اسپتالوں کے فضلے سے پلاسٹک کے برتنکھلونے بنائے جانے کا انکشاف
میڈیکل ویسٹ کا غلط استعمال انسانی صحت اورماحول کے لیے خطرناک ہے، ماہرین
اسپتالوں کے فضلے ( میڈیکل ویسٹ ) سے پلاسٹک کے برتن، کھلونے بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ طبی فضلے کا غلط استعمال انسانی صحت اور ماحول دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہورہا ہے۔
لاہورکی مارکیٹوں میں پلاسٹک کے رنگ برنگے برتن،کھلونے اورڈیکوریشن کے سامان عام فروخت ہوتا ہے ۔ کم قیمت ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ یہ سامان خریدتے ہیں خاص طور پر کھانے کے چھوٹے اسٹالوں اورہوٹلوں میں پلاسٹک کے گلاس اورجگ استعمال کیے جاتے ہیں لیکن ان کو استعمال کرنے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ یہ پلاسٹک کے برتن اسپتالوں کے کچرے سے تیار کیے جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپتال کے فضلے میں خطرناک اور بے ضرر دونوں طرح کا فضلہ شامل ہوتا ہے۔ بے ضرر فضلے میں اغذ، گتے، پیکیجنگ، کھانے کا فضلہ اور اسی طرح کی اشیاء شامل ہیں جبکہ خطرناک فضلے میں گلوزکوزاوریورین کے بیگ، سرنجیں،پیتھالوجیکل، شارپس، فارماسیوٹیکل ویسٹ،کیمیائی اور تابکار ویسٹ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ زائدالمیعاد ادویات ،ویکسین اور دوا ساز سامان کو سنبھالنے میں استعمال ہونے والی ضائع شدہ اشیاء جیسے بوتلیں، بکس، دستانے، ماسک، ٹیوبیں بھی شامل ہیں۔
محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے مطابق ہرسال تقریباً 5.2 ملین لوگ (بشمول 4 ملین بچے) فضلہ سے متعلق بیماریوں سے مر جاتے ہیں،پنجاب کے تمام اسپتالوں میں اسپتال ویسٹ مینجمنٹ کے قوانین کے تحت ویسٹ کو جمع کرنے کے لیے پیلے رنگ کے مخصوص کمرے بنانا ضروری ہے۔
بڑے سرکاری اسپتالوں میں تو ویسٹ کو مخصوص کمروں میں ہی اکٹھا کیا جاتا ہے تاہم ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے کلینکس، پرائیویٹ اسپتالوں، لیبارٹریوں ، ویٹرنری سینٹرز میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔
لاہورکے ایک بڑے سرکاری اسپتال میں تعینات ڈاکٹر محمد عثمان نے بتایا '' اسپتال کا تمام فضلہ ایک کمرے میں جمع ہوتا ہے جسے ایک نجی کمپنی کی گاڑی اٹھاکرلے جاتی ہے۔ اس امکان کو ردنہیں کیا جاسکتا کہ فضلہ اٹھانے والا عملہ ڈمپنگ سائٹ پرجانے کی بجائے راستے میں ہی یہ خطرناک فضلہ بیچ دیتا ہے کیونکہ فضلے کے تھیلوں پر کوئی ٹیگ نہیں لگایا جاتا اورنہ ہی وزن کے کانٹوں پرکوئی چیکنگ کی جاتی ہے۔''
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی طرف سے قصورکے قریب اسپتالوں کے فضلے کو تلف کرنے کے لیے جدید انسینریٹرز لگائے گئے ہیں تاہم پرائیویٹ کلینکس اورنجی اسپتالوں کا فضلہ وہاں تک پہنچتا ہی نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیکل ویسٹ جمع کرنے والے سویپربھی احتیاط نہیں کرتے اوران کی بڑی تعداد ہیپاٹائٹس اورجلدی امراض کا شکارہوجاتی ہے۔
محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈائریکٹرنسیم الرحمن نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اسپتالوں کے فضلے سے پلاسٹک دانہ اوردیگراشیا تیارکرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ حال ہی میں بندرروڈ لاہورمیں ایک فیکٹری کو سیل کیا گیا ہے۔
نسیم الرحمن نے کہا کہ اسپتالوں کے فضلے کو سائنسی بنیادوں پرتلف کرنے کے نظام کو موثربنانے کے لیے ہاسپٹل ویسٹ ڈسپوزل ایپ تیار کی گئی ہے جس پر محکمہ ماحولیات کے تمام ڈسٹرکٹ افسران اپنے اضلاع میں اسپتالوں کے فضلے کو تلف کرنے کی رپورٹ اپ ڈیٹ کریں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسپتال کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن میں فضلے کو جلاکر بھسم کرنا، اسٹیم آٹوکلیو ڈس انفیکشن، مائیکروویو ڈس انفیکشن،مکینیکل/ کیمیائی ڈس انفیکشن کا طریقہ شامل ہے۔
ماحولیاتی کارکن ڈاکٹرسلمان طارق کہتے ہیں کہ اسپتالوں کا فضلہ انسانی صحت اورماحول دونوں کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اسپتالوں کے فضلے کے نقصانات کے بارے میں عوام کے اندرآگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، صحت اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کچرے کے انتظام کی مناسب حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے تجویزدی کہ ہیلتھ افسران کو چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار کے اندر واقع اسپتال، انسینریٹر یا لینڈ فل سائٹ کا معائنہ کریں تاکہ اسپتال ویسٹ مینجمنٹ کے قواعد پرعمل درآمد کو چیک کیا جاسکے۔ فضلے کی تلفی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے اس کے علاوہ تمام اضلاع کے ہر اسپتال میں ہاسپٹل ویسٹ مینجمنٹ کمیٹی کی موجودگی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔