے۔

1۔ پاکستان میں ایک خلیجی ریاست نے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین حاصل کی ہے۔ کیا یہ اس کا بیعانہ یا قیمت ہے؟

2۔کیا ریمنڈ ڈیوس کی طرح کسی کو باہر جانے دینے کا خون بہا ہے (رہنما JUI)۔

3۔کیا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے ٹھپ ہونے پر ایران کو ادا کرنے کا جرمانہ ہے؟ (رہنما JUI)۔

4۔کیا شام میں لڑنے کے لیے کرایے کے فوجی چاہئیں؟

5۔کیا خلیجی ریاستوں کو بیرونی جارحیت سے نمٹنے اور اپنی فوج تیار کرنے کے لیے پاکستانی تعاون چاہیے؟

6۔وہ قیاس آرائیاں جس کی تردید نہیں ہوئی وہ یہ ہیں۔

اگرچہ پاکستانی حکومت نے بڑے پرجوش انداز میں یقین دلایا ہے کہ 1۔ ڈیڑھ ارب ڈالر ایک دوست ملک کا تحفہ ہے۔ 2۔ پاکستانی فوج کرایے پر استعمال نہیں ہو گی۔ 3۔ اور پاکستانی اسلحہ کسی دوسری حکومت کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔ لیکن عوام مطمئن نہیں ہیں کیونکہ پچھلے دنوں جب خلیج کے ایک امیر پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو حکومت نے شام میں عبوری حکومت کی حمایت کی تھی، جس پر بڑا شور مچا تھا کہ پاکستان نے جانبداری کا اظہار کیوں کیا؟ جس کی فوری تردید کر دی گئی۔

اکیسویں صدی میں گلوبل ولیج میں آبرومندانہ زندگی گزارنے کا واحد فارمولا یہ ہے کہ ''دوستی سب سے، دشمنی کسی سے نہیں'' مثلاً پاکستان نے امریکی کیمپ میں ہونے کے باوجود بین الاقوامی دفاعی معاہدوں میں شامل ہوتے ہوئے امریکا کے دشمن نمبر 1 اور پاکستان کے پڑوسی چین سے ڈنکے کی چوٹ پر دوستی جاری رکھی۔ اس کو اقوام متحدہ میں نشست دلوانے کے لیے لابنگ کی اور کامیاب ہوا آخر کار چین نے امریکا میں مفاہمت کرانے میں پل کا کردار بھی ادا کیا۔ اس کے علاوہ وہ کون سے بین الاقوامی معاہدے ایسے تھے جس میں پاکستان اور ایران کے نام ساتھ ساتھ نہیں ہوتے تھے (مثلاً سیٹو، سینٹو، RCD، بغداد پیکٹ وغیرہ) اس کے باوجود سعودی عرب سے محبت، عقیدت اور احترام کے رشتے میں کبھی بال نہیں آیا۔

1973ء کی پاکستان میں منعقد کی گئی اسلامی سربراہ کانفرنس کے روح رواں شاہ فیصل تھے۔ اسلامی ممالک کے سربراہان کے علاوہ آزادی فلسطین، عرب لیگ، موتمر اسلامی، رابطہ اسلامی کے وفود بھی شامل تھے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ اس وقت امریکا کا خلیج کے تیل پر سو فی صد انحصار تھا۔ اس خطے کے ممالک میں تصادم امریکی مفاد کے خلاف تھا۔ آج امریکا کا خلیج کے تیل پر انحصار ستر فی صد ہے یعنی آنکھیں پھیرتے مناسب موقع اور آنکھیں دکھاتے موزوں وقت ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر برطانوی وزیر اعظم نے اپنے دوسرے حلیف امریکی صدر کو مشورہ دیا کہ یہ مناسب وقت ہے اپنے تیسرے حلیف روس کا تیا پانچہ کر دو۔ یہ ہٹلر کی فوجوں سے دوبدو جنگ کے سبب ادھ موا ہو چکا ہے ورنہ یہ آگے چل کر ہمارے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ امریکی صدر حیران رہ گئے اور انکار کر دیا۔

افغانستان میں سپر پاور روس کی شکست میں سعودی سرمایہ، امریکی اسلحہ، مجاہدین کی بے جگری اور پاکستان کی سخت گوریلا تربیت اور بے داغ منصوبہ بندی کا ہاتھ تھا۔ اس کے فوری بعد امریکا نے دنیا کو یہ یقین دلانا شروع کر دیا کہ کمیونسٹ دہریوںکو شکست دینے والے بنیاد پرست مجاہدین کمیونسٹوں سے زیادہ خطرناک نہیں۔ 1۔ دنیا اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لے سکتی جب تک کہ ان کا قلع قمع نہیں ہو جاتا۔ 2۔ پاکستان کے شمال مشرقی علاقے دہشت گردوں کی جنگ بن چکے ہیں جہاں خودکش بمباروں کی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ 3۔ پاکستان کا ایٹمی اسلحہ غیر محفوظ ہے یہ کسی وقت بھی ان دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو ساری دنیا سولی پر لٹک جائے گی وغیرہ، اس کے بعد بین الاقوامی میڈیا میں وہ دھواں دھار خدائی خوار پروپیگنڈہ شروع ہوا کہ دنیا تو دنیا خود پاکستان نے بھی اس کو من و عن تسلیم کر لیا کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کی ایک سے ایک بھیانک واردات ہونے لگی تھی۔ اس کو سمجھنے کے لیے ان دنوں اخبار میں چھپا ہوا ایک واقعہ پڑھیے۔ (جو لطیفہ نہیں ہے) پنڈی میں لاری اڈے پر ایک چیکر میٹل ڈی ٹیکٹر سے مسافروں کی تلاشی لے کر بس میں سوار کر رہا تھا۔ ایک مولانا اپنی دھن میں مگن چیکر کے پیچھے سے جا کر بس میں چڑھ گئے۔

تلاشی دیتے ہوئے ایک مسافر نے چیکر کو آہستہ سے بتا دیا کہ ایک مشکوک مولانا بس میں سوار ہو چکے ہیں۔ چیکر ہڑبڑا کر بس میں گھس گیا اور مولانا کے سر پر پہنچ گیا اور بدتمیزی سے مطالبہ کیا کہ کھڑے ہو جائیں اور فوراً تلاشی دیں۔ احترام کے عادی مولانا بگڑ گئے اور صاف انکار کر دیا کہ وہ تلاشی نہیں دیں گے۔ بس کے مسافر گھبرا کر آہستہ آہستہ دروازے کی طرف کھسکنے لگے۔ چند مسافروں نے ہمت کر کے مولانا کو سمجھایا جو طیش کے عالم میں تلاشی دینے کے لیے کھڑے ہو گئے اور فلک شگاف نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند کیا۔ پھر کیا تھا بس میں بھگدڑ مچ گئی اور کئی مسافروں نے بدحواسی میں بس کی کھڑکیوں سے باہر چھلانگ لگا دی۔

9/11 کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا افتتاح ہوا۔ پاکستان کے سدا بہار سوال ''کیا دوگے؟'' کا معقول جواب دے کر امریکا نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا حلیف بنا لیا۔ آج امریکا گیارہ سال بعد واپسی کے لیے رخت سفر باندھے افغانستان کی دہلیز پر بیٹھا سڑک پر پیر رکھنے سے ڈر رہا ہے جن سایوں کے تعاقب میں ایک عشرہ بھٹکتا رہا وہ سایے اب بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ ہر دیوار، ہر درخت کے پیچھے سرسرا رہے ہیں۔

جوائنٹ فیملی سسٹم میں ''پھوٹ'' کا سب سے بڑا سبب بچگانہ لڑائی میں بڑوں کا شامل ہونا ہے۔ اگر ماضی میں بحرین کا واقعہ صحیح تھا تو آج شام میں جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ غلط کیسے ہوا؟ امت مسلمہ کا مفاد اس میں ہے کہ یہ تسلیم کر لیا جائے کہ جو ماضی میں ہو چکا وہ بھی غلط تھا اور جو آج ہونے جا رہا ہے وہ بھی۔ اختلافات عرب و عجم کی صدیوں سے جاری مسابقت کی حد تک رہیں تو بہتر ہے وہ دشمنی میں نہ ڈھلیں۔ اس وقت امت مسلمہ کا گمبھیر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ایسی قدآور شخصیت جو معتدل مزاج، غیر متنازعہ، سب کے لیے قابل احترام مذہبی یا سیاسی شخصیت مسلمانوں کی باقی نہیں رہی۔ بڑے منظم انداز میں ایک ایک کر کے چن چن کر قتل کیا جا چکا ہے۔ یہ سلسلہ اسلامی کانفرنس کے بعد شاہ فیصل سے شروع ہوا تھا۔ اس وقت ستاون (57) مسلم ممالک کے سربراہوں اور سوا ارب مسلمانوں میں کوئی ایسا عالم دین نظر نہیں آتا جو دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان صلح کرا دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں