یومِ محنت کش

کشمکش اور لڑائی کی فضا ختم ہوئی، محنت کشوں سے معاملات طے ہونے سے ملکی صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا...



یکم مئی 1886کو امریکا کے شہر شکاگو میں مزدوروں نے اپنے حقو ق کے حصول کے لیے آواز بلند کی تھی۔ وہ اوقات کارکا تعین چاہتے تھے اور اپنے حقوق و مراعات کے لیے جائز جدوجہد پر عمل پیرا تھے لیکن سر مایہ داروں اور حکومت نے ان پر تشدد کیا ۔گولی چلادی اور محنت کشوں کا خون ہوا۔ یہ جدوجہد کی ابتدا ء تھی لیکن اب انہوں نے اپنے حقوق منوالیے ہیں ۔ اگرچہ یہ جدوجہد ختم نہیں ہوئی لیکن اب وہ غلام اور محکوم نہیں رہے بلکہ انہیں ایک ذمے دار اور باعزت فریق کا درجہ حاصل ہے ۔

وطن عزیز میں سرمایہ داروں سے محنت کشوں کی کشمکش شروع سے جاری ہے۔ کیونکہ یہ دواہم فریق ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اہم ترین شے ہوتی ہے ''زیادہ سے زیادہ منافع کمانا''۔ اس میں انسانوں کی وقعت نہیں ہوتی ، دوسروں کے حقو ق کا لحاظ نہیں ہوتا ، تماتر توجہ منافع پر ہوتی ہے۔

لیکن اب بدلتی دنیا کے تقاضوں کے تحت محنت کشوں کی اہمیت کو سمجھ لیا گیا ہے ۔ معاملات میز پرطے کیے جاتے ہیں ، محنت کشوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے ہوتے ہیں ۔ باہمی مذاکرات اور اتفاق رائے سے امور طے کر لیے جاتے ہیں اور ٹکرائو کی فضا ختم ہوجاتی ہے۔ہمارے ملک میں محنت کش طبقہ پس رہا تھا ، مظلوم تھا لیکن جب پاکستا ن پیپلز پارٹی کی تشکیل ہوئی تو اس کے بانی چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے منشور میں کہا کہ ہم عوام میں حاکمیت قائم کریں گے ، لوٹ کھسوٹ کا نظام ختم کریں گے محنت کشوں کی بالادستی ہوگی ۔ وطن پاک کے محنت کشوں نے اُ ن کی آواز پر لبیک کہا اور محنت کش ، غریب ہاری، کسان ، صحافی ، ادیب ، دانشور ، اساتذہ ، خواتین، طلبہ اس جدوجہد میں شامل ہوئے ، پڑھے لکھے طبقے نے فخر یہ طور پر خود کو قلم کا مزدور کہااور محنت کش ہونے پر فخر کیا ۔

چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں محنت کشوں کے فائدے اور ان کے حقو ق تسلیم کرانے کے لئے اصلاحات کی گئیں اور انہیں قانونی شکل دی گئی ، یکم مئی کو عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ۔ محنت کشوں کے لیے پنشن مقرر کی گئی ۔ انہیں کارخانوں کی ملکیت میں حصے دار بنایا گیا ۔ مزدوروں کو منافعے میں حصے دار بنا یا گیا ۔ یونین سازی کے حق کو تسلیم کیا گیا ۔ ان کے علاج معالجے ، ان کے بچوں کی تعلیم و صحت پرخصوصی توجہ دی گئی ، مفت تعلیم ، علاج اور رہائش کے لئے اقدامات کئے گئے۔ وزارت محنت کے تحت ان کے مفادات کے لئے کاوشیں ہوئیں اور مزدوروں کا سر فخر سے بلند ہوا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے مزدوروں سے اپنا وعدہ نبھایا اور محنت کشوں نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی پر اپنے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا۔

کشمکش اور لڑائی کی فضا ختم ہوئی، محنت کشوں سے معاملات طے ہونے سے ملکی صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوا، محنت کشوں میں خوشحالی آئی ۔ پاسپورٹ کی سہولت دی گئی اور محنت کش سعودی عرب، دبئی اور دیگر ممالک گئے اور کماکر وطن عزیز میں زرمبادلہ بھیجا جس سے قومی خزانے میں استحکام ہوا۔ یہ سنہری دور تھا جو آمریت اور رجعت پسندوں کو ایک آنکھ نہ بھایا ، فوجی آمریت اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت اور سازشوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور ایک بار پھر غیر یقینی کو فضا قائم ہوئی۔ شہید محترم بے نظیر بھٹو کے دو ادوار میں محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کئی گئے لیکن انہیں اپنا عرصۂ حکومت پورا نہیں کرنے دیا گیا اور شہید کر کے محنت کشوں کو پھر تذیذب اور غیر یقینی کی فضا میں بے دست و پا چھوڑ دیا گیا۔

محترمہ کی شہادت کے بعد جناب آصف علی زرداری نے بحیثیت صدرِ مملکت محنت کش حقوق کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کیے اور جمہوریت کو مستحکم کیا آج وزیر اعظم نوازشریف اور پاکستان کے پانچوں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ محنت کشوں کی فلاح کے لئے اسکیمیں بنا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین جنا ب بلاول بھٹو زرداری بھی محنت کشوں کو اصلِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق سہولیات کی فراہمی کے لئے کوشاں ہیں اور انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیبر ڈویژن کو بھی ہدایات دی ہیں کے محنت کشوں کے معاشی استحکام اور انہیں سہولیات کی فراہمی کے لئے تجاویز مرتب کی جائیں اور پولیسیز وضح کی جائیں ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش صفیں درست کر یں اور عوامی حاکمیت کے قیام کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیںجو محنت کش حقوق کے لیے کوشاں ہے۔

(مضمون نگارصوبائی وزیر برائے ایگریکلچر، بیورو آف سپلائی اینڈ کرائسز ہیں۔)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔